گوتم اڈانی کا معاملہ مودی حکومتِ کے لیے بہت غلط وقت پر
سامنے آیا۔گوتم اڈانی کو امید تھی کہ بجٹ کے بعدٹیکس ملنے کی خوشی میں
سرمایہ کار ان کے شیئرس خوب خریدیں گے لیکن انہوں نے اپنے ایف پی او کے لیے
غلط مہورت نکالا۔ ہینڈن برگ نے اسی موقع سے گوتم اڈانی کو بے نقاب کرنے کا
فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح پارلیمانی اجلاس سے ایک ہفتہ قبل یہ پنڈورا بکس کھل
گیااور اڈانی وحکومت دونوں پریشان ہوگئے۔ حکومت کی دقت سے مجنوں کو چھڑی
پڑنے پر لیلیٰ کے ہاتھوں میں نشان کی یاد آگئی ۔ اس کو سچی محبت کہتے ہیں۔
ہینڈن برگ کی بے نقابی نے ایوان میں بجٹ کی سفارشات پرمباحثہ کو اڈانی کی
جانب موڑ دیا۔ اس کی وجہ سے پورا ہفتہ دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی
ہوتی رہی ۔ صورتحال یہ تھی کہ اپوزیشن گوتم اڈانی پر بحث چاہتا ہے مگر چھپن
انچ والی سرکار اس سے منہ چھپاکر بھاگ رہی ہے ۔کانگریس کے صدر ملکارجن
کھڑگے نے ایل آئی سی، پبلک سیکٹر کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے
اڈانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے معاملے پرگفتگو کے لیے 267 ضابطے کے تحت
وقفۂ سوال کو مختص کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے کیونکہ اس سے کروڑوں
ہندوستانیوں کی محنت سے کمائی گئی رقم خطرے میں ہے لیکن سرکار اپنے اقتدار
کو لاحق خطرات سے پریشان ہے ۔
دس سال قبل کانگریس کے وزیر پون کمار بنسل نے بتایا تھا کہ ایوان پارلیمان
کے دونوں ایوانوں میں پورے سال کے اندر صرف اسیّ دن کام ہوتا ہے ۔ اس میں
سے ایک دن 6؍ گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ڈھائی لاکھ روپیہ فی منٹ کا
خرچ ہے۔ دس سال میں مہنگائی دو گنا ہوجاتی ہے اس لیے فی زمانہ یہ خرچ پانچ
لاکھ روپیہ فی منٹ سے کم نہیں ہوگا۔ دوسال قبل مانسون سیشن میں پیگاسس
جاسوسی پر ہنگامہ ہوا تھا ۔ آج کی طرح اس وقت بھی حزب اختلاف سپریم کورٹ
کے جج کی نگرانی میں تفتیش پر اصرار کررہا تھا اور حکومت نےاس کے خلاف اڑیل
رخ اختیار کررکھا تھا ۔ اس تصادم میں ملک کے ٹیکس دہندگان کا133 کروڈ روپیہ
ضائع ہوگیا ۔ اب پھر وہی صورتحال ہے۔ ایوان کی کارروائی کو چلانا حکومت کی
ذمہ داری ہے لیکن وہ نہیں چاہتی کہ بجٹ پر سنجیدگی سے بحث ہو ورنہ حزب
اختلاف کا مطالبہ ایسا نہیں ہے کہ جو پہلی بارکیا جارہا ہے اور سرکار کو
اسے ماننے میں کوئی بڑی دقت ہو۔ اس لیے جو وقت اور روپیہ ضائع ہورہا ہے تو
اس کی براہِ راست ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔
اڈانی کے معاملے میں حزب اختلاف پچھلے ایک ہفتہ سے . سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس کی دیکھ ریکھ میں ایک غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ کررہا ہے۔ ہینڈن
برگ ریسرچ رپورٹ کی تفتیش کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی
تشکیل دینے کی تجویز ہے۔ ان مطالبات کو قبول کرنا تو دور سرکار اس پر بحث
کی روادار بھی نہیں ہے۔ اس لیے بجٹ اجلاس کے چھٹے دن پورا حزب اختلاف
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کی سربراہی میں متحد ہوگیا۔ ایوان پارلیمان
میں نعرے لگے’ اڈانی ، مودی میں یاری ہے، پیسے کی لوٹ جاری ہے‘ اسی کے ساتھ
یہ نعرہ بھی لگا ’نہیں چلے گی اور بے ایمانی ، بس کرو مودی اڈانی‘۔ حکومت
کا اس کے لیے راضی ہونا محال نظر آرہاہے کیونکہ یہ تو اپنے پیروں پرکلہاڑی
چلانے جیسا ہے۔ اس لیے مودی اور شاہ منہ چرا رہے ہیں لیکن اس سے کام نہیں
چلے گا۔ ایک نہ ایک دن اپنے خول سے باہر آکر جواب دینا ہوگا اور جب تک یہ
نہیں ہوتا عمران پرتاپ گڑھی جیسے لوگ یہ تُک بندی کرتے رہیں گے ؎
یہی صدائیں گونج رہی ہیں سنسد کے گلیاروں میں
آو یارو دیش بچائیں مودی جی کے یاروں سے
ملک میں جاری چائے کی پیالی میں طوفان تو اڈانی پر ہے لیکن پیالی خود مودی
جی ہیں ۔ اس معاملے میں فی الحال چار بڑے فریق ہیں۔ پہلا اڈانی گروپ، دوسرا
ہینڈن برگ، تیسرا عوام اور چوتھا سرکار۔ ان میں سے دوسرکار اور اس کےیار
اڈانی ‘کا خیال ہے کہ سب کچھ چنگا ہے۔ ہینڈن کی تحقیق نے پانچ بڑے الزامات
لگائے ہیں ۔ پہلا الزام تو یہ ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنے شیئرس کی قیمت جعلی
طریقہ سے بڑھا رکھی ہے۔ دوسرا ہے گروپ کی سات کمپنیوں کی قیمت حقیقت سے
پچاسی فیصد زیادہ ہے۔تیسرا آٹھ سال میں پانچ سی ایف او کو بدل کر منی
لانڈرنگ کی گئی ۔چوتھا ہے ماریشس جیسے ممالک میں مشکوک کمپنیوں کو پیسے
بھیج کر ان سے شیئرس خریدوا کر دام بڑھایا گیا۔ اس کا ثبوت ابھی حال میں
سامنے آیا جب اس کے ایف پی او کو اسی کے بھائی نےابو ظبی میں بیٹھ کر
اونچے دام پر خرید لیا۔پانچواں ہے اڈانی پر جو دولاکھ بیس ہزار کروڈ کا قرض
ہے وہ اس کی حیثیت سے زیادہ ہے۔ ان الزامات پر اگر عوام یقین نہیں کرتے تو
اڈانی کے شیئرس ساٹھ فیصد نہیں گرتے ۔فی الحال وہ سرکاری کمپنیوں کی سرمایہ
کاری پر کھڑی ہوئی ہے ورنہ اب تک بنٹا دھار ہوچکا ہوتا۔ اڈانی گروپ کے
ملازمین کی خاطر ایف پی او کا نہیں بکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ خود اندر کے
لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوچکا ہے۔
اس سے قطع نظر اگرسرکار اور سرمایہ دار کی بات مان لی جائے کہ اڈانی نے
کوئی غلطی نہیں کی ۔ وہ گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ ان کے اور ملک کے خلاف ایک
بین الاقوامی سازش چل رہی ہے تب بھی یہ ثابت کیسے ہوگا؟ اس کا سب سے موثر
طریقہ تو وہی ہے جس مطالبہ حزب اختلاف کررہا ہے یعنی سپریم کورٹ کے زیر
نگرانی تفتیش یا مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا قیام ۔ وہ تین ماہ کے اندر دودھ
کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی ۔ اس سے عوام اور عالمی برادری کا اعتماد
بحال ہوجائے گا ۔ اڈانی کی ساکھ قائم ہوجائے گی اور حکومت پر لگنے والے
الزامات غلط ثابت ہوجائیں گے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرکار خود یہ
تجویز رکھتی کہ چلیے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کرکے تفتیش کیے
دیتے ہیں۔ اس کمیٹی میں ویسے بھی اکثریت بی جے پی ارکان کی ہوگی۔ سربراہ اس
کا اپنا ہونا تو نہیں چاہیے مگر ہوگا ۔ حکومت کے پاس اس کی سفارشات پر عمل
نہ کرنے کا اختیار بھی ہوگا پھر بھی اس کی تشکیل سے اس قدر خوف کیوں ہے؟ وہ
کیا شئے ہے جس کے کھل جانے کا ڈر حکومت کے لیے سوہانِ جان بنا ہوا ہے۔
وطن عزیز میں جے پی سی یعنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا سلسلہ1987 سے شروع
ہوا۔ بوفورس کے معاملے میں پہلی بار جے پی سی بنانے کی تجویز خود کانگریس
کے وزیر دفاع کے سی پنت نے رکھی اور اس کی سربراہی کانگریسی رہنما شنکرانند
کو سونپ دی گئی۔ اس وقت کانگریس کے پاس چار سو سے زیادہ ارکان پارلیمان تھے
تو اس تناسب سے کمیٹی میں بھی ان کے ارکان کی بڑی تعداد شامل ہوگئی۔ حزب
اختلاف نے اس کا بائیکاٹ کیا اور اس کی رپورٹ کو ایوان میں مسترد کردیا
لیکن یہ ایک حقیقت ہے بوفورس بدعنوانی کے سبب راجیو گاندھی انتخاب ہار گئے۔
دوسری جے پی سی بھی معاشی بدعنوانی پر بنائی گئی وہ ہرشد مہتا کا معاملہ
تھا ۔ 1992 میں غلام نبی آزاد نے پارلیمانی امور کے وزیر کی حیثیت سے یہ
تجویز رکھی ۔ کانگریس کے رام نواس مردھا نے اس کی سربراہی کی ۔ اس کی
سفارشات کو نہ تو قبول کیا گیا اور نہ اس پر عمل ہوا مگر ہرشد مہتا کو
سرکار نے تحفظ نہیں دیا اوروہ جیل گیا۔
اٹل جی کے دورِ حکومت میں کیتن مہتا کا گھپلا سامنے آیا تو 2001 میں پرمود
مہاجن نے جے پی سی کی تجویز رکھی اور بی جے پی کے پرکاش منی ترپاٹھی کو اس
کی سربراہی سونپی گئی۔ اس کمیٹی نے حصص بازار کو درست رکھنے کے سخت تجاویز
پیش کیں جنھیں بعد میں نرم کردیا گیا۔ اگر ویسا نہ ہوتا تو اڈانی کو یہ
موقع نہیں ملتا۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ شیئر بازار میں بڑی بدعنوانی کرنے
والے اڈانی سمیت تینوں گھپلے باز مودی اور شاہ کے آدرش گجرات سے آتے ہیں۔
منموہن سنگھ کے زمانے میں مشروبات کے اندر کیڑے مارزہرکے تنازع پر 2003 میں
جے پی سی تشکیل دی گئی۔ اس کی سربراہی شرد پوار نے کی اور پایا کہ الزام
درست ہے۔ اس نے مسئلہ کے حل کی خاطر جو سفارشات پیش کیں انہیں منظور کرکے
نافذ کیا گیا۔ ٹوجی گھوٹالا کی گونج 2011 میں سنائی دی۔ اس کی تحقیق کے کے
لیے کانگریسی رہنما پی سی چاکو کی سربراہی میں ایک جے پی سی بنائی گئی۔ اس
کی تفتیش کے دوران چاکو پر جانبداری کا الزام لگا اور وزیر اعظم و وزیر
خزانہ پی چدمبرم کو کلین چِٹ دینے پر تنقید بھی کی گئی ۔ اس کے بعد رپورٹ
کے اندر ترمیمات کی گئیں۔ ویسے آگے چل کر عدالت نے بھی ان دونوں اے کے
راجہ کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ آگے چل کر وہ لوگ بے قصور پائے گئے لیکن
ڈی ایم کے رہنما جیل گئے۔ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر کے معاملے میں 2013 کے
اندر کمیٹی بنائی گئی لیکن آگے چل کر ان الزامات سے عدالت نے سونیا گاندھی
کو بری کردیا۔
مودی سرکار زمین کوسرکاری تحویل میں لینے کے لیے جو قانون بنایا تو اس کے
خلاف حزب اختلاف نے 2015 میں جے پی سی کا مطالبہ کیا اور ایس ایس اہلووالیا
کے تحت اس کا قیام عمل میں آیا۔ بنیادی طور پر وہ قانون سرمایہ داروں کی
مدد کے لیے بنایا گیا تھا جسے کسان قانون کی مانند مودی سرکار نے واپس لے
لیا۔ این آر سی پر جے پی سی کی تشکیل 2016 سے التواء میں ہے۔ ذاتی معلومات
کے تحفظ کا قانون بھی 2019 میں جے پی سی کے حوالے کیا گیا ۔ بی جے پی کی
میناکشی لیکھی کی قیادت میں قائم شدہ اس کمیٹی رپورٹ کا انتظار ہے۔ سوال یہ
ہے کہ جب مودی سرکار خود اس راستے سے ماضی میں پارلیمانی تعطل ختم کرچکی ہے
تو اب ایسا کرنے سے کیوں ڈر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بار تفتیش کی
آنچ پی ایم او تک آرہی ہو اس لیے سرکار بہت زیادہ محتاط یا گھبرا رہی ہے
لیکن بکرے کے اباّ آخر کب تک خیر منائیں گے ؟ ایک نہ ایک دن تو چھری کے
نیچے آئیں گے؟ خیر فی الحال تو ملک کے عوام بکرے کی بلی کا جشن منارہے ہیں
اور اس کے اباّ وچچا کا انتظار کررہے ہیں۔ اڈانی گروپ کی رحلت پر سرکار
دربار میں جو صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور جس طرح وہ جے پی سی سے بھاگ رہی ہے
اس صورتحال پر غالب کا مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
مرُدنی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
|