وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلق سے سوال ہوتا ہے کہ وہ
پریس کانفرنس کیوں نہیں کرتے ؟ انٹرویو میں اداکاری کیوں کی جاتی ہے ؟؟
اکشے کمارکو کیوں صحافی بنا دیا جاتا ہے اور وہ ایسا بے تکا سوال کیوں کرتے
ہیں کہ وزیر اعظم آم کاٹ کر کھاتے ہیں یا چوس کر؟ ملک کی موجودہ صورتحال
تو ایسی ہے کہ کسی طبقہ کو کاٹ کر اوردوسرے کو چوس کر اس استحصال کیا جاتا
ہے۔ اس معاملہ میں بیچارہ پردھان سیوک تو دور بی جے پی کی مادرِ تنظیم
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک کے ا ندر بھی اجنبی میڈیا کو
انٹرویو دینے کی ہمت نہیں ہے۔ ایسے میں ان کے سیوک میں یہ صلاحیت کیونکر
ہوسکتی ہے؟ موہن بھاگوت کا حال یہ ہے کہ وہ بھی آر ایس ایس کےانگریزی
ترجمان دی آرگنائزرتک نہیں جاتےبلکہ ہندی والے پان جنیہ پر اکتفاء کرلیتے
ہیں۔ فی الحال ملک میں دولت کی بدولت ہندوتوا کا بول بالا ہوگیا ہے اس کے
باوجود کوئی معروف صحافی سرسنگھ چالک سے انٹرویو لینا ضروری نہیں سمجھتا
اور نہ کسی اہم قومی مسئلہ پر ان سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے باوجود تنظیمی
اجتماعات میں اپنے متنازع خطابات کے سبب وہ خبروں میں رہتے ہیں۔
سر سنگھ چالک نے اپنے حالیہ طویل ترین انٹرویو میں اعتراف کیا ہے ،اگرچہ
(بھگود گیتا میں) تعلیم دی گئی ہے کہ امیداور خواہش کو ، میں اور میری انا
کے احساس کو ترک کرکے ، اپنی انا کی حدت سے آزاد ہوکر جنگ کی جائے، لیکن
سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ اس حقیقت بیانی کے بعد وہ ایک خوش فہمی کا اظہار
فرماتے ہیں کہ سماج کے اندر لوگوں میں ان کے توسط سے بیداری آئی ہے۔ اس
مقصد میں اگرسنگھ کو کامیابی ہوئی ہوتی موجودہ وزارت مسلم سماج کی نمائندگی
سے خالی نہیں ہوتی۔ بلقیس بانو کے ظالموں کی رہائی عمل میں نہیں آتی اور
وزیر اعظم کو جوشی مٹھ کے پانچ ہزار لوگوں کے ساتھ غفور بستی کے پچاس ہزار
باشندوں کے بے خانماں ہونے کی فکر بھی ہوتی لیکن ووٹ کی امید اور خواہش نے
ان کو ا س تفریق و امتیاز کا شکار کردیا ۔ وہ اپنی انا کی حدت سے آزاد
نہیں ہو سکے ۔ سنگھ پریوار اگر اپنے پردھان سیوک کو ان آزار سے نجات نہیں
دلا سکا تو دوسروں کو کس طرح ا ٓزادی دلا سکتا ہے؟
ہندو مذہب، ثقافت اور سماج کو درپیش تحفظ کے چیلنج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے
سر سنگھ چالک نے کہا کہ، ’ہندو سماج ابھی بیدار نہیں ہوا ہے۔ یہ لڑائی باہر
سے نہیں ہے،یہ لڑائی اندر سے ہے‘ ان کے مطابق’ ہندو سماج کی سلامتی کے لیے
لڑائی جاری ہے‘۔بیداری کا کریڈٹ لینے کے بعد موصﷺف نے خود اس کی تردید
فرمادی اور بلا واسطہ نہ صرف سنگھ کی ناکامی اعتراف کرلیا بلکہ ہندو ہردیہ
سمراٹ نریندر مودی کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ سو سال کام
کرنے کے بعد جو تنظیم اپنے سماج کو بیدار تک نہ کرسکے تو اس کو اپنے گریبان
میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ غلطی کہاں ہوئی ؟ آٹھ سال تک مرکز میں حکومت
کرنے اور مختلف ریاستوں میں برسوں تک سرکار چلانے کے بعد بھی اگر برسرِ
اقتدار جماعت کی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکرکواپنے سماج کی خواتین سے چاقو
تیز رکھنے کا مطالبہ کرنا پڑے تو اس سے زیادہ شرمسار کرنے والی بات اور کیا
ہوسکتی ہے؟کیا بی جے پی ا عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اگر
ایسا ہے تو اس کو اپنا بوریہ بستر لپیٹ کر رخصت ہوجانا چاہیے۔
سر سنگھ چالک نے فرمایا کہ اب غیر ملکی نہیں ہیں، لیکن غیر ملکی اثر و رسوخ
موجود ہے، بیرون ملک سے سازشیں ہورہی ہیں۔ اس لڑائی میں لوگوں کے اندر شدت
پسندی آئے گی۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے، پھر بھی سخت بیانات آئیں گے۔ یہ
تو ایک اصولی بات ہے مگر حقیقت حال اس سے متضاد ہے۔ فی الحال وطن عزیز کے
خلاف سب سے زیادہ سازش اور ان پر عملدر آمد چین کے ذریعہ ہورہا ہے لیکن
حکومتِ وقت میں اس ہمسایہ ملک کا نام لینے کی جرأت نہیں ہے۔ نہ لال
آنکھوں والے وزیر اعظم چین کا نام لیتے ہیں اور نہ زعفرانی زبان والے سر
سنگھ چالک اس کا ذکر فرماتے ہیں ۔موجودہ حکومت نہ صرف سرحد پر چین کی
دراندازی کو روکنے میں ناکام ہے بلکہ بازار سے اس کا اثرو رسوخ بھی زائل
نہیں کر پا رہی ہے۔ اس سے علی الرغم ملک کے نادر بسنے والے بے قصور نہتے
لوگوں کے خلاف شدت پسندی میں روز افزوں اضافہ کے شواہد ابھی حال میں ایوان
پارلیمان کے اندر پیش کیے گئے۔
مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو
(این سی آر بی) کے اعداد و شمار پیش کرکے مندرجہ بالا دعویٰ کی دلیل پیش
کردی ۔ انہوں نے گزشتہ ماہ ایوان پارلیمان میں بتایا کہ 2017 سے 2021 کے
درمیان ہندوستان میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے 2900 سے زیادہ واقعات
درج کیے گئے ۔سال 2021 میں فرقہ وارانہ فسادات کے 378، 2020 میں 857، 2019
میں 438، 2018 میں 512 اور 2017 میں 723 معاملے درج کیے گئے۔یہ اعدادو شمار
مرکزی وزیر داخلہ کے اس بیان کو منہ چڑھاتے ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا
تھا کہ بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا کہ پھر فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ رک
گیا۔ ان کا اعلان اگر درست تھا تو ان کے نائب ایوان کو کیوں گمراہ کررہے
ہیں؟ اور اگر نتیا نند رائے کی اعداد ٹھیک ہیں تو پھر گجرات کی انتخابی مہم
کے دوران وزیر داخلہ نے یہ جملہ کیوں کہا کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔
موہن بھاگوت نے اپنے انٹرویو میں ایک ایسا دعویٰ کردیا کہ جس کی چنداں
ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا ’ ہماری سیاسی آزادی کو چھیڑنے کی طاقت کسی
میں نہیں ہے‘ اور آگے بولے ’ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو جائے گا نہیں ،
یہ طے ہوچکا ہے‘ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔
ملک کے ہندو وں سے کسی نے نہیں کہا کہ وہ یہاں سے جائیں ۔ اس کے باوجود
لاکھوں ہندو شہریت چھوڑ کر برضا و رغبت دیگر ممالک میں جاکر بس رہے ہیں۔
امیت شاہ کی وزارت داخلہ کے مطابق 2021 میں کل 163,370 افراد نے ہندوستان
کی شہریت چھوڑدی۔ ان میں سے 78,284 افراد نے امریکی شہریت اختیار کی،
23,533 لوگوں نے آسٹریلیا اور 21,597 نے کینیڈا کی شہریت کے لیےہندوستانی
شہریت کو خیر باد کیا۔حد تو یہ ہے کہ چین میں رہنے والے 300 ہندوستانیوں نے
وہاں کی شہریت اختیار کرلی جبکہ 41 لوگوں نے پاکستان کی شہریت کو ترجیح دی۔
کیا سی اے اے کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے لیے شرم کا مقام نہیں ہے۔
2013 میں وزیر اعظم نریندر مودی اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک چھوڑ کر
جانے والے باصلاحیت افراد پر خون کے آنسو بہاتے تھے ۔ ان کا الزام تھا کہ
منموہن سنگھ سرکار کی غلط پالیسی کے سبب یہ لوگ مادر وطن کو چھوڑ کر جانے
کے لیے مجبور ہیں اور ملک میں ’برین ڈرین ‘ ہورہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ
اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو ہوا کا رخ بدل جائے گا۔ وہ ایسا ماحول فراہم
کریں گے کہ اس میں ’برین ڈرین ‘ کے بجائے ’برین گین‘ شروع ہوجائے گا۔ ردیف
قافیہ کے ساتھ کہے جانے والے یہ جملے کانوں کو بہت بھلے لگتے تھے لیکن
پچھلے آٹھ سالوں میں ان کی قلعی کھل چکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پردھان
(سویم) سیوک کے راج میں 2015 اور 2020 کے درمیان آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد
نےہندوستانی شہریت چھوڑ دی ہے۔ آگے پیچھے کی تعداد ملا دیں تو یہ دس لاکھ
سے تجاوز کرجاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر خوشحال اور پڑھے لکھے لوگ ملک
چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں ۔ ان میں ملک کو لوٹ کر فرار ہونے والے سرکار کے
منظور نظر نیرو مودی جیسےسرمایہ دار بھی شامل ہیں جن کو واپس لانے کا شور
تو ہوتا ہے مگر کامیابی نہیں ملتی۔
سر سنگھ چالک کا دعویٰ ان باشندوں پر ضرور صادق آتا ہے جو یہاں رہنے پر
مجبور ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اگر الٹا لٹک جائے تب بھی اس
برین ڈرین کو برین گین میں نہیں بدل سکتا ۔ اس لیے بے وجہ شکوک و شبہات
پیدا کرنابے معنیٰ ہے۔ موہن بھاگوت نے اپنے انٹرویو میں کہا ’سب سے پہلے
ہندوؤں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج ہندو اکثریت میں ہیں اور ہندوؤں کی
ترقی سے اس ملک کے تمام لوگ خوشحال ہوں گے‘۔ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے
کہ فی الحال ملک کی ہندو اکثریت غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے اور ان کو
اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سرکاری امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس
امبانی و اڈانی جیسے مٹھی بھر سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں
اس لیے عام ہندو کبھی بھی اس بیان کے فریب میں نہیں آئے گا۔ اس سے بدتر
سرمایہ داری دنیا میں کہاں ہے؟ اس لیے ملک میں فی الحال عام ہندو پریشان
ہے۔
آکسفیم کی نئی رپورٹ کے مطابق ملک میں ارب پتیوں کی تعداد 2020میں صرف 102
تھی جو 2022 میں بڑھ کر166 ہو گئی اور کورونا کے زمانے سے لے کر نومبر 2022
تک ان ارب پتیوں کا اثاثہ 121 فیصد بڑھ گیا۔ وزیر اعظم کے چہیتے گوتم اڈانی
کا مالی اثاثہ 2022 کے اندر 46 فیصد بڑھ گیا ۔ صرف 5 فیصد ہندوستانیوں کے
پاس قومی ملکیت کا 60 فیصد ہے جبکہ نیچے کے 50 فیصد کے پاس ملکیت کا صرف 3
فیصد ہے۔ 2018 میں 19 کروڈ لوگ بھوک سے پریشان تھے2022ان کی تعداد35 کروڈ
ہوگئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے غریبوں کے ووٹ سے جیت کر آنے والی
پردھان سیوک کی سرکار نے 2019 میں کارپوریٹ ٹیکس کے اندر سہولت دے کر2021
میں 1,03,285 کروڈروپیہ سرمایہ داروں کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ عوام کو
نعروں سے بہلانے کے بجائے موہن بھاگوت نے اگر’ ہم دو ہمارے دو‘ کی روایت کو
بدلنے کی سعی نہیں کی تو ان کا یہ انٹرویو بے معنیٰ ہے۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|