انسان کی یہ فطرت ہے کہ جو چیز اس کے پاس ہوتی ہے وہ اس
کی قدر نہیں کرتا اور جیسے ہی وہ چیز اس سے دور چلی جاتی ہے وہ اس کو یاد
کر کے آنسو بہاتا ہے۔
ویسے اگر آپ طالب علم ہے اور خوشی قسمتی سےآپ کو یونیورسٹی میں تعلیم
حاصل کرنے کا موقع ملا ہے اور اگر وہ ہو بھی جامعہ پنجاب تو کیا ہی بات
ہے۔یونیورسٹی لائف تک پہنچنا ہر نوجوان کی دلی خواہش ہوتی ہے ،یہ ایک سحر
کی طرح ہوتی ہے جو ہم پر طاری ہو کر ہمیں حقیقت سے بے خبر کر دیتی ہے۔
میں بھی پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ کمیونیکیشنآف کی طالب علم رہی ہوں
اور آج میں آپ سے اپنی یونیورسٹی لائف کی کہانی اس انداز میں پیش کروں گی
کہ یہ آپ کو اپنی کہانی ہی معلوم ہوگی۔وہ مثل تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ
جنے لوہور نہیں ویکھایا او جمیا ہی نہیں ۔بالکل اسی طرح اگر آپ پنجاب
یونیورسٹی میں زیر تعلیم نہیں رہے تو ساری زندگی آپ کی زندگی میں ایک خلل
ضرور رہے گا۔
چلیں آئیں ایک بار پھر یونیورسٹی کی زندگی میں واپس چلتے ہیں اور ان بیتے
لمحوں کو یاد کرکے آنکھوں میں آنسو لے کر مسکراتے ہیں۔
ڈیپاٹمنٹ کے کوریڈور میں فرش پر چوکڑی مار کر بے تکلفی سے بیٹھ جانا، کنٹین
پر ساتھیوں کے ساتھ موسم کی ہر رت کا مزہ لینا ،ٹیچرز کو دلائل کے ذریعے
ایمپریس کرکے سارا دن فخر سے گھومنا اور اپنے ساتھیوں کے سامنے خودکو آئن
سٹائن ظاہر کرنااور خود کو ڈیپارٹمنٹ کے ہیرو ،ہیروئن سمجھ کر گھومنا یہ سب
تو ہمارے نزدیک عام باتیں ہوتی تھیں۔
یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت میرے دل میں ایک عجیب سا ڈر تھا ۔۔۔اور یہ
صرف میرے ہی نہیں بلکہ سب طالب علموں کے دل میں ہوتا ہوگاکہ نئی جگہ ہے نئے
لوگ ۔۔ہم یہاں کیسے رہ پائیں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہم اس ماحول اور
لوگوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ یونیورسٹی کو اپنا دوسرا گھر کہتے
ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچتے ہیں۔
لیکن یونیورسٹی لائف کے دوران ہمارے ذہن میں یہ باتیں کبھی نہیں ا ٓتی ہے
کہ یہ بےتکلفیاں ،خوش گپیاں اور شرارتیں اور یونیورسٹی کے درودیوار میں
گونجتے یہ قہقے سب ایک دن خواب بن کر یادوں کے صحرا میں دفن ہو جائیں گےاور
پاس آؤٹ ہونے کے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کو کراس کر کے جب پیچھے مڑ کر
دیکھیں گے تو اپنا آپ اور باقی دوست وہیں ہنستے،مسکراتے اور گھومتے
نظرآئیں گے اور پھر صرف آہیں اور سسکیاں ہونگی اور آپ بوجھل دل سے گھر
لوٹ آئیں گے۔
مجھے آج بھی اپنے ماسٹرز کا آخری دن یاد ہے جب لگ رہا تھا کہ دو سال اتنی
جلدی گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا اور یونیورسٹی کے مین گیٹ سے نکلتے ہوئےمیرے
ذہن میں ایک ہی شعر آرہا تھا
چلو اب گھر چلیں محسنبہت آوارگی کرلی
وہ سب مکتب کے ساتھی تھےانہیں آخر بچھڑنا تھا...
یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد کی کہانی کا آغاز کرتے ہیں ۔
اگلا دن بہت الگ اور مختلف ہوگا کیونکہ اپنی شناخت اور کیرئیر بنانے کی
جدوجہد کا آغا ز ہوگا ۔عملی زندگی آپ کے چہرے سے وہ و معصومیت اور لالی
چھین لے گی اورآپ کا چہرہ ویسا نہیں رہے گا جیسے یونیورسٹی میں ہوا کرتا
تھا اور اب آپ کے چہرے پر محض گھر بار کے تفکر کے ڈیرے ہونگے۔
کسی کے پاس ملنے بلکہ بات کرنے بھی وقت نہیں ہوگا ،آپ کے بعض دوست کی
شادیاں ہو جائے گی جبکہ باقی بھی اپنی زندگی میں مصروف ہو جائیں گے ۔وہ جن
سے دو ملے بغیر دل نہیں لگتا تھا ان سے بات کیے ہوئے مہینے گزر جائیں گے ۔
اور پھر عرصہ دراز کے بعد آپ جب کسی کام یونیورسٹی جائیں گے تو بے چینی سے
ادھر ادھر خود کو دیوانہ وار تلاش کریں گے اور یونیورسٹی کے حسین راستوں پر
تنہا کھڑے ہو کر گم شدہ لمحوں میں بے قراری سے اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیں
گے مگر وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے ،پھر آخری کوشش کرنے کے لیے آپ کنٹین کا
رخ کریں گے کہ شاید وہاں آپ کو کچھ مل جائے مگر وہاں آپ اور آ پ کے
ساتھی نہ ہونگے ،ہاں مگر وہاں بیٹھے سٹوڈنٹ میں آپ کو اپنا اور اپنے
دوستوں کا کردار نظر آئے گا اور آپ نم آنکھوں سے مسکرا دیں گے۔
پھر تمھارے فیورٹ پروفیسر تمھیں چہرے پر موجود زندگی کی تلخیوں کو دیکھ کر
یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یار تم کتنے بدل گئے ہو اور میچور ہو گئے
ہو پھر تمھاری باتیں سننے کے بعد وہ بے ساختہ یہ کہہ اٹھیں گے کہ وقت نے تو
تمھاری شکل کے ساتھ ساتھ تمھاری سوچ کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
پھر اس کے بعد ڈیپارٹمنٹ سے باہر آؤں گے تو تمھارے سامنے تم اور تمھارے
دوست کی کھانے پر لڑائی ،کبھی پروجیکٹ پر بحث تو کبھی پیپر میں نمبر زیادہ
آنے پرٹریٹ کی ڈیمانڈ جیسے واقعات ایک دم سے تمھاری نظروں سے گزر جائیں
گےاور تم گراؤنڈ کے بنچ پر بیٹھے ان یادوں کو تازہ کروں گے۔
اور پھر جیسے ہی تم یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچو گے تو ایک بار مڑکر پیچھے
ضرور دیکھو گے لیکن وہاں تمھیں خدا حافظ کہنے والے دوست نہیں ہونگے۔
یہ کہانی کسی ایک نوجوان کی نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی کے آنگن میں نہ جانے
کتنی ہی ایسی کہانیاں دفن سسکیاں لے رہی ہے جن میں سے کچھ ادھوری ہے اور
کچھ مکمل۔
|