*ڈالر اور ڈار صاحب کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ *: ڈار صاحب : کیا حال ہیےجناب۔ ڈالر صاحب: میں تو ٹھیک ہوں، توسی اپنا سنا۔ ڈار صاحب: سنا ہیے تو نے میرے ملک کو بڑا پریشان کر رکھا ہے آج کل- ڈالر صاحب : خیر تو ہیے نا! آج بڑی فکر ستائے جا رہی ہے ملک کی- ڈار صاحب: کیوں نہ ہو ، آخر میرا اپنا ملک ہیے ۔پاکستان سے دور دل نہیں لگتا ۔ ڈالرصاحب: ساڑھے تین سال تک تو پاکستان کی یاد نہیں ائی۔اج یک دم سے کیا ہوگیا، آپ کو۔ ڈار صاحب: میں اگلے ہفتے آ رہا ہوں پاکستان، تجھے ٹھیک کرنے کے لئے ڈالر صاحب: لگ گئی شرط، تو نہیں آ سکتا۔ ڈارصاحب: میں کیوں نہیں آ سکتا- ڈالر صاحب: کیونکہ آپ ایک قومی مجرم ہیں اور آپ کے اوپر بہت سارے مقدمات درج ہیں، اس ملک میں- ڈار صاحب: چلو دیکھتے ہیں کہ مجھے کون روک سکتا ہیے۔ ڈالر صاحب: پاکستان کے ادارے ابھی اتنے کمزور نہیں ہوئے۔کہ وہ اس طرح ایک قومی مجرم کو کھلا چھوڑ دیں۔ ڈار صاحب: تم گواہ رہنا مجھے اس ملک کے وزیراعظم صاحب خود اپنے جہاز میں لے کر جائیں گے۔ ڈالر صاحب: وزیراعظم صاحب یہ غلطی کبھی نہیں کریں گے۔کہ وہ ایک قومی مجرم کو پروٹوکول دیں۔ ڈار صاحب: میں پہنچ چکا ہوں تجھے لگام ڈالنے کے لیے، صرف مجھے حلف لینے دو۔ پھر تجھے سیدھا کرتا ہوں۔ ڈالر صاحب: ایک زور دار قہقہہ لگا لیا، یقینا اس ملک کا قانون بڑوں کی گھر کی لونڈی ہیے،مان لیا تجھے۔ ڈار صاحب: اب تو اپنی خیر منا۔ بڑا ستایا تونے میرے ملک کو۔ اب تیری باری ہیے۔ ڈالر صاحب : ٹھیک ہیے دیکھتے ہیں کہ کون کس کو سیدھا کرتا ہیے۔ آپ کو ناکوں چنےنہ چبوائے، تو میرا نام ڈالر نہیں ہوگا۔ ڈار صاحب: تجھے معلوم ہے کہ میرے اور آپ کے نام میں تین الفاظ ایک جیسے ہیں ۔تجھے ٹھیک کرنے کے لئے میں"کلہ ہی کافی ہو" ۔ ڈالر صاحب : چلو ایک بات کی گارنٹی دو۔ کہ تم میری شکایت آئی۔ایم۔ ایف سے تو نہیں کرو گے ۔ ڈار صاحب : اب میں تیری تکبر کو خاک میں ملاوں گا۔تجھے آسمان سے زمین پر نہ لایا، تو میرا نام ڈارنہیں ہوگا۔ ڈالر صاحب : اتنا زیادہ لمبی لمبی نہ چھوڑدیں، تیرا باپ بھی مجھے نہیں روک سکتا ۔ ڈالر نے ایک لمبی اڑان بھری ۔ آسمان کی بلندیوں کو چھو گیا۔ ڈالر نے آسمان سے ڈار صاحب کو خدا حافظ کہہ دیا۔ ڈار صاحب :حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا اور کہا کہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ڈالر کو زمین پر لانے کے لیے مکس چار کو ایک اور موقع دینا پڑے گا۔ شکریہ