وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جب سے بھارت کے ساتھ
دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے تیسرے فریق کی مداخلت پر زور دیتے ہوئے
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے تب سے بھارت
کو پات چیت کی پیشکش اور ثالثی کے امکانات و خدشات سنجیدہ حلقوں میں زیر
بحث ہیں۔ العربیہ نیوز چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ
تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست، جس کے نئی دہلی اور اسلام آباد کے
ساتھ قریبی سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں، دو جوہری ہتھیاروں سے لیس
پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ''اہم'' کردار ادا کر سکتی ہے۔انھوں
نے کہا ''میرا ہندوستانی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کو پیغام ہے کہ
آئیے ہم میز پر بیٹھیں اور کشمیر جیسے اپنے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے
لیے سنجیدہ اور مخلصانہ بات چیت کریں،'' ۔انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان
تین مکمل جنگوں (1948، 1965 اور 1971) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جن میں سے
دو کشمیر پر تھیں، ''یہ ہم پر منحصر ہے کہ پرامن طریقے سے رہنا ہے اور ترقی
کرنا ہے یا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا ہے، وقت اور وسائل کو ضائع کرنا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ ہماری تین جنگیں ہوئی ہیں، اور انہوں نے لوگوں کے لیے
مزید بدحالی، غربت اور بے روزگاری ہی لائی ہے۔'' ۔''ہم غربت کو ختم کرنا
چاہتے ہیں، خوشحالی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے لوگوں کو تعلیم، صحت کی
دیکھ بھال اور روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے وسائل کو بموں اور
گولہ بارود پر ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں، یہ پیغام ہے، میں پی ایم مودی کو
دینا چاہتا ہوں''۔مقبوضہ کشمیر میں ''انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں''
پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے خبردار کیا ''ہم ایٹمی طاقتیں ہیں، دانتوں
سے مسلح ہیں، اور اگر خدا نہ کرے جنگ چھڑ جائے تو کون زندہ رہے گا کہ کیا
ہوا؟''۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان طویل عرصے سے کئی فضائی اور زمینی
تنازعات میں الجھ رہے ہیں، بنیادی طور پرریاست جموں اور کشمیر پر، جو دونوں
پڑوسیوں کے درمیان بہتر تعلقات میں رکاوٹ بننے والا ایک کانٹا مسئلہ
ہے۔اگست 2019 میں ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی دیرینہ خصوصی
حیثیت کی منسوخی کے بعد ان کے کشیدہ تعلقات نئی نچلی سطح پر پہنچ چکے
ہیں۔دونوں پڑوسیوں نے 2021 میں جنگ بندی لائن پر 2003 کی جنگ بندی کو
برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، یہ 724 کلومیٹر (450 میل) فوجی کنٹرول لائن ہے
جو ہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام حصوں کو تقسیم کرتی ہے۔
یو اے ای نے اس سے قبل بھی دونوں ممالک کے درمیان2013کی جنگ بندی کے لئے
ثالثی میں کردار ادا کیا ، جس کے بعد دونوں وزرائے اعظم کے درمیان خطوط کا
تبادلہ ہوا، اور ساتھ ہی بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ''بیک ڈور''
رابطوں کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ اسلام آباد اس بات کا اعادہ
کرتا رہا ہے کہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا 5 اگست 2019 کے
فیصلے پر نظرثانی اور تنازعہ کشمیر کے حتمی حل پر منحصر ہے۔ دونوں پڑوسیوں
نے ''دوطرفہ بات چیت'' پر کئی دہائیاں لگا دیں۔ بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ
جب بھی اس پر بیرونی دباؤ پڑتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی
جانب رخ موڑ کر دنیا کی توجہ ہٹا کر اسے گمراہ کر دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق غیر جانبدارانہ رائے شماری کا
مطالبہ کرتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے تیسری فریق کی ثالثی کی بھی بات ہوتی رہتی
ہے۔عمران خان کے دور حکومت میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تیسرے فریق کی ثالثی
پر زور دے رہے تھے۔ عرب دنیا میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، پاکستان
کے دیرینہ اتحادی، امریکہ کے مقابلے میں ''بہتر'' پوزیشن میں ہیں کہ نئی
دہلی کوبات چیت کی میز پر لانے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا
ہے کہ کھیل اب پاکستان اور بھارت دونوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس لئے
مسئلہ تیسرے فریق کی ثالثی سے ہی حل ہو سکتا ہے، خواہ سعودی عرب ہو یا
متحدہ عرب امارات۔بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پہلے دونوں ممالک بیک ڈور چینلزکو
استعمال کریں جب تک کہ دونوں فریق کسی نتیجے یا افہام و تفہیم تک نہ پہنچ
جائیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستان تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول کرنے کے لئے تیار
ہو گا یا نہیں۔ یہ نئی دہلی ہے جس کی رضامندی تیسرے فریق کی بیک ڈور ثالثی
کے لیے ضروری ہے۔یہ ایک طویل اور پیچیدہ راستہ ہے۔ یہ کسی بھی وقت جلد ہونے
والا نہیں ہے۔ اس پر کام کرنا ہوگا کیونکہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔خیال کیا
جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اپنا کردار ادا کرنے کو تیار
ہیں۔بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اسلام آباد کشمیر کے لئے ایک کل وقتی خصوصی
نمائندہ مقرر کرے، جیسا کہ اس نے افغانستان کے لئے کیا، تاکہ طویل عرصے سے
تعطل کا شکار مسئلے کو ہم آہنگی اور آگے بڑھایا جا سکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران
اماراتی صدر محمد بن زید النہیان سے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت میں
سہولت فراہم کریں۔وزیراعظم نے العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس
بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے بات چیت کے لیے النہیان سے مدد طلب کی۔انہوں
نے محمد بن زید سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے بھائی ہیں اور متحدہ عرب
امارات ایک برادر ملک ہے۔ ان کے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، وہ
دونوں ممالک کو بات چیت کی میز پر لانے کے لئے بہت اہم کردار ادا کر سکتے
ہیں اوروہ ہندوستانیوں کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ بات کریں گے۔وزیر اعظم نے
متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کے دوران 12 جنوری کو ابوظہبی میں مسٹر
النہیان سے ملاقات کی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مسٹر شریف کا متحدہ عرب
امارات کا تیسرا دورہ تھا۔بھارت کے ساتھ تین جنگوں اور اس کے نتیجے میں
تعلقات اور تکلیفوں میں زہریلے پن کو یاد کرتے ہوئے ہی، مسٹر شریف نے بتایا
کہ ''ہم نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے'' اور امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس
پیشکش کو ''حقیقی مسائل'' کے حل کے لیے مشروط کیا۔ انہوں نے خاص طور پر
مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا۔انہوں نے بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم
کو بھی یاد کیا۔ ''بھارت کو دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے اسے روکنا چاہیے
کہ ملک مذاکرات کے لیے تیار ہے،'' مسٹر شریف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے
کہا کہ پاکستان امن کے لیے ''زیادہ خواہش مند'' ہے۔وزیر اعظم کے ترجمان نے
بعد میں ایک ٹویٹ کے ذریعے یاد دلایا کہ یہ مسٹر شریف کا مستقل موقف رہا ہے
کہ جب تک ہندوستان 5 اگست 2019 کے اپنے ''غیر قانونی اقدام'' کو واپس نہیں
لیتا تب تک بات چیت ممکن نہیں ہوگی اور یہ کہ تنازعہ کشمیر کا تصفیہ ا قوام
متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا
ضروری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ کسی بھی بات چیت میں تنازعہ کشمیر کی
مرکزیت پر وزیر اعظم کے زور کے باوجود، جس میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے
ممکنہ طور پر سہولت فراہم کی گئی تھی، دو روزہ سرکاری دورے کے اختتام پر
جاری ہونے والے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے مشترکہ بیان میں کشمیر کا
لفظ واضح طور پر غائب تھا۔
بھارت کے روایتی طور پر عرب دنیا کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
یہ تعلقات قدیم زمانے کے تھے - تاجر، علماء اور سفارت کار اکثر بحیرہ عرب
اور زمینی راستوں سے گزرتے تھے جو ہندوستان کو مغربی ایشیا اور جزیرہ نما
عرب سے ملاتے تھے، علم اور تجارتی سامان کی منتقلی کرتے تھے۔ آج عرب دنیا
ہندوستان کے پھیلے ہوئے پڑوس کا حصہ ہے۔ فلسطینی کاز کے حق میں ہندوستان کا
موقف بھی اسے عربوں کے قریب کر رہا تھا۔ مگر اب دنیا بھارت اور مقبوضہ
کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی سے واقف ہونے لگی ہے۔گو کہ
ہندوستان کی بیرونی تجارت کا زیادہ تر حصہ نہر سویز، بحیرہ احمر اور خلیج
عدن سے گزرتا ہے۔ عمان اور سعودی عرب سے لے کر مصر، سوڈان اور اس سے آگے کے
ممالک میں ہندوستانی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ مزید برآں، عرب دنیا میں بھارتی
تارکین وطن کی ایک بڑی کمیونٹی ہے۔ عرب دنیا کے ساتھ ہندوستان کی کل دو
طرفہ تجارت 162 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، اور تیل سے لے کر بنیادی
ڈھانچے اور ٹیلی کمیونیکیشن سے لے کر صارفی اشیا تک مختلف قسم کے سامان اور
خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔ عرب دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ ہندوستانی کام
کرتے ہیں ۔خلیج عرب بھارتی خام تیل کی درآمدات کا 60% پورا کرتا ہے۔ 2010
میں ہندوستانی کو مبصر کی حیثیت کے ساتھ عرب ریاستوں کی لیگ میں ہندوستان
کا مستقل نمائندہ نامزد کیا گیا۔ ہر دو سال بعد یا تو ہندوستان میں یا لیگ
آف عرب سٹیٹس کے رکن ممالک میں سے کسی ایک میں وزارتی میٹنگیں وزرائے خارجہ
کی سطح پر منعقد ہوتی ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں بھارتی تارکین وطن کی
تعدادسوا تین کروڑ سے زیادہ ہے۔2022میں بیرون ملک سے 100 ارب ڈالر سے زیادہ
کی ترسیلات حاصل کرنے والے دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے -عالمی بینک
کے''مائیگریشن اینڈ ڈیولپمنٹ بریف'' کے 37 واں ایڈیشن میں ہجرت اور ترسیلات
زر کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ پالیسی اور ریگولیٹری تبدیلیوں کی فہرست دی گئی
ہے۔ زیادہ ترہندوستانی ڈائاسپورا امریکہ میں ہے - ہندوستانی ڈائاسپورا کا
ہر چھٹافرد امریکہ میں رہتا ہے -
متحدہ عرب امارات اور تیل سے مالا مال سعودی عرب کا یہ کردار ہے کہ وہ مسلہ
کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ پہلیبھارت کے لئے تیل ،
پھرترسیلات زر بہت اہم ہو گیا۔سرد جنگ کے دوران
جن تین قوتوں سے ہندوستان نے مناسب فاصلہ رکھا وہ امریکہ، اسرائیل اور عرب
خلیج تھیں۔ آج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ہندوستان کے لیے
اہم شراکت دار لگتے ہیں۔اس لئے ان کا دباؤ کام کر سکتا ہے۔بھارت کو خلیج
عرب میں ایک پارٹنر نظر آتا ہے، جس کے بڑے سرمائے کے ساتھ وہ اقتصادی ترقی
اور تبدیلی کے لئے — خلجی کیپٹل — کھینچنا چاہتا ہے۔بھارت اب صرف تیل
خریدنے اور ہندوستانی مزدوروں سے ترسیلات حاصل کرنے کے بارے میں نہیں
سوچتاہے۔ اب یہ دراصل خلیجی سرمایہ کو ہندوستانی معیشت میں بڑے پیمانے پر
لانے کی منصوبہ بندی کر رہاہے۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات مشترکہ خلائی
پروگراموں اور مشترکہ دفاعی پیداوار کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اعتدال
پسند اسلام کے چیمپئن مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے لیے سب سے اہم شراکت دار
بن گئے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ مسلمان ہیں، اور مجموعی طور پر
جنوبی ایشیا میں، تقریباً 60 کروڑ ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے
درمیان مذہب اور سیاست کا دخل بہت گہرا ہے۔بھارت نے سعودی عرب میں محمد بن
سلمان کی اصلاحات اور مصر میں اخوان المسلمون کا مقابلہ کرنے کے لیے صدر
سیسی کی کوششوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ آج بھارت نے اسرائیل کو ایک اہم سیکورٹی
پارٹنر کے طور پراپنا لیا ہے۔وہ اسرائیل اور کچھ عرب ریاستوں کے درمیان
تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کام کر رہا ہے۔متحدہ عرب امارات ہندوستان
کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ النہیان کے خارجہ
پالیسی کے مشیر انور گرگاش نے دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں منعقدہ انڈیا
گلوبل فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس ''اعتماد کا
ذخیرہ'' ہے۔ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس موقع پر کہا کہ
ہندوستان اور متحدہ عرب امارات عالمی نظام کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا
کریں گے۔ابوظہبی نے ماضی میں پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار
ادا کیا ہے۔ بالاکوٹ اسٹینڈ آف کے دوران حالات کو قابو سے باہر ہونے سے
روکنے میں اس کا خاموش کردار مشہور ہے۔واشنگٹن میں اماراتی ایلچی یوسف
العتیبہ نے 2021 میں تسلیم کیا کہ ان کے ملک نے کشمیر پر کشیدگی کو کم میں
مدد کی تھی۔اگر چہ شہباز شریف کے ریمارکس پر دہلی کی طرف سے فوری طور پر
کوئیردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ دہلی انتخابی سال میں
پاکستان کی بات چیت کی پیشکش کو کتنی سنجیدگی سے لے گا۔ عرب دنیا سے
ترسیلات زر بھی بھارت کے لئے اہم ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ''سال 2022
ہندوستان کے لیے یادگار رہے گا کیونکہ اس کی ترسیلات زر 2021 میں 89.4 بلین
ڈالر سے بڑھ کر 100 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جو 2021 میں 7.5 فیصد کے
مقابلے میں 12 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے،'' ۔ 5 جی سی سی ممالک (سعودی
عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، اور قطر)کا ہندوستانی ترسیلات زر میں
28 فیصدحصہ ہے۔اگر چہ2017 میں قطر کے سفارتی بحران کے پھوٹنے نے عرب خلیجی
ریاستوں کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا تھامگر ہندوستانی
حکومت نے اس دراڑ کو خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ممالک کا اندرونی معاملہ
قرار دیا۔عرب دنیا جان رہی ہے کہ بھارت مسلم مخالف ملک بن رہا ہے۔ بی جے پی
کے ترجمان کا ایک ٹی وی شو میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز حوالہ
جات کے ردعمل میں قطر پہلا ملک تھا جس نے ہندوستان سے ''عوامی معافی'' کا
مطالبہ کیا۔اس کے باوجودبھارت کے عرب دنیا پر معاشی انحصار کی وجہ سے نئی
دہلی کوخلیجی ممالک کی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
|