دنیا میں کامیابی کے اصول و ضوابط

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
عزیزان من کسی ملک کے ایک بادشاہ نے اپنے ملک کے بڑے قابل ، عقلمند اور قابل فخر لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے ملک کا ہر نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب ہو اور میرے ملک کا ہر نوجوان ایک کامیاب نوجوان ہو اس لئے تم لوگ ان کی کامیابی کے لئے کوئی ایسا نصاب تیار کرو جس میں انہیں کامیابی کے طریقے بتائے جائیں کامیابی حاصل کرنے کے اصول و ضوابط مقرر ہوں وہ سارے لوگ مہینوں سر جوڑ کر بیٹھے رہے اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک مسودہ تیار کرکے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوگئے یہ مسودہ اپنے آپ میں ایک بیش بہا خزانہ تھا جس میں حکمت اور دانائی کی باتیں دنیا کے کامیاب لوگوں کے بارے میں قصے اور واقعات موجود تھے لیکن بادشاہ نے دیکھ کر واپس لوٹا دی اور کہا کہ اسے مختصر کرکے لائو یہ میرے نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتی تو وہ لوگ اس مسودہ کو ہزاروں سے کم کرکے سینکڑوں صفحات میں تبدیل کرکے لائے لیکن بادشاہ نے اسے بھی واپس لوٹادی اس کے بعد وہ اسے بیسیوں صفحات میں تبدیل کرکے لائے تو بادشاہ نے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری یہ کہانیاں اور یہ قصے میرے نوجوانوں کو کامیابی کا راستہ نہیں دکھاسکتی اور نہ ہی کامیابی کے اصول بتا سکتی ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آخر کار مہینوں کی محنت اور مشقت کے بعد یہ قابل لوگ صرف ایک جملے میں کامیابی کے سارے اصول بیان کرنے میں کامیاب ہوئے کہ " جان لو کہ بغیر محنت کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی " بس اس جملے کو کامیابی کا ایک سنہری اصول بنا دیا گیا اور طے پایا کہ یہ اصول ہی ہمارے نوجوانوں کو ہمت اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرے گا ویسے بھی اگر آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کی طرف دیکھیں اور ان کے بارے میں پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ محنت اور سچی لگن کی وجہ سے ہی وہ کسی مقام پر پہنچ سکے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپکو معلوم ہوگا کہ جب بارک اوبامہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو کسی ٹی وی چینل پر پہلا سوال جو ان سے پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ آپ ایک مڈل کلاس سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں آپ صدر کیسے منتخب ہوگئے ؟ تو امریکہ کے صدر بارک اوبامہ کا جواب بہت خوبصورت اور متاثرکن تھا انہوں نے کہا کہ " منزل کو پہچاننے کے بعد مجھ جیسے سیاہ فام لڑکے نے محنت اور جدوجہد سے دوستی کرلی تھی " اس دنیا میں وہ کونسا انسان ہوگا جو کامیابی کی خواہش نہ رکھتا ہو اپنے مقاصد میں کامیابی کا خواہ نہ ہو لیکن یہ کامیابی ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ چند لوگ ہی اس کا ذائقہ چکھ سکتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بقول مالکم ایس فوربنر صلاحیت کارتوس ہے اور محنت بندوق کامیابی کے حصول کے لئے ہمیں جدوجہد اور محنت کی بندوق چاہئے ورنہ صلاحیت اور طاقت جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں کامیاب شخص کے مقاصد اس کا استقبال کرتے ہیں منزل اس کے پائوں چومتی ہے عزت ، شہرت اور دولت اس کی میراث بنتی ہے تاریخ اسے حافظے میں جگہ دیتی ہے چاہنے والے لوگ اس سے آٹوگراف لینے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں آگے آنے والی نسلیں اس سے کامیابی کی جیت کا جذبہ رکھتی ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کسی بھی کام کو کرنے اور اس کی کامیابی کے لئے محنت اور مسلسل محنت درکار ہوتی ہے اگر آپ دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کو پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں نے کتنی محنت اور جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل کی اور دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا آیئے ہم ان میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں یہاں ذکر کرتے ہیں ۔سب سے پہلے میں یہاں جس شخصیت کا ذکر کروں گا ان کا نام بعد میں بتائوں گا اور ہمیں ان کا ذکر کرنے کے لئے 1809 میں جانا پڑے گا کیوں کہ ان کا ذکر 12 فروری 1809 میں شروع ہوتا ہے اپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری اس دنیا میں ایک ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ منہ میں سونے کا نوالہ لیکر پیدا ہوتا ہے ہم یہاں جس شخصیت کا ذکر کررہے ہیں ان کا تعلق بھی ایسے ہی ایک گھرانے سے تھا آپ کے والد کے پاس 600 اراضی قابل کاشت زمین تھی بیشمار گھوڑے بھینسیں اور بکریاں تھیں لیکن جب آپ کی عمر سات برس کی ہوئی تو ان کے والد صاحب ایک عدالتی مقدمہ میں سب کچھ ہار جاتے ہیں انہیں بچوں سمیت گھر سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور وہ سڑکوں پر آگئے سڑک پر آتے ہی اس کے ماں باپ کا انتقال ہوجاتا ہے اور لڑکپن میں انہیں کام کاج کے لئے ہاتھ پائوں مارنا پڑتے ہیں 1831 میں کچھ رقم جمع کرکے ایک اسٹور کھول لیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ان کا ستارہ گردش میں تھا گویا نقصان ہونے کی وجہ سے اسٹور بند کرنا پڑا اس کے بعد ایک ورکشاپ کھولا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی بند کرنا پڑا اس کے بعد آپ ایک فوجی دستے میں شامل ہوگئے لیکن قسمت نے یہاں بھی یاوری نہ کی اور وہاں سے بھی فارغ کردیا گیا اس کے بعد آپ نے منگنی کی تو منگیتر کا انتقال ہوگیا لوگوں نے اب انہیں باقائدہ منحوس کہنا شروع کردیا تھا لیکن ہمت نہیں ہاری ایک دوست نے ترس کھاتے ہوئے کچھ رقم قرض کے طور پر دی اور دوبارہ کاروبار شروع کرلیا لیکن پھر نقصان اٹھانا پڑا اور وہ دیوالیہ ہوگئے سارے پیسے ڈوب گئے آپ نے چونکہ قانون کی تعلیم حاصل کررکھی تھی تو سوچا کیوں نہ وکالت کا پیشہ آزمایا جائے لیکن یہاں بھی کامیابی نہ ملی 1832 میں ریاستی مجلس قانون ساز کا الیکشن لڑا وہاں بھی رکنیت نہ ملی لیکن ہمت نہیں ہاری۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں 1834 میں دوبارہ اسی الیکشن میں کھڑے ہوئے اس مرتبہ قسمت نے ساتھ دیا اور کامیابی مل گئی جب حوصلہ ملا تو 1838 کے مجلس ساز قانون کے اسپیکر کا الیکشن لڑا لیکن ایک بار پھر شکست کا سامنا ہوا 1840 اور 1843 کے الیکشن میں بھی شکست ہوئی لیکن 1846 کے انتخابات میں حصہ لیا اور کانگریس کے رکن منتخب ہوگئے دو سال کے بعد دوبارہ کانگریس کے الیکشن میں لڑے اور ہار کو گلے لگالیا 1854 اور 1856 کے الیکشن میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا زرا سوچئے کہ پے درپے کامیابی اور ناکامیاں جن کے ساتھ ہوں وہ کب تک ہمت کا مظاہرہ کرتا رہے گا لیکن اس شخص کے پائہ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی اور بلآخر 1860 میں وہ متحدہ ہائے امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا اس عظیم انسان کو لوگ ابراھیم لنکن کے نام سے جانتے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دراصل ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ناکامی کامیابی کا زینہ بننے کی بجائے مایوسی کا سفینہ اس لئے بن جاتا ہے کہ ہم ناکامی کے اسباب تلاش کرنے کی بجائے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہیلے بہانے ڈھونڈھنے لگتے ہیں مگر وہ باہمت لوگ جو اپنی ناکامی کو کامیابی کا پہلا زینہ سمجھ کر جشن مناتے ہیں تو پھر قسمت ان پر مہربان ہو تی چلی جاتی ہے اب آپ میں سے کئی لوگ ونسٹن چرچل کےنام سے تو واقف ہوں گے جو چھٹی جماعت میں تو فیل ہوگیا لیکن بدقسمتی سے اسے آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ بھی نہ مل سکا لیکن آج دنیا اسے ایک کامیاب حکمران کے طور پر جانتی ہے سائنس کی دنیا میں البرٹ آئن اسٹائن کا نام ایک مشہور اور معروف شخصیت کا حامل ہے لیکن جب وہ پیدا ہوا تو چار سال کی عمر تک وہ بول نہیں سکتا تھا اور اس کی عمر جب سات سال کی ہوئی تب اس کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا آج وہ ہی آئن اسٹائن کے نظریات پڑھے بغیر طبیعات کا مضمون ادھورہ محسوس ہوتا ہے تھامس ایڈیسن سے کون واقف نہیں بلب ایجاد کرنے میں اسے بارہا ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور بلب کا موجد بن گیا۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں نیوٹن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ ایک غیر ذمہ دار طالب کی حیثیت سے جانا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ لعن طعن کا شکار رہتا لیکن اگر اس نے اس لعن طعن کی وجہ سے اپنی زندگی کو مایوسی میں دھکیل دیا ہوتا تو ہم آج اس کا ذکر نہ کررہے ہوتے بل گیٹس کو کون نہیں جانتا اس کے اسکول سے نکالے جانے سے لیکر دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں آنے تک کی کہانی سے بچہ بچہ واقف ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دنیا کی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کا مکمل ذکر کرنے کے لئے یہ تھریر چھوٹی پڑجائے گی لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ انتھک محنت ،ایمانداری ،جدوجہد ، اور مسلسل کوشش کرتے رہنے کا نام کامیابی ہے ہر انسان کی زندگی میں ایسا وقت یا ایسا موڑ ضرور آتا ہے جب وہ زندگی کے صحیح راستے کا تعین کرکے اپنی منزل کو پاسکتا ہے چرچل کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا موقع ضرور آتا ہے جب اس کا کندھا تھپتھپایا جاتا ہے اور ایک ایسا کام کرنے کا موقع ملتا ہے جو اس کی صلاحیت کے عین مطابق ہوتا ہے بدقسمت ہوتا ہے وہ شخص جس کو وہ پل میسر آئے اور وہ اسے گنوادے ۔ہم نے آج کی اس تحریر میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی محنت اور کوشش سےاس عارضی اور مختصر دنیا میں کامیابی حاصل کی اور اپنا ایک مقام بنایا اگلی تحریر میں انشاء اللہ ہم ان لوگوں کا ذکر کریں گے جو دنیا میں رہکر بھی ہمیشہ رہنے والی یعنی آخرت کی زندگی میں کامیابی کے اصول اپنا کر ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو امر کرگئے ۔میں اپنی تحریر کا اختتام ایک معروف نام مارٹن لوتھر کے ایک قول سے کروں گا کہ
اگر آپ اڑ نہیں سکتے تو دوڑو
اگر آپ دوڑ نہیں سکتے تو چلو
اگر آپ چل نہیں سکتے تو رینگو
مگر رکو نہیں آگے بڑھتے رہو
اپنی سوچ اور سمت کو درست رکھو کامیابی آپ کے قدم چومے گی ۔ انشاء اللہ تعالی
 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 168 Articles with 135700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.