چند روز قبل سابق وزیر اعظم نے بالآخر چودھری پرویز الٰہی
کو مجبور کردیا کہ عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے وہ صوبائی اسمبلی
سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔ اپنے بندے گنوانے کے عین ایک دن بعد چودھری
صاحب نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل بھی یقینی بنادی۔ تحریک انصاف کی مخالف
جماعتوں میں موجود ’’کائیاں چالبازوں‘‘ کو ان دونوں امکانات کی ہرگز توقع
نہیں تھی وہ رونماہوئے تو بوکھلا گئے۔مسلم لیگ ن کے چاروں خانے چت والی بات
ہے۔ پیر کے روز قومی اسمبلی میں لوٹنے کا عندیہ دیتے ہوئے عمران خان صاحب
نے اس خوش فہم تصور کو بھی گہری زک لگادی ہے۔سیاسی حرکیات کا دیرینہ شاہد
ہوتے ہوئے میں اس رائے کا اظہار کرنے کو مجبور ہوں کہ معاملات اب عام
انتخاب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انہیں رواں برس کے اکتوبر تک ٹالنا ممکن نہیں
رہا۔سندھ کے بلدیاتی انتخابات نے یقیناً تحریک انصاف کے گروہ کی نیندیں
اڑاکے رکھ دیں کیونکہ ٹی وی سکرینوں پر براجمان پی ٹی آئی کے تجزیہ نگار
سندھ الیکشن کو کلین سویپ کرنے کی خبر سنا رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب
گنتی ابھی شروع ہوئی تھی۔ ایک ریٹائرڈ محترم کا ٹویٹ بھی زیر بحث تھا جس
میں انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی میں یکطرفہ مقابلہ ہو رہا ہے یعنی پی ٹی
آئی کے مدمخالف کسی امیدوار کو ووٹ سرے سے مل ہی نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کے
دوسرے تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا والے بتا رہے تھے کہ کراچی کے 85 فیصد ووٹ
پی ٹی آئی کو پڑیں گے (باقی 15 فیصددیگر جماعتوں کو) نتائج آنے لگے اور رخ
متعین ہوا تو پینترا بدلتے بدلتے شایدشرمندگی کاسامناہوا۔ خود تو کچھ نہ
کہہ سکے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات چلانے لگے کہ واردات ہو گئی۔ اسی
دوران سوشل میڈیا پر خود اپنے بارے میں بحث چلی کہ کیا سوشل میڈیا اتنا
موثر ہے کہ کسی کو الیکشن جتوا سکے؟۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا دو تہائی اکثریت
والا حصہ دو ہفتوں سے یہ مہم چلا رہا تھا کہ کراچی میں پی ٹی آئی کو 85
فیصد ووٹ پڑیں گے، اتنے نہ پڑے تو بھی 70.65 فیصد تو کہیں نہیں گئے۔ عرض ہے
کہ سوشل میڈیا اتنا ’’فیصلہ کن‘‘ ہوتا تو 2018ء کے انتخابات میں آرٹی سسٹم
کو زمیں بوس کرنے کی زحمت ہی کیوں کرنا پڑتی؟۔ سوشل میڈیا توخان کی کال
پرکروڑوں افرادکو سڑکوں پر دکھا دیتاہے مگرمیڈیااورخودد سڑکیں بے خبررہتی
ہیں۔ پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی،مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا ہے تو سہی لیکن
نہایت محدود، زیادہ تر پارٹی اطلاعات اور خبریں دینے تک رہتے ہیں۔بلدیاتی
انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کے تیسرے روز بھی نمبر گیم کی دلچسپی نے
عوام میں بے قراری بڑھادی۔ دوباری گنتی میں جماعتوں کی سیٹوں میں کمی بیشی
کا سلسلہ شروع ہے۔ منگل کو دوبارہ گنتی میں جماعت اسلامی کو دو مختلف سیٹوں
پر کامیابی مل گئی جبکہ پیپلز پارٹی رہنماؤں کو اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھونا
پڑے تاہم بعد ازاں ایک اور نشست پر دوبارہ گنتی کے نتیجہ میں جماعت اسلامی
کی جیتی نشست پر پیپلزپارٹی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ تازہ
ترین صورتحال میں پیپلز پارٹی کی کل نشستوں کی تعداد 92 جبکہ جماعت اسلامی
کی نشستیں بڑھ کر 87 ہو گئیں۔ اورنگی ٹاؤن یو سی 6سے دوبارہ گنتی میں جماعت
اسلامی کے حاشر عمر کامیاب قرار پائے جبکہ صفورا ٹاؤن یو سی ایک سے حبیب
الرحمان نے بھی اپنی نشست جیت لی۔ دوبارہ گنتی کے ایک اور نتیجہ میں
پاکستان پیپلز پارٹی کو ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ایک اور کامیابی مل گئی، چنیسر
ٹاؤن کی یونین کونسل 4میں دوبارہ گنتی کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدوار
کامیاب ہوگئے۔ قبل ازیں یہ نشست جماعت اسلامی نے جیتی تھی جس کی دوبارہ
گنتی کی درخواست پر آج دوبارہ گنتی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے امیدوار
چوہدری حامد کو کامیاب قرار دے دیا گیا ہے۔ حید آباد و سندھ کے 9 اضلاع میں
دوسرے مرحلے میں انتخابات ہوئے جس میں پی پی پی کو اکثریت حاصل رہی ہے۔ ضلع
حیدرآبادکے9 ٹاو?نز کی مجموعی 160یونین کمیٹیز میں سے 123 پر اتوار کے روز
انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ رات بارہ بجے تک موصول ہونے والے غیرحتمی و
غیر سرکاری نتائج پر مختلف جماعتوں کی طرف سے تحفظات اک اظہار بھی کیا جاتا
رہا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا تھاابتدائی انتخابی نتائج پیر ہی کو
جاری کیے جائیں گے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر پر
پیپلز پارٹی نے تشویش جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے دھاندلی کے
الزامات لگائے ہیں۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے
پر اپنے بیان میں کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی
نے کلیئن سوئپ کرلیا یے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ
وہاب نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کراچی میں بھاری اکثریت سے یونین کمیٹیوں
پر کامیابی حاصل کی ہے۔پیپلز پارٹی رہنماو?ں کے دعوے کے مطابق کیماڑی، ملیر
اور ضلع جنوبی میں انہیں سبقت حاصل ہے اور بیشتر یونین کمیٹیوں میں ان کے
امیدوار جیت چکے ہیں، پیپلز پارٹی کے مطابق صدر ٹاؤن میں ان کے امیدوار
نجمی عالم نے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کو بھی چیئرمین کے
عہدے پر شکست دی ہے، اسی طرح رکن سندھ اسمبلی اشرف قریشی اور فردوس شمیم
نقوی کو بھی ہرانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن کے بار بار التوا اور
آخری وقت تک غیریقینی صورتحال کے باعث توقع کے مطابق ٹرن آو?ٹ کم رہا اور
صبح سے دوپہر تک بہت کم لوگ ووٹ کاسٹ کرنے باہر نکلے۔ پی ٹی آئی نے پولنگ
کا وقت بڑھانے کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔البتہ جن پولنگ
اسٹیشن پر پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی وہاں وقت اتنا ہی بڑھایا گیا جتنی
تاخیر ہوئی تھی۔پولنگ مجموعی طور پر پرامن انداز میں ہوئی اورکوئی
ناخوشگوار معاملہ پیش نہیں آیااس حوالے سے سوشل میڈیاقارئین بھی تبصرے کرتے
رہے ایک صارف نے لکھاکہ آج لڑائی جھگڑے فساد نہیں ہوئے کیونکہ جنہون نے یہ
کام کرنے ہوتے ہیں ان میں سے آادھے الیکشن لڑرہے ہیں اوربچ جانے والے آدھے
ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔عمران خان نے پنجاب اورکے پی کے کی اسمبلی کی بُلی
توچڑھادی جس نے یقیناً مخالفین کو بوکھلارکھا ہے۔کراچی کے بلدیاتی ا
نتخابات کے نتائج کی بنیاد پردیکھاجائے توانصافین نیابھی سندھ میں پڑاؤ تک
نہیں ڈالا۔ پیپلز پارٹی،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے چلائی
بھرپور انتخابی مہم بھی کراچی کوپچھترفیصدووٹ کاسٹنگ تک ہی لے گئے۔2012سے
اب تک عمران خان کی جدوجہدایسی نظرآئی کہ ہرایک ان کے خطاب وتقاریرکاگرویدہ
ہوتاچلاگیا اس میں ہم لکھاری اور صحافیوں کی اکثریت بھی موجود ہے
ایساہوتابھی کیوں نہ عمران خان کاایجنڈاتھا ’’چور،لٹیروں اور نااہل‘‘کوبے
نقاب کرنااس لیے عمران کے سپاہیوں میں اضافہ ہوتاچلاگیا اورسب انہیں
ایسامسیحاسمجھ بیٹھے کہ جیسے ان کا کئی صدیوں سے انتظارتھامگروقت بڑاظالم
ہوتا ہے خان صاحب جیسے ہی کرسی پربراجمان ہوئے بالآخر روایتی سیاستدانوں
جنہیں ہم ’’الیکٹ ایبلز‘‘کولاکے ہمارے سامنے کھڑاکردیا جن کے خلاف تقریریں
کرتے الزامات لگاتے نہ تھکتے ان کوآگے ایسے جھکے کہ آج تک سیدھے نہ
ہوسکے۔عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے حوالیسے میں نے آرٹیکل
لکھا'''']خان کومہنگائی لے ڈوبے گی ٗجسے قومی وعلاقائی اخبارات میں خوب
پذیرائی ملی جسے کل مجھے میرے ایک کالم نگاردوست نے بھیجاکہ آپ کامنخوس
آرٹیکل اگرہم کچھ تجزیہ کرتے ہیں توہمارا عمران خان کی ذات سے شکوہ نہیں
ہوتی شکوہ یاتنقیدان کے غلط فیصلوں اورغلط پالیسوں پرہوتی ہے اب جوخان صاحب
سے اندھی محبت کرتے ہیں انہیں وضاحت دینابھی گوارانہیں کرتے میرے ہم زلف
اورمیری سالی صاحبہ عمران خان کے صف اول کے پجاریوں میں سے ایک ہیں
اگرفیملی میں کوئی خان صاحب کے حوالیسے کوئی کچھ کہہ دے تومانوطوفان
برپاہوگیا۔عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کوہم لکھاری ان حقائق کو
نظرانداز نہیں کرسکتے۔اب خان صاحب نے ہمیشہ کی طرح دھاندلی کاپینڈورابکس
کھول لیاہے اورجنرل الیکشن تک چلے گامگرم لکھاری باربارلکھ چکے ہیں کہ چاہے
جتنے بھی الیکشن کروالیں جب تک اصلاحات نہیں ہونگی ملک کوفائدہ نہیں نقصان
ہوگا۔
|