ابھی کچھ عرصہ قبل ہی سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ
اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا ہے۔ رواں سال ورلڈ اکنامک فورم کے
سالانہ اجلاس کا موضوع "منقسم دنیا میں تعاون کو مضبوط بنانا" رہا۔ فورم
میں شرکاء نے توانائی اور خوراک کے حالیہ بحران کے حل ، بڑھتی ہوئی افراط
زر اور قرضوں کی صورت حال ، صنعتی بحران، سماجی کمزوریوں اور موجودہ
جغرافیائی سیاسی خطرات سے نمٹنے سے متعلق مفصل تبادلہ خیال کیا۔
عالمی معیشت کی موجودہ مایوس کن صورتحال اور کساد بازاری کو دیکھا جائے تو
"منقسم" سے بہتر کسی دوسرے لفظ میں اظہار نہیں کیا جا سکتا ہے۔یہ ایک حقیقت
ہے کہ بڑھتی ہوئی تجارتی رکاوٹیں، کمزور رسدی اور صنعتی چینز اور بڑے
علاقائی تنازعات، اقتصادی گلوبلائزیشن سے متعلق اتفاق رائے اور عالمی معیشت
کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اکثر حلقے ایسے بھی ہیں جو اقتصادی
گلوبلائزیشن کو مواقع کے بجائے پنڈورا باکس کہہ رہے ہیں۔دوسری جانب چین
جیسے بڑے ملک کے رہنما شی جن پھنگ کا موقف ہے کہ اقتصادی گلوبلائزیشن وقت
کا رجحان ہے جسے روکا نہیں جا سکتا ہے۔یہ اقتصادی گلوبلائزیشن ہی ہے جس نے
ممالک کو اپنی تقابلی خوبیوں کو ظاہر کرنے، ایک دوسرے کی منڈیوں کا اشتراک
کرنے، اور ٹیکنالوجیز، خدمات، محنت اور سرمایہ کاری تک بہتر رسائی حاصل
کرنے کی اجازت دی ہے، ان سب عوامل نے بالآخر مجموعی طور پر دنیا کی
پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے.
تاہم، اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت موجودہ منظر نامے میں
اقتصادی گلوبلائزیشن میں بہت سے نقائص موجود ہیں.ان میں ایک نقص غیر مساوی
تقسیم ہے۔ جب عہد حاضر کے جدید رجحانات کی روشنی میں عالمی تجارت کا آغاز
ہوا، تو اقتصادی گلوبلائزیشن کی تحریک بنیادی طور پر مٹھی بھر ممالک کی
جانب سے چلائی گئی تھی، جنہوں نے زیادہ تر فوائد حاصل کیے.یہ ٹھیک ہے کہ اس
سے کسی حد تک عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملا ہے، لیکن زیادہ تر
ثمرات ترقی یافتہ دنیا میں چلے گئے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ابھرتی
ہوئی منڈیوں اور معیشتوں نے اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔اسی باعث اقتصادی
گلوبلائزیشن اب ترقی یافتہ ممالک کے لئے اپنی مرضی کے مطابق دولت حاصل کرنے
کا ایک آسان آلہ نہیں ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے چین اقتصادی
گلوبلائزیشن کے لئے ایک فعال رہنما رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں چین نے
بیرونی دنیا کے لیے اپنے دروازے وسیع کیے ہیں اور یکطرفہ پسندی اور تحفظ
پسندی کی مخالفت کی ہے۔ چین نے ہر عالمی و علاقائی پلیٹ فارم پر اقتصادی
گلوبلائزیشن کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنے اور مشترکہ کوششوں کی
بھرپور حمایت کی ہے۔چین نے ہمیشہ تمام فریقوں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک پر
زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لئے اپنی مدد و حمایت میں مزید مضبوطی
لائیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ چینی کمپنیوں اور ان کے غیر ملکی پارٹنرز
کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ جیسے اقدامات کے تحت دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے
کو ترقی دی گئی ہے ،توانائی منصوبوں کی تکمیل سمیت پل اور سڑکیں مشترکہ طور
پر تعمیر کی گئی ہیں، سماجی بہبود کے منصوبوں کو عمل میں لایا گیا ہے اور
ترقی پزیر ممالک تک خوشحالی کے حقیقی ثمرات پہنچائے گئے ہیں۔دنیا کی جانب
سے بیلٹ اینڈ روڈ سمیت چین کے مجوزہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی حمایت
اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جیسے اداروں کے کامیاب آپریشن نے
واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ اقتصادی گلوبلائزیشن کوئی "زیرو سم گیم" نہیں
بلکہ باہمی طور پر فائدہ مند ہے، دنیا کی دیگر اہم طاقتوں کو بھی چین سے
سیکھتے ہوئے دنیا کی مشترکی ترقی کو آگے بڑھانا چاہیے اور محض ذاتی مفادات
کے حصول بجائے اشتراکی نکتہ نظر سے عالمی مسائل کے حل میں تعمیری کردار ادا
کرنا چاہیے۔
|