میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو سیاست کے
میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا چاہیے ، مگر قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ
پرویز اشرف صاحب نے جب اگست میں اراکین قومی اسمبلی کی درخواست پر عمران
خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ ریفرنس بھیجا تو یہ بات صاف
عیاںتھی کہ توشہ خانہ ریفرنس سیاسی مقاصد کیلئے بنایا گیاتھا۔ سیاسی شعور
اور سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر پاکستانی سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان کو دیوار
سے لگانے کی کوشش کی جار ہی ہے، جس کا نقصان صرف عمران خان کو نہیں بلکہ
پورے سیاسی اور جمہوری نظام کو ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ
عمران خان کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں پاکستان
مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی توشہ خانہ کے
تحائف کیلئے جواب دہ ہونا ہوگا ۔
نیب کے ایک ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم قوانین میں
نرمی پیدا کرکے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو
توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی ۔ اس نیب ریفرنس میں اگر ایک
طرف اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ناقابل
ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں تو دوسری جانب نیب کا دعویٰ ہے کہ
آصف علی زرداری نے خریدی گئی قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی
بینک اکائونٹس سے ادا کی ہے ۔ لہٰذا میری عرض یہ ہے کہ قومی ادارے خواہ وہ
الیکشن کمیشن ، نیب ، قومی اسمبلی ، پولیس ، فوج یا عدالتیں ہوں ، وہ اگر
اپنے قول و فعل میں تضاد یا تفریق پیدا کریں گی تو وہ اپنا وقار، احترام ،
اعتماد اور مقام کیسے مقدم اور قائم دائم رکھیں گی ۔
توشہ خانہ ریفرنس میں چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کی نااہلی مفادات کی
سیاست کی جیتی جاگتی مثال ہے۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سر
براہی میں 5رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو آئین کے
آرٹیکل 63پی کے تحت نا اہل قرار دیا، جو اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ
سیاسی فیصلوں کو سیاسی میدانوں میں کرنے کی بجائے کہیں اور کرنے کی روایت
ڈالی جارہی ہے ۔
الیکشن کمیشن سے میرا سوال ہے کہ قومی اسمبلی کے باقی اراکین میں سے کون
62،63کی شرائط پرپورا اترتا ہے ۔ اگر صادق او ر امین ہونے کا تعین 62ون ایف
یا 63ٹو کے تحت ہی کرنا ہے ، تو تمام رکن قومی اسمبلی اس کی لپیٹ میں آتے
ہیں ۔ لہٰذ ا احتساب سب کا او ر بلا تفریق ہونا چاہیے ، تب دیکھ
لیںپارلیمنٹ میں باقی کون بچتا ہے ۔
توشہ خانہ ریفرنس کیس میں تحائف کے معاملے کو صرف عمران خان سے شروع کرنا
بدنیتی اور منافقت پر مبنی ہے ۔عمران خان سے پہلے وزیر اعظم کے منصب پر
بیٹھنے والوں کو کٹہرے میں کیوں نہیں لایاگیا ۔نواز شریف ، راجہ پرویز اشرف
اور یوسف رضا گیلانی جن کا توشہ خانہ سے قیمتی ہار غائب کرنے کا معاملہ
میڈیا میں آیا اور زبان زدِ عام ہوا۔ اُن سب کو توشہ خانہ کے تحائف رکھنے
یا فروخت کرنے کے حوالے سے نہ پوچھا گیا اور نہ ہی اِسے آئین ، قانون یا
62 ، 63سے متصادم قرار دیا گیا ،تو پھر عمران خان پر ہی یہ تلوار کیوں
چلائی گئی ۔
کس قدر حیرت کی بات ہے اور یقینی طور پر یہ جان کر ہماری آنکھیں بھی کھل
جانی چاہیے کہ نیب جیسا ادارہ گزشتہ دو دھائیوں سے کسی بھی سیاستدان کو
عدالت سے کرپٹ یا بد عنوان ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ نیب سیاست زدہ ہے
اور اِسے سیاست سے پاک کرنا ممکن ہی نہیں ۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے بنائے
جانے والے اس ادارے نے کرپشن تو کیا ختم کرنا تھی ، اپنی شفافیت ہی ختم کر
بیٹھا ہے۔یہی حال عدالتوں کا بھی ہے۔عدالتیں سیاست کیلئے استعمال ہوتی چلی
آئی ہیں اور یہ نہایت خطرناک روش ختم ہونی چاہیے۔
مجھے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک میں آج کوئی مثالی
حالات نہیں ہیں۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے ۔ سوچنے والی
بات یہ ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے یا اس طرح کے حالات پیدا کرنے سے آپ ملک
کو معاشی بہتری کی جانب گامزن نہیں کر سکتے۔ اگر ملک میں اسی طرح کی گندی
اور مفادات کی سیاست جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب عوام سیاستدانوں سے بھی
بیزار ہو جائیں گے۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر پر اس وقت سنجیدگی سے
نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں ۔
معیشت بسترِ علالت پر ہے ۔ اس بے یقینی کی صورت حال میں ملک کا نقصان ہو
رہا ہے ۔ عوام پریشان ہیں ۔ معیشت نے کس سمت میں آگے کی جانب بڑھنا ہے ،
کسی کو معلوم نہیں ۔ ملک کا یہ سیاسی منظر نامہ ’’ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ
پاہے ، رکا ب میں ‘‘ کے مترادف ہے ۔
عمران خان کی نااہلی کے حوالے سے غفلت سے کام لیا گیا ہے ۔ وہ ایک مقبول
رہنما ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو
کر اُنہیں قومی سیاست کے منظر سے نکالنے یا سائیڈ پر کرنے کی بجائے اُنہیں
مذاکرات پر آمادہ کیا جاتا۔انتخابی اصلاحات پر اُنہیں ساتھ بٹھایا جاتا،
ساتھ چلایا جاتا ، مگر پی ڈی ایم نے اس دور اندیشی اور حکمت عملی کا مظاہرہ
کرنے کی بجائے ، اُن کی نااہلی میں ہی اپنی عاقبت سمجھی ۔ اب ضرورت اس امر
کی ہے کہ حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ حکومت فہم و
فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیئرمین پی ڈی ایم عمران خان سے مذاکرات کی راہ
ہموار کرے اور اس عمل میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی خدمات
حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ وہ ایک زیر ک ، باشعور اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں
، لہٰذ ا خواہ مخواہ کے مقابلے بازی اور سیاسی لڑائی جھگڑے سے بچتے ہوئے
سیاست میں مصلحت اور مفاہمت پیدا کریں تا کہ آئندہ الیکشن میں تمام سیاسی
جماعتوں کو ساز گار اور اچھا ماحول مل سکے۔
|