نربھیا سے انجلی تک : سرکار تو بدلی مگر حالات نہیں بدلے

نئے سال کی پہلی صبح دارالحکومت دہلی کے علاقہ سلطان پوری میں جو کچھ ہوا اس کی مثال انسانی تاریخ میں شاید ہی ملے ۔ ایک 20 سالہ خاتون انجلی سنگھ اسکوٹر پر گھر لوٹ رہی تھی تو ایک گاڑی میں سوار ملزمین نے نہ صرف اس کوٹکر ماری بلکہ 12کلومیٹر تک سڑک پر گھسیٹتے رہے۔ ظالم بادشاہوں نے اپنے دشمن کے ساتھ طرح طرح کے ظالمانہ سلوک کیے لیکن کسی عام آدمی کے ذریعہ کھلی سڑک پر ایک عورت کو اتنی دور تک گھسیٹنے کا سانحہ مودی راج میں ہی ممکن ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے دہلی کی پولیس اس وزیر داخلہ کے تحت کام کرتی ہے جو سبق سکھانے میں ماہر ہیں۔ سی سی ٹی فوٹیج میں کم از کم تین پولس کی گاڑیاں اس کار کے پیچھے دکھائی دیتی ہیں لیکن ان عقل کے اندھوں کو گھسٹتی ہوئی لڑکی نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہےکہ ان اہلکاروں کی آنکھوں پر بھی وزیر داخلہ کی مانند پٹی ّ بندھی ہے۔ سرکار دربار کی طرح اس گاڑی میں سوار بدمعاش بھی اقتدار کے نشے میں چوُر تھے۔
اس سے 16؍ دسمبر 2012 کو دہلی یونیورسٹی کی طالبہ نربھیا نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر قوم کی آنکھیں کھول دیں۔ نربھیا کو بچانے کے لیے تو اسے علاج کی خاطر سنگاپور بھیجا گیا۔ اس کی لاش واپس آئی تو ہوائی اڈے پر منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی موجود تھیں ۔ ایوان پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی اور قانون بنا لیکن ابھی حال میں جب دہلی کے اندر انجلی کے ساتھ اس سے بھی بھیانک ظلم ہوا تو مودی جی نے اس پر ٹویٹ کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ۔ نہ تو انجلی کے لیے ملک بھر میں احتجاج ہوا اور نہ ایوان پارلیمان میں اس پر بحث و مباحثہ ہوگا۔ مودی جی کو یہ بتانا پڑے گا کہ آخر ملک میں یہ بے حسی کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی سرکار نے ایک مایوسی پھیلا دی ہے ۔ عوام نے خیر کی توقع چھوڑ دی ہے انہوں نے شر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اس طرح گویا خواتین کے معاملے میں خون کے آنسوبہانے والی آنکھیں پھوڑ دی گئی ہیں ۔ اسی لیے دہلی میں انجلی سنگھ پر ہونے والے ظلم کے خلاف نربھیا جیسا احتجاج نہیں ہوا۔

نر بھیا کے معاملے میں میڈیا نے نہایت فعال کردار ادا کیا تھا لیکن انجلی معاملہ سامنے آیا تو گودی میڈیا نے مظلومہ کےساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے اس کی کردار کشی شروع کردی۔ کسی نے اس کو شراب کے نشے میں دھُت بتایا تو کسی نے اس کی سہیلی اور چشم دید گواہ ندھی کو منشیات کی سوداگر بتاکر قاتل درندوں کی جانب سے ہٹانے کی مذموم کوشش کی ۔ مودی جی کانیو انڈیا ( نیا ہندوستان ) میں خواتین کی یہ درگت ہے ۔ اس لیے کوئی نہیں جانتاکہ نربھیا کی طرح انجلی سنگھ کے کے قاتلوں کو بھی پھانسی ہوگی یامجرم چھوٹ جائیں گے ؟ اس بابت شک و شبہ اس لیے بھی ہے کہ ان قاتلوں میں کوئی آفتاب کے قبیلے کا فرد تو نہیں ہے بلکہ بی جے پی کا ایک سنسکاری لیڈر موجود ہے اور اس کو بچانا موجودہ سرکار کا راج دھرم ہے۔ یہ بھیانک خبر جب منظر عام پر آئی توابتداء میں انتظامیہ نے بارہ کلومیٹر کو گھٹا کر چار کلومیٹر بتایا اور اس کی مختلف بچکانہ توجیہات پیش کیں ۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ بیچارے قاتل نشے میں تھے ۔ گاڑی میں موسیقی کی آواز بہت تیز تھی اس لیے انہیں لڑکی کے پھنسے ہونے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔یہ کون سا نشہ ہے اور کیسی موسیقی ہے جو گاڑی میں پھنسی جوان عورت سے بے خبر کردیتی ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے یہ لنگڑی دلیل بھی دی گئی کہ دھند کی وجہ سے پولس والے اسے دیکھ نہیں سکے اگر ایسا ہے تو انہیں ڈیوٹی پر تعینات کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی وہ کیوں مفت میں سرکار کا ایندھن جلا تے ہوئے اندھیرے میں گاڑی چلا رہے تھے؟ بعد میں کہا گیا کہ وہ ڈر گئے تھے اس لیے انہوں نے گاڑی نہیں روکی ۔ ڈر سے تو انسان گاڑی روک دیتا ہے ۔یہ کیسا ڈر جو کسی کو اپنی گاڑی سے گھسیٹتا پھرتا ہے۔دہلی پولیس نے ابتداء میں ایف آئی آر تک درج کرنے میں آنا کانی کی۔اسے ایک معمولی سڑک حادثہ بتا کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی ۔ قتل کی دفعہ تک نہیں لگائی مگر جب وزارت داخلہ سے خاص طور پر اس کاحکم دیا گیا تب جاکر انتظامیہ نے یہ جرأت کی۔ انجلی کے پوسٹ مارٹم میں غیر معمولی تاخیر کی گئی۔ سوال یہ ہے آخر اس سفاکی کی وجہ کیا ہے؟ انجلی کے اہل خانہ نے کیوں الزام عائد کیا کہ پولیس ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے ؟

ان سوالات کا جواب عام آدمی پارٹی کے ترجمان سوربھ بھردواج نے اس طرح دیا کہ گاڑی میں موجود ایک ملزم منوج متل بی جے پی کا لیڈر ہے۔ پولیس اس معاملے میں فوری کارروائی نہ کر کے مبینہ طور پر بی جے پی رہنما کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ جس پولیس تھانے میں ان پانچوں کو تفتیش کے لیے لے جایا گیااس کے باہر بھی منوج متلّ کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ بی جے پی کے لیے اس سے دامن جھٹکنا ممکن نہیں تھا اس لیے یہ کہہ پیچھا چھڑایا گیا کہ وہ بہت معمولی کارکن تھا، کچھ دن پہلے پارٹی میں ڈیٹا آپریٹر کے طور پر آیا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ایسے معمولی آدمی کانام اور تصویر پوسٹر پر کیسے آگیا؟ مذکورہ معاملے کی تفتیش کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 36 گھنٹے بعد پولیس کو پتہ چلا متاثرہ لڑکی حادثے کے وقت اکیلی نہیں تھی۔ اس کی سہیلی نِدھی کا بیان جیسے ہی سامنے آیا وہ کردار کشی کا شکار ہوگئی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ سال نو کے پہلی شب میں سڑکوں پر گاڑیوں کے بھیڑ کو قابو میں کرنےکے لیے 18 ہزار پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں یہ سانحہ رونما ہوگیا۔ پہلی ایف آئی آر کے مطابق پانچ میں سے صرف ایک ملزم نشے میں تھا۔گاڑی چلانے والے دیپک نے پولیس کو بتایا کہ منوج متل اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، پچھلی سیٹ پر متھن، کرشن اور امیت بیٹھے تھے۔ وہ لوگ لاش کو دیکھ کر وہ ڈر گئے تھے اور مرنے والی لڑکی کو وہیں چھوڑ دیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بعد میں، انھوں نے کار کو اس کے مالک کے گھر پر کھڑا کیا اور اپنی اپنی رہائش گاہوں کی طرف روانہ ہو گئے ۔ اس بیان نے سب کے نشے میں ہونے کی تردید کردی اور یہ ثابت کردیا کہ دیدہ دانستہ اس بہیمانہ قتل کاارتکاب کیا گیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے بعد عوامی دباو میں مجبوراً امیت شاہ کی پولیس نے پانچوں ملزمین پر مجرمانہ قتل اور لاپروائی سے موت کا الزام عائد کیا کیونکہ گرفتار شدگان نے پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران اعتراف کرلیا تھا کہ انہیں انجلی کے کار میں پھنسے ہونے کا علم تھا۔

دورانِ تفتیش ملزمین نے پولیس کو بتایا کہ حادثے کے بعد انہوں نے متعدد بار گاڑی کا یو ٹرن لیا کیونکہ وہ بہت خوفزدہ تھےاور گاڑی میں اونچی آواز میں میوزک چلنے کی خبر جھوٹی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر منوج متل اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کے لیے گودی میڈیا نےیہ من گھڑت کہانیاں گھڑی گئی تھیں۔ ان انکشافات کے بعد 3 پی سی آر میں موجود پولیس اہلکاروں اور دو پولس پیکٹ میں تعینات سپاہیوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرنے کا قصوروار ٹھہرا کر معطل کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ڈی سی پی کو وجہ بتاؤ نوٹس دے کر امن و امان سے متعلق پوچھا گیا اور مناسب جواب نہ ملنے پر کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ اس کارروائی سے دہلی پولیس کی لاپروائی تو تسلیم کی گئی لیکن جس وزیرداخلہ کے تحت وہ کام کرتی اس پر انگشت نمائی کرنے کی جرٔات کسی نے نہیں کی۔

گودی میڈیا اس خبر کو ہلکا کرنے اور عوام کی توجہ بھٹکانے کی خاطر کبھی انجلی کی سہیلی ندھی کی جنم کنڈلی نکال کر اس کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتا تھا تو کبھی انجلی کی کردار کشی کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے تھے ۔ اس دوران انجلی کا ایک نام نہاد دوست اور ہوٹل مینیجرنمودار ہوگیا اور اس نے دعویٰ کردیا کہ وہ پارٹی کے بعد نشے میں تھیں ظاہر ہے اس انکشاف کا مقصد حادثے کے لیے خود اسے ذمہ دار ٹھہرانا تھا لیکن جب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے خون میں الکوحل کی علامات سے انکار کردیا تو یہ کہانی بھی بے بنیاد ہوگئی۔ اس موقع پر دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی مالیوال نے عوام سے اپیل کی کہ وہ متاثرہ خاتون کو شرمندہ کرنا بند کریں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دعوے شرم ناک ہیں اور پوچھا کہ انجلی کے نشے میں دھت ہونے کا ثبوت کہاں ہے؟ سرکار کے اشارے پر حزب اقتدار کی خوشنودی کے لیےانتظامیہ اور گودی میڈیا نے انجلی کے ساتھ جو ظلم عظیم کیا ہے اس پر ڈاکٹر عاصم واسطی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
ہم کو معلوم ہے اے نامہ نگارو تم نے
اصل حالات بتانے میں کمی کردی ہے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449707 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.