عمران خان ہی کیوں؟

بے تکلف اور پرانے دوست جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر، ماں، باپ اور بیوی بچوں سمیت دنیا جہان کے موضوعات ہوتے ہیں جن پر سیر حاصل بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے، بعض اوقات معاملات گرما گرمی تک بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن انجام کارصلح صفائی ہو ہی جاتی ہے۔ اس مرتبہ عید پر جب ایسا اکٹھ ہوا تو کھانے پینے اور حال احوال کے بعد کچھ قومی و سیاسی امور زیر بحث آئے، ان میں اولین معاملہ ذوالفقار مرزا کا تھا اور بعد میں موجودہ سیاسی حالات ، سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین بطور خاص بحث کا موضوع تھے۔ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ قریبی دوستوں میں سے ایک دو ابھی تک پیپلز پارٹی کے ”تقریباً“ جیالے ہیں، کچھ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے ساتھ محبت رکھتے ہیں جبکہ اکثریت نے دونوں جماعتوں اور ان کے قائدین سے مایوس ہو کر عمران خان کو آخری امید سمجھتے ہوئے اس سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔ میرے جاننے والوں میں سے ہر دوسرا شخص عمران خان کا مداح ہے جس سے اول الذکر دونوں جماعتوں کے ”محبان“ کو کافی ”تکلیف“ کا سامنا ہوتا ہے۔

جب بحث کا رخ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی طرف مڑ گیا تو بڑی دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔ ایک بہت جگری قسم کا دوست جو میاں نواز شریف کے طرز سیاست کا بہت بڑا حامی ہوا کرتا تھا، اس نے بات شروع کی کہ ”یار اس مرتبہ تو قربانی کی کھال کے ساتھ ساتھ میرا اور میرے پورے خاندان کا ووٹ بھی عمران خان کا ہوگا“، یہیں سے گرما گرم بحث کا آغاز ہوگیا۔ دوسرا دوست جو ابھی تک میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کا سپورٹر ہے، فوراً بولا کہ تم تو میاں نواز شریف کی پارٹی کے ہمنوا ہو، اگر تم نے بھی عمران خان کا ساتھ دینا شروع کردیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ صدر زرداری اپنی چال میں بہت کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم سب نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا اور باجماعت ہوکر پوچھا کہ وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا کہ آپ دیکھیں کہ میاں نواز شریف کا بھرپور ووٹ بنک اس وقت پنجاب ہے، پنجاب کے علاوہ باقی ملک میں وہ کوشش تو کررہے ہیں لیکن ابھی معلوم نہیں کہ وہ کوششیں بار آور ثابت ہوتی ہیں کہ نہیں، سندھ میں میاں صاحب اور ان کی جماعت کے لئے ہمدردی کا عنصر موجود نہیں ہے اسی لئے میاں نواز شریف غوث علی شاہ کی مخالفت کے باوجود سندھی قوم پرستوں سے رابطے بڑھا رہے تھے کہ بیچ میں زرداری صاحب نے ذوالفقار مرزا کے ذریعہ ایک ایسی چال چلی ہے کہ اب سندھ میں قوم پرست ایک بار پھر پیچھے دھکیل دئے گئے ہیں، بلوچستان میں نواز لیگ کو اتنی زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں نواز لیگ ایک خاص سطح تک ہی ووٹ بنک اور ہمدردی رکھتی ہے ، اس تناظر میں دیکھیں تو صرف پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں شہری حلقوں میں کافی حد تک اور دیہاتی حلقوں میں بھی کسی حد تک میاں صاحب کی جماعت کا اثر و رسوخ موجود ہے، نیز پنجاب چونکہ آبادی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مرکزی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آجاتی ہے اس لئے میاں صاحب کو بہت حد تک اطمینان تھا کہ وہ اگر صرف پنجاب میں بھی اکثریت حاصل کرلیتے ہیں تو اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں لیکن عمران خان کے ”کرتوت“ اور ”ان ڈائریکٹ“ پیپلز پارٹی کی حمائت میاں صاحب اور دوسرے لفظوں میں پاکستان کی بدقسمتی بن سکتی ہے۔ آپ اگر غور کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عمران خان بھی باقی ملک کی نسبت صرف پنجاب میں مقبولیت حاصل کررہا ہے ، اس کا زیادہ زور میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف لگ رہا ہے اور وہ بلامبالغہ پنجاب کے شہری حلقوں میں پزیرائی حاصل کررہا ہے جس کا واضح مطلب پیپلز پارٹی کی فتح اور میاں نواز شریف کی شکست کی صورت میں نظر آرہا ہے، دوسری بات یہ کہ اگر ایک طرف عمران خان ”سولو فلائٹ“ جاری رکھتا ہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی اور قاف لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر الیکشن لڑتے ہیں تو مجھے آئندہ بھی یہی سیٹ اپ نظر آرہا ہے، میں اسی لئے چاہتا ہوں کہ کسی طرح زرداری، گیلانی اور رحمان ملک ٹولے سے ملک کی جان چھڑائی جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کی حمایت کی جائے تاکہ وہ برسر اقتدار آکر اس ملک کو بہتری کی جانب لے کر جاسکے۔اس کے علاوہ عمران خان پر بے شمار الزامات ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ ایک ”پلے بوائے“ کی حیثیت رکھتے تھے، ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ٹرافی حاصل کرنے کے موقع پر وہ باقی ٹیم کو بھول ہی گیا جیسے صرف وہ اکیلا ہی گیارہ کھلاڑیوں کی جگہ کھیلا ہو۔ سیاست میں آنے کے بعد انہوں نے پرویز مشرف کی حمائت کی اور اسی کی وجہ سے اپنی پارٹی کی ”واحد“ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔ لوگ عمران خان کو تبدیلی کا نشان سمجھ رہے ہیں لیکن لاہور کے حالیہ ضمنی الیکشن کو ہی دیکھ لیں کہ وہاں انہوں نے بھی اسی قماش کے بندے کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جس قماش کے لوگوں کو مسلم لیگ نے دیا تھا اور اب وہ زرداری کی ”بی ٹیم“ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ اس وقت زرداری کی بی ٹیم ہونے کے ساتھ ساتھ فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں میں بھی کھیل رہا ہے۔عمران خان کی جماعت میں اس کے بعد کسی دوسرے آدمی کا نام جانتے ہیں آپ؟ یار اس نے تو ایک تنور کا افتتاح بھی کرنا ہو تو وہ کسی پر اعتبار نہیں کرتا بلکہ خود اس تنور پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کی جماعت کے کتنے لوگ ہیں جو اب تحریک انصاف چھوڑ کر صرف اس لئے دوسری جماعتوں میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں کہ سیاست میں بھی عمران خان اپنے آپ کو کپتان سمجھتا ہے اور کسی کی بات تک نہیں سنتا۔ ایک اور بات آپ کو بتا دوں کہ ہماری سیاست آج بھی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے، لوگ جماعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کونسا امیدوار جیتنے کے بعد ان کے ”دکھ سکھ“ میں کام آنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہے، کون ایسا امیدوار ہے جو ان کی تھانے اور کچہری کی سطح پر مدد کرسکتا ہے اور اپنی برادری کو دوسری برادریوں اور دوسرے دھڑوں کے مقابلے میں سبقت دلوا سکتا ہے، کیا عمران خان اس طرح کے کام کرسکے گا؟ عمران خان اگر پاکستانی قوم کی صحت اور تعلیم کے حوالے سے ہی اپنا کردار ادا کرلیں تو وہ ”سدا بہار“ ہیرو کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں ورنہ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ سیاست میں ہر شخص کا کچا چٹھہ سامنے آجاتا ہے۔

جب عمران خان پر الزامات کی بارش کے بعد وہ دوست سانس لینے رکے تو قربانی کی کھال ووٹ سمیت عمران خان کے نام کرنے والے میاں صاحب کے پرانے متوالے نے بولنا شروع کیا کہ پہلی بات یہ کہ عمران خان پر الزامات لگانے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں اس کے بعد اس پر بھلے اس پر الزامات لگالیں لیکن جن کے اپنے دامن داغدار ہوں ان کو پہلے اپنے دامن کو دیکھنا چاہئے اور گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات معافی دینے والی غفور و رحیم ہے، اگر عمران خان سے چندسیاسی غلطیاں ہوئی ہیں تو اس نے قوم سے معافی بھی مانگی ہے، اگر کرکٹ ورلڈ کپ کی بات کی جائے تو وہ ایسا جذباتی موقع تھا کہ کوئی بھی ہوتا تو اس سے اس طرح کی بات کی توقع کی جاسکتی تھی جبکہ اس نے بعد میں تمام کھلاڑیوں اور قوم سے معذرت بھی کرلی تھی لیکن جو حقیقت ہمارے دوست نے فراموش کردی ہے وہ یہ کہ اس وقت پاکستان کی ورلڈ کپ میں کامیابی کسی بھی صورت ممکن نظر نہ آتی تھی، یہ اللہ تعالیٰ کے کرم کے بعد عمران خان کی قائدانہ صلاحیتیں ہی تھیں جن کی بدولت پاکستان پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوسکا۔ کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی، چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہمارے مذہب نے بھی کیا ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے اور معافی مانگ لے تو وہ اللہ کے اور بھی نزدیک ہوجاتا ہے، عمران خان پر یہ الزامات وہ لوگ لگا رہے ہیں جو دس سالہ معاہدہ کرکے سعودی عرب اللہ کے گھر چلے گئے تھے، اتنا عرصہ وہاں رہنے کے باوجود نہ ان کا عقیدہ درست ہوسکا اور نہ ہی سیاست، رہی بات زرداری کی تو کیا آج تک عمران خان نے ایک مرتبہ بھی اس کی حمایت میں کوئی بات کی اورکیاہمیشہ اس کی کرپشن، بیڈ گورننس اور باقی اعمال پر تنقید نہیں کی؟ کیا عمران خان وہ واحد سیاسی راہنما نہیں جو زرداری کو مشرف سے بھی زیادہ امریکہ کا حواری سمجھتا ہے اور برملا،علی الاعلان اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ کیا ڈرون حملوں کے خلاف پشاور اور کراچی میں اس کے دھرنے نواز شریف کے خلاف تھے، کیا اسلام آبادکے کامیاب دھرنے اور ان میں عوام کی بھرپور شرکت یہ ظاہر نہیں کرتی کہ پاکستان کے لوگ اب دونوں جماعتوں، ان کی بلیک میلنگ اور ان کے ”سنہری کارناموں“ سے تنگ آچکے ہیں۔ زرداری کے بارے میں تو پوری قوم جانتی تھی لیکن میاں نواز شریف نے ڈرون حملوں کے بارے میں کبھی عام پاکستانی کے احساسات کے بارے میںسوچا ہے؟ جو شخص خود پورا ٹیکس نہ دیتا ہو، جو پاکستان کا کیس پیش کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو، جس کو اگر فکر ہو تو صرف اپنی ذات کی، خاندان کی اور بنک بیلنس کی، جو اپنی باری کے انتظار میں صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعہ سیاست کررہا ہو، اور تو اور جو سیاسی قائد سیفما جیسی تنظیم کے اجلاس میں جاکر دوقومی نظرئے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دے اس سے کس طرح پاکستان کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ عمران خان سچا اور کھرا آدمی ہے، وہ ایک پاکستانی ہے اور پاکستان کی سوچ رکھتا ہے۔ اس نے آج تک اس قوم سے محبت کے علاوہ کیا حاصل کیا ہے؟ ارے بھائی! اس نے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اگر شوکت خانم کے لئے چندے اکٹھے کئے تھے تو وہ ہسپتال جدہ، دبئی ، لندن یا نیویارک میں تو نہیں بنایا! اگر اس کو پاکستانیوں نے بھاری رقوم دی تھیں، خواتین نے اپنا زیور تک اس کے حوالے کردیا تو اس نے امانت میں خیانت تو نہیں کی، شوکت خانم ہسپتال کینسر کے حوالے سے اس وقت دنیا کا بہترین ہسپتال ہے جس کو سبھی مانتے ہیں، اس کا دوسرا کارنامہ ”نمل یونیورسٹی“ کی صورت میں اس قوم کے لئے ایک اور تحفہ آپ کے سامنے ہے۔ کس سیاستدان کو آج تک اس طرح کی توفیق ہوئی ہے کہ بغیر حکومت کے وہ اس طرح کا فلاحی کام کرسکے؟

جہاں تک تعلق ہے لاہور کے ضمنی الیکشن کا تو اس میں جس امیدوار کو تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کا سابقہ امیدوار تھا اور یہ بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ وہ اس معیار پر ہرگز پورا نہیں اترتا تھا جس طرح کا معیار تحریک انصاف کے کسی بھی امیدوار کے لئے ہونا چاہئے لیکن ایک بات جس سے آپ یقینا اتفاق کریں گے، جیسا کہ عمران خان پر الزامات لگانے والے دوست نے بھی کہا کہ کہ ہم ابھی تک اس سیاسی نظام میں زندگیاں گذار رہے ہیں جہاں ووٹ ڈالتے وقت اس سیاسی جماعت کے منشور اور امیدوار کی قومی معاملات میں اہلیت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی ان صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے جس کے تحت وہ ہماری مدد کرسکتاہو، اس لئے لاہور کے ضمنی الیکشن کہ جہاں پر کوئی دوسرا پڑھا لکھا، اپنی شرافت جسے میں آجکل بزدلی کے ہم معنی سمجھتا ہوں، کی وجہ سے آگے نہیں آیا تھا اس لئے مجبوری میں اسی برادری کے آدمی کو ٹکٹ دیا گیا جو کسی حد تک اسی سطح پر جاکر دوسرے امیدواروں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ اس میں ایک اور اہم بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ بات عمران خان، میاں نواز شریف یا آصف زرداری کی نہیں ہے بلکہ بات اس ملک اور قوم کی ہے۔ ہم یہاں صرف تماشے اور ٹی وی ٹاک شوزدیکھنے نہیں بیٹھے ہوئے، ہمارے بھی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا اس قوم کا درد صرف عمران خان کے سینے میں ہونا چاہئے، کیا ہمیں خود سے اپنے موجودہ ملکی حالات کے تابع کچھ اعمال اپنے اوپر فرض نہیں کرلینے چاہئیں؟ یقینا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے فرائض کو بھی سمجھیں۔ آج تک کون سا سیاسی لیڈر ہے جس نے اس طریقے سے پاکستانی قوم کو امید دلائی ہو جس طرح عمران خان نے دلائی ہے؟ کیا آج سے پہلے میاں نواز شریف دو مرتبہ حکومت نہیں کرچکے، انہوں نے اس ملک کی بجلی کی ضروریات کے لئے کیا کام کیا؟ کیا وہ تھر سے کوئلہ نہیں نکال سکتے تھے؟ کیا پیپلز پارٹی کی یہ چوتھی حکومت بھی اس قابل نہیں کہ سندھ سے کوئلہ نکال کر پاکستان کی انرجی کی ضروریات پوری کرنے کی جانب کوئی قدم اٹھا سکے؟ کیا عمران خان کے علاوہ کسی کو بھی آزاد عدلیہ اور الیکشن کمیشن قابل قبول ہوسکتے ہیں؟ دل پر ہاتھ کر بتائیں کہ وہ کونسا لیڈر ہے جس نے عمران خان کی طرح کا وژن پیش کیا ہے، جس نے بہادری کی بات کی ہے، جس نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور پاکستان کو بچانے کی بات کی ہے، جس نے ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جس نے اس ملک سے کرپشن، ناانصافی، اقربا پروری ختم کرنے کی بات کی ہے، جس نے نوجوان نسل کو قومی دھارے میں لانے کی بات کی ہے، اگر اس سے پہلے یہ باتیں کسی نے اس طریقے سے پیش نہیں کیں، اگر سب ایک محدود دائرے میں اپنی ذات اور خاندان کی بات کرتے ہیں، اگر سب ہی کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں اور ایک دوسرے سے صرف لوٹ کھسوٹ میں آگے نکلنے کی وجہ سے اپنی باریوں کے چکر میں ہیں تو خدارا! خدارا اب بھی سوچ لیں، اپنے فرائض پر بھی دھیان دیں، اگر ہم سب کچھ عرصہ کے لئے اس ملک سے لینے کی بجائے اس کو دینے کی نیت کرلیں، ہم صرف اپنی نیتیں درست کرلیں تو ہمارے اعمال بھی یقینا درست ہوجائیں گے کیونکہ اگر نیت ٹھیک نہ ہو تو اعمال کا اجر نہیں بلکہ پکڑ ہوگی، جہاں تک بات ہے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی تو ایسا صرف پراپیگنڈہ کے لئے کہا جاتا ہے لیکن اگر بالفرض محال ایسا مان بھی لیا جائے تو شائد عمران خان کی حمائت کرکے ہماری فوج اور ایجنسیاں بھی کفارہ ادا کرنا چاہتی ہوں، ان کی ”سجدہ سہو “ کی نیت ہو! میں تو عمران خان کو اس ملک کی اس وقت تک آخری امید سمجھتا ہوں لیکن اگر اس ملک کو کامیاب کرنا ہے تو ہم سب کو یک آواز ہونا ہوگا، ہمیں قومی یکجہتی دکھانا ہوگی، ہمیں پراپیگنڈا پر کان دھرنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک اچھا پاکستان دینے کی کوشش کرنا ہوگی، مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں موجود اور مخالف بیرونی قوتوں کونہ تو عمران خان کی یہ جرات پسند آسکتی ہے نہ ہی یہاں کے عوام کی اور وہ ہر ممکن جائز یا ناجائز طریقے سے اسے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن اگر ہماری نیتیں ٹھیک ہوگئیں تو ہم ان کو عبرتناک شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اب ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم ”کم برے“ کو ووٹ دیں بلکہ اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کسی ”اچھے“ کو ووٹ دیں۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ صرف عمران خان اکیلے کی ذمہ داری نہیں ہے، ہم سب کو از خود گھروں سے نکلنا چاہئے، اس کا دست و بازو بننا چاہئے کیونکہ وہ اپنے لئے کسی جاہ و حشمت کا طلبگار نہیں، وہ آپ سب کے لئے، اس قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے، جیسے کہتے ہیں کہ دیگ کے چند دانے پوری دیگ کے بارے میں بتا دیتے ہیں اسی طرح اس کے چند کام اس کے بارے میں سب کچھ کہہ رہے ہیں، بس آپ لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار ہوجائیں کیونکہ یہ قوم عرصہ دراز سے کسی سچے، بہادر، باحوصلہ، نڈر کپتان کی منتظر تھی اور اللہ نے عمران خان کی شکل میں اسے ہمارے پاس بھیج دیا ہے!

باقی بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا کر ہم لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.