طلبہ میں سیاسی شعور وقت کی اہم ضرورت

دنیا میں موجود ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ اُٹھائی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان ممالک کی آزادی اور ترقی میں طلبہ کا کردار کتنا کلیدی ہے اور بے شک طلبہ ہی وہ طبقہ ہے جو اگر کسی کام کو کرنے کے لئے کمرباندھ لے اوراپنے ملک کی ترقی کا بیڑا اُٹھالے تو اس کو دنیا کی کوئی بھی تاقت کوئی بھی باطل قوت ان کا مقصد حاصل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور دنیا میں عنقریب برپا ہونے والے انقلابات میں بھی طلبہ نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں کہ جہاں گندم کا بیچ بونے سے روٹی کے پکنے تک اور ایک بچے کا اسکول میں داخلہ ہونے سے ڈگری کے حصول تک تمام کام میں سیاست کا ایک واضح اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر افسوس کے ہمارے ملک کے پڑھے لکھے طالب علم طبقے کو ملکی سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایسا بیج بو دیا گیا ہے کہ جس کا پھل یا تو صرف کسی جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے یا چوہدری کی اولادوں کے نصیب میں آتا ہے یا پھر ان فرسودہ سیاست دانوں کے خاندان والے مزے کرتے ہیں کہ جو گزشتہ 64 برس سے اس ملک میں کسی نہ کسی روپ میں رائج ہیں اور صرف ان کی نسلیں ہی پاکستان کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہیں چاہے وہ غیر تعلیم یافتہ اوربے شعور ہی کیوں نہ ہوں۔

پاکستان کے طالب علم کوسیاست سے دور رکھے میں ان خاندانی سیاست دانوں کا بہت گہرا اثرو رسوخ شامل ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی پسماندگی کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں طالبہ سیاست میں شامل ہونا فضول اور بے معنی سمجھتے ہیں، آج پاکستان کو جس دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ان حالات میں ملکی سیاست اس بات کی بلکل متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس ملک کے ایوانوں کو مزید اُن غیر تعلیم یافتہ جاگیردار، چوہدری اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا جائے کہ جنہوں نے گزشتہ 64 برس میں ملکی سیاست کو نوجوانوں کے لیئے نوگو ایریا بنا دیا ہے۔ اب اس ملک کی سلامتی اور ترقی کا دارومدار صرف طلبہ کے اندر سیاسی شعور بیدار کرکے انہیں ملک کے ایوانوں میں بھیجنے پر ہی منحصر ہے۔ طالب علم سیاس کو صرف ایک دلدل یا گندگی کے ڈھیر سے تشبیح دیتے ہیں اور اس سے دوررہ کر بے معنی تنقید کرنا فخر کی بات سمجھتے ہیں۔ مگر ہم یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں پڑھے لکھے نوجوان کی کمی اس ملک کے مستقبل کو بھی اندھیروں کی جانب لے جا رہی ہے۔ ملکی سیاست کو ایسے طالب علموں کی ضرورت ہے کہ جو اس ملک کے مسائل سے باخوبی واقف ہوں اور جنہوں نے ان مسائل کو خود جھیلا ہو، تاکہ وہ قوم کے درد کو محسوس کرسکیں۔

پاکستان میں والدین اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے کہ انکا لڑکا یا لڑکی ملکی سیاست میں حصہ لیں، اگر تحریک پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی اس زمین کے حصول میں اور اس وقت کی سیاست میں طالبِ علم طبقے کا کتنا اہم اور واضح کردار ہے۔آج طلبہ کا ملکی سیاست میں حصہ نہ لینا ایک ایسا خلاء پیدا کردیگا جس کو اگر تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانوں کے طلبہ پُر نہیں کریں گے تو غیر تعلیم یافتہ اور نا اہل لوگ اس خلاء کو پُر کریں گے جس سے اس ملک کا آنے والا دور بھی غیر محفوظ ہو جائے گا۔ طلبہ اگر سیاست کے میدان میں نہیں اُتریں گے تو ہمیں یہ حق نہیں کہ پھر اس ملک کی سیاست میں وجود کرپٹ سیاسی خاندانوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں، کیونکہ صرف ٹیلیویژن اور سائبر ورلڈ کہ اُپر نقید کرنے سے ملک کی صورتحال کبھی بہتر نہیں بنائی جاسکتی اور یہ طلبہ کی ذہانت اور انکے وقت کو ضیع کرنے کے مترادف ہے۔ ملک و قوم کی ترقی اور تعمیر اس ملک کے ایوانوں میں اُتر کر اور اس ملک کی سیاست میں حصہ لے کر ہی ممکن ہے۔

ایسا نہیں کے پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں کہ جس نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بغیر کسی رنگ و نسل، زبا ن و ذات اور مذہب کے ملک کے ایوانوں تک رسائی دی ہے اور اس کرپٹ موروثی سیاست کے خاتمے کے بنیاد رکھی ہے۔ ایسی جماعت بلکل موجود ہے اور طلبہ کے درمیان مگر صدافسوس کے ہمارے نوجوان طلبہ میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہونے دیا جا رہا اور انہیں دھرنوں اور جلسوں میں رقص کرنے میں مصروف کردیا گیا ہے، صرف اس لئے کہ وہ ملک کی مخلص قیادت اور جماعت کا حصہ نہ بن سکیں کہ جو واقعی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ کیونکہ یہ خاندانی سیاستدان جانتے ہیں کہ اگر طلبہ ملکی سیاست میں آگئے تو انکی تعلیمی قابلی اور ذہانت ملک کو ترقی کی ان مناذل تک پہنچا دیں گے کہ جہاں محلات میں رہنے والوں اور تجوریاں بھرنے والے سیاست دانوں کی دکانیں ٹھپ ہو جائیں گی اورپاکستان بھی خود مختار اسلامی ریاست کے روپ میں دنیا کے نقشے پ واضح ہو جائے گا یہ موروثی سیاستدان نہیں چاہتے کہ طلبہ ایسا انقلاب برپا کرنے میں کامیاب وہ جائیں کہ جو پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنادے اور ایسا انقلاب برپا کردے کہ جو ملک کے فرسودہ سیاسی نظام میں نئی روح نہ پھونک دے۔
 

Ammar Abbas
About the Author: Ammar Abbas Read More Articles by Ammar Abbas: 4 Articles with 2425 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.