گوتم اڈانی نے 1978 میں کالج کی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی
اور ممبئی کے ہیرا بازار کا رخ کیا ۔ بات نہیں بنی تو بھائی کا پلاسٹک
کارخانہ سنبھالنے کے لیے احمد آباد پہنچ گئے۔دس سال کی محنت کے بعد 1988
میں اڈانی انٹرپرائز لمیٹڈ بن گئی جو دھاتوں، زرعی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی
ٹریڈنگ کرتی تھی لیکن پھر چار سال کے اندر 1994 میں اڈانی کمپنی نیشنل سٹاک
ایکسچینج اور بمبئی سٹاک ایکسچینج پر درج ہوگئی۔ اس چمتکار کے پیچھے سردار
کا نمک ہے ۔ 2002 مودی جی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اور مسلم کش فسادات کی
مدد سے انتخاب جیت لیا۔ اس پرقومی کاروباری ادارے کنفیڈریشن آف انڈین
انڈسٹریز (CII) سے وابستہ صنعت کاروں نے حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکامی
پر مودی پر تنقید کی اور صوبے سے دور رہنے کا ارادہ کیا۔سردار کو اس وقت
سرمایہ کاروں کو گجرات کی جانب متوجہ کرنے کی خاطر ایک کالیا کی ضرورت تھی
اور اس کمی کو گوتم اڈانی پورا کیا۔
’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے ‘ کا یہ ساتھ مارچ 2013 تک اتنا توانا
ہوگیا کہ جب وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کو امریکہ میں وارٹن سکول آف
بزنس کے ایک تقریب میں کلیدی خطبے کے لیے مدعو کیا گیا تو اس کا اسپانسر
بھی اڈانی گروپ ہی تھا۔ آگے چل کر اساتذہ اور طلبا کے احتجاج کے بدولت یہ
دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ 2014 میں حلف برداری کے
لیے مودی جی انہیں کے جہاز میں دہلی آئےاور پھر اڈانی کو دھیرے دھیرے اپنی
وفاداری کا پھل ملنا شروع ہوگیا مگر 2019 کی دوسری فتح کے بعد تو وہ ہوا
میں اڑنے لگے جس کی شہادت مندرجہ ذیل اعدادو شمار دیتے ہیں۔ احمد آباد میں
دس سال کی محنت کے بعداڈانی کی اناج فراہم کرنے والی کمپنی کا 1988 میں
سالانہ کاروبار صرف 2.2 کروڈ تھا ۔ سیاسی سرپرستی کے بغیر یہ فطری ارتقاء
ہے۔ 1992 میں اڈانی کارگل نامی ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ کاروبار شروع
کرتے ہیں۔ کارگل کو نہ جانے کیوں کاروبار چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے پھر بھی
کمپنی کا کاروبار 150 کروڈ ہوجاتاہے۔ دس سال میں دو کروڈ اور ایک سال میں
ڈیڑھ سو کروڈ روپئے کا کاروبار حیرت انگیز تھا ۔
1995؍ میں گجرات کے اندر بی جے پی اقتدار سنبھال لیتی ہے ۔ اس کے بعد تو
اڈانی وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور 1998 میں اڈانی کا کاروبار 2,853 کروڈ پر
پہنچ جاتا ہے یعنی ۶؍سال میں تقریبا! ۲۰ گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ دوسال بعد
2000 میں یہ بڑھ کر 3,300 کروڈ تک پہنچ جاتا ہے اور اڈانی ملک کے سب سے بڑے
ٹریڈر بن جاتے ہیں ان کی مندرا پورٹ ملک کی سب سے بڑی نجی بندرگاہ بن جاتی
ہے۔2002میں مودی جی وزیر اعلیٰ بنتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی مقبولیت بڑھتی
ہے اڈانی کی دولت میں اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے۔ 2006 کے آتے آتے اڈانی اناج
بیچنے کے علاوہ کوئلے کی درآمد کرنے والے سب بڑے تاجر بن جاتے ہیں۔ 2009
میں وہ آسٹریلیا کے اندر گلیلی کی کان اور ابور کی بندر گاہ خرید لیتے ہیں
نیز بجلی بنانے کے کاروبار میں قدم رکھتے ہیں۔ 2013 میں جب مودی جی کو بی
جے پی وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بناتی ہے تو اڈانی کی ملکیت 25ہزار
کروڈ سے تجاوز کرچکی ہوتی ہے۔ گوا کے اندر اڈوانی کو ہٹا کر مودی کو آگے
بڑھانے میں اڈانی کی اس دوستی کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہوگا اس لیے کہ ان کی
طرح چندہ کس کو مل سکتا تھا ۔
وزیر اعظم بننے کے بعد مودی جی نے اپنے پہلے پانچ سالوں میں اڈانی کا کوئی
خاص فائدہ نہیں پہنچایا ۔ وہ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا زمانہ تھا ۔ 2014
میں تو اڈانی کی ملکیت 3.1بلین ڈالر سے گھٹ کر 2.8 پر آگئی۔ 2015 میں وہ
6.6 بلین ڈالر تک گئی مگر پھر 2016 میں وہ گھٹ کر 3.5 بلین ڈالر پر آگئی۔
2017 میں یہ پھر سے بڑھ کر 5.8 بلین ڈالر پرپہنچی اور اگلے تین سال ڈیڑھ
گنا کے آس پاس رہی یعنی 2018 میں 9.7 بلین ڈالر ، 2019 میں 8.7 بلین ڈالر
اور 2020میں8.9 بلین ڈالر۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا مگر پھر ٹرمپ آئے اور ان
کے پیچھے کورونا آگیا۔ اس کے بعد اڈانی کی دولت وباء کی مدد بڑھنے لگی
یعنی 2021 میں پانچ گنا سے زیادہ بڑھ کر 50.5 بلین ڈالر پر پہنچ گئی۔ عام
حالات میں یہ ناممکن ہے لیکن مودی ہے تو ممکن ہے۔
2022 میں پھر تقریباً صد فیصد کا اضافہ یعنی 90.0 بلین ڈالر اور 20 ستمبر
2022 کو تو وہ بڑھ کر 156.3 بلین ڈالر یعنی 12.44 لاکھ کروڈ تک جاپہنچی ۔
اس اچھال نے انہیں کچھ وقت کے لیے دنیا کا دوسرا امیر ترین آدمی بنادیا۔
اس کے بعد ہنڈن برگ کے معمولی زلزلے سے یہ تاش کے پتوں کا محل لرزنے لگا
اور تادم تحریر تین فروری کی شام کووہ 61.3بلین ڈالر پر ہے شام تک کیا ہوگا
اور پرسوں جب قارئین اسے پڑھیں گے تو اڈانی کہاں ہوں گے یہ کوئی نہیں جانتا
فی الحال وہ امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اکیسویں نمبر پر ہیں ۔ دو سے
اکیس تک کا سفر کالیا نے صرف دس دن میں طے کرلیا ۔جنوری 24 سے دو فروری کی
رات تک اڈانی گروپ کا مارکیٹ کیپ 19.21 لاکھ کروڈ سے گر کر 10.41 لاکھ کروڈ
پر آگیا یعنی 8.76 لاکھ کروڈ کی گراوٹ جو 45.68% فیصد ہے اور ہنواز یہ
سلسلہ جاری ہے۔ اڈانی کی اس مشکل گھڑی میں سردار اور دیش بھکتی یعنی بسنتی
کھڑے تماشا دیکھتے رہے مگر کوئی اس کے کسی کام نہیں آسکا۔ ایسا کیوں ہوا ؟
اور دوسروں کے یعنی ٹاٹا ، برلا اور امبانی کے ساتھ یہ کیوں نہیں ہوا؟
مندرجہ بالا سوالات کا جواب دیسی اور بوائلر مرغی کے موازنہ سے سمجھ میں
آجائے گی ۔ ان سارے سرمایہ داروں کی طرح یہ دونوں مرغیوں کی نسل یکساں
ہوتی ہے لیکن دیسی مرغی کھلی فضا کے اندر فطری انداز میں نشوونما پاتی ہے۔
اس لیے دبلی پتلی مگر نہایت چاک و چوبند ہوتی ہے۔ پرانی نسل کے لوگوں نے
بچپن میں گھریلو مرغی کو پکڑنے کی خاطر جو دقت اٹھائی ہے اسے وہ جانتے ہیں۔
اس کے برعکس بوائلر مرغی فارم ہاوس کے اندرمصنوعی ماحول میں اپنے مالک کے
زیر نگرانی پرورش پاتی ہے۔ اس کو موٹا تازہ کرنے کے لیے اسٹیرائیڈ کے
انجکشن دیئے جاتے ہیں ۔ اس طرح ترازو کے اوپر اس کا وزن اور قیمت دونوں بڑھ
جاتاہے مگر اس کے اندر پھرتی اور لذت دونوں نہیں ہوتے۔ اس کی جانب ہاتھ
بڑھاو تو بھاگنے کے بجائے اپنی جگہ پر بیٹھ جاتی ہے۔ اسی لیے ہنڈن برگ نے
دیسی مرغیوں کو چھوڑ کر بوائلر مرغی یعنی اڈانی گروپ پر ہاتھ ڈالا ۔
فطری اور مصنوعی ترقی کے فرق کو ایسے سمجھیں کہ جنوری 2020 میں امبانی 59
بلین ڈالر پر تھے اور اڈانی 10 بلین پر ۔ اگست 2022 کے آتے آتے امبانی
91.9 پر پہنچے اوراڈانی 137بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ ایک غیر فطری عروج کا
زوال بھی اسی طرح ہوگا۔بوائلر سرمایہ داروں کو سرکاری انجکشن کیسے دیا جاتا
ہے اس کی ایک مثال ممبئی ہوائی اڈے کے ٹھیکے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دہلی کے
بعد ممبئی ہندوستان کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے جس پر گوتم اڈانی کی نظر
تھی وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر جی وی کے نامی کمپنی اس کو چھوڑنے کے
لیے تیار نہیں تھی۔ 2019تک اس ائیرپورٹ کے50.50 فیصد حصص جے وی کے کے پاس
تھے باقی 10% اور13.5% حصص دو افریقی کمپنیوں کے قبضے میں تھے اور ائیرپورٹ
اتھارٹی آف انڈیا 23.5% کی مالک تھی۔ اس سے قبل 2019 میں اڈانی گروپ نے
افریقی کمپنیوں کے شیئر خرید کر سیندھ لگانے کی کوشش کی تو جے وی کے نے
رکاوٹ کھڑی کر دی اورخود اسے لینے کی پیشکش کی مگر سرمایہ نہیں جٹاسکی ۔
اس کے بعد جے وی کے نے کناڈا ، ابوظبی اور ایک سرکاری کمپنی کے اشتراک کو
اپنے 79% شیئر بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ افریقی کمپنیوں اور دیگر قرضہ جات
کی ادائیگی ہوسکے۔ کورونا کے سبب ہوائی اڈاہ بند اور دھندا مندا تھا اس پر
ای ڈی ممبئی اور حیدرآباد دفتر پر چھاپے مارنے لگی۔ منی لانڈرنگ کے
الزامات لگائے گئے۔ اس دباو میں پہلے تو جے وی کے ریڈی کو روپوش ہوگئے اور
پھر اڈانی کو سارے شیئرس بیچ کر فارغ ہوگئے۔ یہ کام انہیں بہت پہلے کردینا
چاہیے تھا مگر جے وی کے ریڈی بھول گئے تھے اڈانی کے پیچھے کون ہے؟ اس غلطی
کی بہت بھاری قیمت انہیں ادا کرنی پڑی۔ اس طرح نہ صرف ای ڈی سے نجات مل گئی
بلکہ بیرونی کمپنیوں کا اعتراض بھی ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ یہ تو ایک مثال
ہے ایسی بے شمار مثالیں ہیں جس میں اڈانی کو بیجا حمایت ملی۔ دھاراوی ری
ڈیولپمنٹ پروجکٹ میں پہلے اڈانی دوسرے نمبر پر تھے ۔ ریلوے کی زمین ملنے
پردبئی کی سیک لنک کو باہر کیا گیا اور اڈانی کو ٹینڈر دے دیا گیا۔ سیک لنک
اس کےخلاف عدالت سے رجوع کیا ہے اور اس سے عالمی سرمایہ کاروں کو بڑا غلط
پیغام گیا ہے۔ یہ دوسری مثال ہے کہ کس طرح اسٹیرائیڈ کے انجکشن سے پرورش
پانے والی مرغی بھاری بھرکم ہوجاتی ہے مگر مشکل وقت میں اڈانی گروپ کی طرح
بیٹھ جاتی ہے۔دولت کی چاہت میں بگ ٹٹ دوڑنے والے گوتم اڈانی کے لیے سجاد
باقر رضوی کی یہ نصیحت مفید ثابت ہو سکتی ہے؎
چاہت جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں
جیسی کرنی ویسی بھرنی اب اس پر پچھتاؤ کیوں
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|