سانولی رنگ والا پری زاد اور بھاری جسامت والی پیاری مونا، ایسے ڈرامے معاشرے میں بہتری کا سبب یا مزید بگاڑ کا آغاز

image
 
پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری ایک زمانے میں اس اعتبار سے خصوصی توجہ کی حامل تھی کہ اس میں ڈرامہ بناتے ہوئے نت نئے تجربات کیے جاتے تھے- ماضی کا ڈرامہ وارث دیکھا جائے تو زمینداروں کی زندگی کے ان پہلوؤں کو دکھایا گیا جس کے بارے میں لوگ بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے یا پھر ایسے موضوعات پر ڈرامے بنائے جاتے تھے جو کہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کو اجاگر کرتے تھے-
 
آج کے دور کے ڈرامے
مگر آج کل کے دور میں جیسے جیسے چینلز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے پروڈکشن ہاؤسز ڈرامے بناتے ہوئے نئے تجربات سے پرہیز کرنے لگے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ گلیمر سے بھرپور ایسے ڈرامے بنائے جائیں جو حقیقی زندگی سے کوسوں دور ہوں- یہ ڈرامے جن کی کہانیاں ساس بہو کی کہانیوں، غریب لڑکیوں کے امیر لڑکوں کے پھنسانے جیسے عجیب وغریب موضوعات پر بنائے جا رہے ہیں اور ہر چینل پر صرف چہروں کی تبدیلی کے ساتھ ایک جیسی کہانیوں کو ہی سامنے لایا جا رہا ہے-
 
کچھ منفرد ڈرامے
ایسے ہی ایک جیسے موضوعات والے ڈراموں میں کچھ منفرد موضوعات والے ڈرامے اگر سامنے آتے ہیں تو ان کی حیثیت ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح ہوتی ہے جن کو عوام نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ایسے ڈراموں کے معاشرے پر منفرد اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں-
 
image
 
ڈرامہ پری زاد
ہاشم ندیم کا تحریر کردہ ڈرامہ پری زاد جو کہ کچھ عرصے قبل کی آن ائیر کیا گیا تھا کافی مشہور ہوا اس ڈرامے کا بنیادی مقصد دبی ہوئی سانولی رنگت والے افراد کے ساتھ معاشرے کے سلوک پر مبنی تھا-
ہمارے معاشرے میں عام طور پر بچپن ہی سے ایسے بچوں کو والدین اور ملنے جلنے والوں کی طرف سے فوقیت دی جاتی ہے جو کہ سفید رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ سانولی رنگت والا بچہ جتنا بھی ذہین ہو معاشرہ اس کو نظر انداز کر دیتا ہے- ایسے ہی ایک بچے پر بنایا گیا ڈرامہ پری زاد جس کی کہانی میں یہ بتایا گیا کہ صرف رنگت کی بنیاد پر اہمیت دینے کا سسلسلہ ترک ہونا چاہیے-
 
ڈرامہ پیاری مونا
سانولی رنگت کے بعد ہمارے معاشرے کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ باڈی شیمنگ کا ہے جس میں کسی بھی فرد کی جسامت کو دیکھ کر اس کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے- خاص طور پر موٹے افراد کے لیے تو طرح طرح کے ایسے نام رکھ دیۓ جاتے ہیں کہ ایسے افراد کا معاشرے میں اعتماد سے سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے- اسی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں پیاری مونا کے نام سے ایک ڈرامہ پیش کیا جا رہا ہے جس کے مصنف حسیب احمد ہیں اس ڈرامے کی کہانی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اپنی من موجی فطرت کے سبب موٹاپے کا شکار ہو جاتی ہے- جس پر اسے نہ صرف اپنی سگی ماں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ معاشرے میں ہر فرد اس کے موٹاپے کے سبب اس کا مذاق اڑاتا ہے-
 
مونا کا کردار اور اداکاراؤں کا انکار
ہمارے معاشرے کے رجحان کا اندازہ اس حوالے سے لگایا جا سکتا ہے کہ صنم جنگ سے قبل یہ کردار کئی اداکاراؤں کو آفر کیا گیا مگر انہوں نے ڈرامے میں بھی موٹی لڑکی بننے سے انکار کر دیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں موٹے افراد سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے-
 
image
 
ڈرامے معاشرے میں بہتری کا سبب بھی بن سکتے ہیں
ہمارے ڈرامے دیکھنے والے ناظرین ان ڈراموں کی کہانیوں اور موضوعات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر ڈراموں میں آزاد خیالی دکھائی جاتی ہے تو معاشرہ بھی اسی کا شکار ہوجاتا ہے اور اگر ڈراموں میں ایسے مثبت موضوعات پیش کیے جائيں گے تو اس سے معاشرے میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہو گا کہ کسی بھی فرد کو بنانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور کسی کے ظاہری عیب یا کمی پر تنقید کرنے کا ہمارے پاس کوئی حق نہیں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: