|
|
ایک زمانے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جس کے
بعد اسلام کی آمد کے بعد بیٹیوں کو ان کے حقوق دیے گئے اور کم از کم ان کو
پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دینے کی رسم کا تو خاتمہ ہو گیا- مگر ضروری نہیں
ہے کہ قبر میں ڈال کر ہی ان کی جان لی جائے بعض اوقات ہمارے کچھ فیصلے
بیٹیوں کو زندہ درگور بھی کر دیتے ہیں۔ آج کل ہمارا میڈيا اپنے ڈراموں کے
ذریعے ایسے ہی کچھ فیصلوں کا پرچار کرتا نظر آرہا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے
کہ حالات کچھ بھی ہوں بندہ کیسا بھی ہو مگر والدین کو طے شدہ وقت میں بیٹی
کا نکاح ضرور کروانا چاہیے- |
|
ڈرامہ یہ نہ
تھی ہماری قسمت |
اس طرح کے نکاح کی کہانی حالیہ دنوں میں سب
سے پہلے ڈرامہ یہ نہ تھی ہماری قسمت میں نظر آئی جب کہ حرا مانی اپنی شادی
والے دن بیوٹی پارلر سے جب گھر شادی ہال آرہی ہوتی ہے تو اس کی گاڑی کا
ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے اور اس وجہ سے ڈکیت اس کا موبائل وغیرہ چوری کر لیتے
ہیں اور اس کے آنے میں تاخیر کے سبب اس کے والدین چھوٹی بہن کا نکاح اس کی
جگہ پر کروا کر اپنی عزت بچا لیتے ہیں- اور جب لٹی پٹی حرا مانی آتی ہیں تو
ایک بار پھر ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس کا نکاح اس کے سابقہ
منگیتر کے ناکارہ کزن منیب بٹ سے کروا دیا جاتا ہے- |
|
اس طریقے سے ایک جانب تو یہ پیغام جا رہا ہے کہ صرف نکاح کے چند بولوں کے ساتھ جو
کہ کسی کے ساتھ بھی ہو والدین اپنی عزت محفوظ کر لیتے ہیں بغیر یہ جانے کے حالات
کیا ہو سکتے ہیں اور کیا یہ بندہ اس قابل بھی ہے کہ ان کی بیٹی کو سنبھال سکے بس
والدین کے اندر یہ سوچ پیدا کی جا رہی ہے- |
|
|
|
کیسی تیری خودغرضی |
اسی طرح کا والدین کی عزت بچانے والا ایک نکاح کیسی تیری
خود غرضی میں بھی دکھایا گیا جب کہ ایک امیر بگڑا نوجوان دانش تیمور ایک
متوسط طبقے کی لڑکی درفشاں کے حصول کو اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور
اس کے والدین بھی اپنی جان بچانے کے لیے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کو
اپنی بیٹی کا نکاح اس نوجوان کے ساتھ کر دینا چاہیے جو ان کی جان کو آیا
ہوا ہے- اور اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس نوجوان سے کر دیتے ہیں اور
اس ڈرامے کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ بھی تھا کہ وہی نوجوان جو ایک جانب
تو اتنا بگڑا ہوا تھا اور نکاح ہوتے ہی ایک ہیرو بن جاتا ہے اور ان کی بیٹی
کے سر کا سائبان بن جاتا ہے- |
|
ڈرامہ تیرے بن |
زبردستی کے نکاح کی ایک اور مثال حالیہ دنوں میں ٹاپ
ٹرینڈ ڈرامے تیرے بن میں بھی نظر آئی جب کہ یمنیٰ زیدی کو جوان ہونے کے بعد
یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ جس کو ماں باپ کہہ رہی ہے درحقیقت اس کے ماں باپ نہیں
ہیں اور اس کے اصل والد اس کا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ کر دینے کا اعلان
کر دیتا ہے جس کو مجبوراً نہ صرف یمنیٰ زيدی تسلیم کر لیتی ہے بلکہ ڈرامے
کی کہانی میں بھی یہی نظر آرہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس نکاح کو
نہ صرف قبول کر لے گی بلکہ ہنسی خوشی رہنے بھی لگے گی- |
|
ڈرامہ مجھے
پیار ہوا تھا |
لڑکا کسی بھی وجہ سے اگر دیر سے پہنچتا ہے تو
نکاح تو ہر حالت میں کرنا ہے اس وجہ سے جو بھی پہلا شخص نظر آئے اس سے بیٹی
کی شادی کر دو تاکہ عزت محفوظ رہ سکے- اس ڈرامے کے مطابق لڑکی یعنی ہانیہ
عامر کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ اس نے یہ سوچا کہ اس کو اپنے بہت پیار
کرنے والے کزن کے بجائے ایک ایسے لڑکے سے شادی کرنی ہے جو کہ بہت پیسے والا
اور اس کو پیار کرنے والا ہے- مگر اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے جب وہ وقت
پر بارات لانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو ہانیہ کے والدین کو یہ فکر ہو جاتی
ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور انہوں نے اسی وقت میں نکاح تو کرنا ہی تھا کہ
اپنی عزت کو بچا سکیں اس وجہ سے انہوں نے اپنی عزیز جان بیٹی کا نکاح اس
لڑکے کے ساتھ کر دیا جس سے وہ شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھی- |
|
|
|
حاصل مطالعہ |
یاد رہے کہ میڈیا کا معاشرے کی ذہن سازی میں
بہت اہم کردار ہوتا ہے اور ان تمام ڈراموں کو دیکھ کر یہ محسوس ہو رہا ہے
کہ ڈرامہ بنانے والے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بیٹیاں ایک بوجھ ہوتی ہیں اور
ان سے جان چھڑانے کے لیے نکاح ایک بہترین طریقہ ہوتا ہے- |
|
یہ نکاح کسی کے ساتھ بھی بھی ہو وقت کے ساتھ
کچھ عرصے تک تناؤ ہوتا ہے اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے-
بگڑا ہوا لڑکا بھی سدھر جاتا ہے اور اگر نہ بھی سدھرے تو آپ کی بیٹی وقت کے
ساتھ ساتھ سمجھوتہ کرنا سیکھ ہی لیتی ہے اس وجہ سے زبردستی کا نکاح کوئی
بری بات نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت میں تو زبردستی کے نکاح کی گنجائش ہمارے مذہب
میں بھی موجود نہیں ہے- لہٰذا لوگ کیا کہیں گے کی پرواہ کرنے سے قبل یہ
ضرور سوچ لیں کہ کیا یہ آپ کی بیٹی کے لیے مناسب ہے یا نہیں کیوں کہ معاشرہ
ہم سب سے بنتا ہے اس کی سوچ کو بنانے والے بھی ہم خود ہی ہیں- |
|