(رخشاں ہاشمی کی شعری کائنات)
اردو غزل کی اساس اس کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری پر قائم ہے۔ اس کے دامن میں
فکر اور جذبات و احساسات کے ایسے گلہائے رنگا رنگ جمع ہیں جن میں ہر دور
اور ہر معاشرے کے مزاج و نفسیات کی خوشبوئیں موجود ہیں۔ شعرائے کرام نے غزل
کو صرف اپنی تسکین طبع کا ذریعہ ہی نہیں بنایا بلکہ کائنات کے دل کی
دھڑکنوں اور موسیقیت کو بھی غزل میں شامل کیا۔ کبھی جوش جنوں کی دھوپ میں،
کبھی ہوش و حواس کی چاندنی میں زندگی کے مختلف پہلوؤں ، کبھی شراب کی مستی
تو کبھی عشق و محبت کی لے میں غزلوں کی ترجمانی ہوتی رہی ہے۔ زندگی کی ان
ہی گل پوش وادیوں، عشق و محبت کی بستیوں اور خارزاروں کی فہرست میں ایک
نمایاں نام رخشاں ہاشمی کا ہے۔
رخشاں ہاشمی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ریاض الرحمن ہاشمی (مرحوم ) کی
صاحبزادی مونگیر کے گورنمنٹ اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی
ہیں۔ان کی تخلیقات ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
رخشاں ہاشمی کا مجموعۂ کلام ’’عشق دوبارہ ہوسکتا ہے‘‘ میرے مطالعے میں رہا
ہے۔ کتاب کے دائیں فلیپ پر حمید گوہر (اجین) لکھتے ہیں کہ رخشاں ہاشمی کا
ادبی سفر ایک ڈیڑھ دہائی پر محیط ہے۔ انہوں نے جس سلیقہ مندی کے ساتھ اپنا
شعری ویزن تراشا ہے وہ لائق ستائش ہے۔ بیک کور پر ہندوستان کے معروف شاعر
اقبال اشہر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ عشق دوبارہ
ہوسکتا ہے تقلید و تبلیغ عشق میں رچی بسی شاعرہ رخشاں ہاشی کا پہلا مجموعہ
کلام ہے۔ خدا کرنے ان شعری خمیر میں چھپا ہوا ماہ پارہ اسی طرح اوراق
اجالتا رہے۔
’’عشق دوبارہ ہوسکتا ہے‘‘کے تعلق سے رخشاں ہاشمی اپنے پیش لفظ میں لکھتی
ہیں:
’’عشق دوبارہ ہوسکتا ہے‘‘ یہ ایک کتاب نہیں ایک خوا ب ہے جس کی تعبیر آج آپ
سب کے ہاتھوں میں ہے ، قلق اس بات کا ہے کہ یہ کتاب میرے والد جناب ریاض
الرحمن ہاشمی صاحب کی زندگی میں نہ آسکی۔ ‘‘
’’رخشاں ہاشمی ادب کا درخشاں ستارہ‘‘ کے عنوان سے ابراہیم اشک لکھتے ہیں کہ
رخشاں ہاشمی نئی نسل کی ایک ایسی ہی شاعرہ ہے جس نے غزل کو سلیقے سے برتنے
کا ہنر بخوبی سیکھ لیا ہے اور درد کے گوہر آبدار اور اق ادب پر بکھیرنے میں
پوری طرح مگن ہے۔ غزل کی وسعت و عظمت کے لئے معمولی رنج و غم سے بات نہیں
بنتی ہے اس کے لئے تو درد کا سمندر درکار ہوتا ہے۔
’’غزل کی تارہ کار شاعرہ رخشاں ہاشمی‘‘ کے عنوان سے ظفر صہبانی (بھوپال)
لکھتے ہیں کہ رخشاں ہاشمی کی غزلوں میں نئے پن کی ہمک ہے اور جگہ جگہ ان کا
اپنا پن بھی نمایاں ہوتا نظر آتا ہے ، کسی اور کے بجائے ان کی اپنی
پرچھائیاں ہی ان کی غزلوں کی خوبصورتی کو بڑھاتی نظر آتی ہیں، غزل کے لئے
جو مہارت درکار ہے وہ اس کے بہت قریب سے گزر رہی ہیں۔
سلیم انصاری (جبل پور) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی تخلیقات اکثر معتبر
رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ موصوف نے ’’رخشاں ہاشمی نئے موسموں
کی شاعرہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :
’’رخشاں ہاشمی کی غزل کو پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ ان کے یہاں
زندگی سے بے اطمینانی، ناآسودگی یا شکایت کا لہجہ نہیں بلکہ وہ تمام تر
نامساعد حالات کے باوجود خود پر بھروسہ کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ان کے
یہاں مختصر بحروں میں غزل کہنے کی صلاحیت موجود ہے ، ان کی غزل کے اشعار
میں برجستگی اور بے باکی ان کی شعری سوچ کے نئے موسموں کا پتہ دیتی ہے۔‘‘
(ص:15)
اپنے شعری مجموعہ کا آغاز رخشاں ہاشمی نے ایک نعت پاک سے کیا ہے۔ان کی
نعتیہ شاعری کے اشعار متاثر کرنے والے ہیں۔یہ اشعار قاری کو گنگنانے پر
مجبور کریں گے۔ اس نعت پاک کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:
دیکھو آقا کی گلی اور وہ روضہ دیکھو
اپنی آنکھوں کو سکوں بخش دو کعبہ دیکھو
سارے عالم کے لئے آئے جو رحمت بن کر
ان کا ثانی ہے کوئی اور نہ سایہ دیکھو
رخشاں ہاشمی کے شعری نظام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ان کے یہاں غزلیہ آہنگ
میں کلاسیکی شاعری کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کا اظہاریہ اور
تخلیقی برتاؤ موجود ہے۔ ان کا لب و لہجہ معصومانہ ، سادہ اور شگفتہ ہے۔
آسان او ر عام فہم انداز میں اپنے احساسات و جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالنے
کا ہنر وہ خوب جانتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جس طرح پھول بھی کانٹوں کی طرح ہوتا ہے
اپنا بھی ایسے ہی غیروں کی طرح ہوتا ہے
آندھیاں شک کی جسے پل میں بجھا دیتی ہیں
دل کا رشتہ بھی چراغوں کی طرح ہوتا ہے
٭٭
ہے وہی منظرِ خوں رنگ جہاں تک دیکھوں
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
دل کی دہلیز سے ہی لوٹ گیا وہ رخشاںؔ
چاہتی تھی میں جسے ، جسم سے جاں تک دیکھوں
رخشاں ہاشمی کے یہاں عشق اور محبت کی ایسی فضا آباد ہے جس کے بغیر جینے کا
تصور ممکن نہیں۔ تبھی تو وہ کہتی ہیں:
وہ جو بچھڑا ہے تو لقمہ نہیں توڑا ہم نے
یوں بڑھایا ہے سدا عشق کا درجہ ہم نے
چاند تاروں کی بڑی بھیڑ تھی اس محفل میں
ماسوا تیرے کسی کو نہیں دیکھا ہم نے
سب حسن کو معصوم سمجھتے ہیں جہاں میں
اور عشق کے ماتھے پہ ہیں بہتان ہزاروں
کچھ بات تو اس شوخ میں ایسی ہے یقینا
پھرتے ہیں ہتھیلی پہ لئے جان ہزاروں
رخشاں ہاشمی نے اپنی شاعری کو صرف قافیہ پیمائی تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ
معنیاتی اعتبار سے بھی اپنی ایک منفردشعری دنیا تخلیق کی ہے جو انہیں اپنے
ہم عصرو ں میں منفرد مقا م عطا کرتی ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری کے اشعار واقعی
ان کی شاعری کی مقبولیت کے ضامن ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں جو مجھے بے حد
متاثر کرتے ہیں:
اس سے پہلے کہ موت آجائے
کس لئے ہے یہ زندگی کچھ سوچ
ظلمتوں میں ہی روشنی ہے کہیں
گم کہاں ہے وہ روشنی کچھ سوچ
٭٭
میری آنکھوں میں بلاؤں کا اثر لگتا ہے
نیند کہتی ہے مجھے خواب سے ڈر لگتا ہے
٭٭
شب فراق میں تارے کہاں نکلتے ہیں
ہمارے اشک ہیں جو روشنی میں ڈھلتے ہیں
پلٹ کے چلتے ہیں اسلاف ہی کے رستوں پر
چلو کہ وقت کی تقدیر پھر بدلتے ہیں
شاعرہ اپنی کچھ غزلوں کے ذریعہ نئی نسل کو پیغام بھی دیتی ہیں ۔ وہ کہتی
ہیں کہ زندگی کے راستے بڑے ہی خطرناک ہیں لہٰذا سنبھل سنبھل کر چلنا بہت
ضروری ہے۔ عصر حاضر کی سیاست پر طنز کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ جس طرح شہروں کے
نام بدلے جارہے ہیں ، کہیں تمہارے نشاں بھی نہ بدل دیئے جائیں۔ اسے شاعرہ
نے نہایت سادہ اور سلیس زبان میں قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ہے :
سنبھل سنبھل کے ہر اک گام ہم کو چلنے کا
کہ راستوں میں ہے خطرہ بہت پھسلنے کا
وہ جس طرح کئی شہروں کے نام بدلے ہیں
اسی طرح ہے تمہارا نشاں بدلنے کا
ایک معروف شاعر نے کہا ہے :’’ محبت کی راہوں میں چلنا سنبھل کے٭یہاں جو بھی
آیا گیا ہاتھ مل کے‘‘۔ اسی طرح رخشاں ہاشمی کہتی ہیں کہ اگر تجھ سے بچھڑ
گئی تو مٹ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ محبت کی وادیوں میں اتنی دوری طے
کرلی ہے کہ مجھے خو د پتہ نہیں ہے اب اگلا ارادہ کیا ہے۔ اپنے ان خیالات کو
شعری پیکر میں ڈھالتے ہوئے وہ کہتی ہیں:
تجھ سے بچھڑوں گی تو مرجاؤں گی مٹ جاؤں گی
کیا پتہ تونے مرے عشق کو سمجھا کیا ہے
ہم محبت سے بہت دور نکل آئے ہیں
خود نہیں جانتے اب اپنا ارادہ کیا ہے
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہر حساس آدمی کی طرح فنکار، تخلیق کار
بھی انسانی اقدار کے زوال کا نوحہ خواں ہوتا ہے، اس لئے زمانے کے نشیب و
فراز پر اس کی گہری نگاہ ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ وقت کی رفتار یا منفی صورت
واقعہ کا گواہ ہوتے ہوئے انہیں اپنی خواہش کے مطابق روکنے یا موڑنے پر قادر
نہیں ہوتا لیکن ان سے پیدا شدہ تجزیاتی یا باطنی کرب کے تئیں تخلیقی رد عمل
کی جسارت سے باز بھی نہیں آتا۔ اس نقطۂ نظر سے بھی شاعری مطالعے کا تقاضا
کرتی ہے۔
یوں تورخشاں ہاشمی کی شاعری میں زمان و مکان کے مختلف رنگ و آہنگ کی بازگشت
سنائی دیتی ہے جس میں ان کے تجربات و احساسات کا تازہ وتوانا لہو شامل ہے۔
لیکن یہ معمہ عشق کے روح، خوابوں کی بے سرو سامانی ان کے شعری وظائف کے چار
معاصر اور مستزاد سہل ممتنع کی بیکرانی کو پانچواں عنصر قرار دیا جاسکتا
ہے۔رخشاں ہاشمی کے چند اور غزلیہ اشعار ملاحظہ کریں اور محظوظ ہوں:
اجڑی آنکھوں میں کوئی خواب سجایا جائے
دل کی بستی کو چلو پھر سے بسایا جائے
٭٭
دنیا میں سبھی لوگ سکندر نہیں ہوتے
ہر سیپ کی تقدیر میں گوہر نہیں ہوتے
تدبیر سے، محنت سے ، پلٹ جاتے ہیں پانسے
ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر نہیں ہوتے
اس طرح رخشاں ہاشمی کی شاعری دلی جذبات و احساسات کی شاعری ہے۔ امید ہے ان
کے شعری مجموعہ ’’عشق دوبارہ ہوسکتا ہے‘‘ کی کافی پذیرائی ہوگی۔
٭٭٭ |