”کتاب محفل“ اور تقسیم ایوارڈ من جانب ادارہ علم دوست 26جنوری 2023ء

ادارہ علم دوست کی جانب سے تقریب ”کتاب محفل“ اور تقسیم ایوارڈ 26جنوری 2023ء کو فاران کلب کراچی میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں ادارہ علم دوست کی چیرئ پرسن فرحانہ اویس کو پی ایچ ڈی کی سند ملنے پرتقریب پذیرائی اور خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ صدارت راقم الحروف کے حصے میں آئی۔ ذیل میں خطبہ صدارت پیش ہے۔
”کتاب محفل“ اور تقسیم ایوارڈ من جانب ادارہ علم دوست
26جنوری 2023ء
خطبہ صدارت۔۔۔۔ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
جناب شبیر ابن عادل صا حب، چیئرپرسن ادارہ علم دوست، مہمان خصوصی، اراکین ادارہ علم دوست پاکستان، احباب گرامی تقریب تقسیم ایوارڈاعتراف خدمات ایزیکیٹو کونسل برائے سال ۲۲۰۲ء کے موقع پر تمام ایوارڈ پانے والوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ڈاکٹریٹ کی ڈگرحاصل کرپر ادارہ علم دوست کی چیئر پرسن فرحانہ اویس صاحبہ کو خصوصی ایوارڈ کی بھی دلی مبارک باد۔
کتاب:
دعوت نامہ میں بنیادی بات کتاب محفل درج ہے اس لیے پہلے کتاب کے حوالے سے چند اشعار۔ ایک شعر راقم کا ؎
اور خواہش نہیں مجھ کو بس کتابیں ہیں زندگی اپنی
کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے صہبا اختر کی ایک نظم کے چند اشعار
کتابیں اُجالوں کی دم ساز ہیں کتابیں ستاروں کی آواز ہیں
کتابون کا مقصد ہے روحانیت کتابوں کا مذہب ہے انسانیت
کتابوں کی طاقت ہیں فکر و خیال کتابوں کو ممکن نہیں ہے زوال
کتابوں کو حاصل ہے وہ اقتدار جسے چھین سکتے نہیں تا جدار
خموشی کبھی ان پہ چھاتی نہیں کتابوں کی گویائی جاتی نہیں
اب دیکھیے کتاب لکھنے والوں یعنی مصنفین کے لیے چند اشعار ؎
مصنف کتابوں کے ویراں سہی حقیر و غریب و پر یشان سہی
مگر ان کو حاصل ہے وہ سلطنت کہ پرچم کشا ہے جہاں تمکنت
کتابوں کا افسوں نہیں ٹوٹتا کبھی ان کا سورج نہیں ڈوبتا
صہبا اخترپھر کہتے ہیں۔۔۔۔
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم جوکرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا سر طاقِ فن اِ ک دیا رکھ دیا
لکھے حرف جو مجھے احترم قلم کے قبیلے کو میرا سلام
۲) فرحانہ اویس اب ڈاکٹر فرحانہ اویس کے مرتبہ پر فائز ہو چکی ہیں۔ پی ایچ ڈی کی سند کا حصول کوئی آسان کام نہیں جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے، سات سمندرپارکرنا پڑتے ہیں، سخت محنت کے بعد بھی دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہیں معلوم ریفری کیا حکم جاری فرمادیں، وائیوا میں ممتحن صاحب کچھ منفی رائے نہ دے دیں۔ اس صورت حال سے گزر کرجب ڈاکٹریٹ کے مرتبہ پر پہنچنے والا ایک نئی دنیا، ایک نئے قبیلے کا فرد بن کر سامنے آتاہے۔ اس ڈگری کا کوئی متبادل یاہم سر نہیں۔ یہ ڈگری کے حاملانسان کی شخصیت کو یکسر بدل دیتی ہے، یہاں تک کہ اس کا اپنا نام پیچھے چلا جاتا ہے اورلفظ ’ڈاکٹر‘ کا لاحقہ نام سے قبل اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ نام غائب ہی ہوجاتا ہے وہ ڈاکٹریٹ کا حامل صرف ڈاکٹر صاحب یا ڈاکٹر صاحبہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ فرحانہ اویس اور ڈاکٹر فرحانہ اویس میں بہت فرق ہے اسی انگریزی میں بہتر طور پر اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ There is a lot of differnce between Farhana Ovais and Dr. Farhana Ovais
پی ایچ ڈی کا آغاز
کیتھ ایلن نوبل کا کہنا ہے کہ پی ایچ ڈی کی سند دنیا میں سب سے پہلے قرون وسطیٰ پیرس medieval Parisمیں کوئی 1150ء میں ایوارڈ کی گئی۔ اس کے بعد 17thسینچری میں جرمنی میں اس ڈگری کے خدو خال مذید بہتر کیے گئے۔ 1650ء سے قبل جرمنی میں ڈاکٹریٹ کے آثار نہیں تھے۔ علامہ اقبال نے 1908ء میں جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کیا۔
پاکستان کی اولین ڈاکٹریٹ کی سند اپنے نام کرانے والی خاتون
پاکستان میں سے سے پہلے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی بی بی قریشیBB Qureshiنامی ایک خاتون تھیں۔ یہ اسی نام سے جانی جاتی۔ دراصل ان کانام ڈاکٹر بیگم بی بی قریشی تھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بیچلر اور ماسٹر کیا۔ ان کا تعلق ہندوستان کی ریاست یو پی کے شہر مرادآباد سے تھا۔ پاکستان ہجرت کے بعد انہوں نے Irland University Dublin سے 1960میں ایگریکلچرل اکنامکس میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر قریشی نے تین بین الا قوامی جامعات میں باقاعدہ پڑھایا اور یہ بھی کہ یہ خاتون اقوام متحدہ کے ساتویں سیکریٹری جنرل کوفی اننان جن کا تعلق گھانا سے تھا اس کی استاد بھی رہیں۔
ڈاکٹر بی بی قریشی کی کی آخری زندگی نارتھ کراچی کے ایدھی ہوم میں گزری۔ ہوا کچھ یوں کہ ان خاتون نے اپنے زندگی خدمات خلق کے لیے وقف کردی، استاد تھیں،پڑھانا ان کی زندگی تھا۔ جب ان کے عمر اسی اور نوے کے درمیان ہوگی۔ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تو انہیں خواہش ہوئی کہ انہیں سندھ کے گورنر ہاؤس میں رہنے کے لیے جگہ مل جائے۔یہ بلقیس ایدھی کے ہمراہ گورنر ہاؤس اپنی فریاد لے کر پہنچیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد اس وقت سندھ کے گورنر تھے۔ انہوں نے بی بی قریشی
اور بلقیس ایدھی سے ملاقات تو کی جس کی تصویر سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہے لیکن بی بی قریشی کی اس خواہش کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ چنانچہ بی بی قریشی نے اپنی بقیہ زندگی ایدھی کے اولڈ ہوم میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس اولڈ ہوم میں 90سال کی عمر میں 15 اگست2012ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔یہ ہے ہمارے حکمرانوں کو طرز عمل۔ عشرت العباد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے، یہ ڈگری ایک بیچلر ڈگری ہے جب بی بی قریشی نے بیچلر ڈگری کے بعد ماسٹر وہ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
سے اور پھر ڈاکٹر یٹ ڈبلین یونیورسٹی سے کیا۔ لیکن اس وقت وہ ایک صوبے کے مالک تھے اور بی بی قریشی ایک بوڑھی عورت۔
آخر میں منتظمین ِ محفل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ادارہ علم دوست کے روح رواں جناب شبیر ابن عادل صاحب اپنی صحت کی خرابی کے باعث نہ آسکے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ شبیر ابن عادل صاحب کو صحت کلی عطا فرمائے۔ بہت شکریہ (26جنوری 2023ء)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280473 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More