خدائے لازوال کے عظیم تر پلان کے تحت بابا آدم اور اماں
حوا کو جنت سے نکال کرافزائش نسل کے لیے کر ہ ارض پر اتا ر دیاگیا اس دن سے
لیکر آج تک کروڑوں انسان اپنے اپنے وقت پر تاریخ کے کینوس پر ابھرے اپنا کر
دار ادا کیا پھر جام ِ فنا پیا مٹی کی چادر اوڑھ کر گمنامی کے غار میں اتر
گئے آج ہر روز لاکھوں انسان پیدا ہو تے ہیں اِن میں سے چند ہی ایسے ہو تے
ہیں جو تا ریخ کی زینت بنتے ہیں با قی جانوروں کی سی زندگی کھا یا پیا
افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی میں ملتے چلے گئے خالق کائنات کوبنا کر سو
نہیں گیا بلکہ تمام تغیرات سے پو ری طرح واقف ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی
کسی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ وہاں پر لطافت کے پیکر خا ص نفوس قدسیہ
اتارتا ہے جس کی ساخت میٹریل روح شعور عقل بصیرت اورعلم دوسروں سے بہت بڑھ
کر ہو تا ہے ایسے خاص لوگوں کو خاص تربیتی ما حول سے گزارا جاتا ہے جس سے
گزر کر ایسے خا ص لوگوں کی خوا بیدہ صلاحیتیں خو ب کھل کر سامنے آجا تی ہیں
ایسے ہی خا ص لوگوں کی تا ریخ کو تلا ش ہو تی ہے ایسے ہی لو گ تا ریخ کے
چہرے کو ضیا بخشتے ہیں یہی تا ریخ کی آبرو ہو تے ہیں تا ریخ کی مراد یہ لو
گ روز روز پیدا نہیں ہو تے یہ خا ص ما ں کی گو د سے پیدا ہو تے ہیں خا ص
آغوشوں میں پرورش پا تے ہیں خاص ہا تھوں میں پلتے ہیں نورانی کندھوں پر جھو
لتے ہیں مشک و عنبر میں ڈوبی لو ریا ں سنتے ہیں خا ص نظروں میں رہتے ہیں
ایمانی دعاں کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں رزق حلا ل کے لقموں سے نمو د پا
تے ہیں وقت کے دھا رے کو بدلنے کے لیے خا ص آدرشوں کی تکمیل کے لیے خو ش
قسمت قوموں اور خطوں میں مہتا ب کی طرح طلو ع ہو تے ہیں خو ش قسمت ہو تے
ہیں وہ خطے اور معاشرے جہاں ایسے لو گ کہکشاں کی طرح روشن ہو تے ہیں یہ گو
ہر نا یاب آسانی سے ہا تھ نہیں آتے بلکہ فلک کو سالوں گردش کر نا پڑتی ہے
بو ڑھا آسمان خا ک چھان کر انہیں ڈھونڈتا ہے ایسے نایاب مو تیوں کی تلا ش
میں صدف کو سمندروں کے پاتال میں مرا قب ہو نا پڑتا ہے لاکھوں دعاں کے بعد
مالک کا ئنات ایسے لوگوں کو عطا کر تے ہیں یہ سینکڑوں دما غوں کا عطر اور
زمین کا نمک ہو تے ہیں اِن کے کر دار سے انسان تیا ر ہو تے ہیں اِن کے وجود
سے معا شرے زند ہ اور ملک اچھا نا م کما تے ہیں عام انسان گا جر مو لی کی
طرح کٹ کر زمین کے بو جھ میں اضا فے کا با عث بنتے ہیں لیکن کچھ لو گ ایسے
بھی ہوتے ہیں کہ ان کے آنے سے پو ری دنیا پر لرزا طا ری ہو جاتا ہے لیکن گر
دش روز و شب اور وقت کی کروٹوں نے انہیں نگل لیا کیسے کیسے نا مور گمنام
بلکہ بے نام ہو گئے ہزاروں سالوں کی شان و شوکت مر قع عبرت بن گئی ہما لیہ
جیسے لو گ خا ک نشین ہو گئے مورخ کا دھیان پڑجا ئے تو غبا ر جھا ڑ کر انہیں
زندہ کر نے کی کو شش کر تا ہے لیکن پھر وہی سنا ٹا تنہا ئی گمنا می کو چہ
فرامو شی لیکن اِن لوگوں کے مقا بلے پر کچھ ایسے نفوس قدسیہ بھی آتے ہیں جو
کبھی مسند اقتدار پر جلو ہ افروز نہیں ہو ئے نہ ہی عالم پنا ہ کہلا ئے نہ
ہی اعظم کا لقب اپنا یا نہ ہی اپنے نام کے سکے جا ری کئے نہ ہی ہا تھیوں کے
جلو میں دیدار کر ایا لیکن اﷲ تعالی کے خا ص بندے کچھ ایسے بھی آئے جو کبھی
اقتدار پر نظر نہیں آئے لیکن کرو ڑوں دما غوں پر آج بھی ان کی حکمرا نی ہے
صدیوں کی الٹ پھیر انہیں صفحہ عزت اور لوح شہرت سے محو نہیں کر سکی یہی وہ
لو گ تھے جنہوں نے وقت سو چ تا ریخ دل و دماغ جذبات کو پو ری طرح اپنے قبضے
میں لے کر تاریخ انسانی کے آسمان پر امر کر لیا ایسا ہی اعلی نسب کا سید
زادہ 536ھ کو جنو بی ایران کے علا قے سستیان میں سید خوا جہ غیاث الدین کے
گھر میں پیدا ہو ا تا ریخ انسانی کے عظیم ترین سید زادے کی پیدا ئش کا دور
بڑا پر آشوب تھا سیا سی انتشار زوروں پر تھا افراتفری لوٹ مار عام تھی تا
تا ریوں کے جنگجو گروہ نے سنجر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی غیا ث الدین
صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ خرا سان چلے آئے لیکن یہاں کے حا لات بھی بہت خراب
تھے بے گنا ہ لوگوں کی قسمت کے مالک تاتاری وحشی درندے بن گئے تھے پو را
علا قہ لو ٹ ما ر کا شکا ر ہو چکا تھا معصوم سید زادے کا بچپن خو نی حا لات
میں گزرا جب سید زادے کی عمر پندرہ سا ل ہو ئی تو شفیق با پ کا سایہ سر سے
اٹھ گیا نوجوان سید زادہ غم کی لپیٹ میں آچکا تھا با پ کی جدا ئی ہڈیوں تک
کو چاٹ رہی تھی بیٹے کو مغموم دیکھ کر مہربان والدہ ما جدہ حو صلہ دیتیں اب
آپ والدہ بی بی نو ر کے زیر سایہ زیور علم سے آراستہ ہو نے لگے لیکن قسمت
کے امتحان ابھی با قی تھے با پ کے جا نے کے ایک سال بعد ہی والدہ ما جدہ
بھی خالق حقیقی سے جا ملیں اب سید زادہ اِس ظا لم دنیا میں اکیلا تھا با پ
کی وفات کے بعد سید زادے کو وراثت میں ایک با غ اور چکی ملی تھی اب سید
زادہ خو د ہی با غبانی اور کھیتی با ڑی کر تا باغ کا کام کر تے ہو ئے علم
کے نا مکمل ہو نے کا احساس اکثر اآنسوں سے رلا دیتا اب فطرت میں با غ تنہا
ئی تھی معصوم سید زادہ ایک دن با غ میں پا نی دے رہا تھا کہ وقت کے مشہور
بزرگ ابراہیم قندوزی ادھر سے گزرے سید زادے نے دوڑ کر بزرگ کو سلا م کیا
بزرگ بچے کی عقیدت احترام ادب دیکھ کر بہت متا ثر ہو ئے بچے کے سر پر ہا تھ
پھیرا دعا ئیں دیں اور آگے چلنے لگے تو سید زاد ے نے بزرگ کا دامن تھام لیا
بزرگ شفیق لہجے میں بو لے بیٹا تم کیا چاہتے ہو میں تمہا ری کیا مدد کر
سکتا ہوں تو سید زادہ بو لا حضرت اگر آپ چند لمحے اِس عاجز کے با غ میں
آرام فرمالیں تو اِسے میں اپنی خو ش نصیبی سمجھوں گا پتہ نہیں پھر کبھی آپ
کا دیدار نصیب ہو تا ہے یا نہیں شفیق بزرگ بچے کی التجا پر با غ میں تشریف
لے آئے بچے کے لہجے اور احترام نے بزرگ کو خاصا متا ثر کر دیا تھا قدرت بھی
اپنا کام کر رہی تھی کیو نکہ اب سید زادے کی زندگی نئے دور میں داخل ہو نے
جا رہی تھی سید زادے نے بز رگ کو بہت احترام سے بٹھا یا اور اجا زت لے کر
با غ کے گو شے میں چلے گئے اور جا کر سب سے اچھے انگو ر تو ڑے اور دو طبا ق
بھر کر لا کر بزرگ کے سامنے نہا یت احترام سے رکھ کر غلا موں کی طرح ہا تھ
با ندھ کر کھڑے ہو کر کہنے لگے جناب اِس وقت آپ کی خد مت کے لیے میرے پا س
یہی کچھ ہے جن سے میں آپ کی توا ضع کر سکتا ہوں اگر آپ اِس عاجز کے اِس
حقیر تحفے کو شرف قبو لیت بخشیں تو میں اپنی بہت بڑی سعادت سمجھوں گا بزر گ
نو عمر سید زادے کے احترام سے بہت متا ثر ہو چکے تھے دلنواز نظروں سے سید
زادے کی طرف دیکھا اور چند انگور اٹھا کر منہ میں رکھ لیے سید زادے کی خو
شی کا ٹھکا نہ نہ تھا کہ بزرگ نے سید زادے کی توا ضع قبول کر لی تھی بزرگ
نے اشارہ کیا فرزند میرے سامنے بیٹھ جا سید زادہ دو زانو ہو کر بیٹھ گیا بز
رگ شفیق نظروں سے نو عمر کو دیکھ رہے تھے پھر پیا ربھرے لہجے میں بو لے نو
جوان تم نے فقیرکی خوب خدمت اور مہمان نوا زی کی ہے اﷲ تمہیں اِس کا خو ب
اجر دے گا سید زادے کی آنکھوں سے خو شی کے آنسو بہہ رہے تھے حضرت قندوزی پر
جذب کی حالت طا ری ہو گئی تھی با غ کی طرف اشارہ کر کے بو لے آج اِس گلشن
پر بہا روں کے رنگ بکھر ے ہو ئے ہیں کل یہاں خزاں کا سنا ٹا ہو گا یہی
زندگی کی اصل حقیقت ہے تیرا یہ باغ بھی مو سم خزاں اور آندھیاں اجا ڑ دیں
گی پھر حق تعا لی تجھے نہ ختم ہو نے والا نہ اجڑنے والالبا غ عطا کرے گا جس
کے درخت اور پھل قیا مت تک بہا ر پر رہیں گے تمہا رے با غ کا جو بھی پھل
کھا ئے گا پھر وہ دنیا کے کسی پھل کی طرف بھول کر بھی نہیں دیکھے گا پھر بز
رگ نے اپنے پھٹے پرانے کر تے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور روٹی کا خشک ٹکڑا با
ہر نکا لا اور کہا بیٹا پہلے تمہا ری دعوت تھی اب میری دعوت قبو ل کر و پھر
روٹی کا خشک ٹکڑا سید زادے کے منہ میں ڈال کر با غ سے چلے گئے روٹی کا ٹکڑا
جیسے ہی سید زادے کے حلق سے اترا با طن میں رنگ و نور کے پھوارے پھوٹنے لگے
نو ر کی کر نیں با طن کو روشن کر نے لگیں دنیا فضو ل لگنے لگی جسم و روح نو
ر میں ڈھلتے چلے گئے نوجوان سید زادے کا نا م حضرت خوا جہ معین الدین چشتی
تھا جو آسمان تصوف پر آفتاب چشت کے طور پر قیا مت تک کے لیے امر ہو گئے ۔
|