قومی پرچم کی سرزمین : وادی ِ سوات

’جناب چالیس کی عمر میں سٹھیا گئے ہیں جو ایسا سوچ رہے ہیں‘۔
’میاں جی ! کیا آپکی طبیعت ٹھیک ہے۔‘
’سر ! ایک بار پھر سوچ لیں‘۔
’اسلام آباد کی گاڑی میں سوات گئے تو طالبان نہیں چھوڑیں گے!‘۔

جی ہاں یہ وہ سب تاثرات تھے جو ہمارے گرد موجود لوگوں نے اس وقت ادا کئے جب ہم نے انہیں یہ خبر دی کہ ہم عید الفطر کی چھٹیا ں منانے کیلئے وادی سوات کا انتخاب کرچکے ہیں۔ ہم جیسے کراچی کے رہنے والے آج کل عارضی طور پر اسلام آباد کے باسی تھے اور عید کی چھٹیوں میں کراچی واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ دوسری طرف بنت رضی کے او لیول کا پہلا نتیجہ آچکا تھا۔ دو ’اے اسٹار ‘کے ساتھ تیسرے مضمون میں ’اے ‘ ایسا نتیجہ نہ تھا کہ اسے کوئی سرپرائز نہ دیا جاتا۔ کسی عزیز کا ڈائیوو پنڈی پر استقبال کرنے گیا تو وہاں ایک بس پر لگی تختی نے مجھے چونکا دیا۔ لکھا تھا ’پنڈی سے سوات‘۔

گویا سوات کے حالات اتنے بہتر ہوچکے ہیں کہ اول تو وہاں کیلئے ڈائیوو کی بس سروس چل رہی ہے اور دوسرے یہ کہ پنڈی سے سوات کا زمینی رابطہ اتنا بہتر ہے کہ وہاں ڈائیوو جیسی بسیں بھی جارہی ہیں؟ کاﺅنٹر سے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ کرایہ حیران کن طور پر چھ سو سے کچھ زیادہ ہے اور بس روزانہ کئی مرتبہ جاتی ہے۔ پھر کیا تھا کراچی کے باسی کے دل میں سوات کا سفر ایک پھانس کی طرح جا بسا۔ ارادہ یہی تھا کہ پوری فیملی بذریعہ بس سفر کرے گی تاکہ اگر راستے میں حالات خراب بھی ہوں تو کمپنی والے خود سنبھالیں۔ کچھ دنوں بعد البتہ مزید تحقیق سے اندازہ ہوا کہ حالات اتنے خراب بھی نہیں اور پھر یہ بھی کہ سوات پہنچنے کے بعد اگر کہیں سیر سپاٹے کیلئے جانا ہوا تو کتنی مرتبہ رینٹ اے کار کریں گے؟ مزید یہ کہ زمینی سفر کے دوران مردان شہر کے پاس واقع تخت بھائی میں گندھارا تہذیب کے کھنڈرات کے مشاہدے کا موقع ایسا لالچ تھا کہ میں نے ڈائیوو والوں کا دل میں شکریہ ادا کرتے ہوئے عازم سوات ہونے کیلئے ارادہ پکا کرلیا، مگر اپنی کار میں۔

سوات میں رہنے کیلئے جب لوگوں سے ہوٹل میں بکنگ کیلئے رابطے کئے تو ایک نیا انکشاف ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ سوات میں کہاں جانا ہے؟ جی ہاں! ہمیں اس عمر میں پتہ چلا کہ سوات کسی شہر ، گاﺅں یا قصبہ کا نام نہیں یہ تو بس ایک سرزمین ایک خطہ یا دراصل صرف ایک وادی کا نام ہے ، جس نے اپنے اندر پاکستان کے کئی حسین علاقوں اور شہری قصبوں کو سمیٹ رکھا ہے بالکل خیبر پختون خواہ کی طرح یعنی کسی شہر ، گاﺅں یا قصبے کا نام نہیں۔ قیام پاکستان کے وقت سوات بھی ایک ریاست کا نام تھا جس کا مرکز ’سیدو شریف ‘ تھا۔ البتہ مینگورہ کا شہر جو ’سیدو شریف ‘ سے لگ بھگ بارہ کلو میٹر پہلے آتا ہے ۔ آج آبادی کے لحاظ سے خطہ سوات کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ڈائیوو بس سروس دراصل چلتی بھی پنڈی سے منیگورہ تک کیلئے ہی ہے۔

پھر وہی ہوا جو شروع میں لکھا ، یعنی جس کسی کو مینگورہ یا سیدو شریف میں کمرے کی بکنگ کیلئے کہا اس نے ہماری دماغی نبض کو جانچنا شروع کردیا۔ بہر حال کسی چاہنے والے میں مینگورہ میں فضا گھٹ کے مشہور مقام پر لب دریا ئے سوات ایک ہوٹل میں بکنگ کروادی۔ اختتام رمضان کے دنوں میں جتنی بھی فرصت ملی ہم نے پنڈی اسلام آباد کے باسیوں سے سوات کے بارے میں پوچھنا شروع کیا ، تو حاصل صرف کفِ افسوس ہوا۔ وہ اس طرح کہ اول تو کوئی جاننے والا دس سال پہلے وہاں گیا تھا تو کوئی بچپن میں ۔ دوسری طرف تقریباً سبھی بڑے لوگ مدین، بحرین اور کالام کے ناموں سے تو آگاہ تھے اور گئے بھی تھے مگر انتظامات ! وہ کس چڑیا کا نام ہے؟ ۔ ظاہر ہے ان تمام بابوﺅں کے سفری انتظامات اور شائد اخراجات بھی ’قدرت‘ نے خود ہی کروادیئے تھے۔ ہماری گاڑی سی این جی پر چل رہی تھی اور پٹرول پر کچھ مسئلہ دیتی تھی اس لئے یہ فکر بھی تھی کہ سفر سوات میںجانے سی این جی کہاں تک ملے گی؟

عید سے ایک دن پہلے اللہ میاں نے انعامات کی مزید بارش کی اور ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جن کے داماد کرنیلی کے پھول کاندھوں پر سجائے سوات میں ہی کہیں تعینات تھے۔ سسر نے موبائل سے داماد پر بات کی جو خود تو آگے کسی محاذ پر تھے لیکن انکی فیملی سیدو شریف کے ایئر پورٹ کے پاس کانجو نامی کسی جگہ پر رہتی تھی ۔ اللہ سسر اور داماد دونوں کو خوش رکھے جنہوں نے ہمارے ہر ممکن ہمارے انکار کو اقرار میں بدل چھوڑا۔

طے یہ ہوا کہ عید الفطر کی نماز پڑھ کر پہلے اسلام آباد میں موجود عزیزوں سے ملاقات کی جائے گی اور پھر وہیں سے عازم سوات ہوا جائے گا۔ کرنل صاحب سے موبائل پر موسم کا حال پوچھا تو پتہ چلا سوات کا موسم ویسا ہی ہے جیسا اسلام آباد کا ۔ البتہ رات کو پنکھے کے ساتھ، بغیر چادر رہنا مشکل ہوجا تا ہے ۔ یوں ہماری نصف بہتر بچوں اور بڑوں کے سردیوں کے کپڑے لینے کی زحمت سے بچ گئیں۔ چاند رات کو جب کراچی میں صبح کیلئے لوگ شیر خرمہ اور کپڑوں کی تیاریوں میں مشغول تھے ہمارے گھر میں سوات کیلئے زاد ِ راہ تیارکیا جارہا تھا۔ بنت رضی اور ابن رضی جہاں بہت خوش تھے سچ جانئے مجھے ان سے زیادہ خوشی تھی کیونکہ پاکستان کے سوئٹزر لینڈ یعنی ’سوات ‘ جانے کا موقع مل رہا تھا ، کہاں کراچی اور کہاں سوات۔

اسپیئر وہیل اور اسکی حالت، جیک ، ٹائروں کی ہوا ، ڈگی میں فالتو پانی ، گاڑی کھینچننے کی رسی، بیٹری چارجنگ کی تار، ہوا بھرنے کیلئے پمپ، ایک کارڈ جس پر سب گھر والوں اور اسلام آباد / کراچی میں مقیم رشتہ داروں کے بارے میں معلومات درج تھیں اور سب سے بڑھ کر سوات تک پہنچنے کیلئے کئی نقشے ، چاند رات کو ہم ِان سب کی گاڑی میں موجودگی یقینی بناچکے تھے۔ بعد نماز عید اسلام آباد میں مقیم اعزاء اور اقربا سے ملاقاتیں کی گئیں۔ ایک گھر میں میجر ندیم افضل مل گئے جن سے ہمیں پتہ چلاکہ دریا ئے سوات کے کنارے ہم کو بہت سے حسین اور یادگار مناظر مل جائیں گے مگر اس کے علاوہ شائد مینگورہ اور سیدو شریف میں کچھ نہ ملے۔ انہوں نے مزید یہ بھی خبردار کیاکہ بحرین ، مدین کا سفر آج کل شائد مشکل ہو البتہ سوات میں کسی جگہ والئی سوات کا ایک پرانا محل ہے اسے ضرور دیکھئے گا !
 

image
Razi Uddin
About the Author: Razi Uddin Read More Articles by Razi Uddin: 3 Articles with 4236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.