بڑوں کی ہر بات ماننا ضروری نہیں، کچھ باتیں جو ہم اپنے بچوں کو صدیوں سے غلط سکھاتے آرہے ہیں

image
 
اولاد کی تربیت ایک ایسا فریضہ ہوتا ہے جو کہ ہر والدین پر عائد ہوتا ہے اور یہ والدین کی تربیت ہی ہوتی ہے جو بچے کے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس میں ہونے والی معمولی سی غلطی بھی بچے کے کردار میں ایسے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس کی بنا پر بچہ جوان ہونے کے بعد بھی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے ہیں-
 
بچوں کی تربیت اور عصر حاضر
جیسا کہ اس بات کو ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ آج کا دور ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ہے اور اس کی ترجیحات میں بھی کافی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں تو اس حوالے سے بچوں کی تربیت کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی ضروری ہے تاکہ آپ کا بچہ وقت کی تیز رفتاری کا ساتھ دیتے ہوئے مستقبل میں فعال کردارادا کر سکے-
 
اپنے بچے کو صرف فرمانبردار نہ بنائیں
ماضی میں بچے کی فرمانبرداری کو اس کی خصوصیت سمجھا جاتا تھا اور والدین کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ بچے کی تربیت اس طرح سے کریں کہ وہ اپنے ہر بڑے کی بات پر صرف جی حضوری کرے- مگر حالیہ دور میں ایسے بچے بڑے ہونے کے بعد دبی ہوئی شخصیت کا شکار ہو جاتے ہیں- لہٰذا حالیہ دور میں بچوں کو بڑوں کا احترام کرنا ضرور سکھائیں مگر اس کے ساتھ ان کو یہ بھی بتائیں کہ بڑوں کی ہر بات آنکھیں ماننے کے بجائے اپنی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے صحیح اور غلط کی تمیز کر سکے-
 
image
 
صرف کامیاب ہونا نہ سکھائیں ناکام ہونے کی بھی تعلیم دیں
تم نے فرسٹ آنا ہے یہ وہ جملہ ہوتا تھا جو تمام والدین اپنے بچے کو سکھاتے تھے اور یہ تعلیم دیتے تھے کہ درحقیقت کامیاب وہی ہوتا ہے جو فرسٹ آتا ہے- مگر یاد رکھیں اول پوزیشن صرف ایک فرد کے لیے ہوتی ہے جب کہ باقی قطار میں کھڑے لوگ بھی دنیا میں اپنی اہمیت رکھتے ہیں- اس وجہ سے بچے کو کامیاب ہونا ضرور سکھائيں مگر اس کے ساتھ اس کو یہ بھی تعلیم دیں کہ ناکامی کی صورت میں بچہ کو اس کا سامنا کس طرح سے کرنا چاہیے-
 
بڑے بچے نہیں روتے سکھانے کے بجائے کس بات پر رونا ہے یہ سکھائیں
لڑکے تو نہیں روتے یا بڑے ہونے کے بعد رونا بری بات ہے اور اب تم بڑے ہو گئے ہو یہ سب تعلیمات جو کہ ماضی میں دی جاتی رہی تھیں- مگر ان کے نتیجے میں ایسے افراد معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں جو اپنے جذبات کو تو پوشیدہ رکھتے ہی ہیں مگر ان کو دوسروں کے جذبات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں وہ مشین بن جاتا ہے-
 
سب سے دوستی رکھنے کے بجائے اچھے دوست بناؤ
ماضی میں یہ تعلیم بھی بچوں کو دی جاتی تھی کہ کلاس میں موجود سب ہم عمر بچے آپ کے دوست ہوتے ہیں یہاں تک کہ کچھ کزنز وغیرہ کے ساتھ تو والدین زبردستی دوستی بھی کروا دیا کرتے تھے- جبکہ حقیقت میں دوست وہی ہوتا ہے جس سے انسان کا مزاج ملے اور اس طرح کے زبردستی کے فیصلے بچوں کی قوت فیصلہ کو خراب کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور بچے ساری عمر اس بات کا انتخاب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے کہ اس کے حقیقی دوست یا ساتھی کیسے ہونے چاہیے ہیں-
 
image
 
بڑے ہمیشہ ٹھیک بات کرتے ہیں کے بجائے جو ٹھیک ہے اسے تسلیم کرو
بڑے ہمیشہ ٹھیک ہوتے ہیں اور ان کو غلط کہنا یا ان کی بات کو رد کرنا بدتمیزی ہوتی ہے یہ وہ سوچ تھی جس کے ساتھ ہم سب بڑے ہوئے مگر اب ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارا بچہ ہم سے زيادہ معلومات رکھتا ہے اور ہم سے زيادہ علم رکھتا ہے- اس وجہ سے اس کی سوچ پر اس طرح کا قدغن لگانا اس کی سوچ پر تالے ڈالنے کے مترادف ہے اس طرح کا عمل اس کو بزدل بنا سکتا ہے- اس وجہ سے اس کو صحیح اور غلط میں فیصلہ کرنے کا شعور ضرور دیں مگر صرف ماننے والی گائے بنانے سے پرہیز کریں-
 
بچے کو اہمیت دیں مگر کبھی نظر انداز بھی کریں
ویسے تو ہمارے بچے ہماری توجہ کا مرکز ہوتے ہیں مگر اس طرح ان کو ہر وقت اہمیت دینے کی عادت کے بجائے ان کو اس بات کا بھی عادی بنائیں کہ نظر انداز ہونے کی صورت میں ان کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے- کیونکہ عملی زندگی میں ہر کوئی آپ کے بچے کو آپ جتنی اہمیت دینے والا نہیں ہے اس وجہ سے اس کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہونا چاہیے-
 
یہ تمام نکات بچوں کی تربیت کرنے والے والدین کو نہ صرف یاد رکھنے چاہیے ہیں بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے کے فعال افراد تخلیق کیے جا سکیں-
YOU MAY ALSO LIKE: