ایک خوبصورت وادی حکومتی توجہ کی منتظر

ہر برس کی طرح اس سال بھی عیدالفطر اپنے آبائی گاﺅں میں منائی جو کہ ضلع میانوالی کے ایک خوبصورت علاقے وادی نمل میں واقع ہے پہاڑوں میں گھرا خوبصورت گاﺅں ”رِکھّی“کہلاتا ہے عید پر کافی پرانے دوستوں سے بھی ملاقات رہی اور دعوتیں بھی چلتی رہیں لیکن ان میں سے ایک پارٹی یادگار رہی ہے جو راقم کے اعزاز میں ”نمل ڈیم “پر دی گئی تھی ۔وادی نمل ایک حسین و جمیل وادی ہے جو کہ پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی ہے ایک طرف پہاڑ ہیں تو دوسری طرف ایک خوبصورت جھیل ہے جسے ”نمل جھیل“ کہا جاتا ہے جو اس وادی کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتی ہے اور وہاں سے گزرنے والے ہر راہگیر کو اپنے خوبصورتی کے سحر میں جکڑ دیتی ہے اور انسان اس حسین نظارے کو دیکھ کر مسحور ہو جاتا ہے لیکن اس وقت کافی جھٹکا لگتا ہے اور حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب جھیل کو دیکھنے کے لئے قریب جانا پڑتا ہے تو یہ راز کھلتا ہے کہ اس خوبصورت جھیل پر کوئی پارک ہے ،نہ بیٹھنے کے لیے بینچ ہے اور نہ ہی کوئی کینٹین وغیرہ ہے جس کی وجہ سے آنے والے سیاحوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مجھے آج بھی یاد ہے وہ ذرا ،جب28اپریل 2008ءکو اس علاقے میں مرشد گیلانی نے قدم رنجہ فرمائے تھے سائیں گیلانی عمران خان کی دعوت پر نمل کالج کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تھے تو گیلانی صاحب بھی خوبصورت وادی کے حسین نظارے سے متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے ”نمل جھیل“پر نیشنل پارک بنانے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ میں کل ہی سروے کے لئے ایک ٹیم بھجوا دوں گا لیکن آج اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا(ویسے بھی یہ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو ہوتے نہیں ) آج بھی وادی نمل کے رہائشی وزیراعظم کے وعدے کے منتظر ہیں کہ کبھی اس حسین جھیل پر پارک بنے گا جو اس کی دلکشی میں اضافے کا باعث بنے گا اور اس خوبصورت وادی کو مزیدچار چاند لگ جائیں گے۔بات شروع کی تھی ایک پکنک کی کہ نمل ڈیم پر کچھ دوستوں نے راقم کے اعزاز میں ایک پارٹی دی تھی توہم اپنے گاﺅں سے نمل جھیل پر پہنچے اس کے بعد ایک کشتی پر بیٹھ کر نمل ڈیم کی طرف روانہ ہوئے ،ایک توخوبصورت جھیل کا حسین منظر ،اس کے ساتھ کشتی کا اور پانی میں سفر اور دوستوں کے ہلہ گلے نے اس سفر کواور بھی یادگار بنا دیا ،بیس پچیس منٹ کی کشتی کی مسافت میں ہم نمل ڈیم پہنچ گئے پہاڑوں میں گھراہوا،سبزے کی چادر اوڑھے،پانی کی آواز کے ساتھ نمل ڈیم کے نظارے کو بیان کرنا بہت مشکل ہے میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ پھر وہ حسین نظارے اور خوبصورت لمحے کب میسر ہوں گے نمل ڈیم کی تاریخ کافی پرانی ہے یہ 1913ءمیں بنایا گیا تھا اور اس کی معیاد 100برس رکھی گئی تھی اس کے سات دروازے ہیں لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت چھ گیٹ خراب ہوچکے ہیں ویسے بھی اس کی مدت پوری ہو چکی ہے اس ڈیم کی وجہ سے میانوالی کے کافی علاقوں کو نہری پانی میسر ہے جس میں موسیٰ خیل اور اس کے ملحقہ علاقے سرفہرست ہیں نمل ڈیم ایک تاریخی ڈیم ہے اب جب اس کی مدت پوری ہونے کو ہے تو حکومت کو نمل ڈیم اور جھیل پر ترجیحی بنیادوں پر مرمت کاکام کروا کر ان تاریخی اور خوبصورت مقامات کو محفوظ کرنا چاہیئے اور سیاحوں کے لئے کچھ خصوصی انتظامات کروانے چاہئیں تاکہ اس حسین وادی کے دلکش نظاروں سے ہر انسان محفوظ ہوسکے اس خوبصورت وادی کے حسین مناظرکو دیکھتے ہوئے کچھ عرصہ قبل انجینئر محمد عمران ملک نے ایک نظم لکھی تھی
اے وادی نمل،تیرے دلکش ہیں نظارے
قدرت نے تیرے خوب خدوخال سنوارے
آباد ہے تو دامن کوہ نمک میں
ان گنت نظارے ہیں تیری اک جھلک میں
اک سمت سکیسر ہے تیری شان بڑھائے
اک سمت تری جھیل،تری آن بڑھائے
تری صبح جواں ہے تو تری شام حسیں ہے
روشن ترا دن ہے تو،تری رات رنگیں ہے
عمران،دعا ہے مری اس پاک خدا سے
آباد رہے جگ میں تو سب کی دعا سے
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186808 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.