میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
قران مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
ترجمہ کنزالایمان :" یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تبارک وتعالی
نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے"۔ ہم آج حسد پر بات کریں گے حسد کے لغوی معنی
کسی دوسرے کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان ہونے کی خواہش
رکھنا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تبارک وتعالی نے کسی کو اپنی کچھ دنیاوی
نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں جیسے گاڑی ،بنگلہ اور بے شمار مال ودولت تو اس کی
خواہش ہوگی کہ وہ سب کچھ اس سے چھن جائے جس کی وجہ سے اسے راحت ملے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اصل میں دین سے دوری اور دین کے متعلق
معلومات یا تعلیمات نہ ہونے کے اسباب میں بھی ایک سبب حسد ہے ہمارا یہ
ایمان ہے اور ہونا ہی چاہئے کہ اگر کسی کی تقدیر میں اچھا لکھا ہوا ہے یا
اچھا نہیں لکھا ہوا یہ سب اللہ تبارک وتعالی کی مرضی اور منشاء پر منحصر ہے
جو دو جہاں کا خالق و مالک ہے اور ہمیں اس کی تقسیم پر بھی راضی رہنا چاہئے
اور ویسے بھی اپنی نعمتوں کا کسی سے موازنہ کرنا اپنے ایمان کی کمزوری ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب اللہ تبارک وتعالی کے حکم پر حضرت نوح
علیہ السلام اپنے وفادار امتیوں کو لیکر کشتی میں سوار ہونے لگے تو ایک
بوڑھے آدمی کی شکل میں شیطان کو دیکھا ( یہ مکمل واقعہ میری تحریر شیطان کے
مکروفریب میں میں نے تحریر کیا ہے ) آپ علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ
تو انسان پر کس طرح کنٹرول حاصل کرتا ہے تو اس نے کہا کہ میرے پاس انسان کو
کنٹرول کرنے کا سب سے بڑا ھتیار حسد ہے میں اس کو حسد جیسی خطرناک بیماری
میں مبتلہ کردیتا ہوں جس کی وجہ سے وہ میرے کنٹرول میں آجاتا ہے وہ حسد کی
آگ میں اپنی ساری نیکیاں تباہ و برباد کردیتا ہے اور میں خوش ہوتا ہوں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے کہ حسد کرنا صرف دو صورتوں میں جائز ہے پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی
ایسا شخص جو مالدار بھی ہو اور صاحب تقوہ بھی اللہ تبارک وتعالی نے اسے بہت
سا حلال مال دیا ہو اور وہ اسے اللہ تبارک وتعالی کی راہ میں خرچ کرے تو وہ
کہے کہ کاش اللہ رب العزت اسے بھی ایسی نعمت عطا کرے اور وہ بھی ایسا کرے
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی عالم شخص ہو جسے اللہ رب العزت نے علم نافع سے
نوازا ہو جس پر وہ خود بھی عمل کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا
ہو اور اپنے اس علم کی بدولت لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہو اسے دیکھکر
خواہش ہو کہ کاش وہ بھی ایسا ہوجائے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت انس بن مالک
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی
اللہ عنہ حضور کے پاس تشریف فرما تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے
فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ کیا دیکھتے ہیں ایک بلکل سادہ سا بندہ تازہ وضو کرکے آیا تھا اور
کوئی کپڑا یا تولیہ بھی استعمال نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اس کی داڑھی سے
پانی کے قطرے بھی گر رہے تھے اور جوتے اس نے الٹے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے
کچھ دیر وہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس بیٹھا رہا پھر اٹھ کر
چلاگیا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلے دن پھر ہم دونوں
بیٹھے تھے اور پھر سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک جنتی
مرد آنے والا ہے ہم نے دیکھا کہ پھر وہ ہی بندہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم سے ملنے آج پھر وہ تازہ وضو کرکے آیا تھا وہ جوتے الٹے ہاتھ میں تھے
کچھ دیر بیٹھا اور پھر چلا گیا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ اتفاق سے تیسرے دن بھی یہ ہی سب کچھ ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ ایک جنتی مرد آئے گا وہ آیا کچھ دیر بیٹھا
اور چلا گیا اب تو ہمیں اس پر رشک آنے لگا کہ اگر سرکار صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم کسی کو یوں ہی جنتی کہ دیں تو اس کی موج لگ جائے اس کے لئے تو
تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے جنتی فرمایا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
کہ جب وہ شخص جانے لگا تو میں اس کے پیچھے ہوگیا اور اس کو روک کر کہا کہ
اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو مجھے تین دن اپنے یہاں مہمان نہیں بنالیتے ؟
کیوں نہیں اس نے کہا میں کوئی امیر آدمی نہیں ہوں جو روکھی سوکھی کھتا ہوں
حاضر کردوں گا جس ٹوٹے پھوٹے بستر پر سوتا ہوں آپ بھی سوجائیے گا حضرت
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تین دن اور تین راتیں
مہمان رہا کیوں کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ان کا وہ کونسا عمل ہے جس کی
وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین مرتبہ
جنتی ہونے کی بشارت دی اور اتنا بڑا اعزاز بخشا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں نے دیکھا کہ وہ کوئی خاص نوافل بھی نہیں پرھتے نماز بھی روٹین
کی پرھتے تہجد میں بھی سوتے رہتے میں ان سے زیادہ نوافل پڑھلیتا اور تہجد
بھی پڑھتا ہاں صرف جب وہ سوتے میں کروٹیں بدلتے تو میں ان کی زبان سے اللہ
تبارک وتعالی کا ذکر سن لیتا فرماتے ہیں میں تین دن اور تین راتیں ان کا
مہمان رہا پھر میں نے جانے کی اجازت چاہی تو کہنے لگے کہ اگر آپ ناراض نہ
ہوں تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے مجھے مہمان نوازی کا شرف کیوں بخشا کیا کوئی
خاص وجہ تھی تو حضرت عبدللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپ تین دن
مسلسل ہماری موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے
اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اپ کے لئے تینوں دن جنت کی بشارت دی
تو میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کونسا عمل ہے جس نے اپ کو اتنا بڑا اعزاز
بخشا تاکہ میں بھی وہ عمل کروں اور اللہ رب العزت مجھ پر بھی کرم فرمادے
لیکن میں نے دیکھا کہ اپ سے زیادہ عبادت تو میں کرتا ہوں زیادہ نوافل تو
میں پڑھتا ہوں زیادہ صدقات تو میں دیتا ہوں مجھے کچھ نظر تو نہیں آیا اب آپ
ہی بتا دیں آخر وہ کیا عمل ہے ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کچھ دیر وہ خاموش رہے پھر انہوں نے کہا کہ
آپ صحیح فرماتے ہیں میں کوئی بہت زیادہ نمازی پرہیزگار یا لمبے چوڑے نوافل
پڑھنے والا انسان نہیں ہوں لیکن ہاں ایک بات ہے کہ میں رات سوتے وقت اور
صبح اٹھتے ہی اپنے دل کی طرف بڑے غور سے دیکھتا ہوں اور اطمینان کرلیتا ہوں
کہ میرے دل میں کسی کے لئے کوئی حسد نہیں ہے کوئی بغض نہیں ہے کوئی عداوت
نہیں ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو مسکرا دئے اور
فرمایا کہ چل پھر لگ جائو گلے اب معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے دل کو سب کے
لئے صاف رکھا ہوا ہے اور اسی صفائی کی وجہ سے تمام رسولوں کے امام سردار
انبیاء حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے تین مرتبہ اپ کو جنت کی بشارت دی
۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دیکھا آپ نے اس لئے ہی کہا گیا کہ اپنا دل
سب کے لئے صاف رکھیں اگر کوئی آپ کو گالی دے تو آپ اس کو دعا دو اگر کوئی
برا کہے تو آپ اچھا کہو اور کسی کے پاس مال ودولت کی ریل پیل دیکھیں تو خوش
ہوں اور دعا کریں کہ اللہ تبارک وتعالی اسے اور نعمتوں سے نوازے اور رب
العزت کی مرضی اور منشاء ہو تو اس کے صدقے آپ کو بھی وہ نعمتیں عطا کرے
اللہ تبارک وتعالی کی اپنے بندوں کے لئے نعمتوں کی تقسیم بلا شبہ بہترین ہے
ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی کے یہاں جاتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہاں رش
ہے تو یا رک جاتے ہیں یا واپس لوٹ جاتے ہیں بلکل اسی طرح دل تو خدا اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا گھر ہے اگر اس کو ہم حسد ، کینہ ، بغض
اور عداوت سے بھر دیں گے تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کیسے
داخل ہوں گے خدارا اسے صاف رکھیں اور اس جگہ کے جو صحیح حقدار ہیں انہیں تو
کم از کم آنے دیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حسد جیسی خطرناک بیماری کے بے شمار
نقصانات ہیں لیکن ہم یہاں پانچ نقصانات کا ذکر کریں گے حسد جیسی بیماری کا
پہلا نقصان یہ ہے کہ وہ انسان کی عبادت اور پرہیزگاری کو تباہ و برباد
کردیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ حسد انسان
کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ حسد جیسی بیماری کا
دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ گناہ اور شر کا باعث بنتا ہے حضرت وہاب بن منباء
فرماتے ہیں کہ حاسد میں تین خصلتیں نمایاں ہوتی ہیں کہ اگر وہ سامنے ہو تو
چاپلوسی کرتا ہے اگر غائب ہو تو غیبت کرتا ہے اور کسی پر مصیبت ہو تو وہ
خوش ہوتا ہے حسد جیسی بیماری کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہر وقت خوا ہ
مخواہ مشقت اور پریشانی کا شکار رہتا ہے حسد جیسی بیماری کا چوتھا نقصان یہ
ہے کہ دل غفلت کے پردوں میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اسے رب الکائنات کی ذات
بھی دکھائی نہیں دیتی یعنی اللہ تبارک وتعالی کے احکامات بھی اسے سمجھ نہیں
آتے حسد جیسی بیماری کا پانچواں نقصان یہ ہے کہ انسان نہ تو اپنے مقصد میں
کامیاب ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن پر فتحیاب ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جس طرح انسان کو جادوگر اور شیطان مردود
سے پناہ مانگنے کا حکم ہوا ہے وہاں حاسد کے شر سے بھی پناہ مانگنے کا حکم
ہوا ہے جیسے اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان حمید کی سورہ الفلق کی
آخری ایت نمبر 5 میں ارشاد فرمایا کہ " اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ
مجھ سے جلے " حسد کرنے والا شخص اصل میں اللہ تبارک وتعالی سے بغاوت کا
مرتکب ہوجاتا ہے کیوں کہ جب وہ کسی کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور ایک
حاسد کی یہ تمنا ہو کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے تو گویا وہ رب العزت کے خلاف
جارہا ہوتا ہے (نعوذوبلا ) اس لئے اسکے انجام کے لئے تباہی ، بربادی ، جہنم
کی آگ جس کا مقدر جیسے القاب استعمال کئے گئے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں سب سے
پہلا گناہ حسد کی وجہ سے ہوا جب اللہ تبارک وتعالی نے اپنی تمام مخلوق کو
حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کاحکم دیا لیکن ابلیس نے انکار کیا تو
اس کی وجہ حضرت آدم علیہ السلام سے حسد تھا وہ اپنے آپ کو زیادہ بہتر تصور
کرنے کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کر بیٹھا جسکا انجام کیا ہوا ؟
کہ رب العالمین نے اس کی ساری عبادات کو تباہ وبرباد کرکے اسے شیطان بنادیا
اور قیامت تک آنے والے مسلمان اسے اسی نام سے بلاتے رہیں گے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اسی طرح دنیا کا پہلا قتل بھی حسد کی وجہ
سے ہی ہوا جب حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت ہابیل علیہ السلام اور
حضرت قابیل علیہ السلام میں جھگڑا ہوا اور حضرت قابیل علیہ السلام نے اپنے
ہی بھائی حضرت ہابیل علیہ السلام کو قتل کیا (اس واقعہ کا ذکر قران مجید کی
سورہ المائدہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ) ۔ قران مجید فرقان حمید میں
کئی انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر آیا ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کے
بیٹوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو حسد میں اکر ایک کنویں میں
ڈال دیا تھا ( اس واقعہ کا ذکر بھی قران مجید میں سورہ یوسف میں مکمل بیان
کیا گیا ہے) ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس موضوع پر لکھنے کے لئے تو بہت کچھ ہے
لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصر اور جامع انداز میں اس کو آپ تک پہنچائوں
آخر میں دعا ہے کہ حسد جیسی خطرناک بیماری سے اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو
محفوظ رکھے اور اور ہمارا دل بغض ، کینہ ، عداوت اور حسد جیسی بیماریوں سے
مکمل صاف رکھے ہمارے دل میں صرف اپنا خوف اور قرب پیدا کردے اور اپنے حبیب
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا عشق ہمیں عطا کرے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں
میں آسانیاں نصیب کرے ۔
آمین آمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
|