سائنس فکشن ناول”پوزی اور الیکٹرا“

سائنس فکشن ناول”پوزی اور الیکٹرا“
نقد و تبصرہ: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ:[email protected]
”پوزی اور الیکٹرا“محترمہ تسنیم جعفری کے تخلیق کیے گئے سب سے پہلے کردار ہیں
”پوزی اورالیکٹرا“ کے تمام کردار ولائتی ہیں یعنی پوری کہانی کا سیٹ اپ اور اس کا مرکزی خیال امریکہ سے متعلق ہے۔
”تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ اچانک دھماکے سے پوزی کی آنکھ کھل گئی کیونکہ اس کا بستر کھڑکی کے قریب ہی تھا۔ اس نے دیکھا کہ چاند ان کے گھر کے بالکل اوپر آگیا ہے اور اس کارنگ سرخ ہوگیا ہے، اس میں سے آتش بازی سی پھوٹ رہی جس کے دھماکوں سے پوزی کی آنکھ کھلی تھی“۔
تسنیم جعفری صاحبہ کے سائنس فکشن ناولز اور کہانیوں کی18 کتب سامنے آچکی ہیں۔جن میں چھوٹو میاں (سائنسی ناول)،مریخ کے مسافر(سائنسی ناول)، ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے معلوماتی اوردلچسپ ناول”پیوستہ رہ شجر سے“،تھانگ شہزادی کی کہانی(جینی کہانیوں کے تراجم)،میرے وطن کی بیٹیاں،روبوٹ (سائنس فکشن ناول)،زندگی خوب صور ت ہے(نوجوانوں کو منشیات سے دور کا درس دیتا خوب صورت ناول)،مخلص دوست(آسکر والڈ کی فیری ٹیلز کا اردو ترجمہ)، ماحولیاتی اورمعاشرتی آلودگی سے متعلق دل چسپ ناول”ماحول سے دوستی سے کیجئے“،”لے سانس بھی آہستہ(سائنسی مضامین)،پوزی اور الیکٹرا(سائنس فکشن ناول)، نئے دور کی الف لیلہ سیریز میں چار کتب لڑکیوں کی الف لیلیٰ، جانوروں کی الف لیلیٰ، بچوں کی الف لیلیٰ، اورپریوں کی الف لیلیٰ شامل ہیں۔علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد کی طالبہ جویریہ خان نے ایم فل سطح کا ایک تحقیقی مقالہ،”تسنیم جعفری کی ادبی خدمات: تحقیقی اور تنقیدی جائزہ“مکمل کیا ہے جس میں ان کی شخصیت اورفن کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
”پوزی اورالیکٹرا“ ان کی سولہویں کتاب ہے جوجنوری 2022میں منظر عام پر آئی ہے۔
”پوزی اور الیکٹرا“ایسے بچوں کی کہانی جو ماضی میں جاکر اپنی دادی سے ملتے ہیں اور ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ تسنیم جعفری صاحبہ کی سب سے پہلی طبع زاد کہانی یہی ”پوزی اور الیکٹرا“تھی جو 2003ء میں ماہنامہ پھول،لاہور میں شایع ہوئی تھی۔”پوزی اورالیکٹرا“ کے تمام کردار ولائتی ہیں یعنی پوری کہانی کا سیٹ اپ اور اس کا مرکزی خیال امریکہ سے متعلق ہے۔تسنیم جعفری صاحبہ کے بقول”اس کہانی میں بہت ہائی فائی سائنسی فیکٹس دکھائے گئے ہیں اوراتنی زیادہ سائنسی ترقی وہیں ممکن ہے پاکستان میں نہیں“۔
”پوزی اورالیکٹرا“ کا پہلا حصّہ جب لکھا گیا تھا اس وقت یہ صرف ایک کہانی تھی جو پہلے ماہنامہ پھول میں اور پھر 2007ء میں اردو سائنس میگزین میں شایع ہوئی تھی۔اس وقت یہ ایک سادہ سی سائنس فکشن تھی جو دو معصوم بچوں کے بارے میں لکھی گئی تھی جنہیں کبھی اپنے والدین سے پیا ر نہیں ملا تھا اور انہیں علم بھی نہیں تھا کہ پیار کیا ہوتا ہے جن کی پرورش ایک روبوٹ نے کی تھی۔پھر انہیں ایمرجنسی میں ٹائم ٹریول کرنا پڑتا ہے، یعنی کالٹیک مشین کے ذریعے ماضی میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں وہ اپنی دادی جان سے ملتے ہیں جن کا پیار دیکھ کر ان بچوں کو پتہ چلتا ہے کہ پیار کیا ہوتا ہے۔اس کہانی کی تھیم انگلش کا ایک مقولہ ”Love transforms everything“ تھی۔ یہ آپ اس ناول میں پڑھیں گے کہ ان چند گھنٹوں کی محبت نے بچوں میں کیا مثبت تبدیلی پیدا کی۔
بقول مصنفہ ”کئی سالوں بعد مجھے کچھ ایسے فیکٹس پتہ چلے جن سے میرے ذہن میں ایک اور کہانی کا آئیڈیا آیا،یہ حقائق ایٹم بم کی ایجاد اور امریکہ کے مریخی مخلوق کے ساتھ معاہدوں سے متعلق تھے تب مجھے پوزی اور الیکٹرا کا خیال آیا اور میں نے انہیں کی کہانی کو آگے بڑھایا اور ان غیر معمولی بچوں سے مزید کام لینے کا سوچا۔اس دوسرے حصّے کے اختتام پر وہ بچے جو اب جوان ہوگئے تھے اپنی دنیا سے بد دل ہوکر مستقل مریخ پر جا بستے ہیں، اس وقت میرے نزدیک یہی اان کرداروں کا بہترین اور منتقی انجام تھا۔ اس کے چار یا پانچ سال بعد پھر اسی حوالے سے مجھے کچھ حقائق ملے تو میں نے اسی کہانی کو مزید آگے بڑھانے کا سوچااور اس کا تیسرا حصّہ لکھا،کیونکہ میرے نزدیک پوزی اور الیکٹرا ہی ایسے کردا ہیں جن سے ہر مشکل کام لیا جا سکتا ہے،حالانکہ میں اس دوران بے شمار سائنسی کہانیاں لکھ چکی تھی اور بہت سے کردار تخلیق کر چکی تھی۔ یہ تین حصے تقریباً دس گیارہ سال کے دوران لکھے گئے،تینوں اپنے اپنے وقت میں اردو سائنس میگزین میں شایع ہوئے اور پھر 2015ء میں میری سائنس فکشن کی کتاب ”مریخ سے ایک پیغام“کا حصّہ بنے جو اردو سائنس بورڈ نے شایع کی تھی“۔
”پوزی اور الیکٹرا“محترمہ تسنیم جعفری کے تخلیق کیے گئے سب سے پہلے کردار ہیں، آج کے خلائی سائنس کے دور کے جو سب سے بہترین اور آئیڈیل بچے اور نوجوان ہو سکتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں، جو نہ صرف ذہنی و جسمانی لحاظ سے دنیا کے بہترین انسان ہیں بلکہ محبت بھی ان کی لاثانی ہے اور اس محبت میں وہ بڑے سے بڑا کام کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ایسے انسان جو آج کے دور کے نام نہاد روبوٹس سے کہیں بڑھ کر ہیں،دراصل یہ کردار علامہ اقبال کے شاہین ہیں اور حقیقت میں وہ کردار ہیں جن کے بارے میں اقبال نے لکھا تھا:”آئینہء ایام میں آج اپنی ادا دیکھ...!“۔
سائنس فکشن ناول”پوزی اور الیکٹرا“میں بہت کچھ ایسا ہے جو پڑھنے والو ں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اوربہت سے حقائق ایسے ہیں جو شاید آسانی سے ہضم نہ کیے جا سکیں کہ سچائی ہمیشہ سے کرواہٹ رکھتی ہے۔دنیا کی سپرپاور ملک کے حوالے سے بھی کرداروں کی زبانی جو کچھ بیان ہوا ہے وہ قاری کو جھنجوڑ کر رکھتا ہے لیکن بچوں کو سائنس کے اسرار و رموز بھی خوب روانی سے یوں بیان کیے گئے ہیں کہ ذہن نشین ہو کر سمجھ آجاتا ہے کہ ناول نگار نے اپنی جانب سے کوئی ایسی کمی نہیں چھوڑی ہے جہاں محسوس ہو کہ کہیں جھول آیا ہے یہی تسنیم جعفری صاحبہ کا کمال ہے کہ بچوں کی ذہنی استطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے خوب صورت پیرائے میں کہانی، کہانی میں بہت کچھ آگاہ کر دیتی ہیں اوریہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ سائنس فکشن لکھنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے وہ ان کا طرہ امتیاز ہے۔
اس دل چسپ ناول کے چند اقتباسات قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔
”تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ اچانک دھماکے سے پوزی کی آنکھ کھل گئی کیونکہ اس کا بستر کھڑکی کے قریب ہی تھا۔ اس نے دیکھا کہ چاند ان کے گھر کے بالکل اوپر آگیا ہے اور اس کارنگ سرخ ہوگیا ہے، اس میں سے آتش بازی سی پھوٹ رہی جس کے دھماکوں سے پوزی کی آنکھ کھلی تھی“۔
اس ناول میں ایک حیرت کن انکشاف ہے ابھی جو اقتباس پیش کیا جا رہا ہے یہ 2008ء میں لکھا گیا تھا،آج کرونا کی وجہ سے یہ بات سچ ہوچکی ہے۔
”جب ممی اپنی بات ختم کر چکیں تو وہ دونوں لائبریری میں چلے گئے،جہاں ان کا ٹٹوریل شروع ہونے والاتھا۔اس کمیونٹی کے بچوں کا طریقہء تعلیم باقی دنیا سے مختلف تھا۔بچوں کی جسمانی اور ذہنی حفاظت کے لیے اُنہیں کسی اسکول نہیں بھیجا جاتا تھا بلکہ تمام تعلیم کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی تھی کیو ں کہ سکول جانے میں اس کمیونٹی کے بچوں کو خاص طور پر ایک تو اغوا ہونے کا خطرہ رہتا تھا، دوسرے یہ کہ اس طرح بچے سکول میں اکھٹے بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے سے بھی بہت سی با تیں سیکھ لیتے جن میں اچھی اور بُری سب طرح کی با تیں ہوتیں،تو پھر بچوں کا دھیان صرف پڑھائی کی طرف نہیں رہتا پھر وہ دوست بھی بناتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملنا بھی چاہتے ہیں جو ان کا حق ہے، لیکن اس کمیونٹی کے والدین بچوں کے حق والی بات بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی اس طرح حفاظت کرتے تھے جس طرح کوئی اپنی نئی ایجاد کی منظرِ عام پر آنے سے پہلے حفاظت کرتا ہے کہ کہیں ان کا آئیڈیا چوری نہ ہو جائے۔ وقتِ مقررہ پر تمام بچے اپنا کمپیوٹر آن کر لیتے تھے اور ان کی عمر اور کلاس کے مطابق ایک ٹیچر آن لائن ہو کر لیکچر دیتا تھا، جس کو سن کر وہ یاد کرلیتے تھے،یاد نہ رہے تو سیو کر کے دوبارہ دیکھ لیتے تھے۔ ان لیکچرز کی بھی بچوں کے والدین کڑی نگرانی کرتے تھے۔جب امتحان ہوتے تھے تو بچے کمپیو ٹر پر ہی پیپر حل کر کے ٹیچر کو بھیج دیتے تھے“۔
اس فقرے میں کیا کچھ ہے ذراسوچیں۔
”صدر صاحب...! ّپ کو اس ملک کا صدر کہنے کی بجائے ملک کا سب سے بڑا دشمن کہنے کو دل چاہتا ہے۔آپ نے کر لی نا اپنی من مانی،ہوگئے خوش اپنا ملک و قوم تباہ کر کے....؟ سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کو کیا کہوں،اگر آپ کی ایسی عبرت ناک حالت نا ہوئی ہوتی تو میں خود اپنے ہاتھ سے آپ کو شوٹ کر دیتا.....!“
حکومت کے حوالے سے جو بات اس پیرائے میں بیان ہوئی ہے وہ بے حد متاثر کن ہے۔
”سب نے سائنسی حکومت کا سن کر حیرانی سے پوزی کو دیکھا جیسے سائنسی سے مراد ایٹمی دنیا ہو۔”پریشان نہ ہوں....! برٹرینڈ رسل کے مطابق سائنسی حکومت سے مُراد ایسی حکومت ہے جو مطلوبہ نتائج دے سکے۔حکومت جتنا زیادہ مطلوبہ نتائج دے سکے گی اتنی ہی زیادہ سائنسی کہلائے گی۔پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے شعلے بھڑکانے کی ذمہ د ار حکومتیں غیر سائنسی تھیں، کیونکہ وہ تمام کی تمام اس جنگ کی وجہ سے زوال پزیر ہوگئیں“۔
بچوں کے لئے کیسے عمدگی سے ایک بات بیان ہوئی ہے جو ان کی تربیت کے لئے اہم ترین ہے۔
”معاف کرنا بچو، میرا بیٹا اجنبی لوگوں سے نہیں ملتا۔ اس کی وجہ شاید اس کا اکیلا پن ہے کیونکہ میں بھی سارا دن اپنے کاموں میں مصروف رہتی ہوں۔ ویسے یہ ہے بہت ذہین، بہت پڑھاکو ہے، سائنس سے بہت دلچسپی ہے۔ کہتا ہے بڑا ہو کر سائنس دان بنوں گا۔“
ایک بڑی اہم بات اس فقرے میں نظر آئی ہے جو بہت کچھ سمجھا رہی ہے۔
”یہ ہمارا نوکر ہے، ایک روبو ہے۔ یہ اور اس جیسے بہت سے روبوٹ ہمارے ڈیڈ نے کلوننگ کے ذریعے بنائے ہیں جو بظاہر انسان لگتے ہیں لیکن ان کے دماغ مشینی ہیں۔“ پوزی نے وضاحت کی تو مسز نیلسن نے گھبرا کر جلدی سے اپنے سینے پر صلیب بنائی، کیونکہ اس دور میں تو یہی سچ تھا کہ انسان بنانا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے، اُنہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا بیٹا ہی قدرت کے کاموں میں دخل اندازی شروع کردے گا۔ اُنہیں بہت افسوس ہو رہا تھا“۔
خلاقی مخلوق کا تذکرہ اکثر سننے میں آتا ہے اس کہانی میں کچھ الگ سے انداز میں حقائق پیش کیے گئے ہیں۔
”وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ کسی دن مریخ پر سے کوئی مخلوق آئے گی اور اچانک دنیا پر حملہ کردے گی، دنیا تباہ ہوجائے گی تو ہم کسی اور سیارے پر جا بسیں گے۔ حالانکہ دنیا پر تباہی ہمیشہ ان کی اپنی غلطیوں اور نا اتفاقیوں سے آتی ہے۔ تمام سپر پاورز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں میں لگی ہیں، ایٹمی ہتھیار اور ہمارے جیسے طاقتور انسان وہ اپنے جیسے انسانوں کو ہی تباہ و برباد کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بھلا کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ بلا وجہ کسی دوسری دنیا سے آ کر ہم پر حملہ کرے، یہ دخل در معقولات کی عادت تو صرف انسانوں کو ہی ہے۔ اور یہ دوسری دنیا کی مخلوق کے حملے کی افواہیں محض سائنسدانوں کے ڈرامے ہیں تاکہ انسان خوامخواہ ایک انجانے خوف میں مبتلا رہیں“۔
تسنیم جعفری صاحبہ کے اس سائنس فکشن ناول ”پوزی اور الیکڑا“کو "اکادمی ادبیات اطفال اور تعمیر پاکستان پبلی کیشنز اینڈ فورم 11/16فیروزپورروڈ، لاہور سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس خوب صورت ناول کو خریدیں،پڑھیں اورتحفے میں دیجئے کیوں کہ کتب سے بڑھ کر اور کوئی دوست وفادار نہیں ہے۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480114 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More