پانی زیادہ بے رحم ہے یا ہم

جب آدھا ملک پانی میں ڈوب جائے تو ہم محض بارش یا پانی کو اس آفت کی وجہ نہیں ٹھہرا سکتے ۔ اقوام متحدہ نے بیس سال قبل ہی چیخ چیخ کر دنیا کو بتا دیا تھا کہ گلوبل وارمنگ سے دنیا شدید ترین موسمیاتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور پاکستان بھی اُسی دنیا کا ایک ملک ہے ،جس نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی گلوبل وارمنگ کی وارننگ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1998سے 2018کے درمیان موسمیاتی آفات سے ایک ہزار جانیں ضائع ہوئیں اور اِن بیس سالوں میں 152شدید موسمی واقعات سے پاکستان کو معاشی طور پر چار ارب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ مگر صد افسوس کہ ہم نے بطور قوم اتنے بڑے نقصان کے باوجود کچھ نہ سیکھا۔ افسوس تو اس بات کا بھی بنتا ہے کہ پاکستان قائم ہونے کے بعد 1950میں پاکستان میں آنے والے پہلے سیلاب سے لے کر اب تک ملک میں 25سے زائد بڑے سیلاب آچکے ہیں مگر ہماری 75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اُن سیلابوں سے بے پناہ معاشی اور جانی نقصان اُٹھانے کے باوجود ڈیزاسٹر مینجمنٹ میکانزم کی جانب قدم بڑھایا اور نہ ہی کوئی دانشمندانہ پلاننگ کی ۔ ہم آج بھی سیلاب سے نمٹنے کیلئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر سال اربوں روپے کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔

بڑے شہروں میں آسائشی زندگیاں گزارنے والے سیلاب کے نقصانات اوراُس سے پیدا ہونے والی اذیتوں ، تکلیفوں ، مصیبتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔سیلاب متاثرین کی کہانیاں کوئی الف لیلوی یا افسانوی داستانیںنہیں ہوتیں ۔ بلکہ سیلاب تکلیفوں کے ایسے دروازے کھولتا، جن سے بھوک ، افلاس ، قحط ، بیماری ، بے روزگاری ، تعلیمی نقصان ، انفراسٹرکچر کی تباہی ، بدحالی جانی و مالی نقصان جیسی مصیبتیں بھی داخل ہو جاتی ہیں۔

آج پاکستان پھر لاکھوں سیلاب متاثرین کو اپنی جھولی میں لیے تباہی و بربادی کے اُسی مقام پر آکھڑا ہے ، جہاں وہ ماضی میں ہر سیلابی آفت کے بعد کھڑا ملتا ہے ۔ نہایت معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ایسے شدید اور تباہ کن بحرانوں سے ہم نے ماضی میں کچھ سیکھا تھا نہ اب کچھ سیکھیں گے۔ قریباً 12سال پہلے ستمبر کے ہی مہینے میں انجلینا جولی یو این ایچ سی آر کی خیر سگالی سفیر کے طور پر پاکستان آئی تھیں۔اپنے اُس دورے میں انجیلنا جولی نے ایک عجیب و غریب پاکستان دیکھا ۔ اُس نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ سیلاب زدگان فاقوں سے مر رہے ہیں ۔ پانی کی ایک بوتل اور ایک روٹی کو ترس رہے ہیں اور انجلینا جولی کے اعزاز میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اہل خانہ کی جانب سے جس دعوت کا اہتمام کیا گیا وہ اتنی عالی شان تھی کہ اُن پیسوں سے سینکڑوں سیلاب زدگان کا پیٹ بھر ا جا سکتا تھا۔ انجلینا جولی نے اپنے دورے کے دوران حکومتی اخراجات ، پروٹوکول ، عیاشیوں سمیت حکومت کی تمام خباثتوں کو بہت باریک بینی اور گہرائی سے نوٹ کیا۔

حکومتی ترجیحات آج بھی وہی ہیں ، ہمیں اُس وقت سیلاب کا احساس تھا نہ آج ہے ۔ حکومتی وزراء اور اُن کے اہل خانہ اور نہایت بڑے عہدے پر براجمان شخصیات کی توجہ صرف اس بات پر ہو کہ اُن کی انجلینا جولی کے ساتھ زیاد ہ سے زیادہ تصاویر بن جائیں یا وہ ہماری ضیافت کی دعوت قبول کرلے تو ہماری ذہنی پستی کا اندازہ ہو جانا چاہیے اور ہمیں اس غلط فہمی سے بھی نکل جانا چاہیے کہ ہم مستقبل میں موسمیاتی آفات سے پیدا ہونے والے بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کر لیں گے۔

12سال قبل انجلینا جولی آئیں اور سیلاب زدگان کی ذاتی حیثیت میں بھی مدد کر کے لوٹ گئیں ، لیکن جو تاثر اور ہمارا کردار وہ دیکھ کر گئیں ،وہ آج بھی برقرار رہے ۔ پاکستان کے غریب طبقے اور خاص طور پر سیلاب متاثرین کیلئے پانی اتنا بے رحم نہیں جتنا ہم خود یا ہماری حکومت بے رحم ہے ۔

اس سال 2022کے تباہ کن سیلاب میں جب آدھا پاکستان ، ڈوب گیاہے،پاکستانی عوام اور صاحب ثروت شخصیات کی جانب سے بھی سیلاب متاثرین کی فوری مدد کیلئے جذبہ یا فراخدلی دیکھنے کو نہیں ملی۔

آرمی چیف کے زیر قیادت کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد گویا حکومتی مشینری بھی نیند سے جاگ گئی جب کور کمانڈر کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ریلیف فراہمی کیلئے ہر سیلاب متاثرہ شخص تک پہنچا جائے ، تو گویا حکومت اور باقی اداروں کو بھی حالات کے غیر معمولی ہونے کا ادراک ہوا۔

2022کا سیلاب غیر معمولی نوعیت کا سیلاب ہے ۔ ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔ ہزاروں ایکڑوں پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں ۔ اموات کے اعدادوشمار بھی ابھی کنفرم نہیں ۔ معاشی نقصان تاحال لگایا نہیں جا سکتا ۔ ایسے میں جو ممکن ہے فوری انتظام کیا جائے ، بیماریوں سے بچائو کیلئے موبائل ہسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کی جائیں اور بچوں کے تعلیمی نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے فوری طور پر خیموں کے اندر ہی درس و تدریس کا آغاز کیا جائے ۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیلاب زدگان کیلئے دوہری اذیت اُس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب چور ، ڈاکو ، نوسر باز اپنی وارداتوں سے اُن مجبور ، بے آسرا ، بے سہارا خاندانوں کو نئی مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں ۔

آج پاکستان جس تکلیف ، مشکل اور آزمائش میں جکڑا ہے ۔ اُس سے نکلنے اور سنبھلنے کیلئے حکومت کی جانب سے قومی ایمرجنسی ڈکلیئر کر دینا کافی نہیں ہے ۔ ہر فرد کو آگے بڑھنا ہوگا ۔ خیر خواہی ، محبت ، قربانی ، ایثار ، ہمدردی کی ایک بے مثال ، مثال قائم کرنا ہوگی ۔ اگرہم مدد کی انہونی مثال قائم کرنے میں ناکام رہے تو یاد رکھیں سیلاب کا پانی اتنا بے رحم ثابت نہیں ہو گا جتنا ہم۔
 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23819 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.