مولا برکت رکھنا بچوں کی گڑدھانی می

محنت کر کے ہم تو بھوکے ہی سو جائیں گے
یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑدھانی میں
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سرکاری زمینوں پر بنے گالف کلبوں کی مالیت اور حکومتی کرائے پر سوال اٹھایا ہے ۔

سوشل میڈیا پر جاری بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں 200 گالف کلب اربوں ڈالر کی سرکاری زمین پر بنے ہیں، ایک کلب اور گالف کورس کھربوں کی زمین پر بنا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کھربوں کی زمین ہے اور حکومت کا کرایہ صرف 5000 روپے ہے۔

ایسے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔

کیا عجب ہے کہ پاکستان میں ہر امتحان صرف غریب کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے غریبوں کو کہا جاتا ہے کہ صبر کرو ، اگلے جہان میں صلہ ملے گا ۔ کیا عجب ہے کہ تکلیف ، پریشانی ، مصیبت اور فاقوں کی زد میں غریب ہی ہے ۔ کیا عجب اور غضب ہے کہ پاکستان کا ایک محدود سا طبقہ پاکستان کے 95فیصد وسائل اور دولت پر قابض ہے ۔

ایسے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔

درحقیقت بے حسی ایک بھرپور جذبہ ہے جو سیاسی اشرافیہ تاجر برادری اور صنعت کاروں میں پایا جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں لاہور کے ایک صاحب جن کے پنجاب میں 365پٹرول پمپ ہیں ، اُن کے صاحبزادے کی شادی سیالکوٹ کے ایک صنعت کار کی بیٹی سے ہوئی۔ اُس صنعت کار نے کئی کروڑ صرف کھانوں کی ورائٹی پر لگا دئیے ، جبکہ راحت فتح علی کی پرفارمنس اور تقریب کی سجاوٹ کے لیے بھی کروڑ کا بجٹ تھا۔ ایک مٹھی بھر معدے کے لیے چھوٹے سے منہ کے چسکے کے لیے کروڑوں روپے برباد کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بھارت میں بھی شادیوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر وہاں ایک روایت یہ بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ دو سے تین دن تک ہزاروں غریبوں کی دعوت ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں ایسا کوئی دستو ر نہیں ہے ، بلکہ اگر کسی شادی کی دعوت میں کوئی مجبور بھوکا کھانا کھانے کی خاطر چھپ کر آبھی جائے تو اُسے ڈھونڈ کر مارا پیٹا جاتا ہے، عین ممکن ہے کہ جب وہ دم توڑ دے تو اُسے چھوڑ دیا جائے ، کیونکہ رحم کرنا تو ہم نے چھوڑ ہی دیا ہے ۔ پھر کیا ہوا ! ہم اپنے روئیوں پر کہاں جواب دہ ہیں ۔ ہمارا ضمیر اتنا مطمئن ہے کہ شرمیلا فاروقی اپنی شادی پر 60لاکھ کا لباس زیب تن کر تی ہیں تو اُنہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا ۔ سینیٹر گلزار احمد کی پوتی انوش عمار کی شادی پاکستان سے شروع ہو کر کئی مہینوں بعد ترکی میں اختتام پذیر ہوتی ہے اور کروڑوں اربوں روپے کی اس شادی میں اُن بہت سے لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے اُن پلاٹوں کے پیسے بھی شامل ہیں ، جو سینیٹر گلزار احمد کی ہائوسنگ سوسائٹی میں ہتھیا لئے گئے ۔ پھر کیا ہوا! غریبوں کے عزت نفس اور اُن کی مجبوریوں کا مذاق اڑانے اور پیروں تلے روندنے میں کون کون نہیں شامل ۔

مریم صفدر کے صاحبزادے کی صنعت کار منیر احمد کی بیٹی مہرونسا سے شادی کا آغاز مسجد نبوی سے ہوتا ہے، دبئی ، لندن ، لاہور میں جو تقریبات ہوئیں، اُن میں چار ہزار وی آئی پی شخصیات نے شرکت کی اور اُن افراد کو فائیو سٹار ہوٹلز میں ٹھہرایا گیا، پھر کیا ہوا !اِن فضولیات پر چلنے والوں کے پاس بہت سے جواب ہیں ، اُن کے بے دریغ روپیہ پیسہ خرچ کرنے سے کونساغریب متاثر ہوتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ ایسے روئیوں اور سوچوں کو سماجی اخلاقیات کے تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ کون پرکھتا ہے خود کو ؟کہیں غریب کے گھر چولہا نہ جلے اور کہیں ایک وقت کے کھانے پر کروڑوں آگ میں جھونس دئیے جائیں ۔ ایسے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے

آج دنیا میںقریباً آٹھ سو گیارہ ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔چار کروڑ لوگ قحط کا شکار ہیں۔ بھوک کے شکار 116ممالک میں سے پاکستان 93ویں نمبر پر ہے ۔ سر ی لنکا ، نیپال اور بنگلہ دیش ہم سے کئی درجے بہتر پوزیشن پر ہیں ۔ پھر کیا ہوا ! ملک ریاض، ماسٹر ٹائلز والے یا حلال سنز والے اگراپنے شادی بیاہوں پر کروڑوں اربوں لگا دیتے ہیں تو یہ اُن کی حیثیت ، رتبہ ، قوت اور طاقت ہے ۔ اُنہیں اس چیزسے غرض نہیں کہ غریب طبقہ کن محرومیوں کا شکار ہے،اُنہیں اپنے سٹیٹس سے مطلب ہے ، ملک ریاض دال کی ایک دیگ پر اپنے پوتے کی شادی کر کے جگ ہنسائی نہیں چاہتا ۔ ماسٹر ٹائلز والے بھی سادگی سے شادی کر کے روایت شکن کہلانے کا کوئی شوق نہیں رکھتے۔ یہ ساری باتیں انسانوں اور کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں ۔

ایسے کردار فلموں اور ڈراموں میں دکھائی دیتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسی موٹیویشنل شخصیات بہت کم دکھائی دیتی ہیں ۔

ساحر لدھیانوی صاحب کی ایک نظم ’’کسی کو اداس دیکھ کر ‘‘ کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں ۔
یہ اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور
ہر ایک سمت پہ انسانیت کی آہ و بکا
یہ کارخانوں میں لوہے کا شور و غل جس میں
ہے دفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ
یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑیوں کی جھلک
یہ جھونپڑوں میں غریبوں کے بے کفن لاشے
یہ مال روڑ پہ کاروں کی ریل پیل کا شور
یہ پٹریوں پہ غریبوں کے زرد دریچے
یہ ذلتیں یہ غلامی یہ دور مجبوری
یہ غم بہت ہیں مری زندگی مٹانے کو
جہاں کھربوں کی زمین پر کلب اورگالف کورس ہوں اور حکومت کا کرایہ صرف 5000 روپے ۔
ایسے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔
 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23902 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.