ڈالر کی آذادی کے حکومتی فیصلے کے بعد اس کی قیمت میں ہوش
رُبا اضافہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ گزشتہ چند دن کے اندر ڈالر کی قیمت
کہاں سے کہا ں جا پہنچی ہے۔ ڈالر کی قیمت کا تعلق ہماری درآمدات سے ہے جو
کہ ہماری روزمرہ ضروریات کے نوے فیصد سے ذیادہ کو پورا کرنے کے کا م آتا ہے۔
ذیادہ تر صنعتوں کا خام مال دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ
سے ہماری تمام اندرون ملک تیارکردہ اشیاء کی قیمت میں بہت ذیادہ اضافہ
ہورہا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے سے ذرائع آمدورفت کی قیمتوں میں
اضافہ ہورہا ہے اور اس کے اثرات تما م ضروریات زندگی پر ہورہے ہیں۔ عام
آدمی کی زندگی تو مشکل ہو ہی گی ہے اس کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے کی
مشکلات میں بھی بہت ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی اس تمام صورتحال میں
خاموشی بہت بڑا سوال ہے۔ موجودہ حکومت اس کی تما م تر ذمہ داری سابقہ حکومت
کے کیے گے آئی ایم ایف کے معاہدے پر ڈال رہی ہے جبکہ سابقہ حکومت اس کو
موجودہ حکومت کی نااہلی قرار دے رہی ہے۔ سونے کی قیمت دولاکھ سے تجاوز
کرگئی ہے۔ ایک اینکر نے تو ٹی وی پر یہ کہا کہ پیاز کی قیمت ڈالر سے بھی
ذیادہ ہے۔ اور پیاز جو کہ ہماری اپنی زرعی پیداوار ہے اس کو ہم دوسرے ممالک
سے بہت ذیادہ قیمت پر منگوارہے ہیں۔ حکومتی اہلکار، مڈل مین اور تمام ادارے
اپنا اپنا حصہ وصول کرنے میں مگن ہیں اور ان کو عام آدمی کی مشکلات کا کوئی
اندازہ نہیں ہے۔
ڈالر کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ مہنگائی کے سونامی کو آواز دے رہا ہے۔ جو
کم آمدنی او ر ذیادہ اخراجات کے فرق کو بہت ذیادہ بڑھا رہا ہے۔ اس طرح کے
تمام معاملات میں عام آدمی سے ذیادہ حکومتی کردا ر اہم ہے۔ حکومت محض اس
کاالزام ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرے تو وہ
ذیادہ بہتر ہے۔ ہماری بہت سی جان بچانے والی ادویات کا خام مال بھی عام طور
پر دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے اور اندورن ملک ان سے بہت سی جان
بچانے والی ادویات بنائی جاتی ہے جن کی قیمت کا تعلق بھی ڈالر کے ساتھ جڑا
ہواہے۔ اس کے علاوہ بہت سے طالب علم دوسرے ملکوں میں زیر تعلیم ہیں۔ جن کے
تعلیمی اخراجات عام طور پر ڈالر میں ہی اد ا کیے جاتے ہیں۔ اور اس کے ریٹ
کے بڑھنے کے ساتھ ان میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔
ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کوروکنے کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر
ہیں۔جب تک اس کی ذخیرہ اندوزی سے نہ نمبٹا جائے گا تب تک مارکیٹ میں اس کی
قیمت کے استحکام کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے ملکی
کرنسی کی قدر بہت کم ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہماری برآمدات جو کہ پہلے ہی نہ
ہونے کے برابر ہیں وہ اور ذیادہ کم ہوجائیں گی۔ ملکی کرنسی کی کم قدری
عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کے مانگ کو اور کم کردے گی جس کے باعث
ہمارے وہ شعبے اور صنعتیں جو برآمدات سے وابستہ ہیں وہ بہت ذیادہ نقصان میں
چلی جائیں گی۔
کسی ملک کی کرنسی میں کم قدری ہونے کی وجہ اس کی اشیا ء کو خریدنے کی طاقت
کم ہوجاتی ہے اور بہت ذیادہ روپوں کے بدلے میں بہت ہی کم اشیاء خریدنے کو
ملتی ہیں ۔ ہمارے سامنے روس اور ایران کی مثالیں ہیں۔ کہ جن کی کرنسی کی
قدر اس قدر گِر گئی تھی کہ وہ لوگ بوریوں میں پیسے بھر کے لے جاتے تھے اور
اس کے بدلے میں ان کو روٹی ملتی تھی۔ حکومتی وسائل میں اضافہ نہ ہونا اور
بہت ذیادہ کرنسی نوٹ چھاپنا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ کرنسی نوٹوں کی
ذیادہ مقدار روپے کی قدر میں گراوٹ کا سبب ہے۔
اگر ڈالر کا ریٹ اسی رفتار سے اوپر جاتا رہا اور وہ ٹرپل سینچری کرنے میں
کامیاب ہوگیا تو ہماری معیشت کو سنمبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ غریب آدمی کے
لیے دو وقت کی روٹی محال ہوجائے گی اور ابھی بھی ہماری صورتحال اس بادشاہ
کی ریاست کی سی ہے کہ جس کے پے درپے اقدامات کا جب عوام پر کوئی اثر نہ ہوا
تو اس نے عوام کو لائن میں لگا کر جوتے لگانے شروع کردیے لیکن کوئی بھی
بادشاہ سے اس کی وجہ پوچھنے نہ آیا۔ جب جوتے لگاتے ہوئے کچھ دن گزرے تو چند
لوگ اکھٹے ہوکر بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے سوچا کہ شاید ان
کو احساس ہوگیا ہے کہ اور یہ اس بارے میں بات کرنے آ ئے ہیں کہ جوتے کیوں
مارے جارہیے ہیں لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا اور انہوں نے بادشاہ سے
استدعا کی کہ جناب عالی ہمیں جوتے کھانے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر
جوتے مارنے والوں کے تعداد میں اضافہ کردیا جائے تو ہم جلدی اس کام سے فارغ
ہوجایا کریں گے۔ حالات کی ستم ظریفی سے ذیادہ اس کا احساس ضروری ہے اور
ہمار ی قوم اب اس احساس سے بھی عاری ہوچکی ہے۔ ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں
کہ ہم اپنے اردگر د ہونے والے معاملات کے بارے میں کھلی آنکھوں سے دیکھیں
اور جو کچھ ہمیں میڈیا پر بتایا جارہا ہے اس پر یقین کرنے کی بجائے اپنے
دماغ سے کچھ سوچ سکیں اور اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کچھ اچھا کر سکیں۔
|