گوتم اڈانی: کالیا اور گبر کی کہانی

مودی جی پر اپنے نورِ نظر لخت جگرگوتم اڈانی سے متعلق جب دباو بڑھا تو سب سے پہلے ریزرو بنک نے تمام بنکوں سے پوچھا کہ اس فریبی کو کتنا قرض دیا گیا ہے؟ ایوان ِ پارلیمان میں جاری شور شرابہ کو کم کرنے کی خاطر یہ ضروری تھا ۔ ایوان کے باہر بھی ملک کابچہ بچہ سوال کررہا تھا کہ آخر چوکیدار اس چور پکڑتا کیوں نہیں ؟ اڈانی پر سرکار کیا کررہی ہے؟ کہیں چوکیدار اور چور آپس میں بھاگیدار تونہیں ہیں ؟ ان سارے سوالات کا پہلا جواب یہ ہے کہ سرکار کی جانب ریزرو بنک نے دیگر بنکوں سے یہ سوال کرلیا کہ انہوں نے گوتم اڈانی کو کتنا قرض دے رکھا ہے؟ کئی بنکوں سے یہ سوال کرنے کے بجائے اڈوانی سے پوچھ لیا جاتا کہ بھائی یہ بتاو تم نے کس کس سے کتنا قرض لے رکھا ہے اور وہ جواب دے دیتا کہ ہم نے فلاں فلاں بنک سے اتنا اتنا روپیہ لیا ہے بات ختم ہوجاتی لیکن فی الحال اڈانی اگر سچ بولے تب بھی کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا ۔ یہ معاملہ صرف اڈانی کا نہیں بلکہ اس کے یارِ غار مودی کا بھی ہے ۔ اس جوڑی کی بات پر اندھے بھگتوں کے علاوہ کوئی اعتماد نہیں کرتا۔ اب نہ صرف سوئس بنک اور سٹی بنک نے قرض دینے سے انکار کردیا ہے بلکہ امریکہ کے حصص بازار ڈاو جونس نے بھی ادانی کو کان پکڑ کر نکال باہر کیا ہے۔

اس دوران نرملا سیتا رامن نے کہا کہ اڈانی کے ڈوب جانے سے ملک کی معیشت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ سیبی کے سربراہ نے کہا کہ اڈانی پر حملہ ملک پر حملہ نہیں ہے لیکن آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے ہنڈن برگ کی رپورٹ کو ملک پر حملہ قرار دے دیا ۔ یہ تو گویا چائے سے گرم کیتلی والی بات ہوگئی ۔خیر اس تناظر میں تصور کریں کہ اگر ریزرو بنک کے گورنر نے گبر کے انداز میں سوال کیا ’ ارے اوبنکرو کتنا قرض دے رکھا ہے اس اڈانی کو؟‘ تو مشہور فلم شعلے کا مشہور سوال ’ارے اور سانبھا کتنے آدمی تھے؟ ‘ کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ اس پر اڈانی یہ کہے گا ہنڈن برگ کے چار آدمی سرکار ۔ جواب میں گبرّ گرج کربولے گا ۔’ صرف چار نوجوان اور تمہارا اتنا بڑا سامراج پھر بھی مات کھا گئے؟کیا سوچ رہے تھے سردار خوش ہوگا شاباشی دے گا ۔ تم نے ہمارا پورا نام مٹی میں ملا دیا ۔ اس کی سزا ملے گی‘ ۔ دو گرگوں کے بچ جانے کے بعد جب گبر ّ سوال کرے گا’اب تیرا ہوگا رے اڈانی ؟‘ تو ڈرا سہما کالیا بولے گا ’سردار آپ کا نمک کھایا ہے‘۔ اس پر گبر سفاکی سے کہے گا ’اب گولی کھا‘ ۔ فلم شعلے کے یہ منظر اس مکالمہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے کہ جوضرب المثل بن گیا’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘۔

سیاسی افق پر وہی کہانی دوہرائی جارہی ہے مگر فرق یہ ہے کہ اڈانی سے زیادہ مودی جی یعنی کالیا سے زیادہ گبر خوفزدہ ہے ۔ ایسے میں بعید نہیں کہ اڈانی کا انجام اس گھوڑے جیسا ہو جس کو بیٹھ جانےپر گولی مار دی جاتی ہے۔ گوتم اڈانی چونکہ مودی جی کے دوست ہیں اس لیے انہوں نے بھی سب سے پہلے اپنی بدعنوانی کو ڈھانپنے کی خاطر413 صفحات پر مشتمل جواب دیا اور ہنڈن برگ کی رپورٹ کو ہندوستان پر حملہ بتایا۔ اس کامنہ توڑ جواب دیتے ہوئے ہنڈن برگ نے کہا کہ قوم پرستی کی آڑ میں دھوکہ چھپایا نہیں جا سکتا۔اس کے علاوہ اڈانی گروپ نے اس رپورٹ کو اپنے فالو آن پبلک آفر یعنی ایف پی او کے خلاف سازش بھی قرار دیا۔ اس درمیان ایف پی ابتدا میں سست شروعات کے بعد آخری دن ایف پی او فل سبسکرائب ہو گیا۔اس کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ بے اثر رہی لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ اس کے بعد پہلی بار گوتم اڈانی نے اپنا ایف پی او کو اخلاقی بنیاد رد کرنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو ہنسی آگئی۔

ایک بدعنوان سرمایہ دار کی ساکھ بچانے کے لیے اس موقع پر اسرائیل سامنے آیا اور اس نے گوتم اڈانی کو اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ کے بیچنے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل وہندوستان کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا ۔ گوتم اڈانی نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل کے اندر کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ 2054 تک کے اس معاہدے کی روُ سے بندرگاہ کی آمدن میں 70 فیصد حصہ اڈانی گروپ کا ہوگا جبکہ اس کی 30 فیصد ملکیت اسرائیلی کمپنی، گودات کے پاس ہو گی۔ گذشتہ سال جولائی میں یہ ٹینڈر کھل چکا تھا مگر اس کا اعلان اب کیا گیا۔ حائفہ کی بندرگاہ کو پٹًے پر لینے کے لیے اڈانی گروپ نے دوسرے نمبر پر آنے والی بولی سے 55 فیصد زیادہ قیمت دینے کا عہد کیا۔ اسرائیل کا اندازہ تھا کہ یہ سودا 870 ملین ڈالر تک کا ہوگا، لیکن اڈانی گروپ نے1180 ملین ڈالر کی پیشکش کر دی تو اسرائیلی کمپنیوں نے اپنے ٹینڈر واپس لے لیے۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ وہ برے وقت میں کام آئے اور ویسا ہوامگر یہ حربہ بھی اڈانی گروپ کے تنزل کو روک نہیں سکا لیکن چور چور موسیرے بھائی والی بات ثابت ہوگئی۔

دنیا کے سب سے بڑے کارپوریٹ فراڈ کا پردہ فاش کرتے ہوئے کانگریسی ترجمان پون کھیڑا نے ایل آئی سی جس کے 26کروڈ گاہک اور ایس بی آئی جس کے45 کروڑ اکاؤنٹ ہولڈرس کا سوال اٹھاکر ان کے اکاونٹ میں جمع رقم کے تحفظ پر فکرمندی کا اظہار کیانیز ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ اس پر مودی حکومت اور گودی میڈیا میں چھایا ہوا سناٹا بھی معنیٰ خیز بلکہ چور کی داڑھی میں تنکہ کے مترادف ہے۔ پون کھیڑا نےاڈانی کنبہ کے مبینہ طور پر ماریشش، یو اے ای اور کیریبین جزائر جیسے ٹیکس ہیون (چوری کے اڈے) میں بے نامی کمپنیوں کے عظیم مایا جال میں اربوں روپے کے کالے دھن کا انکشاف کیا۔ اس میں سب سے سنسنی خیز فرد چانگ چنگ لنگ۔ اس کی گڈامی انٹرنیشنل پی ٹی ای لمیٹڈپر ’اڈانی گروپ کے ساتھ جواہرات کے مبینہ کاروبار میں دھوکہ دہی کی سرکاری جانچ ہورہی ہے۔ حیرت ہے کہ چانگ چنگ لنگ اور ونود اڈانی کے سنگاپور میں گھر کا پتہ یکساں ہے۔

ہنڈن برگ کی رپورٹ سے مودی جی کا مشہور جملہ :’گھر میں گھس کر مارا‘ یاد آتا ہے ۔ وہ تو فقط ایک جملہ بازی تھی مگر یہ حقیقت ہے۔ شعلے میں ایک اہم موڑ ویرو اور بسنتی کا غواء بھی ہے۔ یہ معاملہ گوتم اڈانی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب مودی کے استاد کیشو بھائی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ 1998 میں بندوق کی نوک پر اڈانی کو اغوا کرلیا گیا لیکن آدرش گجرات میں کوئی کچھ نہیں کرسکا ۔ بالآخر اڈانی کو رہائی کے لیے 15 کروڑ روپے تاوان ادا کرنا پڑا۔ گوتم اڈانی کا اغواء نہایت فلمی انداز میں ہوا جب وہ احمد آباد کے کرناوتی کلب سے اپنےدوست شانتی لال پٹیل کے ساتھ کار میں محمد پورہ روڈ کی طرف جانے والے تھے کہ ایک سکوٹر ان کی گاڑی کے سامنے آ کر رکا ۔ اس کی وجہ سے اڈانی نے گاڑی روکی تو قریب کھڑی ماروتی وین سے تقریباً چھ لوگ نکلے اور گوتم اڈانی اور شانتی لال پٹیل کو بندوق کی نوک پر اپنے ساتھ لے گئے۔ دو دن بعد ان کی رہائی عمل میں آئی ۔ اغوا کی منصوبہ بندی ببلو سریواستو نے کی تھی ۔ رہائی کے بعد اڈانی اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اس معاملے میں کبھی گواہی دینے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اس لیے اس اغوا کے تمام ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا گیا ۔

ہنڈن برگ کے خلاف مقدمہ کا بھی یہی حشر ہوگا کیونکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ اڈانی پھر مصیبت میں ہیں لیکن شعلے کے جئے کی مانند ویرو اور بسنتی کو گبر کے چنگل چھڑانے والا کوئی نہیں ہے۔ یہی مودی یگ کے شعلے کی سب سے بڑی ٹریڈجی ہے۔ایک زمانے میں بدعنوانی کے خلاف انا ہزارے کی تحریک نے ملک میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔اس وقت قومی سیاسی افق پر نریندر مودی نمودار ہوئے اور انہوں نے زیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اعلان کیا ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا۔ مجھے چوکیدار بناکر بیٹھا دو‘۔ اس لیے کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے لیکن جب رافیل کی بدعنوانی سامنے آئی اور ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگا تو پتہ چلا کہ انسان اپنے آپ کو زندہ (یعنی اقتدار) میں رکھنے کے لیے بھی کھاتا پیتا ہے۔چوکیدار چور ہے کا نعرہ پرانا ہوگیا اب چوکیدارساہوکار ہے کا نعرہ لگ رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان جادوگر کی جان ایک طوطے میں ہے اور وہ طوطا گوتم اڈانی ہے۔ اڈانی کی بدعنوانی نے پھر سے ثابت کردیا کہ پارٹی بھی ایک پریوار ہے اس کو چلانے کے لیے بھی بہت کچھ لینا دینا پڑتا ہے۔ خیر اس نئی شعلے کے ویرو اور جئے ہنڈن برگ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کالیا کو توبے نقاب ہی کر دیا اور وہ اپنے انجام کی جانب رواں دواں ہےلیکن اس بیچ ٹھاکر کشمیر سے لوٹ کر آگیا ہے۔ وہی ٹھاکر جس کے دونوں ہاتھ رام گڑھ کے گبر نے میڈیا کی مدد سے کاٹ دئیے تھے مگراب اس کا کہنا ہے ’نفرت کےجواب میں محبت کافی ہے‘۔ این سی سپی ّ کی شعلے کا اہم ترین پیغام یہ ہے کہ ابتداء میں جو انجام کالیا کا ہوتا ہے اختتام پر گبر بھی اسی سے دوچار ہوجاتا ہے اور کوئی سانبھا کسی کام نہیں آتا۔ اڈانی کی شعلے کا کیا انجام ہوگا کوئی نہیں جانتا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.