پانچ اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے غیر دانشمندانہ اور
ریاست جموں و کشمیر پر بھاری وار نے مسلسل بے چینی اور غیر یقینیت کا ماحول
بنا رکھا ہے۔جموں و کشمیر کا ہر ایک شعبہ زوال پذیر ہے ۔ جموں و کشمیر کے
لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں اور حق خود ارادیت اور اپنے
آئندہ مستقبل کیلئے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔جموں و کشمیر میں بھارت کی
فوجی مداخلت اور نام نہاد آپریشنز کی وجہ سے تجارت، سیاحت ہر ایک شعبہ شدید
مالی خسارت سے دو چار ہے۔گزشتہ برسوں میں ہونے والی حالات کی خرابی، قبل از
وقت برفباری، سیلاب کی وجہ سے سیبوں اور خشک میوہ جات کی صنعت کو بری طرح
نقصان پہنچا ہے ۔
ادھر سیکیورٹی فورسز کو بھارتی حکومت کی جانب سے دئیے گئے خصوصی اختیارات
کو اقوام متحدہ نے 2019 میں واپس لینے کیلئے کہا تھا مگر تاحال ان اختیارات
کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔ اور انہیں اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی
فوک جموں و کشمیر میں بے لگام ہاتھی کی صورت قتل و غارت ، زنا بالجبر اور
کشمیریوں کے گھروں پر قبضے کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہیومن رائٹس انٹرنیشنل
کی رپورٹ کے مطابق صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ بھارتی سیکیورٹی فورسز ان
خصوصی اختیارات کی آڑ میں اتر پردیش ، تامل ناڈو ، ناگا لینڈ ، آسام جیسی
ریاستوں میں بھی ماورائے عدالت کاروائیوں میں ملوث ہے۔ اور اب تک ہزاروں
لوگوں کا بہیمانہ قتل کر چکی ہے۔
ایک طرف بھارتی حکومت کشمیر میں نہتے حریت پسندوں کا قتل عام اور طلبہ پر
ظلم و ستم توڑ رہی ہے وہیں جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر کے لال
چوک میں ترنگا بھی لہرا رہی ہے۔ ہندوستان کی اس اول دن کی منافقانہ طرز
حکومت نے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی تنازعوں کا حل نہیں نکلنے دیا
ہے۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ جب سے مودی حکومت بھارت میں بنی ہے تب سے
پورے ملک بھارت کو کٹر ہندوتوا کے ایجنڈے والا ہندو بنانے کیلئے جی توڑ
کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اور بھارتی عوام کا بھی سیاسی شعور بس یہی دیکھنے کو
ملا ہے کہ وہ اس سے قطع نظر کہ ہندوتوا کے نظریے کی وجہ سے بھارت تقسیم در
تقسیم ہو جائے گا اور ان کے اپنے مذہبی بھائی ان سے الگ ہو جائیں گے مودی
کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔ اور آج اسی بیوقوفی کی وجہ سے مودی کے چند یار
کھرب پتی بن چکے ہیں۔ بھارت بھر کی ساٹھ فیصد دولت صرف دو سو لوگوں کے
ہاتھوں میں جا چکی ہے۔
اخبار امت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کشمیری نوجوان خاتون نے کہا کہ کشمیر
میں خوف کی ایک ایسی لہر پیدا کی جا چکی ہے کہ ہمیں فون سے لے کر گھروں میں
بھی انتہائی احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ فون سننے سے گریز کیا جاتا ہے کہ کہیں
ٹیپ نہ کیاجا رہا ہو۔ گھروں میں اور راستے میں ہوں تو دھیمی آواز میں بات
کرنا پڑتی ہے ، ایسا لگتا ہے دیواروں کے بھی کان ہوں۔ پہلے احتجاج کی صورت
میں ایک ہارڈ اپروچ تھی۔ یعنی گنز، پیلٹ گنز ، تشدد یا راستوں پر تشدد یا
تصادم مگر اب بہت کچھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بہت سی ویب سائٹس جو کشمیر کے
بارے میں بات کرتی تھیں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کئے جا چکے ہیں۔ جو
اخبارات شائع ہو رہی ہیں یا ٹی وی چینل چل رہے ہیں وہ سب اچھا کی رپورٹ دے
رہے ہیں۔ ایسے نرم جبر والے رویے کی وجہ سے کشمیریوں کو ذہنی و اعصابی مار
دی جا رہی ہے ۔کوف کی ایسی لہر پھیلی ہے کہ کشمیری اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ
انہیں، بولنے، چلنے ، کھانے اور حق مانگنے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔لوگوں
کا دم گھٹنے لگا ہے، لکھنے والے گرفتار ہو رہے ہیں ، نہ کشمیر کے باہر نہ
کشمیر کے اندر ہی کوئی خبر ہے۔ترجمان پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی موہت بھان کے
مطابق 5اگست 2019 سے کشمیری لوگ صدمے سے دو چار ہیں۔ مقامی انتظامیہ یا
بھارتی حکومت کی جانب سے جو فیصلے کئے جا رہے ہیں لوگ اس پر کوئی رد عمل
پیش نہیں کر رہے ۔
انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا صرف جغرافیہ
کو تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار اور بے بس کرنا ہے
اس لیے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں، چاہے وہ ووٹ کا جق ہو، یعنی آپ جن
لوگوں کو باہر سے لا رہے ہیں اور ان کو ووٹ کا حق دے رہے ہیں ان کو وہاں کا
ڈومیسائل دے رہے ہیں یا پھر مقامی جماعتوں کو جس طرح سے سائیڈ لائن کیا جا
رہا ہے اور ان کیلئے مختلف طریقوں سے جگہ کو کم کیا جا رہا ہے تو ظاہر سی
بات ہے کہ وہاں کے لوگ ایسی تبدیلیوں سے خوش نہیں اور اگر خوش نہیں ہیں تو
پھر احتجاج کیلئے باہر کیوں نہیں نکل رہے؟ وہ اس لئے باہر نہیں نکل رہے کہ
ڈر او ر خوف کا ایک ماحول پیدا کیا ہوا ہے ، الگ الگ طریقوں سے لوگوں کو
ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔
پاکستان وزارت خارجہ کی ترجمان کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا تازہ بیان ہے
کہ پاکستان علاقے میں امن کے قیام کیلئے عالمی برادری کے کردار اور تیسرے
فریق کی ثالثی کا خیر مقدم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے جواب میں ہندوستان
ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل کیلئے کسی بھی
تیسرے ثالثی فریق کا ہمیشہ مخالف رہا ہے ۔بھارت کے منافقانہ رویے کی ایک
مثال یہ بھی ملتی ہے کہ جب ہندوستان میں کورونا اور پھر سیلاب کی وجہ سے
تباہ کاریاں ہوئیں تو اس وقت کی پاکستان حکومت نے بھارت کو بھرپور امداد کی
پیش کش کی تھی۔ جبکہ بھارت کا کردار یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان میں سیلاب کی
تباہ کاریوں کی وجہ سے مہنگائی اور افراط زر کی سی صورتحال ہے تو دوسری طرف
بھارت ایشین پیسیفک گروپ اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان پر اقتصادی
پابندیاں لگوانے کیلئے متحرک ہے۔
پاکستان ہمیشہ امن کے قیام کیلئے عملی طور پر خواہاں رہا ہے ، لیکن بھارت
نے جنیوا کنونشن سے لے کر تمام تر معاہدوں سے منہ موڑ کر ہٹ دھرمی کا
مظاہرہ کیا ہے۔ کشمیر میں جس خاموشی کو بھارت امن قرار دے رہا ہے وہ خاموشی
در اصل طوفان سے پہلے کا سکوت ہے ۔ اور یہ طوفان بلاشبہ بھارت اور خطے
کیلئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ اقوام متحدہ اگر اپنے ہی فیصلوں اور احکامات پر
بھارت جیسے ملکوں سے عمل درآمد کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر اسے ختم
کر دینا چاہئے اور ہر ایک ملک کو اپنی قوم، ملت اور مفاد میں آزادی دے دینی
چاہئے۔
|