(ڈاکٹر سلیم اختر کے حوالے سے اس مضمون کی تیاری میں
روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے مضمون جس کی تحریر کرامت علی بھٹی کی
ہے اور سوانح عمری سے استفادہ کیاگیا ہے تاکہ قارئین ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم
کی ادبی خدمات کے حوالے سے بھی مکمل جان کاری حاصل کرسکیں۔ میری نظر میں یہ
کاوش بھی ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم کی ادبی اور تدریسی خدمات کا اظہار ہے۔ )
....................
ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں جو نقاد ہونے
کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پہچان تین
حوالوں سے ہوتی ہے۔ بطور نقاد‘ افسانہ نگار اور استاد ہوتی ہے۔ ان کی کتاب
’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخ میں
ایک اہم حوالہ ثابت تصور کی جاتی ہے۔ دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ
گورنمنٹ کالج لاہور میں انہوں نے ایک عرصہ تک تدریسی فرائض سرانجام دیئے۔
ڈاکٹر سلیم اختر 1977ء سے شروع ہو کر مسلسل تئیس سال اردو ادب کے سالانہ
جائزے بھی لکھتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں ان کی ستائش کی جاتی رہی، وہاں
ان پر دشنام طرازیاں بھی ہوتی رہیں۔ ان کی خودنوشت ’’نشان جگر سوختہ‘‘ کے
نام سے چند سال قبل منظر عام پر آئی۔ ان کی دیگر نمایاں کتابوں میں (تنقید)
اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ تنقیدی دبستان‘ افسانہ‘ حقیت سے علامت تک‘
اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘ ادب اور کلچر‘ مجموعہ تحقیق وتنقید (افسانہ) کڑوے
بادام‘ مٹھی بھر سانپ‘ چالیس منٹ کی عورت‘ کاٹھ کی عورتیں‘ آدھی رات کی
مخلوق‘ (ناولٹ) ضبط کی دیوار (یہ ہندی وعربی میں ترجمہ ہوا)‘ (نفسیات) عورت
جنس اور جذبات‘ ہماری جنسی اور جذباتی الجھنیں اور خودشناسی شامل ہیں۔ اپنی
زندگی میں وہ 90 کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی سے قریبی تعلق
کے بنا پر انہیں قاسمی گروپ کا تنقیدی ترجمان بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر11 مارچ 1934ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی
عبدالحمید ملٹری اکاؤنٹس(CMA) میں ملازم تھے۔ اس لئے جہاں جہاں ان کا
تبادلہ ہوتا رہا بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے
والد قاضی عبدالحمید بیوی بچوں کے ہمراہ انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو
انبالہ‘ پونہ‘ لاہور ٗ فورٹ سنڈے مین‘ (بلوچستان) اور راولپنڈی میں تعلیم
حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ فیض الاسلام ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے
بعد آپ نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج لوئر مال راولپنڈی سے کی۔ انہوں نے
بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں کی۔ وہاں آٹھ
سال رہنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے آئے۔ 1994ء میں یہاں سے ریٹائرمنٹ
کے بعد اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ زندگی
کے آخری دو سال انہوں نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس میں گزارے۔
************
ڈاکٹر سلیم اختر اپنے منفرد ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں -:
میری باقاعدہ یادیں 1939ء سے شروع ہوتی ہیں۔ اس زمانہ میں ہم فلیمنگ روڈ کی
ایک بند گلی کے آخری مکان میں رہتے تھے۔ اس سے اگلی گلی ٹھنڈی کھوئی والی
کہلاتی تھی اور تھوڑا آگے جا کر سبزی منڈی آ جاتی تھی۔ ایک طرف قلعہ گوجر
سنگھ کا چوک اور دوسری جانب حضرت شاہ ابو العلی کا مزار تھا۔اسی گلی میں
تاجور نجیب آبادی کے رسالہ ’’شاہکار‘‘ کا دفتر تھا۔ ان کا ایک بیٹا عرشی
میرا ہم عمر اور دوست تھا۔ یہیں اختر شیرانی بھی بیٹھتا کرتے تھے اور ابا
جی بھی۔ یہ مجھے اس لئے یاد ہے کہ کئی مرتبہ آپا جی نے وہاں سے ابا جی کو
بلوانے کے لئے مجھے اس دفتر میں بھیجا۔ اسی طرح وہاں ایک نائی کی دکان پر
بھی بعض اوقات یہ لوگ بیٹھتے۔ میں ایک مرتبہ ابا جی کو نائی کی دکان سے
بلانے کے لیے گیا تو اختر شیرانی کہہ رہے تھے:
مرتے ہیں جس سلمیٰ پہ وہ سلمیٰ ہی اور ہے
میں نہیں جانتا یہ مصرعہ کیوں میرے ذہن میں اٹک گیا حالانکہ نہ میں مرنے کا
مطلب سمجھتا تھا اور نہ ہی سلمیٰ کا!
اس دور کی بہت سی باتیں واضح طور پر ذہن میں نقش ہیں۔ جیسے مجھے کسی کے گھر
کی سیڑھیوں پر سے اکنی مل گئی‘ گھر جا کر آپا جی کو خوشی خوشی دکھائی تو
انہوں نے سمجھایا کہ یوں کسی کے گرے ہوئے پیسے نہیں اٹھانے چاہئیں۔ میں
جاؤں اور وہیں پر رکھ کر آؤں، جہاں سے اکنی اٹھائی تھی۔ چنانچہ میں نے ایسا
ہی کیا۔میں نے پڑوسن کو جا کر کوئی ایسی بات کہہ دی جو خاصی نازیبا تھی
چنانچہ ابا جی نے ٹھیک ٹھیک پھینٹی لگائی۔میں سکول کے گروپ کے ساتھ چڑیاگھر
دیکھنے گیا مگر سب سے بچھڑ کر راستہ بھول گیا اور پھر دھکے کھاتا نہ جانے
کیسے خودبخود گھر پہنچ گیا مگر پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کر آپا جی کو پکارا
اور بے ہوش ہوگیا۔
بازار سے دودھ لاتا تو راستہ میں گرا دیتا ۔ پھر سیڑھیوں میں کھڑا روتا
رہتا کہ دودھ گرا دینے پر پٹائی ہو گی۔نسیم سے میری لڑائی ہوئی ہے‘ میں
چھوٹی قینچی سے اسے زخمی کر دیتا
اور پھر روتا رہتا کہ اب کیا ہو گا‘ مجھے سزا ملے گی‘ قینچی کی صرف نوک
چبھی تھی زخم نہ تھا لیکن میں مکمل طور پر ہراساں تھا۔
اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو ہماری گلی اور ٹھنڈی کھوئی والی گلی کے درمیان
خالی قطعہ پر قبریں تھیں۔ میں ان قبروں پر نظریں جمائے بیٹھا رہتا‘ میں
سوچتا مرنے کے بعد یہ سب اﷲ میاں کے پاس چلے گئے‘ اﷲ میاں کیسے ہوں گے۔
لمبا قد‘ گورا رنگ اور لمبی سفید داڑھی۔ اس سے زیادہ کی میری کمزور تخیل
میں سکت نہ تھی۔
خوب بارش ہوتی تو گلی میں پانی کھڑا رہتا۔ سب بچوں کے ساتھ مل کر میں بھی
اس پانی میں نہاتا ہوں۔ گھر آتا تو ڈانٹ پڑتی اور نصیحت آمیز لہجے میں کہا
جاتا کہ گندے پانی میں نہانے سے بیمار ہو جاؤ گے۔ اس کے بعد گلی میں جا کر
بارش میں نہانے کی حسرت ہی رہی۔ ابا جی گھر میں ایک رسالہ لاتے ہیں۔ یہ
بچوں کا رسالہ تھا۔ نام تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ سروق پر ایک جھنڈے
کے گرد بچوں کا دائرہ بنا ہواتھا۔ ادب سے یہ میری اولین شناسائی تھی۔
میرے چچا عبدالرشید کوٹھے پر پتنگ اڑا رہے تھے۔ میں ڈور کا پنا پکڑے کھڑا
ہوا تھا۔ خود بھی گھر والوں کی آنکھ بچا کر گڈیاں اڑتا تھا۔
میں ابا جی اور آپا جی کے ساتھ سینما ہال میں گیا۔ فلم کا نام تو مجھے یاد
نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ فلم میں دروازے کھلتے اور بند ہوتے ہیں‘ سفید لباس
میں ایک روح ہے‘ جوان دروازوں میں سے گزر رہی تھی‘ ساتھ ہی ایک نوجوان تھا‘
وہ روح اسے کچھ سمجھا رہی تھا۔ میں سخت خوفزدہ بھی تھا ۔ شاید ڈر کے مارے
روتا بھی رہا۔
’’نیلی فراک‘‘:
پہلا اور لاڈلا بچہ تھا اس لئے کسی ایسے ویسے سکول میں کیسے داخل کرایا
جاتا۔ چنانچہ مجھے انگریزی سکول میں داخل کرایا گیا۔ اگر میں نام میں غلطی
نہیں کر رہا تو اس کا نام سٹینڈرڈ سٹی ہائی سکول تھا اور یہ میکلوڈ روڈ پر
واقع تھا۔
کلاس میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اودے اودے‘ نیلے نیلے‘ پیلے پیلے
ربنوں والی لڑکیاں اور نیکروں میں لڑکے‘ لڑکے کیا‘ احمق! جنہیں ساتھ بیٹھنے
والی لڑکی کی افادیت کا اندازہ نہ تھا۔ اس ضمن میں کوئی خاص تاثرات میرے
ذہن میں نہیں تھے۔ کیا میری کسی لڑکے یا لڑکی سے کوئی خاص دوستی تھی؟
غالباً نہیں! ہاں! یہ یاد ہے کہ ایک ہندو لڑکے کا گھر سکول کے سامنے گلی
میں تھا‘ وہ مجھے اپنے گھر لے جاتا ‘ ایک معمر عورت ہمیں دودھ پلاتی ہے۔
میں خاصا نالائق طالب علم ثابت ہوتا ۔ نہ انگریزی آتی ہے نہ ریاضی‘ بس میں
ڈانٹ کھاتا رہتا تھا۔ ساتھ بیٹھنے والی لڑکی سے لڑتا رہتا ۔ اس کے کپڑوں پر
روشنائی پھینک دیتا ۔اسی سکول میں میں نے وہ پہلی لڑکی دیکھی جو مجھے اچھی
لگی۔ یہ میں آج سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے اچھی لگی تھی۔ اس عمر میں تو اچھی
لگنے کا مطلب بھی معلوم نہ تھا۔ وہ میری کلاس فیلو نہ تھی‘ جوان لڑکی تھی۔
میں آج بھی آنکھیں بند کروں تو اس کا نیلا فراک اور سینہ سے لگائی کتابیں
دیکھ سکتا ہوں۔ اس سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ میں محض
’’چھوٹا‘‘ تھا۔ اسے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ اس کی وجہ سے مجھے نیلا رنگ پسند
رہا اور مدتوں تک عیسائی لڑکیوں کے بارے میں عجب طرح کا تاثر رہا ہے۔ میرے
ابتدائی دور کے بیشتر افسانے عیسائی لڑکیوں کے بارے میں تھے۔ یہ اسی تاثر
کی وجہ سے تھا۔ کالج کے زمانہ میں ایک عیسائی لڑکی کے چکر میں بھی رہا۔
لیکن یہ الگ قصہ ہے!
بچھو! کونین!!:
1939ء میں عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی لیکن بچوں کا اس جنگ سے کیا تعلق؟ ابا
جی ملٹری اکاؤنٹس میں تھے۔ سو اگلے برس یعنی 1940ء میں انہیں مڈل ایسٹ بھیج
دیا گیا اور ہم اپنی پھوپھی رشیدہ کے پاس فورٹ سنڈیمن میں رہنے کے لئے آ
گئے۔ پھوپا ایم سی ایس میں تھے اور ان دنوں وہاں تعینات تھے۔ باپ دور تھا
ماں کا لاڈلا‘ پڑھتا کیسے سارا وقت آوارہ گردی میں گزرا۔
اس زمانہ کا فورٹ سنڈیمن بلوچستان کا چھوٹا سا قصبہ تھا‘ انگریزی عمل داری
کی آخری حد‘ اس کے بعد آزاد علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔وہاں کی صرف ایک یاد
محفوظ ہے۔ بصورت بچھو! سیاہ رنگ کے خاصے لمبے بچھو‘ اتنے عام کہ شریر لڑ کے
انہیں پکڑ کر دھاگے میں باندھ کر ایک دوسرے کو ڈرایا کرتے۔ ہفتہ میں‘ ایک
آدھ بچھو مار لینا گویا معمولات میں شامل تھا۔ آپا جی نے پہننے سے پہلے
جوتی اٹھائی تو اندر سے بچھو نکل آیا۔ میں دیوار کے ساتھ کھڑا دھار مار رہا
تھا۔ اوپر نگاہ کی تو سیاہ بچھو زہر بھری مالا اٹھائے چلتا نظر آیا۔ میں
بچھو بچھو چلاتا بھاگا۔
دوسری یاد ملیریا کی ہے۔ شدید کپکپی سے بخار چڑھتا اور کونین کی سرخ کڑوی
دوا پینی پڑتی۔ میں نے اتنی کونین پی‘ اتنی کونین پی‘ کہ کڑواہٹ کے تلخ
ذائقہ کا احساس ہی ختم ہو گیا‘ کونین غٹاغٹ پی جاتا۔ منہ کی کڑواہٹ دور
کرنے کو نہ چینی لیتا نہ نمک۔یہ وہ ابتدائی ’’ٹریننگ‘‘ تھی جو اب کام آ رہی
ہے یعنی نہ بچھو صفت لوگوں سے ڈر لگتا ہے اور نہ ہی گالیوں کی کڑواہٹ محسوس
ہوتی ہے۔
ہاں یاد آیا‘ فورٹ سنڈیمن ہی میں میں نے پہلا کیمرہ خریدا‘ یہ کوڈک کا باکس
کیمرہ تھا‘ قیمت صرف دس روپے‘ اب تو قیمت سن کر ہنسی آتی ہے مگر اس زمانہ
میں دس روپے خاصی معقول رقم تھی۔
میں دن بھر لڑکوں کے ساتھ‘ پہاڑیوں پر کھیلتا رہتا‘ کوئی روک ٹوک نہ تھی‘
اول تو لاہور ہی میں کوئی ایسا عالم فاضل نہ تھا مگر سال بھر کی خالص آوارہ
گردی نے بالکل ہی چوپٹ کر دیا۔ ہاں! فوٹو گرافی خوب کی‘ اب سوچتا ہوں کیا
پدی کا شوربہ کیا اس کی ٹوفوگرافی۔ اتفاق سے اس زمانہ کی اتاری ہوئی تصاویر
میں سے ایک آدھ محفوظ رہ گئی ہیں۔
مجھے فوٹوگرافی کا مدتوں شوق رہا۔ آؤٹ ڈور مناظر اور چہروں کے کلوزاپ‘ یہ
خاص دلچسپی تھی میری! معلوم نہیں آج کل فورٹ سنڈیمن کیسا ہے اس زمانہ میں
تو ہر طرف انگوروں کی بیلیں نظر آتیں‘ لڑکے سارا دن ان بیلوں پر چھاپے
مارتے اور جھولیاں بھر بھر انگور کھاتے۔ دراصل چوری چوری انگوڑ توڑنا کھانے
کے لئے کم تھا۔ یہ ایک طرح کا کھیل بلکہ ایڈونچر تھی۔ انگور کھٹے ہوتے تو
پھینک دیتے مگر انگور کی بیلوں پر دھاوا مارنے سے باز نہ آتے۔
ایک سال بعد اگست 1941ء میں ابا جی مڈل ایسٹ سے واپس آئے تو ان کی پوسٹنگ
پونا میں ہوئی۔ کچھ عرصہ ہم زبیدہ پھوپھی کے ہاں بمبئی میں مقیم رہے۔
غالباً بھنڈی بازار کے قریب فلیٹ تھا۔ یہاں ابا جی کا جے جے ہسپتال میں
ہرنیا کا پہلا آپریشن ہوا۔ ہسپتال کا نام اس لئے یاد ہے کہ ابا جی کو کھانا
دینے میں ہی جاتا تھا۔ٹھیک ہو جانے کے بعد ایک دن ابا جی نے سارے دن کے لئے
ٹیکسی لی اور تمام بمبئی کی سیر کرائی۔بمبئی میں بھی آزاد پھرتا رہا۔ کئی
ماہ بعد ابا جی نے پونے میں رہائش کا بندوبست کیا اور ہم بمبئی سے چلنے
والی ٹرین ’’دکن کوئین‘‘ سے پونے وارد ہوئے۔
***********
ڈاکٹر سلیم اختر ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ ان
کے نزدیک ادب کو محض تفریح طبع کا ذریعہ ہی نہیں ہونا چاہئے۔ ادیب‘ دانش
ور‘ صحافی‘ معلم‘ مقرر یہ سارے طبقے لوگوں کا ذہن بناتے ہیں مگر اقتدار یا
اختیار نہ ہونے کے سبب ان چیزوں پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پریم
چند نے سو سال قبل افسانے میں حقیقت نگاری کا ڈول ڈالا۔ وہ بطور حقیقت نگار
معاشرے کی درست عکاسی کر رہے تھے۔ محض رومانویت سے درست معاشرتی عکاسی ممکن
نہیں۔
فرائڈ اور یونگ کی تحریروں کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دینے والے ڈاکٹر سلیم
اختر نقاد ہونے کے باوجود اعتراف کرتے ہیں کہ تخلیق کو تنقید پر سبقت حاصل
ہے۔ اگر تخلیق کم تر درجے کی ہو تو اس پر تنقید بھی اس معیار کی ہو گی۔
اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو تو نقاد کو بھی اس کی بلند سطح پر آنا پڑے گا۔
ہمارے ہاں سب سے بڑی خرابی ادبی کتابوں کی تقاریب رونمائی ہے۔ اب ان
تقریبات میں دیانت دارانہ تعریف کریں تو دوست ناراض ہو جاتے ہیں کہ یہ کم
تھی۔ پھر ان تمام چیزوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریریں اور مقالے
رسالوں میں چھپتے اور کتب کی شکل میں مرتب بھی ہو رہے ہیں۔ مدلل مداحی
تنقید نہیں مگر اس معاشرے میں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ خود مجھے اس طرح کی
تقریبات کے لئے لکھے اپنے ننانوے فیصد مضامین شائع کرنے پڑے جو چھپوائے
انہیں ازسرنو لکھنا پڑا۔
’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ لکھنے پر ڈاکٹر سلیم اختر کو بے پناہ
تنقید اور تعریف سے واسطہ پڑا۔ اب تک اس ادبی جائزے کے 29 ایڈیشن فروخت ہو
چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ
اوریجنل کتاب لکھنے پر کم وقت صرف ہوتا ہے جبکہ اسے اپ ڈیٹ کرنے پر زیادہ۔
اب چونکہ صحت خراب رہتی ہے اس لئے اپ ڈیٹ کرنا آسان عمل نہیں رہا۔ ڈاکٹر
سلیم اختر ڈاکٹر وزیر آغا کو انشایئے کا بانی ماننے پر قطعاً خود کو آمادہ
نہیں پاتے۔ ان کے مطابق معلوم نہیں لوگ اس روش کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں کہ
انہوں نے کوئی چیز ایجاد کی ہے۔ جہاں تک انشایئے کی بات ہے تو سر سید سے
بھی پہلے ماسٹر رام چندر انگریزی انشائیوں کے تراجم کے ذریعے اس ضمن میں
پیش رفت کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد کا ادبی
منظر بڑا ویران اور سونا ہے۔ ان کی وفات نے مجھ پر بہت گہرا اثر کیا۔ ان کا
دفتر واحد جگہ تھی جہاں میں جا کر دکھ سکھ کی کہہ لیتا۔ اب لاہور میں
بیٹھنے کا کوئی اڈا نہیں رہا۔ میں اگر کبھی قاسمی صاحب کے ہاں نہ جا پاتا
تو ان کا اپنا فون آ جاتا۔ ایسے محبت کرنے والے اب کہاں۔ منیر نیازی مشکل
آدمی تھا مگر میری اس سے اچھی صاحب سلام دعا تھی‘ شاید اس لئے کہ میں شاعر
نہیں ہوں۔ اب قرۃ العین حیدر بھی چلی گئیں‘ یہ لوگ مشترکہ میراث تھے جب
کوئی بڑا ادیب دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ادب کو بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔ جن
دنوں عطاء الحق قاسمی علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتے تھے‘ بلاتکلف ان کے ہاں
چلا جاتا۔ اب وہ بھی یہاں سے دور نقل مکانی کر گئے۔ یوں کوئی ایک بھی گھر
آس پاس نہیں‘ جہاں بے تکلفی کے ساتھ وقت بے وقت جایا جا سکے۔ یہ وہ دور
میڈیا کا ہے تاہم تخلیقی عمل تعطل کا شکار ہے۔ کسی بڑے لکھاری کا نام لیں
جو تیس چالیس سال قبل کی لکھی تحریروں پر زندہ نہ ہو۔ مجموعی طور پر پورا
ملک زوال کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ادب بھی اسی صورت حال کا شکار ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر اب تک تنقید‘ لسانیات‘ غالبیات‘ اقبالیات‘ نفسیات‘ بنیاد
پرستی‘ جنس سمیت دیگر متفرق موضوعات پر بیسیوں کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ آپ
نے ماضی میں کسی سرکاری ایوارڈ کے لئے اپنی کتابیں نہ بھجوائیں لہٰذا کوئی
ایوارڈ بھی نہ مل سکا۔ اس سال پہلی بار انہیں اپنی بے پناہ ادبی خدمات کے
صلے میں ’’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ دیا گیا ہے۔ وہ اب تک بھارت‘
امریکہ‘ ڈنمارک‘ چین‘ ماریشس‘ دبئی اور قطر جا چکے ہیں۔ بہار میں رانچی
یونیورسٹی کے ڈاکٹر جلیل اشرف نے ان کی تنقید پر ڈاکٹریٹ کی۔ عنوان تھا
’’اردو تنقید کے فروغ میں سلیم اختر کا حصہ۔‘‘ اسے بعدازاں ’’ڈاکٹر سلیم
اختر بحیثیت نقاد‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں بھی چھاپا گیا۔ اس کتاب کو
مغربی بنگال اردو اکیڈمی سے ایوارڈ بھی ملا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو اس بات پر
ناز ہے کہ وہ پہلے نقاد ہیں جن پر ڈاکٹریٹ کی سطح پر کام ہوا۔ ان کے کئی
افسانے دنیا کی دیگر زبانوں میں چھپے اور مقبولیت حاصل کی۔
رات بارہ ایک بجے تک لکھنے پڑھنے کے عادی ڈاکٹر سلیم اختر کو فرصت ملے تو
انگریزی خاص طور پر دستاویزی فلمیں دیکھتے ہیں۔ وہ جہاں رچرڈ گیئر کو
رومانٹک فلموں کا سب سے کامیاب ہیرو قرار دیتے ہیں وہیں ہیلی بیری کی
دلفریب مسکراہٹ کا بھی خاص طور پر تذکرہ کرتے ہیں۔ آج کل شائع ہونے والی
شاعری کی اکثر کتابیں انہیں متاثر نہیں کرتیں۔ انہوں نے گھر میں ایک
لائبریری بنا رکھی ہے۔ اب تو ان کا کچن بھی کتابوں سے بھر چکا ہے۔ انہیں سب
سے زیادہ اناطول فرانس کے ناول Tais نے متاثر کیا۔ جسے پڑھ کر ان کا پوری
اخلاقیات سے اعتبار اٹھ گیا۔ پھر سمرسٹ ماہم کی ’’دی رین‘‘ نے بھی انہیں
کافی متاثر کیا۔ بھگوتی چرن ورما اور منٹو کا کروٹ بھی انہیں یادگار لگا۔
تین بچوں کے باپ ڈاکٹر سلیم اختر کو فکشن میں بانوقدسیہ اچھی لگتی ہیں۔ وہ
تمام تر اختلافات کے باوجود ڈاکٹر وزیر آغا کا نام بھی نمایاں ادبی شخصیت
کے طو رپر لیتے ہیں۔ شاعری میں شہزاد احمد‘ افتخار عارف اور ظفر اقبال اچھے
ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ محمد علی صدیقی‘ سلیم کوثر‘
انور شعور‘ خالدہ حسین‘ شبنم شکیل کا دم بھی غنیمت لگتا ہے۔
بچپن میں میوزک ڈائریکٹر بننے کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر سلیم اختر نے
میٹرک کے بعد راولپنڈی میں موسیقی سیکھنے کے لئے کوئی ادارہ ڈھونڈنے کی بہت
کوشش کی مگر بات نہ بن سکی۔ اب بھی ان کے پاس ستار‘ طبلہ اور سرود کی بے
شمار کیسٹیں ہیں۔ نوجوانی میں وہ محض بیٹ سے ہی اندازہ لگا لیتے تھے کہ اس
کی دھن کس نے ترتیب دی ہو گی۔ اچھی موسیقی انہیں اتنا متاثر کرتی ہے کہ خود
کو غیرجذباتی رکھنے کی تمام تر کوشش کے باوجود ان کی آنکھوں میں آنسو آ
جاتے ہیں۔ مختلف ممالک کی رسومات پر مبنی دستاویزی فلمیں دیکھنے کے شوقین
ڈاکٹر سلیم اختر کے نزدیک دنیا کا کوئی کلچر غلط نہیں۔ دراصل ہم چیزوں کے
بارے میں نامکمل معلومات کے باعث ان کے بارے میں غلط تاثرات قائم کر لیتے
ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر بچپن اور جوانی سے ہی معتدل مزاج اور سنجیدہ طالب علم
رہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارے زمانہ طالب علمی میں چھوٹی موٹی شرارت ہی
ایکٹیویٹی ہوتی۔ آج کل کی طرح کلاشنکوف کی مدد سے دوسروں کو قتل کرنے کا
کوئی رواج نہیں تھا۔ آج کے طالب علم کو تو سیاسی اوباشوں نے راہ راست سے اس
حد تک بھٹکا دیا ہے کہ اب ویگنوں سے بھتہ لینا اور غنڈہ گردی ہی اس کا اصل
مطمع نظر ہے"۔
ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں میں شعری وجدان:
انسان کہانی کا خالق بھی ہے اور مخلوق بھی۔ خالق اس لحاظ سے کہ اس نے بے
شمار کہانیاں تخلیق کی ہیں اور مخلوق اس اعتبار سے کہ وہ بھی کسی کہانی کا
محض ایک کردار ہی محسوس ہوتا ہے۔ انسان کے اردگرد بے شمار کہانیاں بکھری
پڑی ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہر انسان خود ایک مکمل کہانی ہے۔
کسی انسان کا کمال یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی کہانی کو نمک مرچ لگا کر لوگوں کے
سامنے پیش کر کے فخر کرے بلکہ باکمال تخلیق کار کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک
پھول کی کہانی کو سو رنگ سے اجاگر کرنے کا مظاہرہ کرے۔ داستان گو‘ ناول
نگار اور افسانہ نویس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ انسان فطری طور پر
کہانی پسند ہوتا ہے لہٰذا ان کے لئے کہانی کی تشکیل اور تعمیر مسئلہ ہوتی
ہے تاثیر ہرگز نہیں۔ کسی بھی کہانی کو تخلیق کرنے والے کا سب سے بڑا المیہ
یہ ہوتا ہے کہ وہ بے تاثیر کہانی وضع کر دے۔ شاعری کی نسبت کہانی کا اثر
دیرپا ہوتا ہے۔ مرثیہ نگار‘ قصیدہ گو اور مثنوی نویس کو یہ اطمینان ہوتا ہے
کہ اگر اس کے چند اشعار بھی قاری کی توجہ حاصل کر لیں تو وہ کامیاب ہے لیکن
غزل گو کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ہر شعر دوسرے سے جدا ہونے کے باعث اپنا
علیحدہ اثر رکھتا ہے لہٰذا غزل گو ہر شعر پر شدید محنت کرتا ہے۔ اسی طرح
داستان نویس اور ناول نگار کی نسبت افسانہ نگار کو اپنی بات کو مختصر طریقے
سے بیان کرنا ہوتی ہے لہٰذا وہ غزل کے شاعر کی طرح اپنے ہر افسانے کو بنظر
غائر دیکھتا ہے اور اسے پرتاثیر بنانے کے لئے تمام ممکنہ حربے بروئے کار
لاتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے باقاعدہ غزلیں تو نہیں لکھی ہیں لیکن میں ان
کے افسانوں کو غزلوں کے اشعار سے تعبیر کرتا ہوں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ
ڈاکٹر سلیم اختر کا شعری ذوق ان کے افسانوں میں سرایت کر گیا ہے اور وہ
شعری افسانے کے خالق ہیں۔ جس طرح غزل میں موضوعات کا ایک جنگل آباد ہوتا ہے
بعینہٖ سلیم اختر کے افسانوں میں بھی رنگارنگ موضوعات موجزن ہیں۔ جس طرح
ایک وسیع وعریض سمندر لاتعداد قطرات جذب کر کے کلی طور پر سمندر کہلاتا ہے
اسی طرح سلیم اختر کے سینکڑوں افسانے ایک وحدت میں سموئے ہوئے محسوس ہوتے
ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہر افسانہ غزل کے شعر کی طرح پرلطف ہے اور جب
تمام افسانوں کو میزن نقد ونظر میں تولا جاتا ہے تو وہ اکائی کی صورت میں
ایک غزل کا روپ دھار لیتے ہیں۔ میرے نزدیک ڈاکٹر سلیم اختر کا یہی وصف
انہیں ہم عصر افسانہ نگاروں میں ممتاز بنانے کا موجب ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر طبعاً کہانی پسند ہیں اور اسی فطری لگن نے انہیں افسانہ
نویسی کی جانب مائل کیا ہے۔ وہ اس صنف کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ
آج تک اس سے رہائی نہ پا سکے۔ اہل نقد ونظر تو انہیں اس طرح دار صنف کا محض
عاشق کہتے ہیں لیکن میں تو انہیں ’’قتیل افسانہ‘‘ کہنا پسند کروں گا۔ ڈاکٹر
سلیم اختر نے درج ذیل افسانوی مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔
(1) کڑوے بادام‘ (2) کاٹھ کی عورتیں‘ (3) مٹھی بھر سانپ‘ (4) چالیس منٹ کی
عورت‘ (5) آدھی رات کی مخلوق‘ (6) نرگس اور کیکٹس (افسانوی کلیات)
اس کے علاوہ حال ہی میں ڈاکٹر سلیم اختر کے جو افسانے مختلف رسائل اور
جرائد میں شائع ہو کر صاحبان فہم وذکا سے داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں ان
میں مقدر ساز‘ جرس غنچہ‘ کوہِ بے اماں‘ شکار‘ خشوع وخضوع‘ سنڈریلا‘ بلی اور
الزائمر وغیرہ بطور خاص شامل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں کے حوالے سے
چند معروضات پیش کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کو بتا دیا
جائے کہ ڈاکٹر سلیم اختر نے محض افسانے لکھ کر ہی اس صنف کی خدمت نہیں کی
ہے بلکہ انہوں نے افسانے کے معیارات اور مسائل کے حوالے سے کئی کتب اور
مقالات بھی تخلیق کئے ہیں۔ اس طرح ان کے سینکڑوں افسانے اور اس صنف پر لکھے
گئے ان کے بیسیوں تحقیقی وتنقیدی مضامین ڈاکٹر سلیم اختر کی افسانے سے بے
پناہ دلچسپی پر دلالت کرتے ہیں تاہم یہ بات واضح رہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کے
لئے تنقید سہل اور افسانہ نگاری دشوار ترین عمل ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں میں موضوعاتی کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہ
تو ممتاز مفتی کی طرح نفسیاتی عوارض کی شناخت تک محدود رہتے ہیں اور نہ
اشفاق احمد کی طرح روحانیت کو ہی اپنا مطمع نظر بناتے ہیں۔ ان کے افسانوں
میں ایک پرشور سمندر جلوہ گر ہے جس کے موضوعاتی کنارے اہل بینش کی نگاہوں
سے پوشیدہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں کا بنظرغائر مطالعہ کیا جائے تو
ہم انہیں درج ذیل درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
ا- فلسفیانہ افسانے (آئینہ‘ تخلیق‘ جو جاگیں ہیں خواب میں‘ ساء کی طرح ساتھ
پھریں)
ب- معاشرتی افسانے(سفر سے واپسی‘ دھرتی کی زنجیر‘ گریزپا‘ دو سیارے)
ج- نفسیاتی افسانے (کاٹھ کی عورتیں‘ چالیس منٹ کی عورت‘ بسیرے دی جورو‘
سویٹ ہارٹ)
د- تجریدی افسانے (بے چہرہ لوگ‘ آئینہ تکرار تمنا‘ خاموشی کا کیپسول‘ بچہ
جمورا)
س- جنسی افسانے (بنجر مرد زرخیز عورتیں‘ متوازی خطوط‘ تختہ مشق‘ خبیث دا
پتر)
ص- عمومی افسانے (درد کا بندھن‘ دھرتی کی زنجیر‘ ماں بیٹا‘ زرق حلال)
ض- علامتی افسانے (جس رات ستارے ٹوٹے‘ نادیدہ‘ کھجوروں کا موسم‘ اختتام)
اس مختصر شذرے میں تو ان تمام افسانوی رخوں کا تفصیلی مطالعہ ممکن نہیں ہے
تاہم ان پر جستہ جستہ نظر ڈالنا ممکن ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو قدرت کی جانب
سے یہ وصف ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ عام بات کو بھی خاص بنانے میں ید طولیٰ
رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے عمومی افسانو ں میں بھی تخلیق کا ایک نیا
زاویہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک نفسیات دان ہیں لہٰذا وہ اپنے
افسانوں میں تمام نفسیاتی حربوں کو بطریق احسن استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر
صاحب کے جنسی افسانوں میں نہ تو عامیانہ پن ہے اور نہ تہذیب سے گری ہوئی
کوئی بات۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جنس کے تمام رویوں کو بھرپور طریقے سے
اجاگر کیا ہے مگر مجال ہے کہ جنسی لذت کی کوئی عامیانہ صورت یا کیفیت ہمارے
سامنے آ جائے۔ یہ وہ خاص وصف ہے جس کے باعث بڑے بڑے افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم
اختر کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے علامتی افسانے اپنے
اندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شعوری کوشش کر کے اپنے افسانوں کو
علامت کی بنیاد پر مبہم نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے علامت سے شعوری اخفا کا
کام لیا ہے اور اس سے معنی کی کئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر کے
افسانے معاشرے کے رنگوں سے کشید کئے گئے ہیں تاہم انہوں نے معاشرے کو تخلیق
کی بصیرت آموز تیسری آنکھ سے دیکھا ہے۔ انہوں نے محض معاشرے کے پیچیدہ
مسائل ہی کو پیش نہیں کیا بلکہ ان کے حل کے لئے مثبت تجاویز بھی پیش کی
ہیں۔ سلیم اختر کے تجریدی افسانوں میں فکر ونظر کی کئی سطحیں جلوہ گر
دکھائی دیتی ہیں۔ وہ چیزوں کو نئے تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کے عادی
ہیں۔ ان کے تجریدی افسانے اردو افسانوی ادب کے لئے بے مثال سرمایہ ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کے بہت سے افسانے فلسفیانہ گہرائی اور گیرائی رکھتے ہیں۔
ان افسانوں کی فلسفیانہ سطح بہت بلند ہے اور یہ افسانے ڈاکٹر صاحب کے وسیع
المطالعہ ہونے کی دلیل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانوں کی یہ خودساختہ
وضعی تقسیم اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک وسعت اور
ہمہ گیری ہے جو انہیں اردو افسانے کی تاریخ میں ایک مستقل مقام عطا کرنے کا
موجب ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا افسانوی اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کا
لہجہ کاٹ دار ہے اور وہ طنزیہ حربوں سے خوب خوب کام لینا جانتے ہیں۔
انگریزی الفاظ کے استعمال نے ان کے افسانوں کی زبان کو عام بول چال کے بے
حد قریب کر دیا ہے۔ اس طرح اب یہ بات بلاشک وتردد کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر
سلیم اختر کے افسانے اپنے رنگارنگ موضوعات اور فکر انگیز اسلوب کے باعث آج
بھی قابل قدر اور لائق مطالعہ ہیں۔ اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے
یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایک معتبر افسانہ نگار کا فرض ہے کہ وہ افسانے
کی تشکیل اور تعمیر میں تاثیر کے عنصر کو اہمیت دے۔ یہ امر انتہائی امتنان
کا باعث ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک ماہر غزل گو کی طرح اپنے ہر افسانے
کی نوک پلک خوب اچھی طرح سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کا ہر
افسانہ اعلیٰ علمی معیار کی سند تسلیم کیا جاتا ہے اور صاحبان بصیرت کو ان
کے افسانے غزل کے اشعار کی طرح ازبر ہیں اور یہ آج بھی ان کے قلب ونظر میں
حلاوت پیدا کرنے کا موجب ہیں۔ جب تک اردو افسانے کا نام زندہ ہے ڈاکٹر سلیم
اختر کا نام تابندہ بلکہ پائندہ رہے گا۔
|