پاکستانی ادب کے معمار پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال :شخصیت اور فن

انہوں نے نابینا پن کو راستے کی دیوار نہیں بنایا بلکہ ہر رکاوٹ کر پاؤں کی ٹھوکر سے ختم کرکے آگے بڑھتے چلے گئے

پاکستانی ادب کے معمار ، پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال : شخصیت اور فن ۔ یہ کتا ب جناب شاہد بخار ی کی شاہکار تخلیق اور تحریر ہے ۔بخاری صاحب بظاہر تو وکیل ہیں کیونکہ انہوں نے 1970ء میں پہلے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا پھر 1972ء میں ایم اے اردو کی ڈگری بہترین نمبروں سے حاصل کی ۔آپ 18دسمبر 1949ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے جہاں اس وقت ان کے والد گرامی سمیت پورا خاندان قیام پذیر تھا ۔آپ نے پہلی ملازمت بطور اردو لیکچرار گورنمنٹ کالج سرگودھا میں کی ۔بعد ازاں آپ الائیڈ بنک لمیٹڈ میں 24 سال ملازمت کرتے رہے ۔اسرار زیدی کی وفات کے بعد آپ 2016ء سے ہفت روزہ "اخبار جہاں "میں لاہور کی ادبی سرگرمیوں کی کوریج کرتے رہے ۔جب آنکھوں میں کالا موتیا اترآیا تو ادبی محفلوں میں جانا بھی چھوٹ گیا ۔آپ کی تصانیف اور تالیف میں (1) قرآنی اوامرونواھی 2004۔(2)بیاض دل 2005۔ (3)جنت کا راستہ 2007۔(4)حرف تمنا 2008۔ (5) تعلیمات قرآنی 2007۔(6)نورالھدی 2020شامل ہیں ۔ مذکورہ بالا کتاب بخاری صاحب کی تازہ ترین تخلیق اور تحریر ہے جسے اکادمی ادبیات پاکستان نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے ۔

ڈاکٹر یوسف خشک چیرمین ادبیات پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال بینائی کی نعمت سے محروم ہونے کے باوجود نہ صرف تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں بلکہ اشاعتی و دیگر ادبی سرگرمیوں میں بھی پوری تندہی سے مصروف عمل ہیں اور ایک مدت سے رسالہ "سفید چھڑی"کی ادارت سنبھالے ہوئے ہیں ۔انہوں نے اپنی معذوری کو کمزور ی نہیں بننے دیا بلکہ اس کے برعکس اسے اپنی قوت بنا لیا ہے ۔ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایک عمدہ استاد اور مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ باکمال شاعر، مترجم اور نقاد بھی ہیں ۔ اردو ہی نہیں انگریزی ، پنجابی اور فارسی میں بھی انہوں نے طبع آزمائی کی ہے ۔ اب تک ان کی دو درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال عزم وہمت اورجہد پیہم کی ایک مثال ہیں ۔

شاہد بخاری پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ میں پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بہت قریب سے جانتا ہوں ۔میرے والد سید محمد شاکر اورڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے والد شیخ اﷲ دیا کا تعلق مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال سے تھا ۔اور وہ ہجرت کے بعد سرگودھا میں آملے ۔اس طرح دونوں خاندانوں کا ایک باہمی تعلق پیدا ہوگیا ۔بعد ازاں سرگودھا کے جس گورنمنٹ کالج میں ڈاکٹر شیخ اقبال پڑھاتے رہے ہیں، اسی کالج میں ،میں بھی پڑھتا اور پڑھاتا رہاہوں ۔اس طرح ڈاکٹر شیخ محمد اقبال سے ایک قلبی رشتہ استوار ہوتا چلا گیا۔ پھر جب وہ 2003ء میں لاہور رہائش پذیر ہوئے تو پھر صبح و شام ان سے ملنا اور علمی و ادبی محافلوں میں اکٹھے جانا ایک معمول بن گیا ۔ڈاکٹرشیخ محمد اقبال کی شخصیت میں جو تنوع اور بوقلمونی ہے، اس کا احاطہ کرنا کار محال ہے وہ نہ صرف ممتاز شاعر ہیں بلکہ ایک منجھے ہوئے نثر نگار بھی ہیں اور ایک قدآور نقاد اور مترجم بھی ۔انہوں نے افسانے بھی تحریر کیے اور انشایئے بھی ۔ اور فخر کی بات تو یہ ہے کہ چاروں زبانوں ( اردو، انگریزی ، پنجابی اور فارسی ) میں بھی عمدہ کلام کہا ہے۔چونکہ وہ خود اور ان کے دو بھائی اور ایک بہن نابینا ہو گئے تھے اس لیے انہیں معلوم تھا کہ نابینائی کے عذاب کیا ہوتے ہیں۔ اس کے چرکے کتنے شدید ہوتے ہیں ، معاشرے میں نابینا شخص کس طرح پارہ پارہ ہو کر رہ جاتا ہے ۔اس لیے ان کی جمالیاتی حس نے بے بصر، حضرات کے جلال و جمال کو بھی محسوس کیا ، انہیں خود کفیل بنایا اور ازدواجی زندگی سے منسلک کرایا ۔اس طرح ان کی تعلیم و تدریس اور بحالی کے حوالے سے بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں جس کا تفصیلی ذکر ناگزیر ہے ۔

ہم ہیلن کیلراور ڈاکٹر طہ حسین پر بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ڈاکٹر محمد اقبال بھی ایسی ہی عزت وتکریم کے مستحق ہیں ، جو ہیلن کیلر اور ڈاکٹر طہ حسین کو ملی ۔یادرہے کہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو کئی میدانوں میں اولیت حاصل ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے پہلے ایم۔اے انگریزی کرنے والے نابینا ہیں اور نابینائی کے حوالے سے انہیں یہ اولیت حاصل ہے کہ وہ پاکستان بھر میں پہلے انگریزی کے لیکچرار تعینات ہوئے۔ پھرایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی شخصیت ہیں ۔ چونکہ وہ سات آٹھ سال کی عمر میں بینائی کھو بیٹھے تھے اس لیے وہ کئی حوالے سے پاکستان کے پہلے نابینا شاعر اور نثر نگار بھی ہیں جن کی مختلف موضوعات پر کوئی 26تصنیفات شائع ہوچکی ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ موصوف 1956ء میں ایمرسن انسٹی ٹیوٹ فاردابلائنڈ ۔شیرانوالہ گیٹ لاہور) میں داخل ہوئے اور چار سال یہیں زیرتعلیم رہے۔اسی دوران انہوں نے چند احباب کے ساتھ کرکٹ جیسے کھیل کو پہلی بار نابیناؤں میں متعارف کرایا ۔بعد ازاں پاکستان کی نابیناکرکٹ ٹیم، دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔

ادبی خدمات
پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب شاہد بخاری لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی ادبی خدمات کے جانے کتنے پہلو ہیں ، کتنی وسعتیں ہیں۔ انہوں نے صرف ادب کی ایک صنف میں طبع آزمائی نہیں کی، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سوائے ناول اور سفرنامے کے انہوں نے ادب کی کسی صنف کو تشنہ نہیں چھوڑا ۔اس لیے ان کی ادبی خدمات پر قلم اٹھاتے ہوئے بڑی وسعت قلبی اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ مضمون پر مضمون ، نثر میں بھی جو کچھ انہوں نے تحریر کیا وہ بذات خود بڑی توجہ کا مستحق ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ شاعری کے میدان میں ہی گامزن نہیں بلکہ اسی کامیابی اور سرعت کے ساتھ نثر میں بھی انہوں نے اپنے دل و دماغ کی جانے کتنی صلاحیتیں صرف کی ہیں ۔ان کی شاعری کے مجموعے 9 ہیں ۔سات اردومیں ، ایک انگریزی اور ایک پنجابی میں ۔ان کی کچھ غزلیں فارسی میں بھی ہیں ۔بہت کم شعرا ء ایسے ہونگے جنہوں نے ان چاروں زبانوں میں بڑی کامیابی سے طبع آزمائی کی اور جریدہ حیات پر اپنے نقوش ثبت کیے ہوں گے ۔ان کی ایک کتاب"ساحل تشنہ لب"کے حوالے سے ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی لکھتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال کا مجموعہ کلام "ساحل تشنہ لب " دیکھ کر یہ قدیم حقیقت پھر سے منکشف ہوتی ہے کہ روشن طبع کا دارو مدار بصارت پر نہیں، بصیرت پر ہے ۔ پروفیسرڈاکٹر عاصی کرنالی لکھتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال کی غزلیات کا دستیاب مجموعہ "ساحل تشنہ لب "میں شامل غزلوں میں روایت کی پاسداری بھرپور انداز میں ملتی ہے ۔انہوں نے ایسی غزل کہی جیسی حقیقی معنوں میں غزل ہوتی ہے ۔ایک اور کتاب "سوالیہ نشان "کے حوالے سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال کا مجموعہ کلام پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے انہیں سوچوں کی بینائی عطا کرکے ان کے قلب وذہن کو فکرو خیال سے منور کرنے میں فیاضی اور فراخدلی دکھائی ہے ۔یہ دل بیناہی کا کرشمہ ہے کہ شاعر کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہنے کی بجائے پوری زندگی اور پورے عصر کا آئینہ بن جاتی ہے ۔اس اعتبار سے شیخ محمد اقبال ایک کامیاب نباض ہیں۔

ممتاز اردو اور پنجابی کے شاعر روحی کنجاہی ، شیخ محمد اقبال کی شاعری کی کتاب "اس کے نام"پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شیخ محمد اقبال ایک قادرالکلام اور جواں فکر شاعر ہیں۔ ان کا مشاہدہ کچھ اتنا عمیق اور گہرا ہے کہ کسی بڑے بینا شاعر کا بھی کیا ہوگا۔بظاہر وہ نابینا ہیں مگر ان کا ذہن ، سینہ ، نس نس اور حرف حرف روشن و تابندہ ہے انہیں انسانی نفسیات ، جذبات و احساسات کا عمیق ادراک حاصل ہے ۔نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی کتاب "ابھی زندگی کا جواز ہے" پر رقمطراز ہیں کہ یہ کتاب بیک وقت کئی شعری محاسن اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے ۔ مثلا چھوٹی بحر میں تیکھے ، ترچھے اور احسا س میں کھب جانے والے پختہ اور جمے ہوئے شعر اور پھر ان میں تخلیقی ہنرمندی اور فکری تازگی قاری کو متاثر کرتی ہے ۔

کتاب" تلاوت دل" ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اپنی والدہ کے نام انتساب کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔اگر والدہ مرحومہ کی محبتیں اور شفقتیں نہ ہوتیں تو گلشن حیات میں کوئی بھی پھول دکھائی نہ دیتا ۔ خار ہی خار ہوتے یا میں نہ ہوتا ، اﷲ تعالی انہیں ابدی نیند میں سکون اور راحت دے اور ان کی بخشش فرمائے ۔آمین۔مصنف کتاب شاہد بخاری لکھتے ہیں کہ مجھے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے بتایا کہ "تلاوت دل"کا اکثر کلام ماہ صیام میں ہوا ۔ بالخصوص وقت سحر ۔بس یہ سعادت اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی بے پناہ محبت نے عطا فرمائی۔ڈاکٹر صاحب کی رائے میں سیرت نبی کریم ﷺ پر عمل قوم کے سارے دکھوں کا مداوا ہے۔حافظ لدھیانوی جنہوں نے "تلاوت دل"پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈاکٹر صاحب نے دل کے نور سے یہ آیات لکھی ہیں ،یہ قلبی واردات کا پہلا مجموعہ ہے۔

"ناں عشق نو لیکاں لائیں "یہ پنجابی زبان کا ایک منفرد مجموعہ اے ۔شاعر اور ادیب اسلام شاہ لکھتے ہیں کہ "اوہناں "دے ایس کلام نوں تک کے ایہ مننا پیندا اے ۔جے اوہ پنجابی شاعری نوں اپنی علمیت نال مالا مال کررہے نیں۔ایڈی وڈی شخصیت دا پنجابی شاعری ول توجہ دینا پنجابی ادب لئی اک سرمایہ تے ایس ادب وچ خوبصورت وادھا اے ۔

فارسی شاعری ۔ ڈاکٹر صاحب کے سوانح نگار تصور اقبال لکھتے ہیں ۔ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے اردو اور انگریزی میں خوبصورت شاعری تخلیق کی ہے، اسی طرح پنجابی اور فارسی میں بھی اپنے احساسات و جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے ۔گو کہ ڈاکٹر صاحب کا پنجابی اور فارسی کلام مقدار میں کم ہے لیکن تھوڑا اور ستھرا کے مصداق معیار پر پورا اترتا ہے اور یہی اچھے کلام کی خوبی ہے ۔

انگریزی شاعری ۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پروفیسراقبال پر انگریزی شاعری کا اثر زیادہ ہوا یا اردو شاعری کا۔انسان طبعا اور مزاجا اپنی زبان اور اپنے ادب کا پرستا ر ہوتا ہے۔"Love Not Crime "۔ پر گفتگو کرتے ہوئے سکواڈرن لیڈر (ر) اشفاق نقوی لکھتے ہیں کہ Love's not Crimeسچ پوچھیئے تو یہ شاعری ڈاکٹر اقبال کے رومانی اور کلاسیکی تصورات کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور ما بعد یدت کی تمام رعنائیاں اور نکہتیں سمیٹتی ہوئی نظر آئی ہے ۔ بڑی چھوٹی نظموں بڑے بڑے خیالات کو انتہائی دلکش انداز میں پیش کرتی ہیں ۔

نثر نگاری ۔ڈاکٹر اقبال نے جہاں شاعری کے نو مجموعے قارئین کی نذر کیے ہیں تو وہاں ایک درجن سے زائد نثری کتب بھی تحریر کی ہیں ۔بعض قارئین کے نزدیک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بڑے شاعر ہیں یا بڑے نثر نگار ۔نثر میں ان کی کتابوں کے نام ذوق تماشا ، دیدہ دل ، کب رات بسر ہو گی ، آشوب آگہی ، مجھے ہے حکم اذاں ، یا اﷲ ۔ذوق تماشا ۔پروفیسر عظمت اﷲ خان اس کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے مضامین ہر چند سنجیدہ نوعیت کا رنگ رکھتے ہیں تاہم مصنف کی طبیعت کی شگفتگی ہرمضمون میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔
...........
ماشا اﷲ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے اردو ، پنجابی ، فارسی اور انگریزی ادب کی ہر صنف میں اپنی علمیت سے لوھا منوانے کی ہر ممکن کامیاب کوشش کی ہے ۔ سوانح عمری ، انشائیہ نگاری ، افسانہ نگاری ، ترجمہ نگاری ، علم النفسیات ، گیت نگاری ، ادبی تنظیم "بزم فکر و خیال"، موسیقی سے دل بستگی ، براڈ کاسٹنگ ، صحافت سمیت تمام شعبہ ہائے ادب و زندگی میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے رکھے ۔اس کتاب کو جسے جناب شاہد بخاری نے اپنے خون جگر سے کچھ اس طرح تحریر کیا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر اقبالِ کی زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ قارئین کے سامنے مخفی رہنے دیا ہو ۔یہاں میں جناب شاہد بخاری کو اس خوبصورت کتاب کو تحریر کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں وہاں پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمداقبال کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کروں گا جنہوں نابینائی کو راستے کا پتھر نہیں بنایا بلکہ اﷲ کی عطا کردہ فہم و فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو ، پنجابی ، فارسی اور انگریزی کی شاعری میں ایسے پھول کھلائے ہیں جن کی خوشبو رہتی دنیا تک پورے عالم کو منور کرتی رہے گی ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.