آج ملک کے حالات عجیب ڈھنگ کے ہو چکے ہیں ۔ سب کچھ سیاست
کے اردگرد گھوم رہا ہے اور ایک گھڑی توہر گھڑی سامنے آرہی ہے۔ اِن حالات
میں ایک اہم ترین موضوع بحث ایک چیف کی تعیناتی بھی ہے ۔ اِس فل سیاسی
ماحول میں آئیں کچھ غیر سیاسی باتیں کرتے ہیں کچھ سنی سنائی باتیں، کچھ
تحریں اور کچھ ادبی لطیفے پیش خدمت ہیں ۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب نے لکھا تھا
میں نے بس میں برابر کی سیٹ پر بیٹھی خوبصورت خاتون سے پوچھاکیا میں اس
پرفیوم کا نام پوچھ سکتا ہوں، جو آپ نے لگایا ہوا ہے ۔ میں اپنی بیوی کو
تحفے میں دینا چاہتا ہوں ۔ خاتون نے جواباً کہا ، یہ آپ اپنی بیوی کو مت
دینا ، ورنہ کسی بھی ذلیل آدمی کو اِس سے بات کرنے کا بہانہ مل جائے گا ۔
کا ش عمران خان صاحب گھڑی نہ بیچتے، دیکھا آپ نے، کتنے ذلیل لوگوں کو بات
کرنے کا بہانہ مل گیا ہے ۔
اوہ سوری ! میں نے کہا تھا کہ کوئی سیاسی بات نہیں ہوگی ۔
یوسفی صاحب نے ایک بار کہا تھا ۔
عورتوں کا دل جیتنے میں عامل حضرات ڈاکٹروں سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں ۔ دل
جیتنے کے لیے اُن کا ایک جملہ کافی ہوتا ہے کہ ’’آ پ کو نظر لگی ہے ‘‘۔کیا
ہمارے ملک کی معیشت کو بھی کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔ ماہر عامل معیشت اسحاق
ڈار صاحب اس کی نظر اُتارنے کی کوشش تو کر رہے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کامیاب
ہوتے ہیں یا نہیں ۔ ورنہ کسی اور عامل معیشت کا انتظام کرنا پڑے گا ۔ پھر
بیچ میں سیاسی بات آگئی ۔ معاف کیجئے گا ۔ اب نہیں کروں گا۔
ایک بار کراچی کے ایک شہری نے بہت دلچسپ بات سنائی ، کہنے لگا کہ اُس نے
ایک دفعہ اپنی گھڑی ، موبائل اور بٹوہ ایک نہایت غریب شخص کو بطور تحفہ دے
دیا تو آپ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ مجھے کتنی خوشی محسوس ہوئی، جب اُس
شخض نے میری نیکی کے بدلے میں اپنی پستول فوراً واپس اپنی جیب میں رکھ لی۔
معذرت گھڑی پھر درمیان میں کود آئی ۔ دوبارہ ایک موقعہ دیں ۔ آئندہ ایسی
گستاخی نہیں ہوگی ۔
ایک اعلیٰ عہدے دار پطرس بخاری سے ملاقات کیلئے آئے ۔ پطرس بخاری نے
کہا’’تشریف رکھئے‘‘۔ اُن صاحب کو محسوس ہوا کہ اُن کے ساتھ کچھ بے اعتنائی
برتی جارہی ہے ۔ چنانچہ اُن صاحب نے دوبارہ اپنا تعارف کروایا۔
’’میں محکمہ برقیات کا ڈائریکٹر ہوں ‘‘
پطرس مسکرائے اور کہا ’’پھر آپ دو کرسیوں پر بیٹھ جائیے ۔‘‘
ہمارے ہاں آج کل ایسے سرکاری افسران اور سیاستدان کی بہتات ہے اور پطرس
بخاری جیسی شخصیات کا فقدان ہے ۔ ایک اور دلچسپ غیر سیاسی لطیفہ پیش خدمت
ہے ۔ ہمارے محلے میں ماسٹر عتیق صاحب رہتے تھے ۔ اُن کی شادی 44سال کی عمر
میں ہوئی ۔ ایک دن محلے کے کنوارے نوجوانوں کو بیٹھائے بتا رہے تھے کہ جب
میں 23سال کا تھا تو ڈائری میں40ایسی خوبیاں نوٹ کیں جو میری متوقع بیوی
میں ہونی چاہیے ۔ وقت گزرتا گیا لیکن ایسی بیوی نہ مل سکی ، جس میں
40خوبیاں ہوں۔ ماسٹر عتیق صاحب ہر سال ایک دو خوبیاں کاٹتے رہے کہ چلو یہ
خوبیاں نہ بھی ہوں تو لڑکی قبول ہے ۔
بالآخر ماسٹر صاحب جب خود چالیس سال کے ہو گئے تو اُن کی ڈائری میں صرف
ایک خوبی لکھی رہ گئی ۔
’’عورت ہو ‘‘!
کبھی ہم اپنے سیاستدانوں میں چالیس خوبیاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر
ہمارے حصے میں آئے علی بابا اور چالیس چور ۔ یہاں سیاستدانوں کا دوبارہ
تذکرہ محض اتفاق ہے، لہٰذا آگے بڑھتے ہیں ۔
تہذیب لکھنو کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے ۔ داماد کے سامنے دستر خوان پر انڈوں
کا سالن پیش کیا گیا تو حضرت داماد نے عرض کیا کہ ’’جناب ان انڈوں کے
والدین (یعنی مرغ اور مرغی ) سے ملنے کا اشتیاق تھا ‘‘ ارشاد ہوا کہ
برخوردار یہ بیچارے یتیم ہیں ۔ انہی کے سرپر دست شفقت رکھ دیجئے ۔
حضور والا ہمارے سیاستدانوں میں بھی اچھے انڈوں کے ساتھ ساتھ کچھ ۔۔۔ انڈے
بھی ہیں لہٰذا آپ نے دستِ شفقت کن پر رکھنا ہے ، خود سوچ لیں۔ ہمارے کسی
دوست نے کتا پالا کہ گھر میں چوری نہ ہو جائے ، ایک دن اُن کا کتا ہی چوری
ہو گیا۔ یہ سیاستدان نہ بڑے۔ ۔۔
کہتے ہیں ۔ محبت کے علاوہ بھی لوگ ملتے ہیں ۔ عادتاً ، رسماً ، تکلفاً ،
ضرورتاً وغیرہ وغیرہ ۔
تاریخ گواہ ہے کہ کوئی سیاستدان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا ، سوائے
اقتدار میں ۔
وہ لڑکی ہی کیا جو ضدی نہ ہو ۔ وہ سیاستدان ہی کیا جو ۔۔ ۔ نہ ہو۔
ایک آدمی تلوار لیے مسجد میں داخل ہوا اور آواز لگائی ،
آپ میں کوئی سچا مسلمان ؟
ایک بزرگ بولے ، میں ہوں ۔
آدمی اُن کو باہر لے گیا اور اُن کے قدموں میں بکرا ذبح کر دیا ۔ آدمی
مسجد میں دوبارہ آیا۔ تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔ لوگ گھبرا گئے ۔
اُس آدمی نے دوبارہ پوچھا ۔
اور کوئی سچا مسلمان ؟کسی نے آواز لگائی، مولوی صاحب ہیں !
مولوی غصے میں بولا۔ بکواس کر رہا ہے کمینہ ۔ میں تو اعلان کروانے آیا تھا
کہ پرسوں سے کیبل نہیں آرہی ۔
سیاستدانوں کو بھی ایک تلوار باز کی۔۔۔۔۔۔
میرے اِن غیر سیاسی لطیفوں سے کسی سیاستدان کی اگردل آزاری ہوئی ہو تو وہ
سیاست چھوڑ دیں یا پھر چ۔ و۔ ر۔ ی چھوڑی دیں کیونکہ اگر ہمارے نصیب میں
40خوبیوں والے سیاستدان نہیں تو کم از کم ایک یہ خوبی تو ہو ۔
|