ملکی حالات ہماری توقع سے بھی زیادہ خراب ہیں۔مگر حکمرانی
کا نشہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اسی کے قریب وزرا پہلے کام کر رہے
ہیں مگر شاید وہ کم تھے۔ چند دن پہلے ایک اور کا اضافہ کیا گیا ہے۔مجھے
دارالحکومت میں کچھ لوگ ایسے بھی ملے جو دعویدار ہیں کہ اگلے ہفتے وزارت ان
کی منتظر ہے اور وہ حلف اٹھا رہے ہیں۔لوگوں کو حکومت کا مستقل مخدوش نظر
آتا ہے مگر وزارت کے امیدواروں کو اپنا مستقبل بہت روشن نظر آرہا ہے۔انہیں
امید ہے کہ خزانہ جتنا مرضی خالی ہو ان کے ناز نخرے اٹھا لئے جائیں
گے۔سیلاب نے جو تباہی مچائی تھی اس کے اثرات سے ابھی ہم نکل نہیں پائے۔
زراعت تباہ ہو چکی۔حکومت جسے اس صورت حال پر پچھلے چھ ماہ میں پوری طرح
قابو پا لینا چائیے تھا، بے حسی کا شکار ہے۔ کاشتکاروں کو کوئی اچھا پیکیج
ملنا چائیے تھا مگر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔مایوس اور حالات
سے تنگ لوگ بڑی تعداد میں دیہاتوں سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔سیاستدان
جنہیں اس بارے سوچنا ہے ،اپنے کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ،انہیں اس خراب
صورت حال کاادراک ہی نہیں ۔غیر ممالک سے جو امداد آئی تھی کہ اسے سیلاب سے
تباہ حال لوگوں پر خرچ کیا جائے اب کھلم کھلا مارکیٹ میں بک رہی ہے۔ کسی
دوسرے ملک کو ہمارا اعتبار نہیں۔ کینیڈا سے آیا ایک دوست بتا رہا تھا کہ
ہمارے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے کینیڈا کے ایک اخبار میں اشتہار تھا جس
پر لکھا تھا کہ یہ امداد حکومت پاکستان کو خرچ کرنے کے لئے نہیں دی جائے گی
بلکہ براہ راست تقسیم کی جائے گی۔ہم غلط دعوے دار ہیں کہ دوست ملک ہماری
امداد ہر وقت کرنے کو تیار ہیں۔
سیکیورٹی کی صورت حال بد ترین ہے۔ دہشت گردی میں اضافہ ہو چکا ہے۔پشاور کی
ریڈ زون میں سو سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت اورزخمیوں کی بڑی تعداد ایک بہت
بڑا قومی سانحہ ہے ۔ اس پر کیا پیش رفت ہوئی کچھ پتہ نہیں۔ سیاسی بیانات
ضرور دئیے گئے، سیاسی سکورنگ بھی ہوئی ۔ ایک دوسرے کو بے حسی کے طعنے بھی
دئیے گئے مگر دکھ انہی کا تھا جن کے ساتھ بیتی۔حکومت کے اپنے اقدامات بھی
دہشت گردی ہی میں شمار ہوتے ہیں۔ماورائے آئین لوگوں کی گرفتاریاں اور فرضی
مقدمے اس چیز کے عکاس ہیں۔ میں ایک عام شہری ہوں اور مجھ سمیت اس ملک کے ہر
شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ محسوس کرے کہ کہیں حکومت کی طرف سے کچھ
غلط ہے تو احتجاج اور تنقید کرے۔ صحافی اور سیاستدان تو اس غلطی کی نشاندہی
اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ان پر ریاستی جبر کے دروازے کھول دینابربریت اور
ظلم ہے۔ حقیقی عوامی حکومت ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔مگر یہ سب ہو رہا ہے۔وجہ
سادہ ہے کہ یہ نمائندے نہ تو حقیقی ہیں اور نہ ہی عوامی۔
IMF کی آمد حکومت کی مجبوری تھی۔ پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا۔IMF
آج پیسے دینے سے انکار کر دے تو اسی لمحے ہمیں خود کو دیوالیہ قرار دینا ہو
گا۔ حکومت اسی آس پر زندہ ہے کہ ابھی چند دنوں میں IMF معقول پیسے دے دے
گا۔لیکن حکومت یہ تاثر غلط دے رہی ہے کہ IMF کی شرطیں بہت کڑی ہیں۔ IMF کی
کڑی شرطوں کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ ہم اس قابل ہو جائیں کہ ان کے پیسے
واپس کر سکیں۔ دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں
تاکہ آئندہ قرض کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکیں۔ جن چیزوں کی IMF کے حکام
نشاندہی کرتے ہیں ان کے بارے تفصیلات حکومت ہی کی دی ہوتی ہیں۔لیکن حکومت
اپنے مفاد کی بہت سی چیزیں چھپا لیتی ہے چنانچہ مراعات یافتہ طبقہ بہت حد
تک IMF کی زد میں نہیں آتا۔ غریبوں کو دی گئی سبسیڈیز اور ایسی ہی دوسری
چیزوں جن سے غریبوں کو کچھ فائدہ ہوتا ہے ختم ہو جاتی ہیں اور ساری بوجھ
عام آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اس دفعہ IMF کا رویہ کچھ مختلف ہے۔IMF نے گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس تک کے
افسران کے اثاثہ جات کی تفصیل مانگ لی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔ آج سے
پہلے حکومت جب اپنے افسران سے ان کے اثاثہ جات کی تفصیل لیتی تھی تو کسی
افسر کے غیر ممالک میں موجود اثاثے جو اس کے اپنے یا اس کی بیوی اور بچوں
کے نام ہوتے تھے، چھپے رہتے تھے۔ پاکستان کی حکومت ان کا سراغ نہیں لگا
سکتی تھی مگر IMF ایک عالمی ادارہ ہے ،اس سے کچھ بھی چھپایا نہیں جا سکتا،
وہ ساری تفصیل ڈھونڈھ لے گا۔یوں ناجائز اثاثوں کی بنیاد پر کسی کے خلاف بھی
کاروائی آسانی سے ہو سکے گی۔نئے قوانین کے تحت سرکاری افسر بے نامی جائداد
نہیں رکھ سکیں گے اور ان پر انٹی منی لانڈرنگ اور انکم ٹیکس آرڈیننس کا
اطلاق ہو گا اور وہ اپنی معلومات بنکنگ کمپنیز سے شئیر کرنے کے پابند ہوں
گے۔حکومتی وزرا کی بڑی تعداد کو کم کرنے اور دیگر اخراجات کو کم کرنے کی
ضرورت پر بھی IMFکی ٹیم پر بہت سے اعتراضات زیر بحث ہیں۔
اس معاہدے کے عام آدمی پر بھی بہت سے اثرات آئیں گے۔ مہنگائی ساڑھے بارہ
فیصد سے بڑھ کر اوسطاً 29 فیصد تک ہو جائے گی۔ جی ڈی پی گروتھ پانچ سے کم
ہو کر دو فیصد ہو جائے گی۔ایل این جی پاورپلانٹس ، ہاوئس بلڈنگ فنانس
کارپوریشن اور بہت سے دیگر اداروں کی نج کاری، کرپشن، سرخ فیتے کا خاتمہ
اور کاروبار میں ٹیکس کلچر کا فروغ بھی IMF کے مطالبات میں شامل ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ، سگریٹ کی قیمت میں اضافہ، اور تمام
مشروبات کی قیمتوں میں سیل ٹیکس 13 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے، بجلی اور گیس
کی قیمت بڑھانے جیسے مطالبات شامل ہیں۔ اگراس سب پر عمل درامد ہو گیا تو
مہنگائی کا ایک عظیم طوفان ہمارا منتظر ہو گا۔
|