ننگے ، گنجے اور ملک قوم کی خدمت


اردو کاایک محاورہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں. اب پتہ نہیں کہ جس وقت یہ محاورہ کس وقت کہا گیا ا س وقت کیا صورتحال ہوگی لیکن اگر ہم وقت کی مناسبت سے یہی کہیں کہ اس حمام میں سب گنجے ہیں تو یہ موجودہ دور سیاست پر فٹ آتی ہیں جو گنجے نہیں وہ گنجا ہونا چاہتے ہیں کہ شائد انہیں میدان سیاست میں آگے آنے کا موقع ملے.ویسے بھی ننگا ہونا کسی کو پسند نہیں ، البتہ دوسروں کو ننگا کرنا پسند کرتا ہے لیکن یہ ایسا لفظ ہے کہ اسے لکھتے اور سوچتے ہوئے بھی عجیب سا لگتا ہے کہ اسی وجہ سے اب ننگا کی جگہ گنجا لکھا جائے تو بہتر ہوگا. ایک زمانے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جو لوگ گنجے ہوتے ہیں ان کے پاس مال و دولت زیادہ ہوتی ہیں .شائد جس وقت یہ کہا گیا اس وقت یہ صورتحال ہوتی ہوگی لیکن اب یہ کم ازکم نہیں. کیونکہ پیدائشی گنجوں کیساتھ وقت نے بہت سارے گنجوں کو آشکارا کردیا ہے لیکن یہ گنجے پھر بھی نہیں سمجھ رہے.

اپنے ملک میں سیاست کا حال بھی طوائف کے کوٹھے جیسا ہے جیسے طوائف کے کوٹھے پر ہر کوئی آتا ہے ، پیسہ پھینکتا ہے اور طوائف کو نچانے پر مجبور کرتا ہے بس یہ صورتحال پاکستان کے میدان سیاست کی ہے لیکن یہاں صورتحال ذرا سی مختلف ہے طوائف کے کوٹھے پرپہنچنے کیلئے ہر کوئی میدان سیاست میں گنجا ہوتا ہے او رپھر یہی گنجے پورے پاکستان کو طوائف سمجھ کر نچاتے ہیں البتہ پیسہ پھینکتے نہیںبلکہ اس کے مقابلے میں پیسے سمیٹ کر لے جاتے ہیں یعنی یہ طوائف کے مال کو اکٹھے کرنے والے "دلال"ہیں جو اپنا جیب بھرنا ہی جانتے ہیں.

پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں پر مخصوص خاندان خواہ وہ پنجاب کے ہوں ، سندھ کے ہوں یا پھر خیبر پختونخواہ کے ، اصل میں حکمران ہیں اور یہی لوگ اصل میں حکومت کرتے ہیں ان کے پاس دولت کے انبار ہیں ملک کی موجودہ صورتحال میں ہر روز نئی سے نئی خبر آتی ہے کہ ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر اتنے رہ گئے ہیں یہ ملک کی اقتصادی بدحالی کا حال ہے لیکن مجال ہے کہ چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی خاندان نے اٹھ کر یہ اعلان کیا ہو کہ ہم نے جو مال کے انبار یہاں سے جمع کئے ہیں یا یہاں سے لوٹ کر لے گئے ہیں اس مملکت پاکستان میں واپس لا رہے ہیں تاکہ ملک کی صورتحال بہتر ہوں..

بچپن میں جب ہمارے داجی گل حجرے میں آنیوالے ہیرڈریسر سے ہمیں بالوں سے فارغ کردیتے تو سب سے پہلے یہی ہیئر ڈریسر ہمارے گنجے سر پر "چپت "مار کر کہتا کہ چلو اب مزے کرو ، ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ "کٹا" ہونے کے بعد کیسے مزے ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد گھر جاتے تو بھی سر پر چپت پڑتی ، چچا کے گھر جاتے تو بھی چپت پڑتی محلے اور دوستوں سے بھی گنجے سر پر چپت پڑتی یا دوسرے دن سکول جاتے تو ہر کوئی "کٹا دے کٹا دے"کے نعرے لگا کر اوپر "چپت "بھی مارتا اور یہی کہتا کہ "دا محلے قصور دے" پتہ نہیں اس کا مطلب کیا تھا کہ چپت پڑنے کے بعد غصہ بھی آتا لیکن چھوٹے تھے اس لئے خاموش رہتے.

ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ کو کہیں پر کنگھے کی ضرورت پڑے تو "کنگھا"آپ کو لازما کسی گنجے کے پاس ہی ملے گا کیونکہ گنجے اپنے بالوں کے معاملے میں بہت زیادہ حسا س ہوتے ہیں جتنے بھی چار دس بال ہوں انہیں بڑے قرینے سے سیدھا رکھتے ہیں ، ہمارے ایک صحافی دوست جن کے سر پر بال نہیں جب کہیں لائیو بیپر کیلئے کھڑے ہوتے تو پہلے سائیڈ وال جیب سے کنگھی نکالتے اور اپنے پچیس سے پچاس بال ٹھیک کرتے ، ہم پوچھتے کہ یہ کیا کررہے ہو تو جواب ملتا کہ یار لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں ، کبھی کبھار اگر کہیں پر کسی خاتون کسی محفل میں آجاتی تو پھر اپنے بالوں کو ٹھیک کرنے میں مصروف عمل ہوجاتے.شائدوہ اب تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان کی خوبصورتی گنج چھپانے میں ہیں.

یقینا آپ کو بلاگ پڑھ کر اندازہ ہوا ہوگا کہ ننگے اور گنجے میں کتنی مماثلت ہے.دن دن قبل جیل کو اپنا سسرال قرار دینے والے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو جب گھر سے گرفتار کیا گیا تو ان کی گرفتاری کے بعدانہوں نے جو زبان استعمال کی وہ انتہائی شرمناک ہے ، اپنے آپ کو بارہ مرتبہ وزیر کہلوانے والے صاحب نے ایک پارٹی کے سربراہ کے حوالے سے کہا کہ وہ آگے سے پرویز اور پیچھے سے پروین ہے یقینا انہیں اسی زبان درازی کی وجہ سے اب تک کی حکومتوں میں لیا جاتا رہاورنہ ان کے پاس ڈگری کوئی نہیں ، ان کی زبان درازی سے پتہ چلا کہ یہ اپنے آپ کو "ایلیٹ کلاس"سمجھتے ہیں اور شائد قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں اسی وجہ سے ان کا رویہ اور زبان مسلسل مغلظات بک رہی تھی جو بارہ مرتبہ وزیر رہنے والے شخصیت کے شایان شان نہیں تھی. حالانکہ ان کی گرفتاری کے بعد پوری پارٹی جیل پہنچ گئی کیونکہ اپنی پارٹی کے وہ واحد چیئرمین ، صدر ، سیکرٹری اور کارکن بھی ہیں اور اسی ایک رکنی پارٹی نے سابق حکومت میں اہم عہدہ بھی حاصل کرکے حکومت کے مزے لئے .ویسے جن کو آج کل چپتیں پڑھ رہی ہیں وہ اپنے آپ کو گنجا سمجھ لیں کہ "یہ محلے کا قصور ہے" یعنی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھ لیں تو غصہ بھی نہیں آئیگا.

مدینہ کی ریاست اور تبدیلی کے دعویدار ایک اور صاحب نے عمرے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں عمرہ کرنے کی اجازت دی جائے ساتھ میں انہوں نے ٹوئٹر پر یہ بھی کہا ہے کہ ان کے بڑ ے بیٹے کو سیاست پسند نہیں ، یعنی دس سال تک خیبر پختونخواہ میں حکومت کے مزے کرنے والے اور وفاق میں بھی مزے کرنے والوں کو اب سمجھ آرہی ہیں کہ سیاست چھوڑ دینی چاہئیے ، آخر اس ملک کے عوام کا کیا قصور ہے اس سے قبل کے حکمرانوں نے بھی عوام کا بیڑہ غرق کردیا اور اس کے بعد آنیوالوں نے بھی عوام کی چیخیں نکال دی ، ملک کی اقتصادی صورتحال کا دیوالیہ نکال دیا ہے لیکن ان کے دل نہیں بھر رہے ، روزانہ کی بنیاد پر ملک کی اقتصادی صورتحال سے متعلق بری خبریں آرہی ہیں لیکن کسی کو پروا ہی نہیں.

گذشتہ روز سابق صدر پرویز مشرف کا بھی انتقال ہوا ان کے بارے میں مرحوم جسٹس سیٹھ وقار نے ایک فیصلہ کیا تھا اب پتہ نہیں کہ اس پر عملدرآمد ہوتا بھی ہے کہ نہیں ، لیکن ان کے انتقال کے بعد بہت سارے" نودولتیے" اب ننگے سوری گنجے ہو کر میدان سیاست میںانٹری مارنا چاہتے ہیں اور گنجوں کی محفل تک رسائی کیلئے "خوشامد"کی راہ اپنا رہے ہیں تاکہ اس حمام میں گنجے ہوکر شامل ہوں اور ملک و قوم کی خدمت کرسکیں.
#political #view #kikxnow #digitalcreator #sports #tabdeeli #madenakeriasat #poitics

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422244 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More