پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی گزشتہ چند
دنوں سے سوشل میڈیا پر تنقید کی زد پر ہیں۔ شاہد آفریدی نے شہباز شریف صاحب
کو وزیراعظم بننے کی مبارکباد دی تھی۔ اس مبارکباد کے پیغام کے بعد پی ٹی
آئی کے فالورز نے اُن کی ٹرولنگ شروع کر دی۔ اُن کی کرکٹ پر تبصروں کا آغاز
ہو گیا۔ ناکام کرکٹر کے طعنے حتیٰ کہ اُن کے کردار میں بھی کئی سقم
ڈھونڈنکالے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز نے جب شاہد آفریدی پر
تنقید کا آغاز کیا تو پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلز پارٹی کے
سپورٹرز اُن کے دفاع کیلئے میدان میں کود پڑے۔ اسی دوران شاہد آفریدی کو
بھی خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کیلئے سامنے آنا پڑا۔ شاہد آفریدی
کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے کا احترام کرنا مہذب معاشرے کی نشانی ہے۔ شہباز
شریف کو مبارکباد دی تو جانتا تھا کہ مجھ پر تنقید ہو گی اور ایسا ہی ہوا۔
شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھیں لیکن اُسے نفرت
میں نہیں بدلنا چاہیے۔ بیچارے شاہد آفریدی بُرے پھنسے۔ وہ یہ کہہ کر پھنس
گئے کہ عمران خان نے کرپشن کے خلاف لڑائی کی، لیکن کیا کپتان کا اپنا گھر
صاف ہے۔ اگر اپنا گھر صاف نہ ہو تو دوسروں پر چیختے اچھے نہیں لگتے۔ یہ دو
فقرے شاہد آفریدی کی زندگی کا وبال بن گئے۔ اب اُنہیں بے انتہا تنقید کا
سامنا ہے۔
دو دہائیاں قبل سیاست میں یہ انتہا پسندی نہیں تھی۔ در حقیقت یہ معاملہ
غالباً انتہا پسندی کا بھی نہیں یہ معاملہ ذہنیت کا ہے۔ جسے مائنڈ سیٹ کہتے
ہیں۔ لہٰذا اس سارے معاملے کا تعلق سیاست میں انتہا پسندی کا اگر ہے تو اُس
سے کہیں زیادہ نفسیات کا بھی ہے، کیونکہ مائنڈ سیٹ یعنی ذہنیت نظریات،
عقائد اور سوچوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو اس بات کی تشکیل کرتی ہے کہ آپ
دنیا اور اپنے آپ کو کیسا سمجھتے اور دیکھتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں جو مائنڈ سیٹ پاکستان تحریک انصاف نے متعارف کروایا ہے۔
بالکل ایسا ہی مائنڈ سیٹ ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے متعارف کروایا
ہے۔ لہٰذا آج ہمیں دو ملکوں میں ایک جیسی کہانی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین اور سپورٹر ز کی نظر میں بھارت میں بسنے والے
تمام مسلمان اُن کے دشمن ہیں اور وہ بھارت میں رہنے کے حق دار بھی نہیں
ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور خاص طور پر
عمران خان کی نظر میں پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین چور
ہیں اور اُنہیں جیلوں میں ہونا چاہیے۔ اس طرح کا کوئی بھی مائنڈ سیٹ خواہ
وہ پاکستان میں ہو یا بھارت میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں، انسان کے
سوچنے، محسوس کرنے اور برتاؤ کرنے کے طریقے کو متاثر کر تا ہے۔ میری ناقص
سوچ کے مطابق مائنڈ سیٹ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، فکسڈ اور گروتھ۔ فکسڈ
مائنڈ سیٹ کے لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔
خود ایسے مائنڈ سیٹ والے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ صرف اُن کی قابلیت اور ذہانت
ہی انہیں کامیابی کی طرف لے جائے گی اور کسی دوسرے میں ایسی قابلیت نہیں۔
بالکل یہی سوچ اور مائنڈ سیٹ خود عمران خان صاحب اور اُن کے سپورٹر ز کا
ہے۔ اُن کے خیال میں صرف عمران خان ہی دنیا اور اس زمین کی واحد ہستی ہیں
جو اس ملک خداداد کو بچا سکتی ہے۔ اُن کے علاوہ کسی میں یہ قابلیت اور
صلاحیت نہیں۔
دوسری جانب گروتھ یا بدلتے ہوئے مائنڈ سیٹ کے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن
کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اگر دوسروں کی کوششوں اور استقامت کو شامل کرلیا
جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ بہر کیف بات شاہد آفریدی سے شروع ہو ئی تھی۔
سیاسی میدان میں عوامی ردعمل اور خاص طور پر تنقیدی فقروں اور جملوں کا
سامنا کرنے والے شاہد آفریدی پہلے شخص ہیں نہ آخری۔ یہ سلسلہ دو دہائیاں
قبل شروع ہو ا تھا مگر اِس میں انتہا کی شدت پسندی نہیں تھی۔ جو گزشتہ چند
سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سیاسی انتہا پسندی دراصل وہ سیاسی موقف اور سوچ
ہے، جس میں آپ کا رویہ نہایت سخت ہوتا ہے اور آپ خود سے اختلاف رائے رکھنے
والوں کو معاف نہیں کرتے اور اُن سے بدسلوکی پر بھی اُتراتے ہیں۔ اس روش
اور سوچ کی وجہ سے عام لوگ انتہا پسند سوچ رکھنے والوں سے الجھنے سے گریز
کرتے ہیں اور اپنی عافیت خاموشی میں ہی سمجھتے ہیں۔
بھارت میں مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوا اُس پر
جس نے بولنے کی کوشش کی، اُس کی زبان کھینچ لی گئی۔ تنقید اور تلخیوں کی
وجہ سے مسلمانوں کے حق میں بولنے کی بجائے لوگوں نے خاموشی اختیار کئے
رکھی۔ بھارت جیسا ہی تلخ معاملہ آج پاکستان میں ہے۔لوگ پاکستان تحریک انصاف
کے حامیوں سے الجھنے کی بجائے اب خاموشی میں عافیت سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ڈر
اور خوف کا ماحول ملک کیلئے کسی صورت مناسب نہیں۔ عین ممکن ہے کہ
شاہدآفریدی کی طرح اور بہت سے لوگ بھی شہباز شریف کو مبارکباد دینا چاہتے
ہوں گے مگر انہوں نے اپنے استحصال کے خوف سے مبارک باد نہ دینے کو بہتر
سمجھا ہو۔
دوسری جانب سابق وزیرداخلہ شیخ رشید صاحب بار بار خانہ جنگی کی بات کر کے
ملک کا بھلا نہیں کر رہے، بلکہ وہ سیاست میں نفرت اور تشدد کا زہر گھول رہے
ہیں۔ خانہ جنگی کا پروپیگنڈہ کرنا خطرناک اور خوفناک ہے۔ اپنی سیاسی جماعت
اور اپنے قائد کو بہتر اور دوسری سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو کم تر
سمجھنا معاشرے میں عدم برداشت اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان
آگے ہی بہت سے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ اگر ہم اپنی پسند کی سیاسی
جماعتوں کے پیچھے لگ کر اخلاقیات کا بھی جنازہ اُٹھا دیں گے تو پاکستان کو
مزید نقصان برداشت کرنا پڑے گا، جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔
میری پاکستان تحریک انصاف سمیت سب سیاسی جماعتوں اور اُن کے حامیوں سے
درخواست ہے کہ اپنی سیاسی جماعتوں کوشدت پسند سیاسی جماعتیں بننے سے
بچائیں۔ اختلاف رائے کا احترام کریں۔ عدم برداشت کو رد کریں اور ہمیں یہ
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ دوسروں کی عزت نفس اور دوسروں کا احترام ایک بند
نہیں بلکہ دو طرفہ گلی ہے۔ جس میں سے اگر آپ گزر رہے ہیں تو دوسروں کو بھی
راستہ دیں آپ اُس کا راستہ نہیں روک سکتے۔
|