مرتبہ :۔محترم ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب
" />

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت"

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت"
مرتبہ :۔محترم ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب

مجلہ الذبیر

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت"
مرتبہ :۔محترم ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب
-------------------------
حضرت اقبال برصغیر کےعظیم شاعر ،مفکر اورمصلح ہیں جنہوں نے اپنے عمیق خیالات اور انقلابی افکار کے اظہار کے لیے بیک وقت اردو فارسی اور انگریزی زبان کو وسیلہ ءاظہار بنایا۔ان کی شاعری اردو اور فارسی میں جبکہ خطبات اور مقالات انگریزی میں موجود ہیں۔جبکہ انہوں نے مکاتیب اردو زبان میں لکھے۔ان کا فکر و فلسفہ محض شاعرانہ خیال یا فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ ایک واضح حکمت عملی کا درجہ رکھتا ہے۔اقبال مفکر ِ اسلام ،حکیم الامت ،شاعر مشرق ،دانائے راز ،ترجمان ِ خودی اور نجانے کتنے ہی خطابات و القاب کے حق دارہیں ۔ہر فرد اور ہر طبقے کا اپنا اقبال ، وہی اقبال ،جس نے پوری دنیائے ادب اور فکری رویوں کو متاثر کیا ۔وہی اقبال جو دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کی نہ صرف پہچان ہے بلکہ فخر و ناز کا باعث بھی ہے ۔اسی نے قوم کو پستیوں سے نکال کر خود شناسی کا پیغام دیا۔

حضرت اقبال تاریخ فکر و ادب کی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی زندگی میں ہی ان کے شعری و فکری افکار کو قومی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ اقبال کے فکر کی تازگی بلند آہنگی اور انقلابی رنگ نے سارے زمانے کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اس کے فکرو شعر کی تفہیم کا عمل شروع ہوا جس سے اختلاف اور اکتساب کے دروازے کھلے ۔یوں ایک ایسی روایت کا آغاز ہوا جو جلد ہی برصغیر کی جغرافیائی حدود پار کر کے چار دانگ عالم میں پھیلی پروان چڑھی اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔ اقبال فہمی کے اس روایت میں مشرق و مغرب کے نامور محققین اور ناقدین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے انداز سے شرکت کی ۔دراصل اقبال فہمی ایک علمی روایت ہے جس کی بنیاد میں حیات و افکار اقبال کی تفہیم کے سلسلہ میں کی جانے والی اب تک کی تمام کاوشیں شامل ہیں۔اس سے نہ صرف اقبال کے فکر و فلسفہ اور نظریات کو سمجھنے اور یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ خود اقبال اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اپنی اور شاعری میں وہ کیا پیغام دیتے ہیں؟

حضرت اقبال کی زندگی میں ان پر جو کچھ لکھا گیا ہے۔ جس کی نوعیت زیادہ تر ستائشی اور جذباتی تھی۔ البتہ ان کی وفات کے بعد ارباب فکر و نظر تنقیدی انداز میں اقبال کو اپنی تحریروں اور تصانیف کو موضوع بنانے لگے۔ ان میں سے کچھ نے اقبال کے سوانحی حالات کو موضوع بنایا اور کچھ نے اقبال کے فکر و فلسفہ ہر توجہ دی۔ اسی طرح خاصی تعداد میں تحریریں اور تصانیف وجود میں آتی گئیں۔آج د نیائے علم وادب ،فلسفہ و سائنس اور تاریخ و سیاست میں اقبال ایک ایسی منفرد حیثیت حاصل کرچکے ہیں کہ مشرق و مغرب ان کی عظمت کے قائل ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر اقبال کو"ممدوح عالم " قرار دیتے ہیں ہوئے لکھتے ہیں "آج کی تمام مہذب دنیا اقبال کے نام اور افکار سے واقفیت رکھتی ہے ۔"

اقبالیات اور اقبال شناسی یہ وہ دو طریقے ہیں جو فکر اقبال کی تفہیم کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔"اقبالیات" ایک شعبہ علم ہے ، جس میں اوّل اقبال کی شعری و فکری تصانیف اور مقالات و مکاتیب و بیانات شامل ہیں اور دوم ایسی تمام تحریرات و تحقیقات جو حیات و تصانیف اقبال کے تشریحی و توضیحی اور تنقیدی مطالعات پر مبنی ہے جبکہ" اقبال شناسی" میں موجود لفظ "شناس " وضاحت کا متقاضی ہے ۔ا قبال شناسی وہ علمی روایت ہے جس کی بنیاد حیات و افکار اقبال کی تفہیم کے سلسلہ میں کی جانے والی اب تک کی کاوشوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اور اقبال شناسی کی روایت سے وابستہ اہل علم کو اقبال شناس ،اقبال سکالر یا ماہر اقبال کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں اقبال شناسی کے فروغ میں مختلف درسگاہوں کے اساتذہ کے ساتھ جرائد و رسائل کا بھی کردار نہایت اہم رہا ہے جنہوں نے کلام و افکار اقبال کے ساتھ اپنی دلچسپی اور وابستگی کو اپنے قارئین کے دلوں میں جا گزیں کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے۔مجلہ "الذبیر" اس حوالے سے اپنا نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے۔

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت"
اقبال کون ہیں ؟ اقبال شاعرامروز،نابغہ روزگار، عالمی مفکرو مدبر، حکیم ملت، ترجمان حقیقت،دانائے راز،گنبد خضرا کے شیدائی،دینی علوم کے بحر بیکراں،تصور پاکستان کےخالق، مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے غم خوار،رفعت خیال و قوت،بصیرت اور اعلیق ذوق عمل کے بہترین عکاس ،قائد کے مدبر دوست۔اقبال کی شخصیت کی شناخت صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے کہیں بڑھ کر اقبال خودی کے پیامبر ،محبت و یگانگت کے حسین پیکر ،عقل و شعور کے مینارہ نور، ایک شفیق باپ،ایک باوفا شوہر ، وغیرہ،وغیرہ جیسی اقبال شناسی جیسی آگاہی میں مجلہ"الذبیر" کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یوں تو فکر اقبال کی ترسیل و تعارف میں ادبی جرائد کا کردار ابتداء سے نہایت اہم رہا ۔مگر"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت"کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس میں شامل تمام مقالات مختلف رسائل سے نہیں بلکہ "الذبیر" میں شائع شدہ ہیں۔اقبال شناسی میں یہ بہترین مقالات کا انتخاب اقبال کی شاعری،فکر اور تنقید کی جامعیت و وسعت کا ایسا حسین مرقع ہے جو اقبال شناسوں کے لیے متنوع موضوعات لیے ہوئے ہے۔ اور اس میں شامل مقالات شائقین اقبال کے ساتھ ساتھ محققین اور ناقدین کے لیے دلچسپی کا باعث اور تفہیم اقبال کے حوالے سے اقبال کی شخصیت اور فکروفن کی کثیرالجہات زاویوں سے آشنائی میں معاون ثابت ہونگے۔

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت" کے مرتب ہمارے محترم و مربی جناب ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب برعظیم کے عظیم صحافی و مورخ سید مسعود حسن شہاب دہلوی کے صاحبزادے اور ان کے علمی ورثہ کے امین ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 1983ء سے 2017 ء تک یونیورسٹی سروس میں رہے اور آپ نے اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں کم و بیش 35 سال خدمات انجام دیں اورآپ 2012 ء سے 2017ء تک شعبہ تاریخ کے سربراہ رہے۔آپ کے 50 سے زائد علمی و تحقیقی مقالہ جات مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں اس کےعلاوہ ''ظنزومزاح کا تنقیدی افق'' اور'' ہے سفر مطلوب کہیں'' جیسی معروف کتابیں آپ کی تصانیف میں شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے مضامین اکثر وبیشتر قومی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں جن میں علاقائی تاریخ و ثقافت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔اس وقت ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب ''مکتبہ الہام'' اور ''اردو اکیڈمی'' بہاولپور کے روح رواں ہیں اور 50 سے زائد کتب و 20 کے قریب خاص شمارے آپ کی سرپرستی میں اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے شائع ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب 1990 ء سے سہ ماہی '' الذبیر'' کے بھی مدیر اعلٰی ہیں جو 1959ء سے تاحال جاری و ساری ہے ۔الذبیر اپنے خاص نمبرز کی اشاعت کی وجہ سے قومی رسائل میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے اس کے خاص نمبرز میں ''آپ بیتی نمبر، جنگ آزادی نمبر، کتب خانے نمبر ،سفرنامہ نمبر خواجہ فرید نمبراور بہاولپور نمبر کے نام سرِ فہرست ہیں۔الذبیر ایک اکیڈمک ریسرج جنرل ہے جو اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ و صحافت اور سماجیات کے فروغ کیلئے کوشاں ہے ۔

"مجلہ الذبیر اور اقبال شناسی کی روایت " کے حوالے سے ہم اِس شاندار علمی کوشش وکاوش پر جناب ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔اور دعا گو ہیں کہ ربّ کریم آپ کے علم و عمل اور عمر عزیز میں خیروبرکت عطا فرمائے ۔جناب ڈاکٹر شاہد حسن رضوی صاحب نے ہمیشہ اپنی محبت اور علمی سرپرستی سے نوازہ ہے۔"مجلہ الذبیراور اقبال شناسی کی روایت"اسی کرم فرمائی کا مظہر ہے ،جس پر ہم دل سے مشکور ہیں۔اللہ کریم انہیں صحت و عافیت اور آسانی و فراوانی کے ساتھ سلامت رکھے ۔آمین
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 310953 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More