اللہ اکبر، اللہ اکبر

ترکی اور شام میں گزشتہ چند دنوں میں قیامت خیز زلزلے اور اُس کے بعد کے جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ وہ دل ہلا دینے والے ہیں، ہزاروں افراد کی اموات اور ہزاروں ہی عمارات ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ۔ اقوام متحدہ نے اس زلزلے کو اس صدی کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر سے ریسکیو ٹیمیں ترکی اور شام پہنچ رہی ہیں ۔ ریسکیو ٹیمیں جیسے جیسے زلزلہ متاثرین تک پہنچ رہی ہیں اُن کی زبانوں پر اللہ اکبر اللہ اکبر کے الفاظ ہیں۔ عینی شاہدین کے تاثرات اور زلزلے کے دوران اور بعد میں اُن کی آپ بیتیاں رونگٹے کھڑے کر رہی ہیں ۔ ترکی اور شام کے لوگوں پر ٹوٹنے والی یہ پہلی انہونی اور قدرتی آفت نہیں ہے ۔

دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے،ان میں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصّے کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ یہ حقیقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات میں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہیں، یہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایک دم نازل ہوتا ہے، یوں ذہنی طور پر اس کا سامنا کرنے کی تیاری کا کسی کو بھی وقت نہیں ملتا۔ انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفان، وبائی بیماریوں اور جنگوں وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرے ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہیں۔ معلوم تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ مالی نقصانات کا تو شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔

صدیوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب رائے رکھتے تھے، مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کیلئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویلِ القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے، تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔ قریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے

زمین کی پلیٹیں کے اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی کُرے میں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جیولوجی کی زبان میں میگما کہتے ہیں، میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ یا آتش فشانی عمل زیادہ تر ان علاقوں میں رونما ہوتا ہے، جو ان پلیٹوں کے Joint پر واقع ہیں۔ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ پیدا ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔

دنیا کے وہ خطے جہاں زلزلے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر 3 پٹیوں میں واقع ہیں۔ پہلی پٹی جو مشرق کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ اور یوگوسلاویہ سے فرانس تک یعنی کوہ ایلپس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری پٹی براعظم شمالی امریکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف میکسیکو سے گزر کربراعظم جنوبی امریکہ کے مغربی حصّے میں واقع ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے ہوتی ہوئی چلّی تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ تیسری پٹی براعظم ایشیا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائیوان سے گزرتی ہوئی جنوب میں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشیائ اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتی ہے۔ دنیا میں 50 فیصد زلزلے کوہِ ہمالیہ، روکیز ماؤنٹین اور کوہِ اینڈیز میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ تینوں پہاڑی سلسلے اوپر بیان کردہ پٹیوں ہی میں واقع ہیں۔ قریباً 40 فیصد زلزلے، براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرُب و جوار میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ بقیہ 10 فیصد زلزلے دنیا کے ایسے علاقوں میں جو نہ تو پہاڑی ہیں اور نہ ساحلی ہیں، رونما ہوتے ہیں۔

سوچنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جاپان میں آنے والے زلزلوں کی تعداد دنیا کے دیگر ممالک سے غالباً کہیں زیادہ ہے مگر جاپان نے خود کو زلزلے جیسی اس خوفناک آفت سے بچنے کیلئے تیار کر رکھا ہے، بلڈنگز کی تیاری ہو یا انسانی قیمتی جانوں کا تحفظ ۔ زلزلے سے متاثرہ ممالک کو جاپان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ آٹھ میگنیٹیوڈ شدت کے زلزلوں میں شہر کے شہر ملیا میٹ ہو جاتے ہیں اور پہاڑوں کی چٹانیں تک ٹوٹ کر گر جاتی ہیں ۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.8تھی اور زمین کے اندر گہرائی بھی کم ۔ جس کی وجہ سے ترکی اور شام میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ۔
زلزلہ آیا اور آکر ہو گیا رخصت مگر
وقت کے رخ پر تباہی لکھ گیا
 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23899 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.