اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور خلیل سیدنا ابراہیم
علیہ السلام کی سیرت مجاہدات اور قربانی سے مزین ہے۔ امت محمدیہ علی ٰصاحبھا
الصلوٰۃ والسلام کی اساس ابراہیمی ہے۔ اس امت کے رسول سرکارِ دو عالم ﷺ
اپنےجد امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مظہر ہیں اور ابراہیم علیہ
السلام کے مناسک اس امت میں جاری ہیں۔ اقبال بڑے پُر شوق انداز میں خلیل
اللہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کی سیرت میں اقبال کو ایسے ایسے نکات ملتے ہیں
جو کسی بڑے سے بڑے مفکّر و مدبّر اور تحریکی سربراہ کے ہاں نہیں پائے جاتے۔
حضرت خلیل علیہ السلام کی زندگی کے مختلف گوشوں سے اقبال فیض اخذ کرتے ہیں
اور پھر اسے آگے منتقل کرتے ہیں۔ اپنی اردو وفارسی شاعری میں جابجا اقبال
نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے اپنا پیغام منتقل کیا ہے۔ اقبال کے
کلام میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا جہاں ذکر ہے وہاں آپ علیہ السلام
کےبتوں کو توڑنے کا واقعہ، اپنے والد کے مقابلے میں رضائے خداوندی کو ترجیح
دینا، آگ میں بے خطر کُود پڑنا، نمرود کی مخالفت کے باوجود تبلیغ احکام
کرنا، اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے لیے ذبح کرنا وغیرہ سے لیا ہوا سبق
بھی موجود ہے۔ ہم ان مختلف گوشوں کے متعلق اقبال کے اشعار کا جائزہ لیتے
ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا ایک نمایاں واقعہ بت شکنی کا
ہے۔ آپ نے اپنے والد اور قوم کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر، جذبہ توحید سے
سرشار ہو کر قوم کے خود ساختہ معبودوں کو پاش پاش کر دیا۔ اس کا واقعہ یوں
ہوا کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کی قوم کے افراد اپنے بت خانے کو چھوڑ کر
کہیں چلے گئے، آپ علیہ السلام نے موقع دیکھ کر تمام بت ٹکڑے ٹکڑے کر دیے
پھر وہ کلہاڑا جس سے انہیں توڑا تھا، بڑے بت کے پاس رکھ دیا۔ لوگ آئے، جب
اپنے خداؤں کی حالت دیکھی تو کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے
کی؟ بعضوں نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان ابراہیم سے ان کی مذمت سنی ہے۔ آپ
علیہ السلام سے پوچھ گچھ کی گئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ حرکت
ان کے بڑے بت نے کی ہے۔ لہٰذا اس سے پوچھو اگر یہ بول سکے تو بتائے، اس پر
ان لوگوں سے جواب بن نہ سکا تو آپ علیہ السلام نے انہیں ایسے گونگے
معبودوں کی عبادت پر عار دلائی جو کسی نفع اور نقصان پر بھی قدرت نہیں
رکھتے۔
ابراہیم علیہ السلام کے اس موحِّدانہ فعل کو اقبال ”بت شکنی، خارا گدازی،
صنم کدہ “وغیرہ کی اصطلاحات میں بیان کرتےہیں۔”بانگِ درا “ کی نظم” سوامی
رام تیرتھ “میں اقبال نے اسی عظیم الشان واقع سے یہ سبق اخذ کیا کہ عشقِ
الہٰی کے سامنے تمام مخلوق ہیچ ہو جاتی ہے۔ یہ عشق بندے پر اسرارِ الہٰی
کھولتا ہے اور آدمی کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر دیتا ہے۔ یہ عشق
آدمی کو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی ذاتِ الہٰی کو ماسوا پر مقدم کرنے
کا حوصلہ دیتا ہے۔
؎ توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستئِ تسنیمِ عشق
اقبال ابراہیم علیہ السلام کی اس بت شکنی کو خارا گدازی سے بھی تعبیر کرتے
ہیں۔
؎ آزر کا پیشہ خارا تراشی
کارِ خلیلاں خارا گدازی
جوابِ شکوہ میں اقبال نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے امت کے زوال کے اسباب
بیان کر کے ازالے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ ان اسباب میں سے بڑا سبب فکری
ارتداد ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ملتِ اسلامیہ میں شامل کرنے کے باوجود عقیدےکی
ایسی خرابیاں جو دائرہ اسلام سے باہر نکال دیتی ہیں۔ اسی بات کو اقبال یوں
کہتے ہیں کہ اب بت نئے ہیں، یہ بت اگرچہ پتھر کے نہیں ہیں لیکن مادہ پرستی،
خواہشات اور دنیوی زینت کے معیار کے بت ہیں۔ ان بتوں پر بھی ابراہیم علیہ
السلام کی طرح تیشہ پھیرنا ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام بت شکن تھے اور والد
بت گر(بت بنانے والا)۔ لیکن اب معاملہ الٹا ہو گیا ہے کہ ابراہیم علیہ
السلام کی اساس پر اٹھائی جانے والی امت میں بت گرپیدا ہو گئے ہیں۔
؎ ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیمؑ پدر اور پسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
ایک اور جگہ اس مضمون کو یوں باندھا ہے:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
اقبال اپنے عہد پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں عالم بھر میں خود ساختہ معبودانِ
باطلہ کی پرستش ہوتی نظر آتی ہے۔یہ معبود مادہ پرستی،رنگ وبو، خواہشات ِ
نفسانیہ کی صورت میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ وہ بے ساختہ کہ اٹھتے
ہیں:
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایسے میں حضرت خلیل علیہ السلام کی صورت میں انہیں لا الٰہ الّا اللہ کی
تشریح مل جاتی ہے۔
؎ صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ ہے لا الٰہ میں ہے
اسی مضمون کو ضرب کلیم کی نظم” لا الٰہ الّا اللہ “میں یوں بیان کیا ہے۔
؎ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس واقع کی طرف اقبال نے ضربِ کلیم
کی ایک نظم "علم اور دین "میں بڑے لطیف پیرائے میں اشارہ کیا ہے ۔اس نظم
میں اقبال نے علوم دینیہ اور علوم عصریہ کے درمیان ایک متوازن رائے قائم کی
ہے ۔اقبال کہتے میں کی اگر دل میں یقین مضبوط ہو اور معرفت کا نور ہو توپھر
علم جدید حاصل کرنےمیں کوئی قباحت نہیں۔جس شخص کو خدا نے اصلی علم یعنی علم
معرفت سے نوازا ہے وہ ہر نئی چیز کے مفید اجزا لے کر فا سد اجزا کو دور کر
دے گا۔اس طرح پر حاصل ہونے والا علم تو رحمت ہے یہ علم اپنے ساتھ پائے جانے
والے تمام مادی بتوں کو پاش پاش کرے گا کیونکہ اسے ہدایت کی روشنی حاصل ہے
۔
اب شعر ملاحظہ فرمائیں:
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
زمانہ ایک ،حیات ایک،کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصہ جدید و قدیم
( ضرب ِکلیم)
آتش ِنمرود - سید نا ابراہیم علیہ السلام آگ میں:۔
سید نا ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کا عظیم الشان واقعہ آگ میں پھینکے جانے
کا ہے ۔جب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قوم کے خود ساختہ بتوں کو توڑا
تو قوم آپ کی مخالف ہوگئی ۔نمرود جو اس وقت کا بادشاہ تھا اور لوگوں سے سجد
ے کرواتا تھا اس کے حکم سے آپ کے لئے آگ کا ایک بڑا الاؤتیار کیا گیا ۔
ابراہیم علیہ السلام کو دور سے اس آگ میں پھینکا گیا ۔اللہ تعالیٰ کی طرف
سے آگ کوحکم آیا۔(كُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيْمَ)
ابراہیم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جا ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ ابراہیم
علیہ السلام کے لئے سلامتی اور ٹھنڈک کا ذریعہ بن گئی، دیکھنے میں وہ شعلہ
برساتی آگ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے خلیل کے لئے اس کی تاثیر کچھ اور تھی
۔یہ ابراہیم علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد ،یقین اور عشق کا
نتیجہ تھا جس نے آگ کو گلستان بنا دیا ۔اب دیکھیے شاعر ِاسلام اقبال اس سے
کیا نتائج اور کیا سبق اخذ کرتے ہیں:
اقبال اس واقع میں عشق کی عقل پر فتح دیکھتے ہیں ۔نیچر اور فلسفے کے جامد
اصولوں کے ماننے والوں کے نزدیک قوانین فطرت بدلتے نہیں۔ لیکن نورِ معرفت
کے حامل علماء و صوفیاء بتاتے ہیں کہ قوانینِ فطرت سب اللہ تعالیٰ کے بنائے
ہوئے ہیں ، جب چاہیں بدل دیں ۔ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے کی توجیہ
عقل سے نہیں عشق سے ہو گی:
بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اقبال اپنے عہد کے باطل افکار ومادہ پرستانہ نظریات کو اسی آگ کی طرح
دیکھتے ہیں جس آگ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ڈالا گیا تھا۔تہذیبِ
مغرب کو قریب سے دیکھنے اور اس کی حدّت کو محسوس کرنے کے بعد اقبال کہ
اٹھتے ہیں:
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
جواب ِشکوہ میں اقبال ملت کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہیں اور رفعتوں کی
راہیں متعین کرتے ہیں ۔اقبال تہذیب ِحاضر کو ایک بجلی قرار دیتے ہیں جو
گزشتہ تمام قدروں اور معیاروں کو جلانے کے در پے ہے ۔اس کا شعلہ ملتِ
اسلامیہ کو بھی اپنی لیپٹ میں لینے پر تُلا ہے ۔عہد ِموجود کی یہ آگ اگر چہ
بڑی سخت ہے لیکن اس کے فتنے سے بچنے کے لئے بھی وہی یقین کا م آئے گا جس
یقین نے اپنی اعلیٰ سطح پر ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کو گلزار کر دیا
تھا ۔ چنانچہ اقبال ایمان ِکا مل اور یقین ِصادق کی اس ضرورت کو یوں بیاں
کرتے ہیں :
عہدِنو برق ہے ،آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملّت ِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز ِگلستاں پیدا (بانگ ِدرا _جوابِ شکوہ )
اقبال عصرِ حاضرکی طوفان سامانیوں، مادہ پرستی اور فتنوں کو آتشِ نمرود سے
تعبیر کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان و
یقین کی ٹھنڈک میں پناہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اقبال مسلمانوں کو اپنی
براہیمی نسبت کی یاد دہانی کراتے ہیں :
آتشِ نمرود ہے اب تک جہاں میں شعلہ ریز
ہو گیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوز ِکہن ؟
(کفر واسلام- بانگ درا )
پھر اقبال اسی نظم میں ایمانِ خلیل کو آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بتاتے ہیں:
ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
(کفر واسلام - بانگ درا )
|