ڈاکٹر غلام شبیر رانا
زبانیں صدیوں کاسفر طے کرنے کے بعداظہار وابلا غ کے نئے آفاق تک رسائی حاصل
کرتی ہیں۔ جدیددور میں عمرانیات ،علم بشریات ،نفسیات اورلسانیات کے شعبوں
میں جن ادیبوں ،نقادوں ،محققین اور تخلیق کاروں نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے
اورتزکیۂ نفس کی خاطر لکھی گئی تخلیقی تحریروں سے یدبیضاکا معجزہ دکھایاہے
اُن میں پروفیسر محمداویس جعفری کاخاندان بھی شامل ہے ۔اس علمی و ادبی
خاندان نے اپنی انفرادیت کا ثبوت دیتے ہوئے پامال راہوں پر چلنے کے بجائے
افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر نئی منازل تک ر سائی کی سعی کی ۔ فکر و خیال
کی روشنی کے متعلق یہ بات تو واضح ہے کہ اس کا آنکھ کے نُور اور دِلِ
بیناسے گہرا تعلق ہے بندآ نکھوں پر نمودِ سحر کاکوئی امکان نہیں ہو
تا۔پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان سے تعلق رکھنے و الے قلم کاروں نے
زندگی کی اقدار ِعالیہ کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ حریتِ فکر کاعلم بلند رکھا
ہے۔اس خاندان کی جن ممتاز شخصیات نے اپنے قلبی و روحانی جذبات و احساسات کی
ترسیل کو زیبِ قرطاس کیا اُن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
پروفیسر محمد اویس جعفری، پروفیسر محمد اویس جعفر ی کی خالہ زادبہن انور
جہاں برنی ( مرحومہ ) ،ظہیر برنی ، ظہیر برنی کی اہلیہ سیما برنی ( مرحومہ
)
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ممتاز شخصیات کی تخلیقی کامرانیوں
کاجائزہ لیتے وقت اُن کے اسلوب کو پیشِ نظررکھنا ضروری ہے ۔ اصنافِ ادب کی
زبان اور ہئیت کا مطالعہ اسلوب کاامتیازی وصف سمجھا جاتاہے ۔ یہاں یہ سوال
بہت اہم ہے کہ اسلوب سے بالعموم کیا مراد لیا جاتاہے ؟
پہنچا جس وقت سے مکتوب
زندگی کا بندھا کچھ اسلوب
ارد و میں مستعمل لفظ ’’ اسلوب ‘‘ انگریزی زبان کے لفظ ’’STYLE‘‘کے مترادف
ہے ۔اس کے لفظی معنی طرز،روش، انداز بیاں ، طرزِ ادا،طریقہ، طریقِ
ادا،طور،صورت،راہ اور پیرایہ ٔ گفتارکے ہیں۔یہ کسی ادبی تخلیق کار کاخاص
پیرایۂ اظہار ہے جس میں وہ اپنے فکر و خیال کی لفظی مرقع نگاری اس موثر
انداز میں کرتاہے کہ بیان کی شدت قاری کے دِل کو مسخر کر لیتی ہے ۔گل دستۂ
معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنا اورایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا
اسلوب کا معجز نما کرشمہ ہے ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ایک تخلیق کار جب
پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تووہ روح اور قلب کی گہرائیوں سے
اس کو نمو بخشتا ہے۔تخلیقِ ادب کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے
کہ ادب پارے اس وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب تخلیق کار اپنے دل پہ گزرنے
والی ہر کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالے۔ایک نیا ادب پارہ جب منصہ شہود
پر آتا ہے تو اس کا برا ہِ راست تعلق ایام گزشتہ کی تخلیقات سے استوار ہو
جاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ لمحہ ٔ موجود کی
تخلیقات ایک درخشاں روایت کی صورت میں منسلک رہتی ہیں۔ایک مثالی نظام ہمہ
وقت روبہ عمل لایا جاتا رہا ہے جس کی بدولت تخلیق کار کی منفرد سوچ سے
آگاہی ہوتی ہے ۔تخلیقی اظہار کے متعدد امکانات ہو ا کرتے ہیں۔ایک زیرک
،فعال اور مستعد تخلیق کاراپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان
میں سے کسی ایک کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے منتخب کرتا ہے یہی
اس تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے ۔ ممتاز پاکستانی شاعر شاعرسیف الدین
سیفؔ ( B:20 July 1922 – D:12 July 1993) نے کہا تھا :
سیفؔ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
پروفیسر محمد اویس جعفری کے اسلوب کا جائزہ لیتے وقت سب سے پہلے اُن کی
ترجمہ نگاری اور عالمی کلاسیک سے اخذ و استفادہ کا کرشمہ دامن ِ دِ ل
کھینچتاہے ۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ جب خون بن کے رگِ سنگ میں اُترنے کی
سعی کرتے ہیں تو وہ لسانی توضیحات کے تمام تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے
ہیں۔مثال کے طور پر قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہیں تو مضامین عالم غیب سے
اُن کے ذہن میں آتے ہیں اور نوائے سروشصریرِ خامہ کی صورت میں سنگلاخ
چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔
سورہ ٔ فاتحہ کا اردو ترجمہ
اُسی کی حمدہے جو ہے مربی سب جہانوں کا
جزا کے دِن کا مالک ہے ،رحیم و مہرباں وہ ہے
عبادت اُس کی کرتے ہیں اور مدد کے اُس سے طالب ہیں
خدائے پاک سیدھاراستہ ہم کو دِکھا دیجے
وہ سیدھا راستہ ،لوگوں پہ جو انعام فرمایا
نہ اُن لوگوں کا جِن کولائقِ تعزیر ٹھہرایا
نہ اُن لوگوں کا جو گُم ہو گئے راہ ِہدایت سے
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد17،شمارہ3 ، جولائی ۔ستمبر2014 صفحہ208
دو تحریر ی زبانوں میں ترجمے کا عمل سنجیدہ فعالیت ،گہری معنویت اور لسانی
اہمیت کاحامل سمجھا جاتا ہے۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجمہ ایک ماخذی زبان
کے تحریری متن کو دوسری ترجمہ والی زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی
کاوش ہے ۔جہاں تک ماخذی زبان سے ترجمہ قبول کرنے والی زبان کواسالیب اور
مفاہیم کی ترسیل کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ترجمہ اپنے مآخذ کے قریب
تر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی اپنے مآخذ کے ساتھ من و عن مطابقت بعید ازقیاس
ہے ۔ تاریخ کے ہر دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں میں ادیبوں کی تخلیقی
فعالیت نے خُوب رنگ جمایا ہے ۔اس خطے کے ادیبوں نے ستاروں پہ کمندڈالنے ،
خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے اور قلب و رو ح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر
کر اپنی اثر آفرینی کالوہا منوانے والی تخلیقات پیش کر کے لوح ِجہاں پر
اپنا دوام ثبت کردیا۔ابد آشنا تاثیر کی حامل اِن طبع زاد تخلیقات نے سنگلاخ
چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں،بے حِس پہاڑوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور
مجسموں کو بھی موم کر دیا اور اپنی مسحور کُن تخلیقی فعالیت سے جہانِ تازہ
کی نوید سنائی۔اس کے باوجوداس مردم خیز دھرتی کے زیرک تخلیق کار عالمی
کلاسیک سے بے نیاز نہ رہ سکے اوراخذ ،استفادے اور تراجم کا ایک لائق صد رشک
و تحسین سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ۔تراجم کو تخلیقی آہنگ سے مزین کرنے میں
ان مترجمین کے کمالِ فن کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخِ ادب کے حقائق کی تمسیخ
اورصداقتوں کی تکذیب ہو گی بل کہ یہ ایک ایسی غلطی ہو گی کہ جسے نا شکری
اور احسان فراموشی پر محمو ل کیا جائے گا۔ ادبی سطح پر عالمی کساد بازاری
اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں چربہ ساز ،سارق،کفن دُزد اور حیلہ
جُوعناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے گلشنِ ادب کی حسین رُتوں کو بے ثمر کرنے
میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ تخلیقِ ادب جو دیدۂ بینا کا معجزہ تھا قحط
الرجال کے موجودہ زمانے میں اسے کاتا اور لے دوڑا قماش کے مسخروں، اجلاف و
ارذال اور سفہا نے بچوں کا کھیل بنا دیا ہے ۔ سراپابے بصری اور کور مغزی کا
نمونہ بنے یہ ا بلہ اپنی جسارتِ سارقانہ ، دُزدیٔ عاجلانہ اور سرقہ کو
نہایت ڈھٹائی سے نوائے سروش کا رتبہ دینے اورقارئین ِادب کی آنکھوں میں
دُھول جھونکنے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔عالمی کلاسیک کے براہِ راست تراجم
ذہین مترجمین کی فکری بالیدگی،عظمتِ کردار،عزتِ نفس، اعلاذہن و ذکاوت اور
ذوقِ سلیم کے مظہر ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزدعناصر
کی جسارت سارقانہ ان ننگِ انسانیت کرگس زادوں کے ذہنی افلاس،نمود و نمائش
کی ہوس،علمی تہی دامنی،فکری بے بضاعتی اورجہالت کو سامنے لاتی ہے۔یہ حقیقت
اظہر من الشمس ہے کہ عالمی کلاسیک کا کسی دوسری زبان میں براہِ راست ترجمہ
کرنا چربہ سازی اور سرقہ سے بدر جہا بہتر ہے۔ پروفیسر محمداویس جعفری نے
ایک فطین مترجم اور عبقری دانش ور کی حیثیت سے دو ثقافتوں کے مابین ایک غیر
جانب دار ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اُن کی علمی فضیلت،دونوں
زبانوں کے ادب پر خلاقانہ دسترس، دیانت اور ثقاہت کی بنا پر دونوں ثقافتوں
کو اُن سے انصاف کی جو توقع ہوتی ہے وہ پُوری ہوجاتی ہے ۔ وہ محض ایک زبان
کے الفاظ کے متبادل دوسری زبان کے الفاظ کا انتخاب کر کے مفاہیم اور مطالب
کو پیش نہیں کرتے بل کہ وہ اپنی بصیرت اورذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے
ہوئے فکر و خیال کے ارتقا ،زبان کی ثروت مندی اور عصری آگہی کے بارے میں
تفہیم کے نت نئے امکانات سامنے لانے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔وہ مشرقی
تہذیب و ثقافت کی ترقی اور اسے عالمی معیار عطا کرنے کی خاطر ہر قسم کی
علاقائی ،لسانی اور مقامی حدود سے آگے نکل کر سوچتے ہیں اورنئے زمانے ،نئی
صبح و شام کی جستجو اُن کا مطمح نظر ٹھہرتاہے۔
ترجمہ کو محض ایک بین اللسانی عمل سے تعبیر کر نا درست انداز فکر نہیں بل
کہ ترجمہ نگاری اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انتہائی پیچیدہ اور معنی آفریں
فعالیت ہے ۔ تراجم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سال 1953 ء سے ہر سال تیس
ستمبر کو ترجمہ کا عالمی دن منانے کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔اس کے ہمہ گیر
تعلیمی ،تخلیقی،نفسیاتی،تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دینا از بس ضروری
ہے ۔کسی زبان سے ترجمہ کرتے وقت مترجم کی حیثیت ایک دو لسانی منصف اور
دیانت دار ثالث کی ہوتی ہے جسے دونوں زبانوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کر نا
ہوتاہے۔تراجم کی لسانی ،ادبی اور تاریخی اہمیت کا ادبی تاریخ کے ہر دور میں
اعتراف کیا گیا ہے۔
رحمت ِ عالم ، حضور ختم المرسلین ﷺ کی تعریف میں لکھی گئی شاعری کو نعت
کہتے ہیں۔ تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قلی قطب شاہ،ولیؔ
دکنی،میرتقی میرؔ ، مرزامحمد رفیع سوداؔ،اسداﷲ خان غالبؔ،مومن خان مومنؔ
اور کرامت علی شہیدی نے نعت گوئی پر توجہ دی۔تاہم اُنیسویں صدی کے پہلے
پانچ عشروں میں اردو نعت گوئی کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔اس
ابتدائی عرصے میں جن نعت گو شعرانے گلشن ِ نعت میں عقیدت کے پھول کھلائے
اُن میں مولاناکفایت علی کافی ،مولانا غلام امام شہید،حافظ لطف بریلوی کے
نام قابِل ِ ذکر ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردوزبان کے اکثرشعرانے نعت گو
ئی پر توجہ دی ۔ اس کے بعد اُنیسویں صدی کے آخری عشرے میں مولانا سیّد
محمدمحسن کاکوروی(1825-1905) اورامیر مینائی (1829-1900) نے نعت گوئی میں
کمال حاصل کیا۔ محسن کاکوروی کا اعزاز و امتیاز یہ ہے کہ وہ اُردو زبان کے
پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتیں صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر
دیں۔اس کے بعد حالیؔ،شبلی نعمانی،مولانا ظفر علی خان ، علامہ اقبال اور
مولانااحمدرضاخان بریلوی کی نعت گوئی کی دُھوم مچ گئی ۔ پروفیسر محمداویس
جعفری کی نعتیہ شاعری پڑھتے وقت یہ احسا س ہوا کہ انھوں لکھنؤ سے تعلق
رکھنے والے ممتاز نعت گو شاعر مولانا سیّد محمدمحسن کاکوروی کے اسلوب کہ بہ
نظر تحسین دیکھا۔ قدرت کاملہ کی طرف سے محسن کاکوروی کو زبان وبیان کی جو
صلاحیت ودیعت کی گئی تھی اُسے انھوں نے نعت گوئی کے لیے استعمال کیااور
بلندمقام پایا۔محسن کاکوروی کا نعتیہ قصیدہ لامیہ بہت مشہور ہوا۔ یہ قصیدہ
بر صغیر کی مختلف جامعات کے نصاب میں شامل ہے ۔
سمت ِ کاشی سے چلا جانبِ مَتھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جَل
صفِ محشرمیں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
پروفیسر محمداویس جعفری نے دمشق میں رہنے والے سرزمین عرب کے ممتاز مسلمان
خطیب اور نعت گو سحبان ابن وائل کی نعتیہ شاعری کوہمیشہ قدرکی نگاہ سے
دیکھا ۔ سحبان ابن وائل کے اسلوب میں ندرت ،تنوع اورزور ِبیان سے اُس کے
معاصرین اور سامعین مسحور ہو جاتے تھے۔ اِس یگانہ ٔ روزگار فاضل کو زبان و
بیان پر جو خلاقانہ دسترس حاصل تھی پوری عرب دنیا اُس کی معتر ف تھی۔ الفاظ
اور موضوعات کی جدت اور تنوع اس با کمال خطیب کے اندازبیان کاامتیازی وصف
سمجھاجاتاتھا ۔ سحبان ابن وائل نے اپنے پانچ سو کے قریب خطبات میں کہیں بھی
موضوع یاالفاظ کو دہرایا نہیں۔سحبان ابن وائل کی پیدائش آفتاب ِ رسالت کے
طلوع ہونے سے پہلے ہوئی ۔انھوں نے اسلام قبول کیامگر اُنھیں محسنِ انسانیت
حضور ختم المرسلین ﷺ کی بارگاہ میں حاضری اور زیارت کا موقع نہ ملا۔ اپنے
اس قصیدے میں محسن کاکوروی نے کلکتہ ( بھارت )کے جن مقامات کا ذکر کیاہے
نوآبادیاتی دور میں وہ سب مقامات میرے والد سلطان محموداور بڑے بھائی شیر
محمدنے دیکھے تھے۔انھوں نے سجادحسین اور مظہر عباس کو بتایا کہ گیارہویں
صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے جس شہرکو کاشی کہا گیا ہے وہ
اب ورانسی یا بنارس کہلاتاہے۔قدیم شہر متھرابھی بھارتی ریاست اُتر پردیش
کااہم تجارتی مرکز ہے ۔ہمالیہ سے بہہ کر آنے والا دریائے گنگا بھارت کے ایک
چوتھائی حصے کو سیراب کرنے کے بعدخلیج بنگال میں گرتا ہے ۔ گنگا کے بعد
جمنا بھارت کادوسرا بڑا دریا ہے ۔مہابن بھارت کا ایک قصبہ ہے جو متھرا ضلع
میں واقع ہے ۔ بھارت میں دریاکے کنارے وہ جگہ جہاں ہندو مذہب کے لوگ تپسیا
کرتے ہیں اُس جگہ کو تیرتھ کہتے ہیں۔نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے اہم
مقامات کا ادب میں حوالہ ہر عہد میں اَدب کے قارئین کے لیے معلومات کامخزن
ثابت ہوسکتاہے ۔
پروفیسرمحمداویس جعفری نے اپنے اسلوب میں اخذ و استفادہ اور تراجم پر بھی
توجہ دی ہے ۔یہ تاثراتی مضمون لکھتے وقت اپنے تحقیقی مسودات و مخطوطات کی
تلاش شروع کی تو کافی وقت لگا ۔ مولانا الطاف حسین حالی ؔ کی مشہورنظم’’ مد
و جزر اسلام ‘‘ پر تحقیقی کام بہت اہم ہے ۔ا ٹھارہویں صدی میں اردو شاعری
میں شہر آشوب کی روایت کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی ؔ
نے مسدس کی ہئیت میں نظم’’ مد و جزر اسلام ‘‘ لکھی ۔یہ نظم سب سے پہلے علی
گڑھ تحریک کے ترجمان ادبی مجلہ تہذیب الاخلاق میں سال 1879ء میں شائع ہوئی
۔ موضوع اور مواد کے اعتبار سے قارئین کی روح اور قلب کی گہرائی میں اُتر
جانے والی اس نظم کی مقبولیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جلد ہی اِسے کتابی صور
ت میں شائع کیا گیا۔ وہ قوم جس کے آبا نے قیصر و کسریٰ جیسے جابر شہنشاہوں
کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی ، دارا کے تاج کو اپنے پیروں کے نیچے
کُچل ڈالا اور بحر ظلمات میں گھوڑے د وڑا دئیے بر صغیر میں نو آبادیاتی دور
میں اپنی بے عملی اور بے حسی کے نتیجے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا
تھی ۔ علی گڑھ تحریک کے ترجمان علمی و ادبی مجلہ ’’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ
‘‘میں سال 1878ء میں جنوری کے شمارے میں شائع ہونے والے سر سید احمد خان نے
اپنے ایک اہم مضمون میں مولانا الطاف حسین حالی ؔ کی معرکہ آرانظم ’’ مسدس
مد و جزر اسلام ‘‘کے بارے میں کئی چشم کشاصداقتوں اور وسیع تر ادبی اور تا
ریخی تناظر کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے ۔اپنے اِس تحقیقی مضمون
میں سر سید احمد خان نے اِس امر کی صراحت کی ہے کہ مولانا الطاف حسین حالیؔ
ؔکی ابد آشنا تصنیف ’’ مسدس مد و جزر اِسلام ‘‘ میں جنوبی لائبیریا کے شہر
روندا سے تعلق رکھنے والے اپنے عہد کے مشہور فلسفی اور عربی زبان کے ممتاز
شاعر ابولبقا الروندی ( 1204-1285)کے افکار کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور
یہ اخذ و استفادہ کی ایک مفید صورت دکھائی دیتی ہے ۔ عربی زبان کے ممتاز
شاعر ابولبقا الروندی نے اپنے قصیدہ نونیا ( جس کاہر مصرع ’’ ن ‘‘ پر ختم
ہو ) ’’ رثا ء الاندلس‘‘ ( تخلیق : 1267ء ) میں اندلس کی تباہی پر اپنے
گہرے رنج اور کرب کا اظہار کیا تھا۔ عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا
الروندی کی نظم کا انگریزی ترجمہ ’’ Lament for the fall of Seville ‘‘ کے
عنوان سے ہو چکاہے ۔اس موضوع پر حوالہ درج ذیل ہے :
EVE TIGNOL A Note on the Origins of Hali's Musaddas-e Madd-o Jazr-e
Islam. Journal of the
Royal Asiatic Society, Available on CJO 2016
doi:10.1017/S1356186316000080
جنوبی لائبیریا کے شہر روندا( Ronda) سے تعلق رکھنے والے فلسفی اور عربی
زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی ( 1204-1285: Abu al-Baqa al-Rundi )
کے عربی زبان میں لکھے گئے قصیدہ میں حُسن اور کار ِ جہاں کے ہیچ ہونے کے
بارے میں جو کیفیت جلوہ گر ہے وہ قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے ۔
عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی نے اپنے قصیدہ نونیا ( جس کاہر
مصرع ’’ ن ‘‘ پر ختم ہو ) ’’ رثا ء الاندلس‘‘ ( تخلیق : 1267ء ) میں اندلس
کی تباہی پر اپنے گہرے رنج اور کرب کا اظہار کیا تھا۔
لِکُلِ شَیٗ اِذا ماتم نُقصانُ
فلا یُغیُّر بِطیبِ العیش انسانُ
ھی الامور کما شاھتھا دُول
من سرہ زمن ساعتہ اُزمان
و ھٰذِ ۃِ الدارُ لا تبقی علی احدٍ
ولایدُومُ عَلی حَال ٍ لَھا شان ’
ذیل میں اس کے چند اشعار کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جاتاہے ـ:
In all that exists,there is imperfection...therefore ,let no human be
deceivedby the beauty of life.
These are the matters ,as rising and falling empires have seen them
:whomsoever a moment has satisfied ,many moments have agonized.
And this home does not remain for anyone,nor does things stay the same
,in any meaningful way.
نعت گو ئی میں پروفیسر محمداویس جعفری کی عقیدت کے سب رنگ سمٹ آئے ہیں۔پس
نوآبادیاتی دور میں نعت گوئی کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ ہر اعتبار
سے لائق تحسین ہے ۔ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے انھوں نے اپنے عظیم خالق اور
محسن ِ انسانیت کی طرف ملتجیانہ نظر سے دیکھاہے ۔نعت گوئی سے متعلق مضامین
میں جو تنوع اور وسعت پیدا ہوئی وہ پروفیسر محمداویس جعفری کی نعتیہ شاعری
میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
کیسی زمین میں کیا نعتِ نبی کاانتخاب
قریۂ جاں پہ چھا گیا کیف و سرور کا سحاب
وہ جو حکیم ِشرق ہے،نبض شناس ِ عہد ہے
اُس کی اثاثِ شعر میں نے کیاہے اکتساب
نبض ِ حروف و صوت میں عشق اگر ہو موجزن
حُسن ِ ہنر بھی کامراں ،حُسنِ ادا بھی کامیاب
حق جو مجھے عطا کرے جوشِ جنوں کا سوز و ساز
میرا درود ہو قبول،میرا سلام باریاب
خیمۂ جاں میں روشنی آپ ؐ کے نقشِ پاکا فیض
آپ ؐ ہی میرے ماہتاب ،آپ ؐ ہی میرے آفتاب
میر ے وجود کا صدف حُسنِ گہر سے ہی تہی
صدقہ ٔ خاکِ پا میں آپ ؐ دیجیے اِس کو آب و تاب
گوشۂ چشم سے سہی میری طرف بس اِک نظر
تاکہ کتابِ زیست کااِس سے کروں میں اِنتساب
آپؐ کہ شہر ِ علم ہیں،شہرکا درہیں بو تراب ؓ
وا کیجیے میری ذات پر علم و آ گہی کا باب
آپ ؐ کادامنِ اماں ،حشر میں میرا سائباں
میری خطائیں بے شمار میرے گناہ بے حساب
قافلہ ہائے صدق کے لاکھ ہوئے پیام بر
آپؐ ہیں وجہِ کُن فکاں ،آپ ؐ پہ ختم انتخاب
میں ہوں اویس ؔ تشنہ کام ،آپ ؐ ہیں سا قیِ انا م
مجھ کو خم اَلست سے دیجیے جام ِ آب ناب
فرقے ہزار ہوں مگر اپنا خدا تو ایک ہے
آپ ؐ ہیں آخری رسول ،قرآں ہے آخری کتاب
منزل وراہ گزر بھی ایک ،ایک راہبر و راہ نما
کیسے ہیں پھر یہ فاصلے ،کیجیے اِن کا سدِ باب
میری پیاری بہن قمر باجی نے ترنم سے پڑھ کر درجِ ذیل شعرکااضافہ کیاہے :
باجی نے کتنے پیار سے آج پڑھی ہے میری نعت
کانوں میں گُھل گیاہے رَس،ذِہن میں کِھل گئے گُلاب
زندگی کے سفر میں کچھ لوگ طعام ،ملبوسات، ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی
رکھتے ہیں۔ ذوقِ سلیم سے متمتع افراد میں سے کچھ لوگ توخونِ جگر سے مزین
تصاویر میں دلچسپی لیتے ہیں ،بعض لوگوں کو من و سلویٰ پسند ہے لیکن پرورشِ
لوح و قلم کی نزاکت و نفاست کے رمزآ شنا لوگ الفاظ کے تاج محل بناکر ان میں
زندگی بسر کرنا اپنا نصب العین بناتے ہیں ۔ یہ تیشہ ٔ حرف ہی ہے جس کے وار
سے فصیلِ جبر منہدم کی جا سکتی ہے ۔ ارض ِوطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت ہر عہد میں باضمیر ادیبوں کے اسلوب کا امتیازی
وصف رہا ہے ۔پس نوآبادیاتی دور میں با شعور اور باوقارتخلیق کاروں نے
تخلیقِ فن کے لمحوں میں جذبۂ انسانیت نواز ی کا خیال رکھاہے ۔ انھیں یقین
ہے کہ چمنستانِ وطن محض چمکتے ہوئے کوہ ودمن کا نام نہیں بل کہ یہ تو
ابنائے وطن کے اجسام اور ارواح سے عبارت ہے ۔سوہنی دھرتی کی محبت سے
سرشاراس چمن کی عنادل نے چشمِ تصور سے ہمیشہ سرزمین ِ وطن کے گوشے گوشے سے
جوئے حیات کواُبلتے دیکھا ہے ۔مادرِوطن کی آغوش میں ہر شام مثلِ شامِ مصر
اور ہر شب مانندِ شبِ شیراز اُن کے لیے آسودگی اور مسرت کی نوید لاتی ہے ۔
اردو زبان کے تخلیق کار جہاں بھی پہنچتے ہیں، رومانوں کے اِس شہرِ طرب اور
حسین ارمانوں کی اِس خلد بریں کی یاد اُن کے قریہ ٔ جاں کو معطر کر دیتی ہے
۔یہی ان کا منفرد اسلوب ہے جو کہ ان کی پہچان بن گیاہے ۔تاریخ نے ثابت کر
دیاکہ محمد اویس جعفری جیسے سچے مسلمان جو مکہ، مدینہ ،نجف اور کر بلا کی
خاک کواپنی آ نکھ کا سرمہ بناتے ہیں وہ اپنا دامن دنیاوی حرص سے آ لودہ
نہیں ہونے دیتے ۔ محمد اویس جعفری جیسے اُردو زبان کے ذہین تخلیق کاروں کو
مغربی تہذیب کی جعلی چکا چوند اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری بالکل متاثر
نہیں کر سکی ۔ محمد اویس جعفری جیسے ارضِ وطن اور مشرقی تہذیب ِ کے
شیدائیوں کے گلشنِ وفا کے پروانوں کی بزمِ وفا کی یاد ہر جگہ انھیں مضطرب
رکھتی ہے ۔اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سکھانے والے ان جہاں نورد ادیبوں نے
اپنی جنم بھومی کے بارے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا ہر ایک ذرہ اُنھیں
اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔ فلک کی ہم سر اس زمین کے ذرات کا بوسہ دینے کو
آکاش بھی سر نگوں ہو جاتاہے ۔ دِل کے ہر ساز پر وفا کے نغمے چھیڑ کر سرشار
نگاہِ نرگس اور پابستۂ گیسوئے سنبل رہتے ہوئے ارض وطن کے ساتھ پیمان ِ وفا
باندھ کراس کی عظمت کے گیت گانے والے اور وطن کے بام و در کی خیر مانگنے
والے اردو زبان کے محمد اویس جعفری جیسے حساس تخلیق کاروں کا جذبۂ ملی سے
لبریز اسلوب تا ابد دلوں کو مرکزِ مہر ووفا کرتا رہے گا۔
آلامِ روزگار کی زد میں آنے والے ادیبوں کے جذبات واحساسات ان کی تحریروں
میں نمایاں ہوتے ہیں ۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر ستائش
و صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیقِ ادب میں ہمہ وقت میں مصروف رہنے
والے مخلص اور صابر و شاکر تخلیق کار اب دنیامیں کم کم دکھائی دیتے ہیں
۔ادیبوں کی کتابِ زیست کے ناخواندہ اوراق کی مثال ا یک ایسی سوانحی یادداشت
کی سی ہے جس کی پیشانی پر سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور محسن کش درندوں کی لُوٹ
مار ، عیاری ،مکر و فریب اور پیمان شکنی کے بکھیڑوں کا قشقہ کھنچاہے ۔ اس
سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے لوح ِ
جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع ِ صبح ِ بہاراں کانصاب لکھنا ہر ادیب کا
مطمح نظر بن جاتاہے ۔ اپنے موثر اسلوب کے ذریعے وہ اپنے تجربات پوری دیانت
سے حرف حرف زیبِ قرطاس کر تاہے ۔ ان کا اسلوب کسی جذبے کی موجودگی کے خاص
انداز سے روشناس کراتا ہے ۔ادبی تخلیق کاو ہ قوی ،فعال اور لائق صد رشک و
تحسین معیارجس کے اعجاز سے تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتا
ہے وہی تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے ۔ادیب اپنے اسلوب کا دامن تھام کر
قلزم موضوعات کی غواصی کر کے اظہار و ابلاغ کے گہر ہائے آب دار بر آمد
کرتاہے ۔
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک تخلیق کار تخلیق فن کے
لمحوں میں جب اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو تخلیق ِفن کے اس فعال
جذبے کو بالعموم غیر شخصی تصور کیا جاتا ہے ۔بادی النظر میں یہ بات واضح ہے
کہ تخلیق کار کے لیے غیر شخصی معیار تک رسائی بہت کٹھن مرحلہ ہے ۔اس مرحلے
پر وہ تخلیقِ ادب کو اپنی اوّلین ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے ذات کے بجائے فن
پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دردو غم اور مصائب
کا ایک غیر مختتم سلسلہ تخلیق کار کو ہر وقت بیدار رکھتا ہے ۔تخلیق کار پر
یہ بات بہت جلد واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی شخصیت کی نسبت تخلیقِ ادب کو
زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس کی تخلیقات کو دوام حاصل ہو گا اور انھی کی بدولت
اس کا نام بھی زندہ رہے گا ۔اسلوب در اصل ایک تخلیق کار کے تخلیقی تجربوں
کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس تخلیق کار کی شخصیت کے جملہ اسرار و
رموز کی گرہ کشائی ممکن ہے ۔اسلوب کے ذریعے ایک نقاد کو یہ موقع ملتا ہے کہ
وہ تخلیق اور اس کے لاشعوری محرکات کے بارے میں سمجھ سکے ۔مسائلِ عصر اور
زمانہ ٔحال کے تقاضوں کے بارے میں ادیب جو کچھ محسوس کرتا ہے اس کا اسلوب
ان تمام کیفیات کو منعکس کرتا ہے ۔ ایک تخلیق کار کے اندر ایک محتسب تلوار
لیے موجود ہوتاہے جو اسے در ِکسری پر صدا کرنے سے روکتاہے اور حق گوئی و بے
باکی پر آمادہ کرتاہے ۔ ادب کا حساس قاری چشمِ تصور سے تخلیق کار کے دِل پر
اُترنے والے سب موسم دیکھ لیتاہے ۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے معجز
نماکرشمے پروفیسر اویس جعفری کے اسلوب میں نمایاں ہیں ۔انھوں نے توحید و
رسالت پر اپنے کامل ایقان کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے ۔ معاشرتی زندگی
کے حالات کی اس دیانت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ وہ تاریخ اور اس کے پیہم
رواں عمل سے آگہی اور حریت فکر کا اہم حوالہ ثابت ہوتاہے ۔
گریۂ شبنم
ماخوذ از یونس اُمرے ( Yunus Emre)
( ترک صوفی شاعرB: 1238 D: 1320)
چشمے رواں فردوسِ بریں میں مَدّھم مَدّھم
سیلِ رواں اِک نور کا عالم
بلبل کے نغمہ میں گونجا
باغِ اِرم میں دِینِ مبیں کا نغمۂ پیہم
اﷲ، اﷲ، اﷲ، اﷲ
طوبیٰ کی پھیلی ہیں باہیں
جُھوم رہی ہیں دائیں بائیں
موجِ صبا سے اُس کی شاخیں
سبزہ و گُل ہیں عطر بہ داماں
خوشبوسے معمور ہوائیں
ہونٹوں پر ہیں سب کے رقصاں
حمدِ الٰہی آیۂ قرآں اور صدائیں
اﷲ، اﷲ، اﷲ، اﷲ
سہ ماہی الاقربا اسلام آباد، سالنامہ ،2014 ء ،جلد 17،شمارہ 1جنوی۔مارچ/
اپریل۔جون2014ء، صفحہ 231
شاعری اور نثر پروفیسر محمد اویس جعفری کااسلوب معروضی نو عیت کے تجزیے سے
مزّین ہے۔انھوں نے ایسے روّیوں پر روشنی ڈالی ہے جو نہ صرف معاشرتی اور
سماجی زندگی کے نشیب و فرازکی عکاسی کرتے ہیں بل کہ تاریخ کے پیہم رواں عمل
کے بارے میں بھی یہ مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھاتے ہی۔ انسانیت کے وقار
اور سر بلندی کو سدا پیش نظر رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا
پروفیسر محمد اویس جعفری کا شیوہ رہا ہے ۔اپنے تجربات،مشاہدات اور جذبات و
احساسات کو انھوں نے جس بے باکی سے پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے وہ ان کی
انفرادیت کی دلیل ہے ۔اپنی تخلیقی تجربات سے انھوں نے افکارِ تازہ کے وسیلے
سے جمود کا خاتمہ کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر
اصرار کیا ہے۔انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک خاص نوعیت کی فکر ی منہاج
اور ذہنی فضا تیار کی جس کے معجز نما اثر سے حریت فکر کو اپنا کر حریت ضمیر
سے جینے کا ولولہ پیدا ہوا۔ان کی مستحکم شخصیت کی تشکیل میں ان کے اعلیٰ
کردار کا گہر ا عمل دخل رہا ہے ۔شعر و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور
انسانیت کے ساتھ ان کا والہانہ پیار ان کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا
ہے۔ بادی النظر میں پروفیسر محمد اویس جعفری کی تخلیقی تحریریں آپ بیتی کا
آہنگ لیے ہوئے ہیں ۔ پروفیسر محمد اویس جعفری کے اسلوب کا مسحور کن کرشمہ
یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ اس انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ قاری
کی توجہ اپنی ذات سے ہٹا کر دوسرے عجیب و غریب قسم کے کرداروں کی جانب
مبذول کر دیتے ہیں۔پروفیسر محمد اویس جعفری کی تخلیقی تحریروں میں اپنی
دنیاآ پ پیدا کرنے کی صلاحیت سے متتمع ہر لفظ نہ صرف پیش منظر کا کرشمہ
دکھاکر مسحور کر دیتاہے بل کہ یہ الفاظ گنجینہ ٔ معانی کا عجیب طلسم بھی
ہیں:
عجیب ہو تم
جوآ نکھیں مَل مَل کے اُس کودیکھیں
اِنہی ستاروں سے اُس کے آنچل کی بات کرنا
سلونی شاموں نے جِس سے اپنی ملاحتوں کو اُدھار مانگا
اِنہی سے جاجاکے اُس سے کے کاجل کی بات کرنا
کبھی بہاروں سے اُس کے دامن کا ذکرکرنا
کبھی کنایوں سے اُن کے عارض کی بات کر کے گلاب کو شرمسار کرنا
وہ ٹھنڈی جھیلیں جواُس کی آ نکھوں میں ڈُوب کر مِیٹھی نیندسوئیں
اُنہی کو اِن کی مِثال دینا
اور اُن کی مستی کاذکر کر کے ستانا بادہ کشوں کو اکثر
سبو و صہباکو خوار کرنا
جو اُس کے شانہ پہ کھیلتی ہیں ،اُنھیں گھنیری شریر زُلفوں کے تذکرہ سے
گھٹاؤں کوبے قرار کرنا
تمازتِ حُسن ِبے کراں سے پسینہ آئے جواُس جبیں پر
تو جا کے سرگوشیوں میں ،شبنم کواِس کی تازہ خبر سُنانا
غریب کو اشک بار کرنا
دھنک کے رنگوں کو لاکے چُپکے سے پیرہن پر نثار کرنا
تمام وا رفتگی کے قصے ،تمام یہ دِل کی وارداتیں
چُھپانااُس سے ،خبر نہ ہو کانوں کان اُس کو
جہاں پہ پھر آشکار کرنا
ہلاکت خیزیوں کے موجودہ دور میں قلزم ہستی کی غواصی کی نسبت اپنی ذات کے
بحر بے کراں میں غوطہ زن ہو کر حقیقت اور معرفت کے گوہر نایاب تلاش کرنا
وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اپنے من میں غوطہ زن ہو کر زندگی کے اسرار و رموز
کے گو ہر نا یاب تلا ش کیے جا سکتے ہیں ۔ ندا فا ضلی نے سب سے پہلے اپنی
ذات کو تنقید اور احتساب کا ہدف بنا یا اس کے بعد معا شرتی زندگی کے تضادات
اور بے ہنگم ارتعاشات کے خلاف کھل کر لکھا ۔ انھوں نے معا شرتی زندگی کو
امن و عا فیت سے ثروت مند بنا نے کے لیے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے
اُکھا ڑ پھینکنے پر زور دیا ۔ہوسِ زر اور جلب منفعت کے پیدا کردہ ذاتی
حریت ِ ضمیر سے جینے کی تمنا رکھنے و الے ادیبوں کے دل پر جو گزرتی ہے وہ
اسے بلا تامل زیبِ قرطاس کر دیتے ہیں۔ ان کے دل میں جو کچھ کہنے کی خواہش
ہوتی ہے وہ جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے بیان کر دیتے ہیں ۔وہ الفاظ کو
فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے نہ ہی حشو وزوائد سے اپنی تخلیق کو آلودہ
ہونے دیتے ہیں۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ ِ وفاکو بجھنے نہیں دیتے اور
متاعِ لوح و قلم چھین کر لب ِ اظہار پر تالے لگانے والوں سے براہِ راست
مخاطب ہو کر ان پر واضح کر دیتے ہیں کہ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو
مکمل طور پر منہدم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ غم ِ جہاں کا حساب کرتے وقت تخلیق
کار کو آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے فریادکناں ،جگر فگاراورالم
نصیب انسانوں کے گروہ کے دکھ بے حساب یادآتے ہیں ،جو اپنے زخموں کے ایاغ
تھامے داد طلب ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔وہ کسی مصلحت اندیشی کے بجائے اپنے
ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے براہِ راست حرفِ صداقت لکھتے جاتے ہیں۔
اسلوب کے ذریعے تخلیق کار کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ایک موثر اور
جان دار اسلوب کا حامل تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا خود اثبات
کرتا ہے ۔ممتازبرطانوی نقاد والٹر پیٹر ( 1839-1894 :Walter Pater) نے کہا
تھا:
" The style ,the manner ,would be the man ,not in his unreasoned and
really uncharacteristic caprices,invoulantry or affected, but in
absoulately sincere apprehension of what is most real to him .(1)
1.Walter Pater : Appreciations, Macmilan And Co. London,1889,Page, 34
ایک صاحبِ طرز ادیب کی حیثیت سے پروفیسر محمداویس جعفری نے سدا حریت ِ فکر
کا علم بلند رکھاہے ۔وہ جب بھی قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتے ہیں تو اُن
کی دِلی تمنا ہوتی ہے کہ اپنی بصیرت اور دُوراندیشی کور و بہ عمل لاتے ہوئے
وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائیں ۔ وہ اس قدر مؤثر اندازمیں اپنے
خیالات کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں کہ رنگ ،خوشبو ،حسن و جمال ،اوجِ کمال
اور شام ِ زوال کے حقیقی مناظرقاری کو عصر ی آ گہی سے متمتع کرتے ہیں۔ تیزی
سے گزرتے ہوئے وقت میں مسرت و شادمانی ،راحت و سکون ،حزن و ملال اور یاس و
ہراس کے لمحات میں بہ یک وقت صبر و تحمل کا مظاہر اس عبقر ی دانش ور کی
مضبوط او ر مستحکم شخصیت کاامتیازی وصف ہے ۔ اِس جری تخلیق کار نے زبان
وبیان پر خلاقانہ دسترس کاثبوت دیتے ہوئے، احتسابِ ذات کو پیشِ نظر رکھتے
ہوئے ،حق وصداقت کا علم بلندکر کے جس خلوص اور دردمندی سے تخلیقِ ادب کا
فریضہ انجام دیا ہے وہ حرف ِ صداقت کی ناگزیر اور ابد آشنا سحر نگاری سے
قارئینِ ادب کو چونکادیتاہے ۔قارئینِ ادب کے لیے سہل الحصول مسرت کے یہ
لمحات جمالیاتی تسکین کا موثروسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔وہ ان ادب پاروں کے عمیق
مطالعہ سے جو حقیقی مسرت و شادمانی حاصل کرتاہے وہ دل کش اسلوب ہی کا ثمرہے
۔ شاعری میں لفظ کی حرمت کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔منافقت ،قول و
فعل کا تضاداور ہوس پرستی نے نوع ِ انساں کو اخلاقی اعتبار سے تحت الثریٰ
میں پہنچادیاہے ۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے پروفیسر محمداویس جعفری
نے زندگی کے مصائب آلام کواپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا اور پوری قوت
سے ہوائے جورو ستم میں مشعلِ وفا کو فروزاں رکھنے پر اصرار کیا ہے ۔پروفیسر
محمداویس جعفری نے اُردو شاعری کے روایتی نوعیت کے موضوعات سے ہٹ کر ایک
نئی طرزِ فغاں پر اپنی توجہ مرکوزرکھی ہے ۔اُن کی شاعری میں استعمال ہونے
والے متعدد الفاظ زندگی کے نشیب و فراز کے بارے جہاں اُن کے ذاتی رجحانات
کے عکاس ہیں وہاں یہی الفاظ نئے معنویتی سلسلے کی جانب بھی متوجہ کرتے
ہیں۔پروفیسر محمداویس جعفری کی شاعری میں حریتِ فکر کا عنصرقارئینِ اَدب کے
لیے حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مثال ہے ۔ مثال کے طور پر اپنی
شاعری میں گہنا، انگشتری ،زیور،آرسی،بالی اورآہٹ جیسے الفاظ کے بر محل
استعمال سے پروفیسر محمداویس جعفری نے اپنی شاعری زندگی کے حقائق سے قریب
تر کر دیاہے ۔پوری کائنات میں خلوص ،مروّت ،ایثار اور انسانی ہمدردی کی
بالادستی دیکھنے کی تمنااپنے دِل میں لیے پروفیسر محمداویس جعفری نے اپنی
نظم ’’ پرواز ‘‘ میں طیور کی پرواز سے عرفان کی مہک کا سراغ لگایا ہے ۔ اُن
کی دِلی تمناہے کہ اپے خالق کی عظمت کے جو نقوش روح اورقلب کے معدن میں
موجود ہیں اُنھیں اس خوش اسلوبی سے پیرایۂ اظہار عطاکیا جائے کہ قارئین ان
لعل و جواہر کی تابانیوں کا استحسان کر سکیں اور اس طرح مطالب و مفاہیم کا
ٹھاٹیں مارتا ہوا سیلِ رواں ہر طرف پھیلے ہوئے شرک اور اولام کے سنگ ریزوں
کو غرقاب کر دے ۔ الفاظ کے دامن میں موجود مطالب و مفاہیم کے بیش بہا جواہر
کو پوری کائانت میں پھیلانے کی آ رزو میں پروفیسر محمداویس جعفری نے گہری
معنویت کے حامل جن الفاظ کو اپنی اس نظم میں استعمال کیا ہے اُن میں طنّاب
ِ خیمۂ شب ، سکوت مُہر بہ لب،سرِشاخ طائروں کاخروش،دِھیما،دِھیما،ردائے
خواب، دُھندکی بانہیں اور پیڑ شامل ہیں۔نظم کے مشمولات میں اپنے وجود کا
اثبات کرتے ہوئے پروفیسر محمداویس جعفری نے اپنی اصلاحی نظم’’ پرواز ‘‘ میں
خالقِ ارض و سماکے عظیم نام کو کائنات کا ہالہ قرار دیاہے ۔اس نا تمام
کائنات سے دما دم صدائے کن فیکوں کے ساتھ ساتھ جو ندائے غیب سنائی دے رہی
وہ ہے سُبحانَ رَبّی الاعلیٰ۔
پرواز
ہے نیند ذہن پہ طاری مگر ہے عزمِ ِ سفر میں چل دیاہوں ائیر پورٹ، چھوڑ کر
بستر
سکوں بہ دوش فضاہے سکوت مُہر بہ لب سحر کے ہاتھ میں آئی طنّاب ِ خیمۂ شب
کھڑے ہیں پیڑ سرِ راہ دم بہ خود،خاموش ہے دِھیما،دِھیماسرِشاخ طائروں
کاخروش
ردائے خواب میں غلطاں ہیں ملگجی راہیں لِپٹ رہی ہیں مکانوں سے دُھندکی
بانہیں
ہے چاک شہر کی سڑکوں کا ملگجی ملبوس رواں دواں ہوا کاروں کی روشنی کاجلوس
ہے اپنے نام کا رشتہ جو حق شناسی سے سوار ہوہی گیا چُھوٹ کر تلاشی سے
اُٹھا زمیں سے گرج کر بُلندیوں کا سفیر جہاز جیسے کہ نکلاکڑی کمان سے تِیر
پہاڑ،نِیلگوں جِھیلیں،عمارتیں ،مینار سُکڑ رہے ہیں زمیں کے تمام نقش و نگار
عجب ہے کھڑکی کے باہر کا دِل کُشامنظر ہواکے دوش پہ ہے ننھے بادلوں کا سفر
شعاعِ نُور درخشاں اُفق کے دامن میں اذان گونج رہی ہے فضاکے آنگن میں
چھلک رہا ہے صبوحی سے میرے دِل کا سبو شعور ذِکر کی خوشبوسے کر رہا ہے وضو
زمیں ،زمان وفلک اورعالم ِ بالا اُسی کے زیرِ نگیں وہ کہ قادِر وا اعلیٰ
وہ ایک نام کہ ہے کائنات کا ہالہ وہ اِک صدا کہ ہے سُبحانَ رَبّی الاعلیٰ
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد11،شمارہ2 ، اپریل ۔جون2008 ء صفحہ149
پروفیسر محمد اویس جعفری کا کہنا ہے کہ حیات ِجاوداں کا راز ستیز میں پنہاں
ہے۔انسانیت کے قار اورسر بلندی کی خاطر جد و جہد کرنے والوں کو وہ یہی
مشورہ دیتے ہیں کہ فسطائی جبر کے خلاف بزدلانہ انداز میں دہائی دینے کے
بجائے اُسے نظر انداز کرکے نئے زمانے اور نئے صبح وشام پیداکرنے کے لیے
انہماک کا مظاہرہ کرنا ہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ تخلیق فن کے لمحوں
میں ترک و انتخاب بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ اپنے دلی جذبات کو صفحۂ
قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے خیالات سے تصنع اور تکلف کی گرد صاف کرنا از
بس ضروری ہے ۔ ایک مرصع ساز کی حیثیت سے تخلیق کار جس طرح اپنے اسلوب میں
غیر ضروری باتوں اور غیر متعلقہ تفصیلات کو حذف کرکے صداقت کی طرف گامزن
ہوکر لعل و جواہر پر کندہ کاری کی سعی کرتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل
ہے ۔ ذوقِ مطالعہ سے محروم قاری کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کور مغزی اور بے
بصری اسے مزاج خانقاہی میں پختہ تر کر دیتی ہے اور وہ بے حسی ،بے عملی اور
کاہلی کا شکار ہو کرشب و رو زایک گونہ بے خود ی کے لیے سرگرداں دکھائی
دیتاہے ۔ پروفیسر محمداویس جعفری جیسا جری ادیب جو انسان دوستی کوشعار
بناکر حریت ِضمیر سے جینے کا تہیہ کر لیتاہے وہ جبر کے سامنے کسی صورت میں
سپر انداز نہیں ہوسکتا۔ایسامستعد ادیب عیاری اور مکاری کا پردہ فاش کرنے
میں کبھی تامل نہیں کرتا ۔ انسانی ہمدردی کو شعار بنانے والے اس فطین تخلیق
کار نے اپنے اسلوب کو ذاتی مفادات اور حرص و ہوس سے آلودہ نہیں ہونے
دیا۔دستیاب معلومات میں سے ترک و انتخاب کا مرحلہ تخلیق کار کے لیے بہت
کٹھن ثابت ہوتاہے اس کے باوجود اسلوب کی چھلنی سے حشو وزوائد الگ ہو جاتے
ہیں۔ اپنے ذہن و ذکاوت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے پروفیسر محمداویس جعفری نے
اپنے منفرد اسلوب میں ٹھگوں کو آئینہ دکھا کرہتھیلی پر سرسوں جما نے کا
کرشمہ دکھایا ہے ۔ پروفیسر محمد اویس جعفری نے احسان فراموش، بروٹس قماش
محسن کش ،پیمان شکن اور آ ستین کے سانپوں کی سادیت پسندی پر اپنے منفر د
اسلوب میں جوگرفت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اپنی نظموں ’’ سواگت ‘‘ اور ’’
نور ونکہت کا سفر‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے اظہار و ابلاغ کوحریتِ
فکر کی راہ پر گامزن رکھنے کی جوشعوری کو شش کی ہے وہ قاری کوجہان ِ تازہ
میں پہنچا دیتی ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان زمین وزماں،مکین و مکاں
،رواج وسماج ،تہذیب و تمدن اور خلوص و مروّت کے مروّج تصورات کے جامد و
ساکت ماحول سے نکل کر پرِ زمانہ کی برق رفتاریوں کے اسرار و رموز سے آ
شناہوتاہے ۔اپنے دِل پر اُترنے والے تمام موسموں کو حقیقی انداز میں پیرایۂ
اظہار عطاکرنے میں پروفیسر محمداویس جعفری نے نہایت محنت کو شعاربنایا ہے ۔
جہاں تک اُن کے اسلوب میں پیش منظر کا تعلق ہے انھوں نے اُردو زبان کے گلشن
میں دستیاب تمام گُل ہائے رنگ رنگ سے ممکنہ حد تک استفادہ کیا ہے ۔ ایک
منفرد اسلوب کے حامل تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی شاعری میں پروفیسر محمد
اویس جعفری نے اصوات،معنیات،الفاظ اور نحویات کا جو طریق ِ کار اپنایا ہے
اُس کے اعجاز سے اُن کی شاعری دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے۔الفاظ کی تہہ
میں معانی کے جو بیش بہاگوہر موجود ہیں اُنھیں دیکھ کر قاری کی نگاہیں خیرہ
ہو جاتی ہیں۔ پروفیسر محمد اویس جعفری کے منفرد اسلوب میں ہر عہد کے متعدد
امکانات کوپیش ِ نظر رکھنے پر اصرار کیاگیا ہے ۔
یہ گہنا استعاروں کا،یہی تشبیہہ کا زیور
یہی انگشتری بھی ،آرسی بھی،اُس کی بالی بھی
یہی تخئیل کی آہٹ ،یہی الہام کی دستک
یہی خوشبو
سخن بھی ،روح ِ فن بھی اورقلم کا بانکپن بھی ہے
یہ اِک دانش گہ ِ تہذیب کی تصنیف کردہ شخصیت بھی ہے
یہی خوش قامتی بھی،خوش قبائی اوراس کی خوش کلامی بھی
یہ خوشبو کیف و مستی کی فضا میں نُور و نِکہت کا سفر بھی ہے
چلیں ! ہم اس سفرپر اور اِک نگہت بہ داماں
خوشبو آسا شخصیت کے ساتھ چلتے ہیں
محمداویس جعفری : سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد ،جلد16،شمارہ3،جولائی
۔ستمبر2013 ، ص278
ذکر چاہت کا نہ کر اُن سے یہ سمجھایا بہت دِل نہ مانا اور پھر بے چارہ
پچھتایا بہت
میں وہ طائر ہوں جوگلشن میں رہابے بال وپر رحم میرے حال پر صیّاد کوآیا بہت
زندگی میں اور کیا کچھ چاہیے پیارے اویسؔ دردکی دولت بہت ،یادوں کا سرمایہ
بہت
نور ونکہت کا سفر ( نظم )
اپنی نظم ’’ نور و نکہت کاسفر ‘‘ پروفیسر محمد اویس جعفری نے مواد اور
موضوع کے امتزاج سے ایک خاص نوعیت کی فکری فضا پیداکی ہے ۔اس نظم میں تخلیق
کار کے تخئیل کی جو لانیاں قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہیں۔ تخئیل میں
مرئی اورغیر مرئی عناصر نے خوب رنگ جمایاہے مثال کے طور پر الہام کی دستک
غیر مرئی ہے جب کہ زلف اور چہرہ مرئی ہیں۔ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں
دکھاتے ہوئے پروفیسر محمد اویس جعفری نے جمالیاتی احساس سے سر شار ہو کر
الفاظ کے انتخاب میں جس سلیقے کا مظاہرہ کیاہے اُس کے اعجاز سے اظہار و
ابلاغ کو اس قدر جامعیت مِلی ہے کہ اس کی اثر آ فرینی کو چار چاندلگ گئے
ہیں۔یہ نظم اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے جن الفاظ کے ذریعے قارئین
کو ایک نئے جہان ِ معانی تک رسائی حاصل کرنے پر مائل کیاہے اُن میں درجِ
ذیل الفاظ شامل ہیں :
فضا،خوشبو،ہوا،غزال،غازہ،چہرہ،جھیل،آنکھیں، کاجل،حِنا،ہونٹ
،گہنا،انگشتری،بالی،آہٹ،قلم،دانش گہ ،نُور ،نکہت،شِکن،پھبن،رُخ،صندلیں ہاتھ
،آرسی
فضا میں پھیل گئی اُس کی بات کی خوشبو
ابھی تو اُس نے ہواؤں سے کچھ کہابھی نہیں
یہ اُس کی بات کی خوشبو
غزالِ شعر کی زُلفِ شِکن اندر شکن بھی ہے
یہ غازہ اُس کے رُخ کا،اُس کے چہرے کی پھبن بھی ہے
یہ اُس کی جھیل سی آ نکھوں کا کاجل بھی حیا بھی ہے
یہی اُن صندلیں ہاتھوں پہ تحریر ِ حِنا بھی ہے
یہی ہونٹوں کی لالی بھی
یہ گہنا استعاروں کا،یہی تشبیہہ کا زیور
یہی انگشتری بھی ،آرسی بھی،اُس کی بالی بھی
یہی تخئیل کی آہٹ ،یہی الہام کی دستک
یہی خوشبو
سخن بھی ،روح ِ فن بھی اورقلم کا بانکپن بھی ہے
یہ اِک دانش گہ ِ تہذیب کی تصنیف کردہ شخصیت بھی ہے
یہی خوش قامتی بھی،خوش قبائی اوراس کی خوش کلامی بھی
یہ خوشبو کیف و مستی کی فضا میں نُور و نِکہت کا سفر بھی ہے
چلیں ! ہم اس سفرپر اور اِک نگہت بہ داماں
خوشبو آسا شخصیت کے ساتھ چلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی شخص کے ساتھ معتبر ربط برقرار رکھنے کے لیے اسلوب کا سہارا لیا
جاتاہے۔اسلوب میں جب خلوص ،دردمندی اور ایثار کے جذبات کی فراوانی ہو تو
اعتماد بحال ہو جاتاہے ۔مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ( 1797-1869) کے خطوط کااسلوب
ایساہے کہ ان میں مراسلے کو مکالمہ بنا دیاگیاہے ۔ قلعۂ فراموشی میں محصور
برصغیر کے مظلوم باشندوں کوجن لرزہ خیزاور اعصاب شکن حالات کاسامنا تھاان
کا احوال مرزا اسداﷲ خان غالبؔ کی شاعری اور خطوط میں موجود ہے ۔مرزا اسداﷲ
خان غالب ؔنے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیاہے کہ جب گھر سے باہر
نکلنادشوار اور بات پر زبان کٹتی ہو تو بھی حرفِ صداقت لکھنے والے دِل کی
بات لبوں پر لاتے رہتے ہیں۔تخلیق کار کی روح اور قلب پر اُترنے والے موسموں
کے احوال کو جب ملبوسِ الفاظ نصیب ہوتاہے تو یہ اسلوب کی صورت میں مرکزِ
نگاہ بن جاتاہے ۔منفرد اندازِفکر کا مظہر یہ فنی اظہار جابر سلطان کے سامنے
کلمۂ حق کہنے کایہ اسلوب آج بھی قاری کے دل کو ایک ولولہ ٔتازہ عطا کرتاہے
۔اپنی ’’ دعائے نیم شب ‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے پروردگار کے حضو
رجو دعا کی ہے وہ ہر نسان کے دِل کی دھڑکن بن جاتی ہے :
دعائے نیم شب
آ ہوں کو رسا کر دے نالوں کو اثر دے دے ہر موجِ تنفس کو توقیر ِشرر دے دے
سینہ ہو میرا یارب آماجگہ ِ عرفان ظُلمت کدہ ٔ دِل کو تنویر ِ ِسحر دے دے
رحمت کو تری جِس پر بے ساختہ پیار آئے جویائے محبت کو وہ دیدہ ٔ تر دے دے
سینچا ہے جسے میری اُمیدوں نے اشکوں سے اُس نخلِ تمنا کو اَب برگ و ثمر دے
دے
رشکِ مہ و انجم ہو خاکِ کف ِ پا میری پابستہ ٔ جادہ ہوں توفیق ِ سفر دے دے
تعبیر ِ سحر جس سے دوں خوابِ شبانہ کو وہ علم و ہُنر دے دے وہ فکر و نظردے
دے
فریاد رسِ یونس ؑ مجھ ایسے شناور کو جو حاصل ِ قلزم ہو یکتا و ہ گہر دے دے
رہوارِ تجسس کو مہمیز کلیم اﷲ تخئیل کے پیکر کو اِدراکِ خضر دے دے
جو طاقِ حرم میں ہے وہ مینا اُٹھا ساقی جانِ مے و مے خانہ اِک جامِ ِ دِ گر
دے دے
میں جِن کی توجہ کا پردیس میں طالب ہوں
قسمت کو مری اُن کی آ غوشِ نظر دے دے
سیّدنا حضرت حسان بن ثابت ؓ کی عظیم شخصیت کے بارے میں پروفیسر محمد اویس
جعفری نے بہت اہم مضمون لکھاہے ۔مدینہ منورہ میں مقیم بنوخزرج سے تعلق
رکھنے والے اس جلیل القدرصحابی نے اسلام اور حضور ختم المر سلین ﷺ کی شان
میں اپنی ابدآشناشاعری سے دِلوں کو مرکزِمہر و وفاکر دیا۔ اسی نعتیہ شاعری
کی بنا پر سیّدنا حضرت حسان بن ثابت کو ’’ شاعرِ رسول ‘‘ کے لقب سے
نوازاگیا۔
رشتوں کے تقدس کو پروفیسر محمد اویس جعفری نے ہمیشہ بہت اہم قراردیا۔اپنی
تصنیف کا انتساب جن لفظوں میں کیا ہے وہ اپنی ہم شیر کے ساتھ روحانی
اورقلبی وابستگی کے مظہر ہیں۔ اپنی کتاب کاانتساب ’’ انور جہاں برنی ‘‘ کے
نام کرتے ہوئے پروفیسر محمد اویس جعفری نے لکھاہے :
گزر گئیں جو برس کر اُنہی گھٹاؤں کے نام
خلوص و پیار کی شفقت بھری اداؤں کے نام
جو سائبان سا سر پر ہیں اُن دعاؤں کے نام
محبتوں کے نگر ،چاہتوں کے گاؤں کے نام
حیات تیری رُتوں ،تیری دُھوپ چھاؤں کے نام
عظیم بھائیوں ،بہنوں کے افتخار کے نام
قریب و دُور کے رِشتوں کے اعتبار کے نام
تمام اپنے عزیزانِ ذی وقار کے نام
جہانِ نو کے سفیرانِ نو بہار کے نام
متاعِ درد کے کے دامانِ تار تار کے نام
عروسِ شعر کی تقدیس و اقتدار کے نام
حروف و صوت کی سرشاری و خرام کے نام
پروفیسر محمد اویس جعفری جیسا ذہین تخلیق کار یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ
عملی زندگی کے تجربات ومشاہدات اور داخلی جذبات واحساسات کی حقیقی صورت گری
اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔مطالعۂ ادب سے معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی تخلیق کار
کا اسلوب محض مجرد الفاط سے نہیں بل کہ ادب پارے کے مجموعی تاثر سے متشکل
ہوتاہے ۔ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ان کااپنے ماحول ،موقع و محل
،تاریخ،سیاست اور معاشرت سے گہر ا تعلق ہے ۔ایک تخلیق کار ان سب عوامل سے
اثرات قبول کرتا رہتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب ہر لحظہ نیاطور نئی
برقِ تجلی کا آئینہ دار بن کر سامنے آ تاہے اور مر حلۂ شوق ہے کہ و ہ طے ہی
نہیں ہو تا۔ مشتاق احمد یوسفی ،محسن بھوپالی ،حمایت علی شاعراور پطرس بخاری
کے اسالیب کا تنوع اس بات کا ثبوت ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے اسلوب میں
تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں حرفِ صداقت کی اہمیت کو
تسلیم کرنا تخلیق کارکے لیے نا گزیر ہے ۔ اسلوب میں کبھی سوزوساز ِ رومی کی
کیفیت ہے تو کبھی پیچ و تابِ رازی کا سماں ہے۔ درج ذیل اشعار میں تکلم کے
سلسلوں کارنگ و آ ہنگ ،ردیفوں اورقوافی کی دل کش کیفیات ،تراکیب اوراسما کا
بر محل استعمال صنائع بدائع کاحُسن اسلوب کو سحر نگار بنا دیتاہے۔ ایک زیرک
،فعال اور مستعد تخلیق کارکی حیثیت سے پروفیسر محمد اویس جعفر ی نے زبان و
بیان اور اظہار و ابلاغ پر اپنی گرفت کا ثبوت دیتے ہوئے جو تصریفی
اورکلماتی کیفیات سامنے لانے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ صحنِ چمن
میں ہر طرف بکھری ہوئی گُل ہائے رنگ رنگ کی پژمردہ پتیاں اور دوشیزۂ بہار
کے دامن کی دھجیاں اس بات کاثبوت ہیں کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے کچھ بھی
محفوظ نہیں۔پروفیسر محمداویس جعفری کی زبان اور لہجہ جددیدور کے تقاضوں سے
ہم آ ہنگ ہے ۔ رنگ ،خوشبو ،موسیقیت اور مسرت کی تان لہجے کی اُٹھان کے
متعدد نئے امکانات سامنے لاتی ہے ۔ تلمیحات میں منصور ،دار اورصحراقابلِ
ذکر ہیں۔بر صغیر کی تہذیب وثقافت کے رنگ نہ صرف نقیبِ بہار ہیں بل کہ زیست
کے سب اسرارو رموزبھی اِن سے آشکارہوتے ہیں۔تہذیب وثقافت کی یہ نشانیاں
آرزوؤں اور اُمنگوں کی آبرو بن جاتی ہیں۔کوئی دیدہ ور مآل ِ بہار،مہلتِ
سفراور حیاتِ شررسے آگاہ نہیں ۔ اُردو زبان کے شعرانے کارِ جہاں کے ہیچ
ہونے کو فریب ِ نظر قرار دیاہے۔گلزار ہستی میں ثمر بار شاخوں پر کِھلنے
والے گُل ہائے رنگ رنگ کی حیات کے ما حصل کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ
غنچے کا تبسم ہی اَجل کاپیغا م ہے ۔ متلاطم دریاؤں ،پرشور چشموں ،جھیلوں
،ندی نالوں اور آبشاروں کی روانی کی کہانی کااحوال جب سمندروں سے دریافت
کیا جاتاہے توندائے غیب سنائی دیتی ہے تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو یہاں
تو کسی دریا،ندی ،چشمے ،آبشاراور چشمے کا کہیں سراغ ہی نہیں ملتا۔ سیلِ
فناکی زدمیں آنے کے بعد حَبابوں کے سفینے صدیوں سے میری آغوش میں گُم
ہوجاتے ہیں۔شادی بیاہ کے موقع پر مشاطہ کی مہارت کااحوال اور دلھن کی رخصتی
کی کیفیت کابیان تہذیبی و ثقافتی تحفظ کی ایک عمدہ کاوش ہے ۔ الفاظ اور
آوازوں کے بر محل استعمال سے پروفیسر محمداویس جعفری نے موثر شاعری کے لیے
ایسی طرزِ فغاں ایجادکی ہے جو قاری کے دِل میں اُتر جاتی ہے ۔بھارت میں
اُردو زبان کے پودے کوخون ِ جگر سے سیراب کر کے اُسے نخل تناور بنانے اور
اس کی ترویج و اشاعت کے لیے انہماک کامظاہرہ کرنے والے ادیبوں میں پروفیسر
محمداویس جعفری کا نام نمایاں ہے ۔اس غزل میں شاعر نے اپنے تجربات،مشاہدات
،جذبات اور احساسات کو پیرایۂ اظہار عطاکرنے کے سلسلے میں جن الفا ظ کا
انتخاب کیا گیاہے اُن میں سے ہر لفظ گنجینۂ معانی کا ایسا طلسم ہے جوقارئین
کے مجموعی تاثرکو مہمیز کرتا ہے ۔ اسلوب کا یہ دھنک رنگ منظرنامہ دیکھ کر
قاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ یہاں تو ہر لحظہ نیاطور نئی برق ِ تجلی کی سی
کیفیت ہے جہاں تخلیق کار کامرحلۂ شوق طے ہی نہیں ہوتا۔پس نو آبادیاتی دور
میں اس خطے میں مقیم اُردو زبان کے قلم کاروں نے جو لسانی تجربے کیے اُن
میں اسلوب کے مطالعہ کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ ایک وسیع
المطالعہ ادیب کی حیثیت سے پروفیسر محمداویس جعفری نے ایسے الفاظ کاانتخاب
کیا ہے جن کا معاشرتی زندگی کی تہذیبی و ثقافتی اقدار سے گہرا تعلق ہے
۔اہلِ زبان ہونے کی حیثیت سے پروفیسر محمداویس جعفری نے شعوری سعی کی ہے کہ
اپنے تہذیبی و ثقافتی اثاثے کی اساس پر فکر و خیال کاقصرِعالی شان تعمیر
کیاجائے ۔ عملی زندگی میں دیکھا گیاہے کہ مشاہدات،خیالات ،تجربات اور
تجزیات میں اشتراک کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے مگر جہاں ت کاسلوب کا
تعلق ہے یہ تو تخلیق کار کی ذات ہے جس میں اشتراک کا کوئی امکان
نہیں۔پروفیسر محمداویس جعفری نے حرفِ صداقت لکھنے کا جو اندازاپنایا ہے وہ
اپنی مثال آ پ ہے ۔ مشرقی شعریات اور جمالیات میں دلچسپی رکھنے والے جانتے
ہیں کہ اقلیم محبت کی فضامیں مراعاۃ النظیرکا یہ کرشمہ اُردوشاعری میں کم
کم دیکھا گیاہے :
گُل،قفس،صیّاد،گُل چِیں،آشیاں ،گُلشن ،بہار
بیڑیاں ،زِندان،مقتل،حرفِ حق،منصور ،دار
عِشق،صحرا،سنگ،منزل،پاؤں،چھالے،دشت ،خار
سر،جنوں،سودا،اَلم ،آشفتگی،سینہ فگار
آنکھ،کاجل،زُلف،بادل،چاندنی،رُخسار ،یار
وَصل ،آنچل،رنگ ،خوشبو،ناز ،زیبائی ،نِگار
جام ،مینا،مے کدہ ،خُم ،تشنگی ،ساقی ،قرار
کیف،صہبا،شوق،مستی،بے خودی،توبہ ،خمار
رَت جگے ،ہم جولیاں ،عہدِ وفا،قول و قرار
رُخصتی،بندھن،پِیا،سہرا،مِلن، ڈولی ،کہار
آرسی ،آویزے،پائل،آئینہ ،سولہ سنگھار
چشم ،ترکش،تیغ ،اَبرو،دِل، حدف ،شاعر شکار
یاد،آہٹ ،رات ،فُرقت،یاس ،جاناں ،انتظار
درد،بے تابی،تصور،غم،اُویس، اخترشمار
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد11،شمارہ001 ، جنوری ۔مارچ2008 ء صفحہ241
تخلیق ادب کے لیے مواد،معلومات ،مشاہدات اور تجربات کو بہت اہم خیال کیا
جاتاہے ۔ پروفیسر محمد اویس جعفری نے اپنی تخلیقی تحریروں میں اپنے جذبات و
احساسات کو اپنی خاص طرزِ ادا سے نکھارعطا کیا ہے ۔ اسلوب جب ہر اعتبار سے
مستحکم صورت اختیار کر لیتاہے تو یہ تخلیق کار کی شخصیت کا ایک جزو بن
جاتاہے ۔ادیب کی شخصیت کے اوصاف اُس کی تحریروں میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں ۔
قزاقوں کے دشت سے گزرنے والے قافلے کو متنبہ کرتے ہوئے پروفیسر محمد اویس
جعفری نے آندھیوں اور بگولوں کے خطرے کے باعث رات ہو یا دن جاگتے رہنے کا
مشورہ دیا۔جبرکا ہرانداز مسترد کرتے ہوئے حریت ِضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ
حسینؑ کوزادِ راہ بنانے والے اس جر ی تخلیق کار اور حریت فکر و عمل کے اس
مجاہد کا اسلوب فکر و نظر کو مہمیز کرتاہے ۔پروفیسر محمد اویس جعفری نے ہر
صنف شعر میں طبع آزمائی کی اور اپنی مہارت کالوہا منوایا ۔ حمد ہو یا نعت
،نظم ہو یا غزل ہر صنف شعرمیں پروفیسر محمد اویس جعفری کا منفرد اسلوب قاری
کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے ۔نظام ہستی چلانے والی اور خانۂ لاشعور میں
جگمگانے والی عظیم ہستی اور محسنِ انسانیت کے ساتھ پروفیسر محمد اویس جعفری
کی قلبی و روحانی وابستگی اُن کی دعائیہ نظموں ’’ گریۂ شبنم ‘‘ ، ’’ دعائے
نیم شب ‘‘میں نمایاں ہے ۔پروفیسر محمد اویس جعفری کو عالمی کلاسیک سے گہری
دلچسپی ہے ۔ ترک شاعریونس اُمرے(Yunus Emre,B: 1238-D: 1320 کے کلام سے
ماخوذ ’’نظم ‘‘ گریہ ٔ شبنم ‘‘پڑھ کر قاری اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کر
کے سر بہ سجود ہوجاتاہے ۔
جزئیات نگاری میں انھیں جو کمال حاصل ہے اُس کااندازہ اس با ت سے لگایا جا
سکتاہے کہ انھوں نے صحرا صحرا، نگری نگری ،دریا دریا اوردشت و جبل میں بجتے
زندگی کے ساز کی جانب متوجہ کیاہے ۔یہاں مناسب ہو گا کہ اُن کی مشہور نظمیں
’’ پرواز ‘‘ ، ’’ سراپا ‘‘ ، ’’تعارف ‘‘ اور ’’ میر ے قبیلے میں آنے و الی
‘‘ پیشِ نظر رہیں ۔ان نظموں میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے قارئین کو اپنے
مر حلۂ شو ق سے آ گاہ کیا ہے ۔زندگی کا ساز بھی انوکھا ساز ہے جو پیہم بج
رہاہے مگرکوئی اِس پر اسرارسازکی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ خرابات ِ ایام سے
بے نیازوقت بھی بیدار اہلِ جہاں کے کہرام کی طرف دھیان نہیں دیتا۔جیون کے
لیکھ کو دیکھ کر پروفیسر محمد اویس جعفری نے اپنی نظموں ’’ چھوڑ گئے افسانے
لوگ ‘‘ اور الیکٹرانک میل ‘‘ میں زندگی کی برق رفتاریوں کی جانب متوجہ کیا
ہے ۔ دھیان نگر کو سدھارنے والے ،اپنے اپنے قلبِ حزیں کی کھوج میں کھو جانے
والے،صدیوں کے کہرام میں سو جانے والے اورسرابوں میں بھٹکنے والے لوگ ان
نظموں کو پڑھ کر پت جھڑ کی سہمی رُت کے دان کے بارے میں تمام حقائق جان
لیتے ہیں اور زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھ لیتے ہیں۔اپنی نظم ’’ چھوڑ گئے
افسانے لوگ ‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے شامِ الم ڈھلنے کے بعددرد کی
ہوا کے چلنے اور تنہائیوں کی کیفیات کو بیان کیاہے ۔مانو س لوگ رسم و رہِ
دنیا نبھانے کی خاطر مرہم بہ دست آتے ہیں مگر چارہ گر ی اور رفو گری سے
بالعموم گریز کرتے ہیں۔دروازے پر دستک ، اُن کی آ مد ،ان کے تکلم کے سلسلے
،سانسوں کی مہک اور لمس کی تمازت پلک جھپکتے میں خیال و خواب ہوجاتی ہے
۔اپنے اور بیگانے کے تضادسے جو تاثراُبھرتاہے وہ بیاضِ سحر پر توجہ مرکوز
رکھنے والے اَدب کے سنجیدہ اورسخن فہم قاری کو حقائق سمجھنے کی راہ
دکھاتاہے ۔اس نظم میں فکری پختگی ،جمالیاتی تاثیراور زبان و بیان کامسحور
کُن انداز قاری کو شروع ہی سے اپنی گرفت میں لے لیتاہے ۔پروفیسر محمد اویس
جعفری نے اپنی تخلیقی فعالیت اور بصیرت کے اعجاز سے اشعار کے جمالیاتی کیف
کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔
چھوڑ گئے افسانے لوگ
آنکھوں کی خاموش زباں میں کیاآئے سمجھانے لوگ
غمگیں غمگیں چہرے والے جانے اور پہچانے لوگ
دستک،آہٹ ،بول کا جادو،سانس کی خوشبو،لمس کی آنچ
ساری باتیں افسانہ ہیں کہتے ہیں دیوانے لوگ
چاندکی نگری کے باسی کو تپتی دُھوپ میں چھوڑ گئے
کیسے کیسے پیارے پیارے اپنے بنے بیگانے لوگ
شرحِ مروّت ،جانِ تواضع،تیری باتیں شہدکے گھونٹ
تُو بھی آ جا بزم سجی ہے کہتے ہیں افسانے لوگ
کہتے ہیں تُو دُور شفق سے دُور اُفق کے پار گیا
اِک پَل میں اور اتنی مسافت آئے بڑے فرزانے لوگ
سُنتا ہوں اِک پُھول سا چہرہ نیند میں بھی مُسکاتاتھا
شہرسے دُور اَکیلا اُس کو چھوڑ آئے کیوں جانے لوگ
باتیں اُن کی قصے اُن کے ،آنسو آ نسو اُن کی یاد
غم کی اِس جاگیر کے قُرباں چھوڑ گئے افسانے لوگ
اپنی شاعری میں ایک ذہین مرصع ساز کی حیثیت سے پروفیسر محمد اویس جعفری نے
دُرِ نایاب کو اس جرأت سے تارِ تخیل میں پرویاہے کہ ان کا اسلوب حریت فکر
کی پیکار اور ضمیر کی للکار بن کر جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردیتاہے ۔
پروفیسر محمد اویس جعفری نے جوطرزِ فغاں ایجادکی وہی حریت ِ فکر کے مجاہد و
ں کے لیے طرزِ اد ابن گئی ۔موجودہ دور میں انسان شناسی اور حیات پیمائی کے
لیے کسی بھی شخص کی اُنگلیوں کے نشانات پر انحصار کیا جاتاہے ۔اسی طرح کسی
ادیب کی پہچان کے لیے اس کا اسلوب خضرِ راہ ثابت ہوتاہے ۔ قحط الرجال کے
موجودہ دور میں ظالم و سفاک استحصالی عناصر اپنے مکر کی چالوں سے جاہ و
منصب پر غاصبانہ طور پر قابض ہیں ۔وہ طالع آزما ،مہم جُو اور موقع پرست
عناصر جو شریک ِ سفر ہی نہ تھے پس نو آبادیاتی دور میں منزلوں پر ان کا
غاصبانہ تسلط ہو گیا۔ جس وقت فکروخیال کو الفاظ کے قالب میں ڈھالا جاتاہے
توتخلیق کار کی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں تمام حقائق سامنے آ جاتے
ہیں۔تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور سوچ کے انداز کی حقیقی کیفیت اس کے اسلوب
میں دیکھی جاسکتی ہے ۔یہ اسلوب ہی ہے جو کسی تخلیق کار کی کارگہِ فکر کی
عکاسی کرتا ہے ۔ پروفیسر محمد اویس جعفری نے حرص و ہوس کے کچلے ہوئے
استحصالی عناصرپر واضح کیاکہ جس مقام پر ان کی منافقت ،سفاکی،محسن کُشی
،پیما ن شکنی اور انسان دشمنی نے جست کی مظلوم انسانیت نے عزم و ہمت ،صبر
واستقامت اورحوصلے سے کام لے کر اس سے آ گے نکل کر منزلوں کی جستجو جاری
رکھی ہے ۔
دِل سے اوجھل وہ ماہتاب نہیں
ہجر میں ہم کو اضطراب نہیں
اُس کاذِکرِجمیل ہے اِس میں
دِل سے بہتر کوئی کتاب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِثل ِ بَرگِ آوارہ ہم ہیں در بہ در تنہا
اَب بھی راہ تکتے ہیں گھر کے بام و دَر تنہا
مامتا کا موسم تھا پھوار تھی دعاؤں کی
کیسی رُت میں ہم نکلے لے کے بال وپر تنہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُوہی خالق تُو ہی خلّاق ِ عالم
تُو ہی رازق تُو ہی رزّاق ِ اعظم
قدیر و قادر و مختار و اعلیٰ
تُو ہی ہے سب سے برتر سب سے بالا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اسلوب سے پروفیسر محمد اویس جعفری نے تاریخ کے ایک سبق کی طرف متوجہ
کیا ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں ۔گلزار ِہست و بود
میں غرورِ سرو و سمن کی نوعیت لمحاتی ہے۔اگر قاتل تیشے تھامے باغ کے
ساونتوں کے جسم چیرنے والے بھیڑ وں کے جامہ میں نہاں بھیڑیاقماش کے
باغبانوں کی رعونت کایہی حال رہا تو وہ خار و خس جو اِن سے پہلے چمن کے
کرتا دھرتا تھے پھر سے اس چمن کے سیا ہ و سفید کے مالک بن کر یہاں مجبوروں
کے چام کے دام چلائیں گے ۔ اس صریح جھوٹ اور فکر و خیال کی لُوٹ مار پر
گرفت کرتے ہوئے اپنی شاعری میں جبر کے ہر انداز پر گرفت کی ہے ۔ ایک معاملہ
فہم اور تجربہ کار دانش ور کی حیثیت سے پروفیسر محمد اویس جعفری نے اپنی
عملی زندگی کے مشاہدات ،تجربات ،احساسات اورجذبات کونہایت خلوص کے ساتھ
پیرایۂ اظہار عطاکیا ہے۔زندگی کو جوئے شیرو تیشہ وسنگِ گراں سے بھی
تعبیرکیاجاتاہے ۔جذبات کا سیل رواں ہو یااحساسات کا تلاطم شاعرنے ہر مقام
پر اپنی انفردیت کو برقاررکھاہے ۔الفاظ کے خرمن سے خوب صورت الفاظ کے
انتخاب سے پروفیسر محمد اویس جعفری نے اپنی شاعری کو زر نگار بنادیاہے۔زبان
وبیان پر خلاقانہ دسترس اور اظہار وابلاغ پر مسحورکن گرفت نے پروفیسر محمد
اویس جعفری کے اسلوب کو جو نکھار عطاکیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ :
گُل،قفس،صیّاد،گُل چِیں،آشیاں ،گُلشن ،بہار
بیڑیاں ،زِندان،مقتل،حرفِ حق،منصور ،دار
عِشق،صحرا،سنگ،منزل،پاؤں،چھالے،دشت ،خار
سر،جنوں،سودا،اَلم ،آشفتگی،سینہ فگار
آنکھ،کاجل،زُلف،بادل،چاندنی،رُخسار ،یار
وَصل ،آنچل،رنگ ،خوشبو،ناز ،زیبائی ،نِگار
جام ،مینا،مے کدہ ،خُم ،تشنگی ،ساقی ،قرار
کیف،صبا،شوق،مستی،بے خودی،توبہ ،خمار
رَت جگے ،ہم جولیاں ،عہدِ وفا،قول و قرار
رُخصتی،بندھن،پیا،سہرا،مِلن، ڈولی ،کہار
آرسی ،آویزے،پائل،آئینہ ،سولہ سنگھار
چشم ،ترکش،تیغ ،اَبرو،دِل ہدف ،شاعر شکار
یاد،آہٹ ،رات ،فُرقت،یاس ،جاناں ،انتظار
درد،بے تابی،تصور،غم،اُویس، اخترشمار
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد11،شمارہ001 ، جنوری ۔مارچ2008 ء صفحہ241
ایک تخلیق کار اپنے ذ وق سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے سب سے پہلے موزوں
الفاظ کاانتخاب کرتاہے ۔اس کے بعد ان الفاط کو دل کش انداز میں ترتیب دے کر
انھیں حسین جملوں کا روپ عطا کرتاہے ۔ یہی پیرایۂ اظہار در اصل تخلیق کار
کا اسلوب ہے ۔اسلوب کی تشکیل میں پیرایۂ اظہار کوکلیدی حیثیت حاصل ہے جو
دِل فگاروں کو رختِ دِل باندھ کر منزلوں کی جستجو پر مائل کرتے ہیں ۔جہاں
تک مقاصداور مفاہیم کا تعلق ہے ان کی حیثیت ثانوی ہے ۔ذیل میں اسلوب اور
موضوع کے حوالے سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
نثر نگار کے اسلوب کے بالعموم دو انداز ہوسکتے ہیں ۔اِن میں سے ایک کوماتحت
انداز سے تعبیر کیا جاتاہے جب کہ دوسرے کو اضافی انداز قرار دیا جاتاہے ۔
منفرد اسلوب کی حامل ادبی نثر کے جملوں کے ماہر نثر نگار کی حیثیت سے
پروفیسر محمداویس جعفری نے تحریرمیں موزوں الفاظ کے انتخاب کواظہار و ابلاغ
کے لیے نا گزیر قراردیاہے ۔ تخلیق ادب کے حوالے سے ایک ذہین تخلیق کار کے
لیے اس کے تشخص کی بہت اہمیت ہے ۔جہاں تک اسلوب کی انفرادیت اور تشخص کا
تعلق ہے اس میں جوعوامل شامل ہیں ان میں تاریخی حقائق ،جغرافیائی
حالات،زمان و مکاں سے وابستہ ارتعاشات اور فکر و خیال کے تغیرات شامل ہیں ۔
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو تخلیقی فن کار کا اسلوب اپنے ما فی الضمیرکے
اظہار کی ایسی صورت ہے جس میں کئی نسلوں کی تہذیبی اقدار متکلم دکھائی دیتی
ہے ۔لسانی ارتقا ہو یا اصناف ادب کا فروغ دونوں کاتہذیب و ثقافت سے گہر ا
تعلق ہے ۔تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیق فن پر مائل ہوتاہے تو وہ آ ئینہ
ایام میں اپنی ہرادا پر نظر ڈالتاہے۔علم و ادب کی جو درخشاں روایات اسے
میراث میں ملتی ہیں اپنے اسلوب میں وہ انھیں تحفظ دیتاہے اور خوب سے خوب تر
کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے کی سعی کرتاہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی
زدمیں آنے کے بعدادب کے وہ خزینے جو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے یا وہ
تخلیق کار جن کی ادبی کامرانیوں سے وابستہ حقائق ابلقِ ایام کے سموں کی گر
دمیں اوجھل ہوگئے ان پر تحقیقی نظر ڈالنامنفرد اسلوب کے حامل ادیب کی ذمہ
داری ہے ۔
اپنے پسندیدہ موضوع کوپیرایۂ اظہار عطا کرنے کے لیے تخلیق کار جس اسلوب کا
انتخاب کرتاہے اس کی تفہیم کے لیے ارتکازِ توجہ ناگزیر ہے ۔ فکر و نظر اور
گہری سوچ بچار کے بعداپنی تخلیقی صلاحیتوں کو باطن کی خارجی صورت عطا کرتے
ہوئے تخلیق کارکے دل پر جو حالات گزرتے ہیں ان کے بارے میں اطالوی مجسمہ
سازمائیکل اینجلو ( 1475-1565 :Michelangelo ) نے کہا تھا:
’’ مجسمہ سازبُت کو مر مر تراش کر نہیں بناتا بل کہ بُت اِبتدا ہی میں سنگِ
سفید میں موجود ہوتاہے اور جلوہ نمائی کا منتظر اور متقاضی ،استادِ کامل
محض پتھروں کی عارضی چادرکو علاحدہ کر دیتاہے ۔‘‘ (10)
(10 )بہ حوالہ سیّد عابد علی عابد : انتقاد ،ادارۂ فروغ ِ اُردو ،لاہور ،
بارِ اوّل ، 1956، صفحہ 170
روح اورقلب کی اتھاہ گہرائی میں اُتر جانے والی اثرآفرینی اسلوب کی مرہونِ
منت ہے ۔وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومتے وقت افکار کا جو خام مواد دستیاب
ہوتاہے اسے تاثیر سے دو آ تشہ بنا کر کندن بنانا اسلوب کا معجز نما کرشمہ
ہے ۔ حبس کے ماحول میں معاشرتی زندگی کی وضع ایسی بدلی ہے کہ لوگ طورسے بے
طور ہو گئے ہیں،حالات اورسے اور ہو گئے ہیں مگر افق پر کوئی بدلی دکھائی
نہیں دیتی۔ رابن ہڈ،ہلاکو اور چنگیزکے قبیح کردار اور لائق نفرت انسان
دشمنی کووتیرہ بنانے والے ظالم وسفاک اورموذی ومکار اور ابلیس نژاد درندے
مضمحل،مردم گزیدہ اوردرماندہ انسانوں کے سر کاٹ کاٹ کر زمین پاٹ پاٹ کر
دندناتے پھرتے ہیں ۔ یہ ایساعبرت خیز اوراعصاب شکن ا فسانہ ہے جومعاشرتی بے
حسی کامنھ بولتاثبوت ہے ۔ افکارِ تازہ سے مزّین ادب پارے کے اسلوب کا اہم
وصف یہ ہے کہ اس میں حسن و جمال او رفکر و خیال کی عطر بیزی سے قریۂ جاں
معطر ہو جائے اوراس کی تاب وتواں اور کشش قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دے
۔ ادیب جب اپنی تخلیق میں مظلوم انسانیت کاوبال باندھے تو قاری اس کے
مطالعہ کے بعد اپنے دِل میں کئی کئی خیال باندھے ۔ذو معنی الفاظ سے ایہام
پیداکرکے شعر انے اپنے سادہ اسلوب میں بھی ظاہری طبعی حسن اورسراپانگاری سے
سحر نگاری کاسماں باندھاہے ۔ اپنے مضمون ’’ یونس اُمرے ،عظیم تر ک شاعر‘‘
میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے لکھا ہے :
’’چودھویں صدی عیسوی کے اوائل میں جب انا طولیہ کی تُرکی زبان مستندعربی و
فارسی روایات کے زیرِ اثر ادب عالیہ میں نئے نئے گُل کِھلا رہی تھی ،ایک
صوفی منش ،درویشِ خدامست ،فقر کالبادہ اوڑھے ،جنھیں رومی ٔ ثانی کے لقب سے
بھی یادکیا جاتاہے ،ترکی میں شہ نشین ِ ادب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور دِل
کی سادہ و سلیس زبان میں عشقِ حقیقی و انسانی محبت و اخوت کے وہ غیر فانی
نغمے چھیڑتے ہیں کہ ترکی معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگ اُن کے گرویدہ اور ایک
ایسے روحانی سرور سے سرشار ہوجاتے ہیں جس سے وہ اِس سے قبل ناآشنا تھے
۔ترکی کا کوئی بھی شاعرآج تک ایسی سادہ و پُر کار،محاورہ بندی اورروز مرہ
کی دل نشیں زبان میں شعر نہیں کہہ سکا۔اِن کا نام یونس اُمرے ہے ۔یونیسکو
نے اُن کی سات سو پچاسویں سا ل گرہ پر 1991ء کویونس اُمرے کابین الاقوامی
سال قرار دیاتھا۔‘‘
سہ ماہی الاقربا اسلام آباد، سالنامہ ،2014 ء ،جلد 17،شمارہ 1جنوی۔مارچ/
اپریل۔جون2014ء، صفحہ15
اردو نثر میں بے ساختہ شگفتگی اور بے تکلفی کی مظہر ظرافت کاجو ارفع معیار
غالبؔ کے خطوط میں نظر آتاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔زندہ ادب تہذیبی ،ثقافتی
اور معاشرتی اقدار و روایات کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔ایک صاحب
اسلوب ادیب کلاسیکی ادب کے مطالعہ کو اس لیے شعار بناتاہے کہ وہ اسے ہر عہد
میں ذہنی بالیدگی اورفکری تنوع کے لیے ناگزیر سمجھتاہے ۔کلاسیکی ادب کے
دامن میں فکر و خیال ،تہذیب و تمدن اور سماج و معاشرت کے حوالے سے جوگنج
ہائے گراں مایہ موجود ہیں وہ قندِ مکر ر کی صورت میں نئی نسل کے سامنے پیش
کرناضروری ہے ۔اس قسم کے فنی تجربے ادبی جمود کے خاتمے اورذہنی بیداری میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
عرصہ ہائے دہر کے ہنگاموں میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کو شعار بنانے
والاادیب قصہ ہائے فکر و عمل کو نئی تاب و تواں عطاکرتاہے ۔ اسلوب کی ندرت
سے تخلیق کار شیرازۂ اسباب کومنتشرہونے سے بچاتاہے اور متلاطم سمندر سے سر
گرم ِ ستیز رہنے کا حوصلہ عطاکرتاہے ۔وارفتہ نکہتوں کے ہجوم میں کھو کر
اسلوب میں وسعت نظر اورکیفِ کوثر وتسنیم کی نویدلاتا ہے ۔ جدتِ فکر کے
فراوں مواقع اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیتے ہیں۔اس
میں موسیقیت کاآ ہنگ اورحسن و جمال کا سنگ اسے منفرد رنگ عطاکرتاہے ۔ایک
زیرک تخلیق کار کا ناصحانہ اورتدریسی نوعیت کا منفرد اسلوب قاری کے دل میں
ایک ولولۂ تازہ پیدا کرکے نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کاہتمام کرتا ہے
بل کہ فکر ی استعدا د کو صیقل کر کے سعی ٔ پیہم پر مائل کر کے خود اعتمادی
اور احتساب ذات پر مائل کرتاہے ۔ جب قلعۂ فراموشی کے محصور مجبور انسانوں
کی فکر محبوس ہواور ان کی گفتار پر تعزیریں ہوں تو ایسااسلوب سفاک ظلمتوں
میں فروغ ِ نور کے لیے ستارۂ سحر بن جاتاہے اور مہیب سناٹوں بانگِ در ا
ثابت ہوتاہے ۔ ایک تخلیق کار کے پاس اس بات کاصوابدی اختیار ہے کہ وہ
تخلیقِ فن کے لمحوں میں اپنے لیے لائحۂ عمل وضع کرے۔ حریتِ ضمیر سے جینے کے
لیے اسوۂ حسین ؑکو زادِ راہ بنانے والے تخلیق کاروں کی بیاض ِ رخ پر صبحِ
بہاراں کی عطربیز صباحتیں بھی قربان کی جاسکتی ہیں ۔ادیب اپنی آزادمرضی سے
جو کچھ کہنا چاہے اسے اس کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ فضائے فکر و عمل میں
نکھارپیدا ہو ۔ یہ منفرد ا سلوب ہی جو کسی عظیم ادب پارے کو مجموعی اعتبار
سے عمدہ یا فقید المثال معیار کے پیشِ نظر عظیم قرار دینے کا فیصلہ کرنے
میں نقاد کی رہنمائی کرتاہے ۔عمدہ اور عظیم ادب میں اِمتیاز جہاں اوجِ خیال
کا ثمر ہے وہاں اس میں ہئیت کے بہ جائے موادکوزیادہ اہمیت حاصل ہے ۔عظیم
ادب کی تخلیق میں زبان وبیان کے قواعد و ضوابط کو زادِ راہ بناتے ہوئے
اظہار و ابلاغ کے جملہ محاسن کو اسلوب میں جگہ دینا ادیب کی اولین ترجیح
رہی ہے ۔ عظیم ادیبوں نے معاشرتی زندگی کودرپیش مسائل پر توجہ دیتے ہوئے
مادی زندگی کی ہر احتیاج کو بلا تامل اپنی تخلیق کا موضوع بنایا ۔ بنوخزرج
سے تعلق رکھنے والے مدینہ میں پیدا ہونے والے عہدِ رسالت کے عربی زبان کے
مایۂ ناز شاعر حضرت حسان بن ثابت ؓ کی نعتیہ شاعری پر اپنے ایک مضمون میں
پروفیسر محمد اویس جعفری نے اس جلیل القدر صحابی کے حضور عقیدت کے پھول
نچھاور کیے ہیں۔ عربی زبان میں نعتیہ شاعری کے فروغ اور تبلیغِ اِسلام کے
لیے حضرت حسان بن ثابت کی خدمات کو پروفیسر محمد اویس جعفر ی نے قدر کی
نگاہ سے دیکھا ہے ۔علامہ اقبال کی شاعری میں عشقِ رسول ﷺ کو کلیدی اہمیت
حاصل ہے ۔ پروفیسر محمد اویس جعفری کے اسلوب کا قصر عالی شان تاریخ ِ اسلام
سے گہر ی دلچسپی کی اساس پر استوار ہے ۔ توحید، قرآن حکیم اوررسالت سے قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت اُن کے اسلوب کاامتیازی وصف سمجھا جاتاہے ۔یہ
عشقِ رسول ﷺ ہی ہے جس کے فیضان سے ہر پست کوبالا کیا جا سکتاہے۔اس کائنات
میں آفتاب ِ رسالت کی ضیا پاشیوں سے ہر سُواُجالا کیا جا سکتاہے ۔افلاک کا
خیمہ محسن ِ انسانیت کے اِسم ِ مبارک سے ایستادہ ہے اور گلشنِ ہستی کی تمام
رنگینیاں ،رعنائیاں اور حرکت وحرارت حضور ﷺ کی عطا ہیں ۔ پروفیسر محمد اویس
جعفری نے اس موضوع پر اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے :
’’ اقبال کی کِشت ِجاں میں نبی کریم ﷺ سے عشق کی تخم ریزی بچپن کے ماحول
اور تربیت کی مرہونِ منت ہے ۔والد شیخ نور محمدمتقی وپرہیز گار اور صوفیاء
کرام سے عقیدت رکھتے تھے ،اور پھر نامور عالم مولانا سیّد میر حسن جیسے
اُستادنے ایک عبقری ذہن پر جونقوش چھوڑے اس نے اِقبال کوبتدریج شاعر،ساحر
،دانش ور ،مفکر اسلام اور بہ زبان شعر ترجمان قرآن بنادیا۔قرآن فہمی کے
سلسلہ میں یہ شعراقبال ؒ
کے ہم عصر مولانا گرامی ؒ جالندھری سے منسوب ہے:
در دیدہ ٔ معانی نگہاں حضرتِ اقبالؒ
پیغامبر ی کرد و پیمبر نتواں گفت ‘‘
محمداویس جعفری : اقبال ؒ اورعشقِ رسالت مآبؐ،سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد،
جلد 18,،شمارہ 1۔جنوری ۔مارچ/اپریل۔جون 2015ء ،صفحہ132
اردوزبان کے ارتقا میں مشاعروں نے اہم کرداراداکیاہے ۔ پروفیسر محمد اویس
جعفر ی نے اس موضوع پر اپنے ایک مضمون میں لکھاہے کہ تخلیقِ ادب میں مشاعرے
اس لیے اہم ہیں کہ ان میں شرکت کرنے والے شعرا سامعین کے ذوقِ سلیم کومہمیز
کرتے ہیں۔واشنگٹن یونیورسٹی ( شعبہ اردو )نے پروفیسر اویس جعفری کو خطاب کی
دعوت دی ۔ اردو ادب میں مشاعرے کی روایت اُن کایادگارخطاب ہے ۔
لفظ ِ مشاعرہ کے لغوی معنی (( مجلسِ شعر خوانی ‘‘ ہے ۔اوراِس لفظ کا مادّہ
یعنی مصدر’’ مُشاع ‘‘ہے جس کا لغوی مفہوم ہر وہ شے یا عمل ہے جو مشترک ہو
چنانچہ مشاعرہ بھی ایک سے زیادہ افراد یعنی شعرا کے اشتراک عمل کے نتیجے
میں وجود میں آتا ہے ۔اسی طرح شعرا شاعر کاصیغہ ٔ جمع ہے جس کا مادّہ
یامصدر ‘‘ شعر ‘‘ہے جس کے لغوی معنی موزوں و مقفٰی کلام کے ہیں۔‘‘
محمداویس جعفری : سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد ،جلد16،شمارہ3،جولائی
۔ستمبر2013 ، صفحہ 45
ذہن و ذکاوت کے بر محل استعمال سے قواعد پر عمل پیرا ہوکر مقصدیت اورافکارِ
تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی
کا سفر جاری رکھا۔انگریز ی ادب کی عظیم تخلیقات درج ذیل ہیں :
اطالوی ادیب دانتے ( 1265-1321 : Dante Alighieri) کی تصنیف :Divine Comedy
عظیم ادبی تخلیقات میں شامل ہے ۔ انیسویں صدی کے ممتاز بر طانوی ناول
نگارولیم میک پیس تھیکرے( 1811-1863 :William Makepeace Thackeray
)کاتاریخی ناول ہینری ایس منڈ ( Henry Esmond) کو بھی مواد کے معیار اور
تنوع کی بنا پر عظمت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔ انگریزشاعر جان ملٹن (
1608-1674 :John Milton )کی فردو س گم گشتہ (Paradise Lost)،ایسی عظیم
تخلیق ہے جس کا ہر عہد کے ادب میں نشان ملے گا۔ فرانسیسی شاعروکٹر ہیوگو (
1802-1885:Victor Hugo) کے تاریخی ناول کم اذیت ناک ( Les Misérables)
کاشمار انیسویں صدی کی عظیم ادبی تخلیقات میں ہوتا ہے ۔
اُردو ادب میں مرزا اسداﷲ خان غالبؔ (1797-1869)کے دیوان ِ غالب کو عظیم
ادبی تخلیق کا درجہ حاصل ہے۔ جدید دور میں اردو زبان کے ممتاز ادیبوں نے
اپنے اسلوب کی تشکیل میں اردوزبان کے کلاسیکی ادب اور عالمی کلاسیک کا بہ
نظر غائر جائزہ لیاہے ۔ اردو زبان کے ادیبوں نے اظہار و ابلاغ کے داخلی اور
خارجی پہلوؤں پر نگاہیں مرکوزکرتے ہوئے ،ہرقسم کے تصنع کو نظر انداز کرتے
ہوئے سادگی ،سلاست اور بے تکلفی کوشعاربنایاہے ۔کورانہ تقلید سے دامن بچاتے
ہوئے جدت اورتنوع کو زادِ راہ بنانے پر اصرارکیا ہے ۔ موزوں ترین الفاظ کا
انتہائی مستحسن انداز میں استعمال ان کا مطمح نظر رہاہے ۔اس کا مثبت نتیجہ
یہ نکلاکہ اردو زبان نے دنیا کی بڑ ی زبانوں میں اپنی جگہ بنالی ہے ۔اسلوب
کے مطالعہ سے کسی تخلیق کار کے عہد کے حالات معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز
کی تفہیم میں مدد ملتی ہے ۔اسلوب ایک ایسا طرزِ احساس ہے جو کسی بھی مصنف
کے عہد کی تہذیبی و ثقافتی اقدارکا امین بن جاتاہے۔
اپنے معاصرین کے لیے پروفیسر محمد اویس جعفری نے ہمیشہ اچھے خیالات کااظہار
کیاہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں دہلی اور لکھنؤ کی تہذیبی و ثقافتی روایات
اور علمی و ادبی سماجیات کو پروفیسر محمداویس جعفری نے بہت قریب سے دیکھا۔
سال 1995ء میں کیفی اعظمی ( B:14-01-1919 D: 10 -05-2002 )اپنی اہلیہ شوکت
خانم کیفی اعظمی ( (21 October 1926 – 22 November 2019،جاویداختر اور اُن
کی اہلیہ شبانہ اعظمی کے ہمراہ سیاٹل پہنچے تو انسانی زندگی سے گہرا ربط
رکھنے والے اِ ن معزز مہمانوں کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا
گیا۔پروفیسر محمد اویس جعفری نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔پروفیسر
محمداویس جعفری نے اپنے عظیم خاندان کی تہذیبی رویات کے مطابق موضوع کے
تنوع ،خیالات کی نُدرت اور اظہار کی سادگی سلاست اور بے سا ختگی سے قارئین
کواُسی جہانِ معانی سے آشناکیاہے جس کی ہلکی سی جھلک ن۔م۔ راشد کی نظم ’’
تعارف ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے کیفی
اعظمی کا منظوم تعارف ایک ایسی یادگار اور معتبر نظم ہے جس کی تہذیبی
،ثقافتی اور تاریخی اہمیت ہر دور میں تسلیم کی جائے گی :
کیفی اعظمی کا منظوم تعارف
زخم کی بات ہو یا دردکی تفسیر کی بات بوسۂ لب ہو یا بوسۂ زنجیر کی بات
فصلِ گُل لے کے چلا آیابیابانوں میں پُھول مہکائے ہیں تعمیر کے گُل دانوں
میں
اپنی نظم ’ ’کیفی اعظمی کا منظوم تعارف ‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے
عقیدت ،اظہاریت اور تخلیقیت کا جس موثر اندازسے جادو جگایاہے وہ قاری کے
لیے نویدِ سحر کی حیثیت رکھتاہے ۔کیفی اعظمی کا تعارف کراتے وقت پروفیسر
محمد اویس جعفری نے جو الفاظ منتخب کیے ہیں اُن کا کرشمہ دامنِ دِل
کھینچتاہے ۔ تغزل کے جمالیاتی رچاؤکی عطر بیزی سے مہکتے ہوئے اشعار میں
موضوعیت اور معروضیت کے باہم امتزاج سے اشعار کوروح اور قلب کی گہرائیوں
میں اُترجانے والی اثر آ فرینی سے مزین کر دیاگیاہے ۔ آئیے دھنک کے اُس پار
کچھ تراکیب ،مر کبات اور الفا ظ پر ایک نظر ڈالیں :
ماہی ٔ بے تاب ،قُربت ِ ماہتاب،لہجہ کی کھنک،غنچہ کی چٹک،نفرت و بغض و
عداوت کے صنم توڑنا،بگولوں میں چراغ جلانا،دشت میں اُمید کے باغ
مہکانا،ظلمت ِشب میں مہتاب اُگانا ،پاؤں کانٹوں پہ شگوفوں پہ نظررکھنا،رات
کی قبر میں نبیاد ِسحر رکھنا۔
استقبال
تُوجوآیاہے تو اے دِیدہ ورِ فصلِ بہار قافلہ یادوں کا اِک ساتھ لیے آیا ہے
وقت کی گَرد ہٹی ہے جو مرے ماضی سے اِک جہاں ہے کہ جو آ نکھوں میں سِمٹ آیا
ہے
میں اُسی مہر ِ درخشاں کی شعاعوں کا اَسیر تیری دَستار ہوئی فیض سے جِس کے
زرتار
ہے قبا جِس کے ستاروں سے مزّین تیری میں اُسی کاہکشاں زارِمحبت کا شکار
تُو جہاں جام بہ لب مینا بہ کف ہو کے رہا میں اُسی بزم کی صہبا سے ابھی تک
سرشار
وہ کہ اِک دشت ِ جہاں اہلِ جنوں کی میراث سوزِ دِل ،ذہن رسا ،عزم ،شکوہِ
کردار
اِک نشیمن کہ رہی برق نگہباں جِس کی ایک گلشن کہ خزاں جِس کی رہی رشکِ بہار
ایسا گہوارہ کہ شخصیتیں تصنیف ہوئیں درس گہ ایسی تراشے گئے جِس میں شہکار
مہ گساروں کے لیے ساقی ٔمینا بر دوش تشنہ کاموں کے لیے ابرِ کرم بادِبہار
تیری فطرت میں اُسی انجمن ناز کا رنگ حِلم ،آداب،لب ولہجہ،نفاست ،گفتار
جنبش لب سے فروزاں ہو تری مشعلِ شو ق شام مشتاقِ سماعت ہے تمنّا بہ کنار
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد 15،شمارہ3 ،جولائی ۔ستمبر2012 صفحہ 158
پروفیسر منیب الرحمٰن ( علیگ) کی سیاٹل ( امریکہ ) آمدپر یہ نظم اُن کی
نذرکی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد17،شمارہ3 ، جولائی ۔ستمبر2014 صفحہ208
التماس
( مولانا احمدعبدالمجیب قاسمی ندوی کی خدمت میں شکاگو سے سیاٹل منتقل ہونے
اور مقامی مسجد’ الفاروق ‘ میں امامت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست)
سحر سجائیں گے تزئین ِ شام کر لیں گے صبا سے بات گُلوں سے کلام کر لیں گے
جوآپ آئیں تو مہکے روش روش گلشن بہار آ کے نہ جائے وہ کام کر لیں گے
خطاب آپ کریں گے توہم سر ِ محفل سماعتوں کے لیے اِذنِ عام کر لیں گے
اس التماس میں خلوص ومحبت کا جو زمزم بہتا نظرآتاہے وہ قاری کے لیے روح
پرور منظربن جاتاہے ۔عقیدت مند قلوب کا ہم نوا ہوکر دھڑکنا اور قریۂ جاں کی
جانب راہ پیما نگاہوں کاایک ممتاز عالمِ دین کا شدت سے انتظارکرنا قابِل
فہم ہے ۔پروفیسر محمداویس جعفری نے اپنے قلب میں عقیدت کی مشعل فروزاں کر
کے خیالات میں چاہتوں کی جو دنیابسائی ہے وہ اِس نظم کو یادگار بنا دیتی ہے
۔ پروفیسر محمداویس جعفری نے ’’ التماس ‘‘ میں صباسے بات کرنے اور گلوں سے
تکلم کے سلسلوں کا آغاز کرنے کے لیے اشکوں کے تاروں کا بربط اُٹھاکر وادیٔ
خیال میں حیات آفریں نغمات کی کائنات بسانے کی جو تمنا بیان کی ہے وہ اُن
کی قلبی و روحانی کیفیات کی آ ئینہ دار ہیں۔ ’’ التماس ‘‘ پڑھنے کے بعد
قارئین کویقین ہو جاتاہے کہ ماہتاب ِ اُمیدکی سنہری شعاعوں کی خاموش دعوت
سُن کر آفتاب ِعلم ضرور طلوع ہوگا۔
پروفیسر محمد اویس جعفری کی شاعری اُن کی حق گوئی اور بے باکی کا عمدہ
نمونہ ہے ۔ ایک مشرق زادہ اور بِنتِ مغرب کی شادی پر کہی گئی اُن کی نظم ’’
میرے قبیلے میں آنے والی ‘ ‘ ایک خود نوشت کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔اِس
عالم ِ آب و گِل کی وسعتوں اور صحراؤں میں جگ جیون کے جوہر تلاش کرنے والے
حقائق کے رمز آشنا جوہریوں کے جویا بھی رمزِ دروں کی دیوار مشرقی خاندان
میں جب مغرب کے خاندانوں میں پروان چڑھنے والی لڑکیاں کی شادی ہوتی ہے تو
اپنے نوجوان بیٹوں کے روشن مستقبل کی خاطر ضعیف والدین کی چِلّہ کش رہنے
والی سوچیں ہوا کا رُخ پہچان لیتی ہیں اور اُن کا دِل قبیلے میں آنے والی
بہر کی راہ میں بِچھ بِچھ جاتاہے ۔اُن کے دِل کی اِک اِک دھڑکن میں مغربی
تہذیب رچ بس جاتی ہے ۔اپنی نظم ’’ تعارف ‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری نے
شجرہ نسب کے حوالے سے کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے۔نازک رشتوں
اور باہمی تعلقات کی مثال بھی کارگہِ شیشہ گری کی سی ہے۔آہنگ و صوت کے
حوالے سے تعلقات کی نوعیت کو قابل فہم انداز میں پیش کرنے کایہ انداز قابلِ
قدرہے ۔ان نظموں میں آوازوں ،الفاظ اور نحویات سے جو سماں بندھاہے وہ
قارئین کے لیے ایک منفرد تجربہ ثابت ہوتاہے ۔ جُملوں کی ساخت میں الفا ظ و
معانی کا امتزاج زبان وبیان کے نئے سانچے سامنے لاتاہے ۔ ایک زیرک تخلیق
کار کی حیثیت سے پروفیسر محمد اویس جعفری نے اپنے خاندان کے مستقبل کی
اُمید کو محض بصارت کے بجائے بصیرت سے دیکھنے پراصرار کیاہے ۔خوابوں کو
پلکوں پر سجانے کی یہ سعی قاری کو بے لوث محبت کے منفرد رنگ سے متعارف
کراتی ہے ۔یہا ں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :
ہم راز و ہم سفر : مرکبات عطفی ، شریر آ نکھیں : شریر تو صفت ہے جب کہ آ
نکھیں اسم ہیں۔چاند سی دلہن ۔یہاں صنعت تشبیہہ کے ذریعے حُسن پیداکیا گیاہے
۔بلائیں لینا محاورہ ہے ۔ کنجِ دِل ،سلطانِ وقت، دشتِ فردا ،محورِ نظر :
مرکبات ِ اضافی ہیں ۔ شوخ و طّرار،رخسار و چشم و لب ،عنوان و باب مرکبات
عطفی ہیں۔ اس نظم کے مصرعے خواہ وہ حقیقی ہوں یا ماخوذگہری معنویت کے حامل
ہیں۔ اپنی نظم ’’ مر ے قبیلے میں آنے و الی ‘‘ میں پروفیسر محمد اویس جعفری
نے مشرقی خاندان کا حصہ بننے والی مغربی دوشیزہ کو بتایاہے کہ اُس نے جس
نوجوان کو شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ کیاہے اُس نوجوان کی زندگی کے تمام
نشیب وفراز کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی فراہم کرنابہت ضروری ہے ۔کہنے کو
تو اِس اہم نظم کے اکثر اشعار اہلِ جہاں کو سنانے کے لیے لکھے گئے ہیں مگر
واقعتاً یہ پوری نظم نئی نویلی دلھن کو سنانے کی خاطر تخلیق کی گئی ہے ۔
خوابوں کی خیاباں سازیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے شاعرنے کہا ہے کہ اس
نوجوان کی ماں نے اپنے اس چاندکے گھر میں روشنی کے لیے چاندسی دلھن لانے کی
جو تمنا کی تھی وہ آج پور ی ہو گئی ہے ۔اِس خاتون کا حلیہ ،ناز و انداز
اورسلوک دیکھ کر والدین کے سب خوابوں کو تعبیر مِل گئی ہے ۔یہ دُلھن طلوعِ
صبح بہاراں کی نویدثابت ہوئی ہے ۔اِس نوجوان کی شریکِ حیات جب اپنے گھر
پہنچی تومشرقی اقدار و روایات کے مطابق دولھا کی بہنوں نے نئی نویلی دلھن
کی بلائیں لیں اور دولھاکے والدین نے اپنی بہو کوزندگی کانیاسفر شروع کرنے
پر دعائیں دیں۔ اپنے قبیلے کے افرادکی داستان ِحیات کااحوال بیان کرتے ہوئے
پروفیسر محمد اویس جعفری نے جہاں غازیوں کے رجز اور اَذانوں کاذکر کیا ہے
وہاں تہذیب و تمدن اور علم و عرفان کے اُن بیش بہاخزانوں کا حوالہ بھی
دیاہے جو اِس علمی ،ادبی اور متقی خاندان کااعزاز وامتیازہے ۔ انسانیت کے
وقار اور سر بلندی کے لیے اُن کے اسلاف نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو
گراں قدر اور معتبر خدمات انجام دیں اُن کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اُن کے
نام کی تعظیم کرے گی ۔سالہا سال سے شادی بیاہ کی مشرقی روایات جن سے یہاں
کے باشندے نسل در نسل مانوس ہیں اُنھیں ایک نئی سوچ سے مزین کر کے نیاآ ہنگ
عطا کرنا پروفیسر محمد اویس جعفری کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔انھوں نے درخشاں
تہذیبی اور ثقافتی روایات کوزندگی کی حرکت و حرارت سے ہم آ ہنگ کر کے مشرقی
شعریات کو ندرت و تنوع کے جدلیاتی عمل سے ثروت مند بنایا ہے ۔ پس نو
آبادیاتی دور میں اس خطے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور متعدد نئی
ایجادات کے متعارف ہونے سے ایسا اِنقلاب رُونماہواہے کہ فکر و خیال کی
کایاہی پلٹ گئی ہے ۔مشرقی تہذیب کے مطابق نئی نویلی دلھن کی آرائش و زیبائش
کا جو انداز پیشِ نظر رکھا جاتاہے اس نظم میں ایک الگ منظرنامہ سامنے آ
تاہے ۔
تُجھے خبر ہے میرے قبیلے میں آنے والی تُجھے خبر ہے
تُجھے خبر ہے تو آ قریب آ یہ آنکھیں تُجھ کو گلے لگالیں
تُجھے خبر ہے تو آ قریب آ کہ کُنجِ دِل میں تُجھے بسا لیں
دھنک کے رنگوں ،مہکتے پھولوں سے ہم تری پالکی سجا لیں
بہار شہنائیاں بجائے گی ہم اِسے دوش پر اُٹھا لیں
اُفق سے کچھ نُور مانگ لائیں عبائیں دیں پیکرِ حسیں کو
شفق سے لیں سُرخی ٔ حِنا کچھ سجائیں یوں دست ِصندلیں کو
سلونی شاموں سے لائیں کاجل خمار دیں چشمِ سُرمگیں کو
گھٹاؤں کی سب ادائیں دے دیں شِکن شِکن زُلفِ عنبریں کو
نگینے ناہید اور ثریا کے تیرے جُھومر میں آ لگا دیں
کہ تیرے جُوڑے میں ٹانک دیں لا رو پہلی لڑیاں یہ کہکشاں کی
لگا دیں ماتھے پہ کالی بندیا نظر نہ لگ جائے آسماں کی
شریر جھرنوں کا شور چُپکے سے تیری پازیب میں چُھپا دیں
خرام کو ندیوں کاسرگم سِکھائیں سر مستیٔ صبا دیں
جہاں کا حُسن و جمال سار ا قریب آ تُجھ پہ وار دیں ہم
صباحتوں کو نکھار دیں ہم ملاحتوں کو سنوار دیں ہم
میرے قبیلے کے شاعروں کو بُلا کہ بزمِ سخن سجائیں
تُو ہی تو ہے آرزو کا حاصل تُو ہی اَب جنتِ نظر ہے
سیّد منصور عاقل کی ادارت میں اسلام آباد سے شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی
مجلے ’’ سہ ماہی الاقربا ‘‘ کی مجلسِ ادار ت میں پروفیسر محمداویس جعفری
چار عشروں تکشامل رہے ۔اس عرصے میں انھوں نے اس مجلے کومعیار اوروقار کی
رفعت سے آ شناکیا۔انھوں نے عالمی شہرت کے حامل ادیبوں کی تخلیقات کو
الاقربا کی زینت بنایا۔الاقربا کے معاون مدیرکی حیثیت سے اُن کی پہچان یہ
تھی کہ ادبی تخلیقات کی جانچ پرکھ میں کسی رعایت کے قائل نہ تھے ۔پروفیسر
محمداویس جعفری نے لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کو ہمیشہ قدر
کی نگاہ سے دیکھا۔اُن کے نثری مضامین اہم ترین بنیادی مآخذ ثابت ہوتے
ہیں۔شاعری میں وہ جو باتیں کسی حد تک اختصار سے بیان کرتے ہیں جب وہ ان
معاملات کو نثر میں زیر بحث لاتے ہیں تومفصل اور مدلل گفتگو سے اپنی
تحریروں کو جامع بنا دیتے ہیں۔اُن کی نثری تحریریں تحقیق اور تنقید کا اعلا
معیار پیش کرتی ہیں۔اپنی شاعری میں پروفیسر محمداویس جعفری نے اپنی گل
افشانیٔ گفتارسے خوب سماں باندھاہے ۔اُن کی شاعری میں تشبیہات
،استعارات،تلمیحات ،محاورات اورتراکیب کادھنک رنگ منظر دیکھ کر قاری اَش
اَش کر اُٹھتا ہے ۔
اردو ادب میں جہاں تک تانیثیت کا تعلق ہے اردوزبان کے ادیبوں نے خواتین
کومساوی حقوق دینے اور ا‘ن کے احترام پر زور دیاہے ۔ پروفیسرمحمداویس جعفری
کی نظم ’’ سراپا ‘‘میں ایک بھائی کی طرف سے اپنی بہن کو خراج عقیدت پیش کیا
گیاہے ۔بھائی اور بہن کے درمیان خلوص کا جو رشتہ ہے پروفیسر محمداویس جعفری
نے قارئینِ ادب تک اُس کی ترسیل کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے
۔خلوص اوروفا کے امین اس رشتے کی توضیح کرتے ہوئے محمداویس جعفری نے شعوری
کاوش سے اپنے تخیلات، احساسات،جذبات اورتصورات کو جو آ ہنگ عطا کیاہے وہ
اُن کی عظمتِ فکر کی دلیل ہے۔اپنی حقیقی بہن کے ساتھ خلوص اور وفا کا
جورشتہ ہے اُس کو پیشِ نظررکھتے ہوئے پروفیسر محمداویس جعفری نے سماجی
زندگی کے تاریخی اور معروضی حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔اپنے
موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے محمداویس جعفری نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں
تمام ممکنہ لسانی امتیازات اور نفسیاتی حوالوں کواپنے اشعار میں جگہ دی ہے
۔اس نظم میں پروفیسر محمداویس جعفری نے جو ڈسکورس اپنایا ہے و ہ ہر عہدکے
قارئین کے دِلوں کو ایک نیاولولہ عطا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوگا۔ ادب پاروں
کی جمالیاتی قدر و قیمت کے تعین میں دلچسپی رکھنے والے اس نتیجے پر پہنچتے
ہیں کہ پروفیسرمحمداویس جعفری نے اپنی نظم ’’ سراپا ‘‘ میں دِلِ بیناسے
رشتوں کے تقدس کو پرکھنے پر اصرار کیاہے ۔ قلبی و روحانی وابستگی ایک ایسا
سفر ہے جہاں آ نکھ کے نُوراور فہم و فراست کو محض چراغ ِ راہ کی حیثیت حاصل
ہے جب کہ ذوقِ سلیم سے مزیں دِلِ بینا منزلوں تک رسائی کویقینی بناتاہے ۔
رشتوں کے تقدس کا یہی وہ مقام ہے جہاں عقل محوِ تماشائے لبِ بام رہ جاتی
ہے۔ اس نظم میں موزوں الفاظ کے انتخاب سے روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر
جانے والی مسحور کن اثر آ فرینی کا کرشمہ قاری کے لیے سکونِ قلب کا وسیلہ
ثابت ہوتاہے۔
سراپا ( ایک بھائی کابہن کو خراجِ عقیدت)
نظم ’’ سراپا ‘‘پڑھ کر قاری مینائے شفق سے بے لوث محبت،خلوص،وفا ،ایثار اور
دردمندی کی سنہری لہروں کو چھلکتا دیکھ کر دنگ ر ہ جاتاہے ۔ پروفیسر
محمداویس جعفری کے ایوانِ قلب وجگر پر اپنی ہم شیرکی محبت اس طرح چھا گئی
ہے کہ میں اس کی بازگشت سوزِ دِل کی ہم آواز بن جاتی ہے ۔ خارزارِ حیات کے
کٹھن سفر میں جب کوئی دِل گرفتہ اور آبلہ پا رہرو ٹھٹھک ٹھٹھک کے چلتا ہے
تووفاکی لو بھی لرز لرز جاتی ہے ۔ایسے صبرآزماحالات میں بہنیں اپنے بھائیوں
کی غم گساری کے لیے پہنچ جاتی ہیں اور دُکھے دُکھے لہجوں میں اُن کاحال
معلوم کرتی ہیں ۔معاشرتی زندگی میں تہذیب و ثقافت کی ارفع اقدار کو اِس نظم
میں شامل کیا گیاہے ۔ خلوص ،وفا ،ایثار اوربے لوث محبت کے جذبات سے مزین
نظم ’’ سراپا ‘‘ رشتوں کے تقدس کی ابدآشناداخلی کیفیات کی مظہر ہے ۔
گر تخئیل ،تصور تعاون کریں
اورقلم ترجمانی پہ آمادہ ہو
تو پھر میں کروں
فِکر تشبیہ و تلمیح
اور استعارے چنوں
دِل یہ کہتا ہے پھر اِک سراپا لکھوں
جس کاطاری ہے مجھ پر ابھی سے فسوں
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد18،شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر 2015ء ،صفحہ 226
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کا خیا ل ہے کہ عالمی
ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر عہد
میں مفکرین نے وجود زن کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ اپنی شاعری میں انور جہاں
برنی نے دِل کے احوال اِس خلوص سے سنائے ہیں کہ سننے والے لمحاتی فکری
تاثراور بتدریج مجموعی تاثرکی بنا پر زیرِ لب مسکرانے لگتے ہیں ۔ تاریخ کے
ہر دور میں رنگ ، خوشبواور حسن وخوبی کے تمام استعارے وجودِ زن سے منسوب
چلے آرہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے توعصر حاضر میں تانیثیت کو ایک
عالمی تصور کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ علامہ اقبال ؒنے خواتین کے کردار کے
حوالے سے لکھا ہے
وجو د زن سے ہے تصوہر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اِس کی کہ ہر شرف ہے ا ِسی درج کا در
مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن اِسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں (1)
دنیا بھر کی خواتین کے لب ولہجے میں تخلیقِ ادب کی روایت خاصی قدیم ہے ۔ہر
زبان کے اَدب میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے
خاندان کی ادیب خواتین نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ نوخیز بچے کی پہلی تربیت
اور اخلاقیات کا گہوارہ آغوش مادر ہی ہوتی ہے ۔ اچھی مائیں قوم کو معیار
اور وقارکی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیتی ہیں ۔ انہی کے دم سے امیدوں کی
فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے۔یہ دانہ دانہ جمع کرکے خرمن بنانے پر قادر ہیں
تاکہ آنے والی نسلیں فروغِ گلشن اور صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔ خلوص و
دردمندی ،ایثار و وفا،صبر و رضا ، قناعت اور استغنا خواتین کا امتیازی وصف
ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں مغربی اقوام کی سوچ کے زاویے بدل گئے ہیں۔اس لیے
جدید دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظرمیں مثبت اندازِ فکر اپنانا
اور نئی نسل کے لیے قابل عمل لائحہ عمل مرتب کرناخواتین کی اہم ذمہ داری ہے
۔ خواتین ایسی روحانی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھا سکتی ہیں جو ایک مثالی
،قلبی و داخلی نظام کی آ ئینہ دار ہو۔ تانیثیت کی علم بردار اپنے عہد کی
مقبول امریکی شاعرہ لوئیس بوگان(Louise Bogan:1897-1970)نے کہا تھا:
Women have no wilderness in them
They are provident insted
Content in the tight hot cell of their hearts
To eat dusty bread (2)
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے مدلل انداز میں قارئین
کو اس جانب متوجہ کیا کہ فنون لطیفہ اور ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں
با صلاحیت خواتین نے اپنی فقید المثال کامرانیوں کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں ۔ آ
ج تو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بے پناہ استعداد کار سے اقوام
عالم کو حیرت زدہ کر دیا ہے ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خواتین
نے فنون لطیفہ اور معاشرے میں ارتباط کے حوالے سے ایک مضبوط پُل کا کردار
ادا کیا ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کو اس بات کا
قلق رہاکہ آج کے مادی دور میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت نے گمبھیر
صورت اختیار کرلی ہے ۔ ان لرزہ خیز ،اعصاب شکن او رصبر آزماحالات میں بھی
انھوں نے خواتین کو اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی حقیقت سے آشنا
ہونا چاہیے ۔ مجھے یہاں محترمہ قمر وراثت صاحبہ کی شاعر ی کاحوالہ دینا ہے
جنھوں نے اپنی شاعری میں رشتوں کے تقدس کا بھرم قائم رکھاہے اور دعاؤں سے
اُمیدوں کا گلشن مہکا دیاہے ۔ ان شاعرات کا کلام تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی
اور سماجی حوالوں کا ایسا استعارہ ہے جو ہر عہد میں دلوں کو ایک و لولۂ
تازہ عطا کرتارہے گا۔محترمہ قمر وراثت صاحبہ کی جو نظمیں روح اورقلب کی
گہرائیوں اُتر جاتی ہیں اُن میں سے کچھ نظمیں درج ذیل ہیں :
’’ اپنے بیٹے آصف کے نام ‘‘ ، ’’ دعا : میری بیٹی ملیحہ پہ یارب ہو نظر ِ
کرم ‘‘، ’’دعا: اسد،بشریٰ ،اور عظیم کے لیے ‘‘
پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کی جن ممتاز خواتین نے تانیثت کے فروغ کے
لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اُن میں سیما برنی ،انور جہا ں برنی اور
محترمہ قمر وراثت کے نام قابل ذکر ہیں۔ اپنی نظموں میں محترمہ قمر وراثت
صاحبہ نے اپنے عزیزوں ،اولاد اور احباب کے لیے جو دعائیں کی ہیں اُن میں
خلوص اور دردمندی کی فر اوانی ہے ۔ان خواتین کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ
بات واضح ہوجاتی ہے کہ اِن کی شاعرانہ فعا لیت اکتسابی نہیں بل کہ یہ وہبی
نوعیت کی ایسی فعالیت ہے جو کلیت پسندی اور جبریت کے بھاری پتھروں سے تعمیر
کی جانے والی فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین اس بات پر دل گرفتہ تھیں
کہ مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم طبقہ بالخصوص پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے
والی خواتین کو محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔ ظالم و سفاک ، موذی
ومکار استحصالی عناصرنے اپنے مکر کی چالوں سے اُداس نسلیں در بہ در ،بے
خانماں عورتیں خاک بہ سر ، رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ، زندگیاں پرخطر ، آہیں
بے اثر ہو اور گلیاں خوں میں تر کر دی ہیں۔ نے اپنے طرز ِ عمل سے ا س امرکی
صراحت کر دی کہ خواتین نے ہر عہد میں جبر کی مزاحمت کیا،استبداد کے سامنے
سپر انداز ہونے سے انکار کیا ،ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایااور
انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حریتِ ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا
۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا معاشرہ
بالعموم مردوں کی بالادستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے ۔اس قسم کے ماحول
میں جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات اور مسابقت کے لیے انتھک جدو جہد
کرنا پڑے ،خواتین کے لیے ترقی کے یکساں مواقع تخیل کی شادبی کے سوا کچھ
نہیں ۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب
خواتین جیسی جری،پر عزم اور اہل وطن سے والہانہ محبت کرنے والی خواتین کی
فکری کاوشیں سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر کے مانند ہیں۔انھوں نے کٹھن حالات
میں بھی حوصلے اور امید کا دامن تھا م کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا جو
عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گرش لیل و نہار بھی قرار دیا۔آج ہم دیکھتے
ہیں کہ ہر شعبہ ٔ زندگی میں خواتین بھرپور اور اہم کردار ادا کر رہی ہیں
۔عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی
زندگی کے جملہ موضوعات پر ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اشہبِ قلم کی
جو بے مثال جو لا نیاں دکھائی ہیں ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے
امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کی خالہ زاد
بہن فرخ ہاشمی( مرحومہ ) کی ایک نعت سے چنداشعار پیش ہیں:
کرم ہے ترا مجھ پہ اے ربِ کعبہ کہ عشقِ محمد ﷺ کے گُن گا رہی ہوں
لبوں پر جو ہے ترجمانِ تمنا،میں اُس نعت سے دِل کو گرما رہی ہوں
شفاعت پہ گو اُن کی ہے ایمان میرا،بھروسہ ہے اُن کی کرم پروری پر
مگر میں ہوں نادم گناہوں پہ اپنے اوراپنی خطاؤں پہ شر ما رہی ہوں
تانیثیت کو پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے ایک ایسی
مثبت سوچ،مدبرانہ تجزیہ اور دانش ورانہ اسلوب سے تعبیر کیا جس کے اہداف میں
خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو
یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ایسے حالات پیدا کیے جائیں
کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروانِ ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں
کے شانہ بہ شانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں ۔روشنی کے اس سفر میں انھیں
استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا
ہے ۔ایک فلاحی معاشرے میں اس با ت کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تما
م افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے
مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی
،حریتِ فکر،آزادی ٔ اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر
اصرار کیا ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کو اس بات پر
گہری تشویش تھی کہ فکری کجی کے باعث بعض اوقات تانیثیت اور جنسیت کو خلط
ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اورجنسیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بل
کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔
تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی ،ثقافتی،معاشرتی
،سیاسی ،عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور
انھیں مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔اس میں خواتین
کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔
مسرت جعفری ( سیاٹل امریکہ )
رحمتوں کی گھٹا ،اَے شہہ ِانبیأ ﷺ
عِشق کی انتہا،اَے شہہِ اَ نبیأﷺ
آپ ؐ جود و سخا ،آپؐ لطف و کرم
میں خطاہی خطا،اَے شہہ اَنبیأ ﷺ
ہاتھ خالی ہیں داماں بھی خالی مرا
آ پ عطا ہی عطا،اَے شہہ ِاَنبیأ ﷺ
ہیں مزمل ،مدثرو شمس الضحیٰ
اور بدرالدجٰی،اَے شہہ ِ ا َ نبیأ ﷺ
اِک کرم کی نظر ،خاکِ پا کی قسم
حاصلِ دو جہاں ،اَے شہہ ِ اَنبیأ ﷺ
روشن آپؐ سے ہے مری کنج ِجاں
آفتابِ ہدیٰ ،اَے شہہ ِ اَنبیأ ﷺ
ہے مسرتؔ کوبس آپ کا آسرا
ہر نفس ہر قدم ،اے شہہ ِ اَ نبیأ ﷺ
عالمی ادب اور تانیثیت کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ
یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھااوراس میں مد و جزر
کی کیفیت سامنے آتی رہی ۔ جمود کے ماحول میں یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے
مانند تھی۔ اس کی دوسری لہر 1960میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں
دیکھے گئے۔ان تما م حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا
اپنے پیچھے جو کچھ چھوڑ گیا اس کا لب لبا ب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی
کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے ۔ پروفیسر
محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کا کہنا ہے کہ تاریخی تناظر میں
دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تویہ بات ایک
مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے
خواتین کوجس عزت ،تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال
نہیں ملتی۔تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک
اسلامی معاشرے میں خواتین کے مقام اور کردار کا حقیقی انداز میں تعین کیا
جا چکا تھا۔اس عہد میں مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر
رہی تھیں ۔اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع اور
منصفانہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی ۔آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار
ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے ۔
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین اس بات سے مطمئن تھیں کہ
نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بر صغیرپاکستان و بھارت میں تانیثیت کے
حوالے سے تنقیدی مباحث روز افزوں ہیں ۔پس نوآبادیاتی دور میں اس خطے کی
خواتین تیشہ ٔ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کر تی نظر
آتی ہیں۔ایسے تمام تار عنکبوت جو کہ خواتین کی خوش حالی اور ترقی کے اُفق
کو گہنا رہے ہیں انھیں نیست و نابود کرنے کا عزم لیے اِس خطے کی خواتین
اپنے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردینے کی صلاحیت سے
متمتع ہیں ۔ان کا نصب العین یہ ہے کہ انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے
توقیری کرنے والے اجلاف و ارزال اور سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھانے میں
کبھی تامل نہ کیاجائے اور ایسے ننگ انسانیت درندوں کے قبیح کردارسے اہلِ
درد کو آگاہ کیا جائے ۔ یہ صور تِ حال پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی
ادیب خواتین کے لیے حوصلے اور امید کی نقیب تھی کہ تانیثیت نے تمام خفاش
منش عناصر کو آئینہ دکھا یا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کیا ہے
۔تانیثیت کا دائرہ کار تاریخ ،علم بشریات، عمرانیات ،معاشیات،ادب ،فلسفہ
،جغرافیہ اور نفسیات جیسے اہم شعبوں تک پھیلا ہوا ہے ۔تانیثیت میں تحلیل
نفسی کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔تانیثیت کے مطابق معاشرے میں
مرد اور عورت کو برابری کی سطح پر مسائل زیست کا حل تلاش کرنا چاہیے اوریہ
اپنے وجود کا خود اثبات کرتی ہے ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی
ادیب خواتیناپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتی تھیں کہ
تانیثیت نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد ،استحصال ، جنسی جنون اور ہیجان کی
مسموم فضا کا قلع قمع کرنے اور اخلاقی بے راہ روی کو بیخ و بن سے اُکھاڑ
پھینکنے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا و ہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے
۔زندگی کی اقدارِ عالیہ کے تحفط اور درخشاں روایات کے قصرِ عالی شا ن کی
بقا کی خاطر تانیثیت نے ایک قابل عمل معیار وضع کیا جو کہ خواتین کو حوصلے
ا ور اعتماد سے آگے بڑھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے ۔اخلاقی اوصاف کے بیان میں
بھی تانیثیت نے گہری دلچسپی لی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ قدر ت کا ملہ نے بر صغیر
کی خواتین کونہایت فیاضی سے ا ن اوصاف سے متمتع کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ
قدرتی عنایات کا دل نشیں انداز میں بیان بھی اس کا امتیازی وصف ہے۔ان فنی
تجربات کے ذریعے جدید اور متنوع موضوعات سامنے آئے اورنئے امکانات تک رسائی
کو یقینی بنانے کی مساعی کا سلسلہ چل نکلا۔
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کے اسلوب کا مطالعہ کرنے
سے اس بات پر پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ قدر ت کے اس وسیع نظام میں جمود اور
سکون بہت محال ہے ۔زندگی حرکت اور حرارت سے عبارت ہے ۔کسی بھی عہد میں
یکسانیت کو پسند نہیں کیا گیا اس کا سبب یہ ہے کہ یکسانیت سے ایک مشینی سی
صورت حال کا گمان گزرتا ہے۔اس عالم آب و گل میں سلسلہ ٔ روز وشب ہی کچھ
ایسا ہے کہ مرد اور عورت کی مساو ی حیثیت کے بارے میں بالعموم تحفظات کا
اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تانیثیت نے اس اہم موضوع پر توجہ مرکوز کرکے بلا
شبہ اہم خدمت انجام دی ۔شامِ اَلم ڈھلتی ہے تو دردکی ہوا چلتی ہے ایسے عالم
میں گنبد ِ افلاک کی کہکشاں پر ستاروں سے باتیں کرنے والے اپنے محفل کے
چاند اورستاروں کی یاد میں کھو جاتے ہیں ۔فاطمہ برنی نے اپنی نظم ’’ امّی
کی جائے نماز ‘‘ میں ایّام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کی ہے۔یہاں یہ سوال
پیدا ہوتاہے کہ ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق میں خونِ جگر سے درج کی گئی
حقیقت ہی جب حکایت میں بدل جائے تواِن نشانیوں کی اہمیت کون سمجھے گا؟
امّی کی جائے نماز
فاطمہ برنی
یہ میری امّی کی اِک نشانی
جو میری آ نکھوں کی روشنی ہے
کہ اُن کی عمر گریز پا کی ہے اِک کہانی
نظرسے اوجھل ہیں لاکھ لیکن
مرا تصور دکھا رہاہے
علم بشریات میں دلچسپی رکھنے والے ادیب جانتے ہیں کہ اپنی ماں سء قلبی
وابستگی اولادکی جبلت میں شامل ہے اپنی والدہ سے محبت اور عقیدت کے جذبات
اُن کی مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف ہیں۔تہذیب و تمدن ،معاشرت اور ثقافت کے
یہ انداز ہر عہد میں لائق تحسین سمجھے گئے ہیں۔
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتیننے تانیثیت پر مبنی
نظریے(Feminist Theory)میں خواتین کو مژدۂ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور
بند غم سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔زندگی تو جوئے شیر،تیشہ اور سنگ
گراں کا نام ہے ۔عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا،زندگی کی حیات آفریں اقدار
کو پروان چڑھانا،خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا،ارتقا کی جانب گامزن
رہنا،کامرانی اور مسرت کی جستجو کرنا،اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا،حریت
فکر اور آزادیٔ اظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا، تخلیقی فن کار
کی انا اورخودداری کا بھرم بر قرار رکھنااور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات
کرنا خواتین کا اہم ترین منصب ہے ۔تانیثیت نے افراد،معاشرے ،علوم اور جنس
کے حوالے سے ایک موزوں ارتباط کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ممتاز نقاد ٹیری
ایگلٹن (Terry Eagleton)نے لکھا ہے :
"Feminist theory provided that precious link between academia and
society as well as between problems of identity and those of political
organization ,which was in general harder and harder to come by in an
increasingly conservative age."(3)
تانیثیت کو ادبی حلقوں میں ایک نوعیت کی تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔اس
کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی
خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے ۔اد ب اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں انھیں
تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں ۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں
کہ مغرب میں تانیثیت کو سال 1970میں پزیرائی ملی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
یورپی دانش وروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی ۔اس طرح رفتہ
رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری آگہی کے مظہر
نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔ سال1980کے بعد سے
تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی
اہمیت پر زور دیا گیا۔اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش
کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع
ادستیاب ہوں ۔ بھارت میں پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین
اور ان کی ہم خیال خواتین نے تانیثیت کے فروغ کے لیے بے مثال جد و جہد کی
اورخواتین کو ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ
کرنے کی راہ دکھائی۔ان کا نصب العین یہ تھا کہ جذبات ،تخیلات اور احساسات
کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی
ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور
اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو
سکے ۔اس عرصے میں تانیثیت کی باز گشت پوری د نیا میں سنائی دینے لگی ۔خاص
طور پر فرانس ،برطانیہ ،شمالی امریکہ ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا
میں اس پر قابل قدر کام ہوا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں
بولنے اور سننے والوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصۂ شہود
پر آیاجس میں خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا ۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر یہ حقیقت
فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں خلوص، ایثار،مروّت ،محبت اور
شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے ۔تانیثیت نے
نسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیہ ٔ
خداوندی ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے
یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف
عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنی تسبیح ِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے
وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے
تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی
ہے ۔موضوعات ،مواد ،اسلوب ،لہجہ اور پیرایہ ٔ اظہار کی ندرت اور انفرادیت
نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔تانیثیت کا اس امر
پر اصرار رہا ہے کہ جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی
سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل ،فی الفوراور بلا
واسطہ انداز میں پیش کر دی جائے ۔اس نوعیت کی لفظی مرقع نگاری کے نمونے
سامنے آتے ہیں کہ قاری چشم تصورسے تمام حالات کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔تیسری
دنیا کے پس ماندہ ،غریب اور وسائل سے محروم ممالک جہاں بد قسمتی سے اب بھی
جہالت اور توہم پرستی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ،وہاں نہ صرف خواتین بل کہ
پوری انسانیت پر عرصہ ٔحیات تنگ کر دیا جاتا ہے ۔ دنیاکے کچھ پس ماندہ
ممالک میں راجہ اندر قماش کے مسخرے خواتین کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ان
ہراساں شب و روز میں بھی خواتین نے اگرحوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی
ہے تو یہ بڑے حوصلے کی بات ہے ۔خواتین نے ادب،فنون لطیفہ اور زندگی کے تمام
شعبوں میں مردوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کی کورانہ تقلید کی مہلک روش
کو اپنانے کے بجائے اپنے لیے جو طرز فغاں ایجاد کی بالآخر وہی ان کی طرز
ادا ٹھہری ۔جولیا کرسٹیوا ( Julia Kristeva)نے اس کے بارے میں لکھا ہے :
"Truly feminist innovation in all fields requires an understanding of
the relation between maternity and feminine creation"(4)
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے مردوں کی بالادستی اور
غلبے کے ماحول میں بھی حریت فکر کی شمع فروزاں رکھی ااور جبر کا ہر انداز
مسترد کرتے ہوئے آزادیٔ اظہار کو اپنا نصب العین ٹھہرایا۔ان کی ذہانت،نفاست
،شائستگی ،بے لوث محبت اور نرم و گداز لہجہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف
قرار دیا جا سکتا ہے ۔انھیں اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے
کا قرینہ آتا تھا ۔ان کی سدا بہا رشگفتگی کا راز اس تلخ حقیقت میں پوشیدہ
ہے کہ معاشرتی زندگی کو ہجوم یاس کی مسموم فضا سے نجات دلائی جائے اور ہر
طرف خوشیوں کی فراوانی ہو ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پروفیسر محمداویس
جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کی تخلیقی تحریروں میں پائی جانے والی زیرِ
لب مسکراہٹ ان کے ضبط کے آنسووئں کی ایک صورت ہے ان کا زندگی کے تضادات اور
بے اعتدالیوں پر ہنسنا اس مقصد کی خاطر ہے کہ کہیں عام لوگ حالات سے دل
برداشتہ ہو کر تیر ستم سہتے سہتے رونے نہ لگ جائیں ۔تانیثیت کے حوالے سے
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے صنفِ نازک کے مزاج
،مستحکم شخصیت اور قدرتی حسن و خوبی کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ دی ۔قدر تِ
کاملہ نے پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین کو جن فکری
بصیرتوں ، صلاحیتوں ، اور دل کشی سے نوازا ہے اس کا بر ملا اظہار ان کی
تحریروں میں نمایاں ہے ۔ان کی تحریریں ایسی دل کش ہیں کی ان کی اثر آفرینی
کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔جمالیاتی احساس اور نزاکت بیان کے ساتھ جذبوں
کی تمازت ،خلوص کی شدت ، بے لوث محبت ،پیمان وفا کی حقیقت اور اصلیت اور
لہجے کی ندرت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تخلیقات کے سوتے حسن فطرت
سے پھوٹتے ہیں ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے ان
موضوعا ت کو بھی اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے جو خواتین کی ذات سے تعلق رکھتے
ہیں اور عام خواتین ان پر کچھ نہیں کہتیں ۔ پروفیسر محمداویس جعفری کے
خاندان کی ادیب خواتین کی طرح فرانس سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ،ڈرامہ نگار
،تانیثیت کی علم بردار،فلسفی،ادبی نقاداور ممتاز ماہر ابلاغیات ہیلن سکسوس(
: B, 5 th June 1937 Helene Cixous)نے اس موضوع پر جرأت مندانہ موقف اپنانے
پر زور دیا ہے اور خواتین کے جسمانی حسن ،جنس ،جذبات اور احسات کے اظہار کے
حوالے سے لکھا ہے:
"Write youself ,your body must be heard " (5)
تانیثیت کے موضوع پرمحترم پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین
کے خیالات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ تانیثیت کی اس صد
رنگی ،ہمہ گیری ،دل کشی اور موضوعاتی تنوع کے متعلق ما رکسزم ،پس نو
آبادیاتی ادب،ادبی تنقید اور تانیثیت پر وقیع تحقیقی کام کرنے والی کلکتہ
یونیورسٹی ( بھارت) اور امریکہ کی سال 1865 ء میں قائم ہونے والی کارنل
یونیورسٹی(Cornell University) اور سال 1754میں قائم ہونے والی کو لمبیا یو
نیورسٹی(Columbia University) امریکہ میں تدریسی خدمات پر مامور رہنے والی
بھارت کی ممتاز ادبی تھیورسٹ گائتری چکراورتی سپی واک (:B,24-02-1942
Gyatri Chakaravorty Spivak ) نے لکھا ہے :
Feminism lives in the master -text as well as in the pores.It is not
determinant of the last instance.I think less
easily of changing the world,than in the past." (6)
جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب
خواتیننے استبدادی طاقتوں کے بارے میں جو نظمیں لکھیں وہ گہر ی معنویت کی
حامل ہیں ۔اپنی شاعری میں پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین
نے جو منفرد لہجہ اپنا یا ہے ۔ان کی شاعری کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح
ہوجاتی ہے کہ خواتین کے بارے میں یہ نظمیں عام روش سے ہٹ کر لکھی گئی ہیں
۔پس نو آبادیاتی دور میں عالمی ادب میں تانیثیت کی جو آوازسنائی دیتی ہے
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کی ادیب خواتین نے اس سے اثرات قبول کیے
ہیں ۔اُن کی گل افشانیٔ گفتار جہاں ان کے غیر متزلزل رویے اور غیر معذرت
خواہاں اسلوب کی مظہر ہے وہاں افکارتازہ کی مشعل کو تھام کر جہان تازہ کی
جانب سرگرم سفر رہنے کی تلقین بھی ہے ۔ مختلف ادب پاروں میں ان تخلیق کار
خواتین نے صنف ِ نازک کے جسمانی خد و خال اور جذبات و احساسات کی لفظی مرقع
نگاری کرتے ہوئے جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل توجہ ہے ۔ ان شاعرات
نے یہ تمنا ظاہر کی ہے کہ کاش خالقِ کائنات کبھی مجبور خواتین سے بھی یہ
پوچھ لے کہ اس کائنات میں تم پر کیا گزری ۔
تصویر
مر ے دِل کے نہاں خانے میں اِک تصویر ہے میری
خدا جانے اِسے کس نے بنایا، کب بنایا تھا
یہ پو شید ہ ہے میرے دوستوں اور مجھ سے بھی
کبھی بُھولے سے لیکن میں اِسے گر دیکھ لیتی ہوں
اِسے خود سے مِلاؤں تو مِرا دِل کانپ جاتاہے
اجل کے بے رحم ہاتھوں نے گلشنِ علم و اَدب سے ایسی شگفتہ کلیاں اورپھول
توڑلیے جن کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قلزم کرب کی
غواصی کر کے صبرو شکر کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرنے والی نیک دِل خواتین
چپکے سے اپنی باری بھر کر چل دیں اور بے حِس دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی
۔اپنی زندگی میں انور جہاں برنی اور سیما برنی نے اپنے زمانے سماجی ،تہذیبی
،ثقافتی اور معاشرتی زندگی کو سدا پیشِ نظر رکھا۔ وہ خدا ترس خواتین رخصت
ہو گئیں جنھوں نے گھر گھر تانیثیت کی آواز پہنچائی ۔ یہ خداترس خواتین ایسی
خواتین کے پاس مرہم بہ دست پہنچتی تھیں جن کا کوئی پرسانِ حال ہی نہ تھا۔
مظلوم اور دُکھی انسانیت کے لیے خلوص، وفا اور ایثار کی صدا لگانے والی
ایسی مخلص خواتین اُن مجبور خواتین کے پاس پہنچتیں جو آلام ِروزگار کے مہیب
پاٹوں میں پسنے کے باوجود زندگی بھر کاسۂ عجز تھامیاپنی اَناکا بھرم قائم
رکھتی ہیں ۔معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور اطراف و جوانب کے حالات پر
نظر ڈالیں تو دُور دُور تک کوئی ایسا چارہ گر دکھائی نہیں دیتاجس میں اِس
خلا کو پُر کرنا تو بہت دُور کی بات ہے اِن خواتین جیسی قناعت و استغنا کی
ہلکی سی جھلک بھی دکھائی دے ۔ کس کس کی دائمی مفارقت پر آہ و فغاں کی جائے
اور کس جگر گوشے کے سانحۂ ارتحال پر جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے آنسو
بہائے جائیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے اتنے ستارے ڈُوب گئے کہ اب ہر طرف سفاک
ظلمتیں مسلط ہو گئی ہیں۔انور جہاں برنی اور سیما برنی کی جدائی میں دیدۂ
گریاں اس طرح اُمڈ آئی ہے جیسے کہیں دریا اُبلنے لگے ہیں ۔دائمی مفارقت
دینے والی اِن محترم خواتین ے وابستہ یادوں کے نگارخانے پرنظر ڈالتاہوں تو
جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے تکلم کے سبھی سلسلے اُن تک پہنچتے ہیں اور فضاؤں
میں اُن کی یادیں پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔
انور جہاں برنی اور سیما برنی جیسیدائرۃ ا لمعارف کاافق علم و ادب سے غروب
ہو جانا ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ان کی کمی سے جو ناقابلِ تلافی نقصان ہواہے
اُس کے بارے میں سوچتا ہوں تو اَجل کے ہاتھوں متاعِ زیست کے زیاں کااحساس
بڑھنے لگتا ہے ۔ انور جہاں برنی اور سیما برنی نے ہمیشہ سوانح نگاری کی
اہمیت پر زور دیاوہ کہا کرتے تھے کہ گُل چین ِ ازل جب گلشن سے غنچے ،پھول
اور کلیاں توڑ کر انھیں مٹی میں ملا دیتاہے تو اس سانحہ کو سوانح نگار خونِ
دِل میں انگلیاں ڈبوکر پیرایۂ اظہار عطا کرتاہے ۔ کوہِ ندا سے یااخی کی
صداسُن کر عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِسفر باندھنے والے چاند چہرے شبِ فرقت پہ
وارے گئے۔ راہ رفتگاں کی طرف دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جا سکتاہے یہ ایسے
لوگ تھے جنھوں نے گردشِ ایام کے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر
دیااور نتائج سے بے پروا ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ زندگی سود و زیاں کے
اندیشے سے بر تر ہے ۔ شکستہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کاارادہ
ہوتوروحانی عقیدت ،بے لوث محبت اورقلبی وابستگی کے ہزار ہا پہلو ہیں۔ انور
جہاں برنی اور سیما برنی نے یہاں اپنے سب عزیزوں کو دیکھا تواطمینان
کااظہارکیا۔
سوگوار خاندان کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کرنے والے آبلہ پا مسافر وں کو قدرت
ِ کاملہ کی طرف سے وسعت ِ صحرا جیسے ظرف سے متمتع کیا گیاہے۔ انور جہاں
برنی اور سیما برنی کی دائمی مفارقت کی خبر سُن کر سکوتِ دشت میں بھی ایک
ارتعاش سا آ گیاہے اور جورِ چرخ نے پس ماندگان کو پامال کر دیاہے ۔ مہر و
وفاکے دشت نوردوں کو یہ بات معلوم ہے پس ماندگان کوبھی کنعاں جیسی کیفیت کا
سامناہے ۔اس وقت دِل وجگر میں جو غم سماگیاہے محسوس ہوتاہے کہ سورج سوا
نیزے پر آگیاہے اور سرپر کوئی سائباں بھی نہیں۔کسی اور صدمے میں اتنی خلش
پنہاں نہیں جتنی ان عزیزوں کے صدمے سے پہنچی ہے ۔طوفانِ حوادث نے اُمنگوں
کے راستوں کو ڈھک دیاہے اور سیل ِ زماں نے ہماری اُمیدوں کے سفینے ڈبودئیے
ہیں۔ ایسے صدموں پر رفتگاں کی پیہم خاموشیوں کا دردشناسا دُور دُور تک نظر
نہیں آتا۔ عالمی شہرت کے حامل عبقر ی دانشور پروفیسرا ویس جعفری نے سد الفظ
کی حرمت کا خیال رکھاہے اور ان ادیب خواتین کا کلام محفوظ کر کے سوگوار
خاندان کو میری کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ اس خاندان سے انور جہاں برنی اور
سیما برنی جیسے زیرک ،سعادت مند،خوش اخلاق اور با کردار قلم کار خواتین کے
اُٹھ جانے کی خبر سُن کر دِل بیٹھ گیا۔ ایسے لرزہ خیز سانحات پر ضبط کی
کٹھن راہوں سے گزرنے والے جانتے ہیں کہ جی کڑا کر کے دِل پر صبر کی سِل
رکھنابہت کٹھن مرحلہ ہے ۔کسی معاشرے کاشرافت کے ماحول میں پروان چڑھنے والی
ایسی خواتین سے محروم ہو جانا ایسا بُرا شگون ہے جس کے نتیجے میں وہاں ہر
سُو بے برکتی کاعفریت منڈلانے لگتا ہے۔مہیب سناٹوں ،سفاک ظلمتوں اور جانگسل
تنہائیوں میں بسر کی جانے والی بے مقصد اور ناکام زندگی تو موت سے بھی کہیں
بڑھ کر الم ناک اور بھیانک ہوتی ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے پیارے پیارے
لوگ ہماری بزم ِ وفاسے اُٹھ گئے اور ہماری آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ
گئیں۔ اس دنیا کے آئینہ خانے کو غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس
کائنات میں ہر چیز راہِ رفتگاں پر چل رہی ہے اور تیزی سے اپنی آخری منزل کی
طر ف بڑھ رہی ہے ۔رستوں کے سلاخچوں کو تھام کر روشن مستقبل کے خواب دیکھنے
والے بے عملی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آغاز سفر میں جب ہم ہری بھری فصلوں
،کھیتوں اور کھلیانوں کے کنارے دو رویہ کھڑے سایہ دار اشجار ،بور لدے
چھتنار اور بانکے پہرے دار دیکھتے ہیں توہم سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ قدرتِ
کاملہ نے ہمیں آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کا مناسب انتظام کر
رکھا ہے ۔ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ خود دُھوپ
میں جل کر دوسروں کو خنک چھاؤں فراہم کرنے والے، پُھولوں اور پھلوں سے لدے
یہ نخل ِ تناور بدستور وہاں موجو درہیں گے اور اپنی مسافر نوازی کا سلسلہ
جاری رکھیں گے۔سمے کے سم کے ثمر سے کون انکار کر سکتا ہے ،تقدیر جب ان
اشجار کو فنا کے ایندھن کے لیے کاٹ کر گراتی ہے تو وقت کے قاتل تیشے ان
ساونتوں کے اجسام کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔کتاب زیست کا یہی ورق عبرت کا سبق
قرار پاتا ہے۔ ہم سب دعا کے لیے جنت سے یہاں پہنچے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ
وہ معجزہ جودعادکھاسکتی ہے وہ کسی چارہ گر یا رفو گر کے بس کی بات نہیں۔اس
وقت پس ماندگان جس صدمے اور کر ب میں مبتلاہیں اُس سے بچنے کے لیے دعا کی
ضرورت ہے ۔ انور جہاں برنی اور سیما برنی کے پس ماندگان سے میری یہی التجا
ہے کہ دعا کاوقت ہے اس لیے پیہم دعاکیے جائیں۔پروفیسر اویس جعفری اور ان کی
اہلیہ ،اُن کی اولاد گھر میں موجود ہے جو یادوں کے اِس خرمن کوسنبھال سکتے
ہیں ۔آلامِ روزگارکی تمازت میں دردمندوں کو خنک چھاؤں بخشنے والے اس نخل ِ
تناور کوخالقِ کائنات ہمیشہ تروتازہ اور ہرا بھرا رکھے ۔ محترم پروفیسر
اویس جعفری کے لیے ہم سب دِل سے دعا کرتے ہیں۔ ہم اشک بار آ نکھوں سے دعا
کرتے ہیں کہ خزاں رُتوں میں بھی یہ گلاب کِھلاکِھلاہی دکھائی دے ۔ ہمیں
یقین ہے کہ نیک لوگوں کی دعاؤں کاسایہ اِس خاندان کوقضاکے گڑھے سے محفوظ
رکھے گااوراس خاندان کے روشن مستقبل کی منزلیں بارور ہوں گی۔ ہمارے پاکیزہ
احساس اور نیک جذبات کی لہریں مایوسی کے بھیانک تاریک جزیروں سے ٹکراکر دِل
شکستگی اور جسمانی خستگی کی سنگین فصیلوں کومنہدم کردیں گی۔اگرچہ ہمارے
الفاظ نا مکمل ،التجا غیر واضح ،عجز و انکسار اورگریہ و زاری بہت کم ہے مگر
اُس کریم کے دربار میں کی گئی دعا کے باریاب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے
گا۔ میری دعاہے کہ اﷲ کریم اس خاندان کے نو جوانوں کو ایسے اعتماد سے نوازے
کہ وہ طوفانِ حوادث کے بَل نکادیں۔ہمیں یقین
ہے کہ عرشِ بریں سے ہماری آ ہوں کاجواب بہت جلد آ ئے گا اور بہت جلد انور
جہاں برنی اور سیما برنی کا گھرانہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے
گا۔ میری دعاہے کہ انور جہاں برنی اور سیما برنی اور اُن کے سب پس ماندگان
کے گلشن میں وہ فصلِ گُل و لالہ اُترے جو اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہو۔ اس
سدا بہار اور فیض رساں گلشن میں جو پھول کھلیں وہ ہر عہد میں کھلے ہی رہیں
اور اس گلشن میں خزاں کو گزرنے کی مجال نہ ہو ۔امریکہ میں اس خاندان کی کشت
میں جوسبزہ اُگے اُس کی بے مثال شادابی اور ہریالی ہر زمانے میں بر قرارہے
۔اس گلشن میں ابرِ رحمت چھاجائے اور گنگھور گھٹائیں اس طرح برسیں کہ جل تھل
ایک ہو جائے اور نشوو نما اور روئیدگی کا سلسلہ جاری رہے ۔ زندگی کے نظام
میں آلام کی پیداکردہ بر بادیاں دیکھ کر آ نکھیں بدلیوں کے مانندبرسنے لگتی
ہیں۔آہ ! اس بے ثبات کائنات میں قلب تو روتے ہیں مگر لبوں پر مسکراہٹ رہتی
ہے اِس خاندان کے تمام افراد کو عز ت ،تکریم ،وقار اور سر بلندی کے بلند
ترین آفاق تک رسائی حاصل ہو ۔ انور جہاں برنی اور سیما برنی کی طرح اس
خاندان کے سب نوجوان تہذیب و سعادت مندی کے اوجِ کمال تک پہنچیں ۔ مجھے
یقین ہے کہ ہم سب کی روح اور قلب سے نکلنے والی یہ دعا قادر مطلق سُن لے گا
اور مقد رکا ستارہ اس خاندان کے نو جوانوں کو ہم دوشِ ثریا کرنے کے لیے چُن
لے گا۔ اجل کے اُلجھے اُلجھے دھارے سے ٹکرانے کے بعد معلو م نہیں کس کنارے
سے ٹکرانا ہے اور کس نشیمن اور کس ٹھکانے میں اب اپنی منزل ہوگی ۔
آفاق کی ڈھلوانوں کااحوال لکھنے کی سعی کی توکاغذتھر تھر کانپنے لگا اور
سوچوں کے بھنور بھنور میں صدیاں گردش کرنے لگیں۔ اس اثنا میں پہنائے زماں
کے قلب سے اُمیدکی موج نے انگڑائی لی اور آب و گِل کے کھیل میں روشن مستقبل
کی چاپ سنائی دی ۔ میرے شعور کے الواح پر یہ حروف ابھرے کہ خوش قسمتی
کاقافلہ حوصلے کی قندیل تھام کر دُور دیس کے کہروں سے نکل کر یہاں پہنچنے
والا ہے جس کے بعدظلمت فشاں لمحہ ختم ہو جائے گا اورہر قسم کے اضطراب
کامداواہو جائے گا ۔ مستقبل قریب میں اس خاندان کے نو جوان دنیائے حزیں کو
خیر بادکہہ کر قصۂ لیل و نہار میں شادمانیوں کے حسین و دِل کش ابواب
کاایزاد کریں گے اور رفتگاں سے عقیدت کا دم بھریں گے۔ انور جہاں برنی اور
سیما برنی کے پس ماندگان کے چاکِ دامن کو رفو کرنے کے لیے آنے و الے سب
رفوگر یہ چاہتے ہیں کہ غم زدہ پس ماندگان کے چاکِ دامن کو رفو کرنے کی سعی
کی جائے تاکہ قافلہ ہائے خندٔ گل جلد اِن راہوں سے گزریں ۔ یہ ایسے لمحات
تھے کہ دعا کے سو اکوئی چارہ نہ تھا اور خدا کے سوا کوئی دادرسی کرنے والا
نہ تھا۔
الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے زخموں پر مرہم رکھنے والے درد آشنا چارہ گر
ذہن وذکاوت کے بجائے قلب و جگر پر انحصار کرتے ہیں۔ بادی النظر میں انسانی
فہم و فراست زندگی کے خارجی پہلو اور سُود و زیاں کے اندیشے تک محدود ہے جب
کہ فرد کی داخلی اقلیم کے تمام پہلو قلب و جگر کی دسترس میں ہیں۔قحط الرجال
کے موجودہ دور میں مفاد پرست عناصر مرغان ِباد نما کے مانند ہوا کا رخ دیکھ
کر اپنا روّیہ بدل لیتے ہیں ۔درد مندی اور خلو ص کا رشتہ سب سے مستحکم رشتہ
ہے ۔اس رشتے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ دُکھی انسانیت کو مصائب و آلا م میں
مبتلا دیکھ کردِل و جگرمیں رنجِ ، کرب اوردرد کی ایک ایسی متلاطم لہر سی
اُٹھتی ہے جو سوچ کے تمام پہلوؤں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے ۔ ابتلا اور
آزمائش کی ان گھڑیوں میں دِل جو ایک قطرۂ خون میں بدل جاتاہے اُسے اَ شکِ
رواں کی لہر بہا لے جاتی ہے ۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں قلب ِ
حزیں غرقابِ غم اور نڈھال ہو جاتاہے اور انسان دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچنے
لگتاہے کہ قریۂ جاں سے قزاق ِاجل نے جو پھول توڑا ہے،اُس کا مداوا کیسے
ممکن ہے ۔جب کوئی اُمید بر نہ آئے اور تسکین کی کوئی صورت نظر نہ آ ئے تو
عقل جسے محض چراغ ِ راہ کی حیثیت حاصل ہے ،سے آگے نکلنا پڑتاہے اور دِل و
جگر پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے کیونکہ انھیں منزل کی حیثیت حاصل ہے۔
غزل
انور جہاں برنی : مرحومہ ، ورجینا امریکہ
دِل کے احوال جب سنائے ہیں
آپ سُن سُن کے مسکرائے ہیں
موت نے جب گلے لگاہی لیا
کیوں بھلاآج آپ آئے ہیں
ضبط نے بڑھ کے اُن کو تھام لیا
جب بھی آنسوپلک تک آئے ہیں
زندگی ہم نے تیری راہوں پر
آپ آئے نہیں تو پلکوں پر
ہم نے شب بھر دئیے جلائے ہیں
شاہ راہِ حیات پر اے دِل
کیسی مایوسیوں کے سائے ہیں
ناوک افگن کہیں نہ ہو بدنام
ہم نے ہنس ہنس کے تیرکھائے ہیں
عالمِ رنگ و بُومیں اے انور ؔ
کون اپنا ہے سب پرائے ہیں
انور جہاں برنی : مرحومہ، ورجینا امریکہ
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد18،شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر 2015ء ،صفحہ216
اپنی تخلیقی بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے انور جہاں برنی نے اپنی شاعری
میں سادہ اور عام فہم انداز میں جذبات کا اظہار کر کے اپنی انفرادیت کا
ثبوت دیاہے ۔اپنی شاعری میں انھوں نے تراکیب کے استعمال میں اہلِ زباں کے
مقبول انداز کوپیشِ نظر رکھاہے ۔ انورجہاں برنی کی شاعری میں مفاہیم کی تہہ
داری اوراسلوب کی حُسن کاری کا راز خلوص اور دردمندی میں مضمرہے دِل کے
افسانے جب نگاہوں اور لبوں سے بیان کیے جاتے ہیں تو مخاطب معنی خیزانداز
میں مسکراکر تمام حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ رمزیت اوردروں بینی کے
اعجاز سے شاعرہ نے اپنی شخصیت سے وابستہ متعدد حقائق کو اشعار کے قالب میں
ڈھالاہے ۔انور جہاں برنی کے شگفتہ لہجے کی مٹھاس،دردمندی ،خلوص،ایثار اور
وفا قارئین کے لیے سمے کے سم میں اُمیدکی کرن ثابت ہوتی ہے ۔اپنے دل کش
اسلوب سے انھوں نے دل کش تراکیب اور مروّج و مانوس مضامین سے اُردو شاعری
کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ۔ صر صرِ اَجل کی زد میں آنے کے بعدگلشن ِ ہستی
میں کھلنے والے پھول کملا جاتے ہیں اور چاندنی بھی گریۂ شبنم پر مجبور ہو
جاتی ہے ۔ایسے وقت میں کسی چارہ گر کا مرہم بہ دست آنابے سُودہے ۔ضبط کے آ
نسو کاپلک تلک آنا تو قابل فہم ہے مگر اِس کا ٹپکناصبر و تحمل کے معائرکی
نفی ہے ۔اس دنیامیں انسان کی ہستی ایک حَباب کی سی ہے اور آب و گِل کا کھیل
محض ایک نمائش ہے۔ اِسی لیے ماہرین علم بشریات ہستی کے فریب سے بچنے کی
تلقین کرتے ہیں۔یہ نا تمام کائنات حلقۂ دامِ خیا ل ہے ۔بساطِ سیل پر قصر
ِحباب کی تعمیر میں انہماک کا مظاہرہ کرنے والوں کو یہ حقیقت معلوم ہونی
چاہیے۔ انور جہاں برنی نے اپنی خدادا دصلاحیتوں کو روبہ عمل لاتے ہوئے
اردوشاعری کی ثروت میں جو اِضافہ کیاہے وہ تاریخ ِ ادب میں آبِ زرسے لکھا
جائے گا۔اتنے بڑے علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ادیبہ انور جہاں
برنی نے جب اردو شاعری کو تزکیہ ٔ نفس کا وسیلہ بنایا تو خون جگر سے اس صنف
ادب کی آبیاری کی۔ اپنی زندگی کے مسائل کو خود اُٹھانے اور سر زیرِ بار
قیصر و کسریٰ نہ کرنے کی بنا پر اُن کی شاعری نے ساحری کا رُوپ اختیار کر
لیا۔ ادبی نشستوں میں انور جہاں برنی کا کلام نہایت توجہ سے سُنا جاتا۔اُن
کے اسلوب کو خواتین بے حد پسند کرتی تھیں ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں
شہر ِکوراں کا سرابوں میں بھٹکنے والا،فریب خوردہ ، راہ گم کردہ آبلہ پا
مسافرخضرکے انتظار میں ہے ۔ آج کا دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں سر گرداں
ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئی بے حسی کے نتیجے
میں لوگوں کا مزاج عجیب ہو رہاہے اور ہر شہر کوفے کے قریب ہو رہاہے ۔ اپنی
ذات کے صنم کدہ اور خار زار ِ حیات میں اس قدر سراب ہیں کہ آدمی ان کی جان
لیوا کیفیات میں کھو کر اپنی حسرتوں، تمناؤں ،امنگوں اور ارمانوں کی لاش
اپنی ہی کندھوں پر اٹھا کر اپنی تہی دامنی پر خود ہی آنسو بہانے پر مجبور
ہے ۔یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن حقیقت ہے کہ ہوائے جورو ستم کے بگولوں
نے مظلوم انسانوں کے نشیمن کے تنکے بکھیر دئیے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ پیہم
شکست ِدِل کے نتیجے میں آج کا انسان خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں۔اپنے
بحر خیالات کے پانی کی عمیق گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر زندگی کے تلخ حقائق
کے گہر ہائے آبدار کی غواصی کے لیے وہ ستیز پر آمادہ ہی نہیں۔مسلسل یاس و
ہراس اور دل شکستگی کے باعث ایک خوف ناک بے حسی نے اسے اپنی گرفت میں لے
لیا ہے۔انور جہاں برنی نے اپنی شاعری میں توحید کے ابد آشناپیغام کی جانب
متوجہ کیا ہے ۔آج کے دور میں بے حس معاشرے نے اس انداز میں چپ کھینچ لی ہے
کہ انسانیت کو نا قابل اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ انورجہاں
برنی نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوہ ٔ حسین ؑ کو اپنایا ۔ان کا
خیال تھا کہ ضمیر کی آواز سے انسا ن جاگ اٹھتا ہے۔حریت فکر کی پیکار اور
ضمیر کی للکار ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔زندگی کے تلخ حقائق ان کی
شاعری میں دبستان دل کی غزل اور چراغ صبح ازل کے روپ میں جلوہ گر ہو کر
اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ہستی کی جبیں پر
نمودار ہونے والا ہر خیال حسیں ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ان کا وسیع
مطالعہ ،عمیق مشاہدہ اور فطرت نگاری لفظ کو پھول بنا کر قریہ ٔ جاں کو معطر
کر دیتی ہے۔انھوں نے زمین و زماں،مکین و مکاں اور شیرازہ جزو و کل کو اس
انداز میں پیش کیا ہے کہ ان کے اسلوب کی سحر نگاری پر مشاطہ ٔ برگ و گل بھی
دم بخود ہے۔ان کی تحریر میں صحیفہ صحیفہ ایثار،خلوص،دردمندی اور محبت کی
ضیا پاشیاں نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو
زندگی سے عبارت کرنا ان کا ادبی نصب العین ہے۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت
سے اُنھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ مظلوموں سے عہد وفا
استوار رکھا ۔ان کا خیال تھا کہ گردش لیل و نہار کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے
کا یہی واحد طریقہ ہے۔انور جہاں برنی نے فن کے نکھار کے لیے زندگی کا
مطالعہ کرتے وقت ا پنی شاعری میں روحانیت سے تعلق استوار رکھاہے ۔
انور جہاں برنی ( مرحومہ ) اشبرن امریکہ
حمد
تُو واحدو یگانہ ہے تُوذاتِ بے مثال
تُورازق و رحیم ہے تُوصاحبِ کمال
تصویر ِ کائنات میں تیرا ہی ہے جمال
یا ربّ ِ ذوالجلال ، یا ربّ ِ ذوالجلال
یہ حمدیہ اور دعائیہ نظم پڑھ کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے
۔خالقِ کائنات جورازق بھی ہے اور رحیم بھی ہے اپنی مخلوق کے حال سے باخبر
ہے۔انسان کی یہ مجال نہیں کہ وہ اپنے خالق کی حکم عدولی کرے ۔انسانیت کو
درپیش مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے خالقِ کائنات کا سہارا ہی کافی ہے ۔
اپنے پروردگار کے حضور ابرِ رحمت کی التجا کر کے شاعرہ نے عجز وانکسارکی
دلیل ہے ۔ سوچتا ہوں جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر
کرنے کا وسیلہ تھی جب گل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی
سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد ونواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا
محسوس ہوتا ہے ۔ حیا ت ِ مستعار کی کم مائیگی ، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا
صدموں ، فرصت ِ زیست کے اندیشوں،سلسلہ ٔ روزو شب کے وسوسوں ،کارِ جہاں کی
بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے
کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائیگی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ کسی قریبی عزیز ہستی
کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِخموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان
کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑ ا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ
یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی ، ذہن کو سکون و راحت ،روح کو
شادمانی ،فکر و خیال کو ندرت ،تنوع ،تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل
ہائے صد رنگ جب ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں
تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟عدم کے کُوچ کے
لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعدالم نصیب لواحقین پر
زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کر نے اور جان وارنے
والوں کو بے بسی اور حسرت ویاس کا پیکر بنا دیتی ہے ۔ لو گ کہتے ہیں کہ جب
دریاؤ ں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اورمکانات دریا
بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس
انسان غربت و افلاس کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں
کرتا کہ خلوص ،دردمندی ،وفا ،ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے
رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو الم نصیب پس ماندگان زندہ در گور ہو جاتے ہیں
۔
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام
کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔
عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ
عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم
بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی
ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و
ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت
کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا
محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے
اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔
اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن
کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک
احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس
کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔
غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت
ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ
گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور
اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو
کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل
اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی
کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس
اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے
دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر
پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ،
بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ
اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے
پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح
سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے
پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم
حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے
قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں
کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے
ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ،
خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں
خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی
یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے
شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے
۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے
روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس
طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے
اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ
کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں
اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے
طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا
نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل
تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟
پروفیسر محمداویس جعفری نے اخوت،ایثار اور بے لوث محبت کوآفاقی نوعیت کے
جذبات کی پہچان قراردیا۔اُن کی تخلیقی فعالیت بین الاقوامیت کے اسی مدار
میں سرگرم سفر رہتی ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین ،
روحی بانو، ریاض الحق ،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ارشد اقبال ، افضل
احسن ،محمد یوسف ،محمد فیاض،محمد حنیف،کاظم حسین اورشبیر راناکو نوجوان
بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔
انور جہاں برنی ( مرحومہ ) کا خیال تھا کہ پس نوآبادیاتی دور میں زبان و
بیان کے معائر مکمل طور پر بدل گئے ہیں ۔آج زبانی باتوں کے بجائے عملی اور
قابلِ فہم امور پر توجہ دی جاتی ہے ۔فطری لب و لہجے کو شاعری کے موثر
پیرائے میں بدلنے کا یہ اندازاپنی مثال آ پ ہے ۔اشہبِ قلم کی جولانیا ں
دکھاتے ہوئے شاعرہ نے حُسن کاری کا حیران کن کرشمہ دکھایاہے ۔اظہار و ابلاغ
کی ایسی کیفیات کو تکلم کے ایسے محیر العقول سلسلوں سے تعبیر کیا جا سکتاہے
جوقاری کے قلب و نظر کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔ واحد متکلم کی ردیف
گہری معنویت کی حامل ہے جس سے یہ تاثر قوی ہو جاتاہے کہ تخلیق کار نے اپنے
مخاطب سے اپنے دِل کی باتیں کرنے کی جو سعی کی ہے وہ اپنارنگ دکھا رہی ہے ۔
ان اشعار میں سہلِ ممتنع کی جاذبِ نظر کیفیت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے
۔ایک قادر الکلام شاعر اور ماہر صنّاع کی حیثیت سے تخلیق کار نے اپنے لہجے
کو یاس و ہراس کی تلخی سے محفوظ رکھاہے اور ہر حال میں اُمیدکی مشعل فروزاں
رکھنے پر اصرارکیاہے ۔ قدرتِ کاملہ کی طرف سے شاعرہ کو جس ارفع ذوق ِسلیم
اور موزوں مزاج سے نوازا گیا اُس کا اظہار اشعار کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے
۔اپنے ذاتی مشاہدات ،تجربات اور احساسات کے افق سے ضوفشاں ستاروں جیسے
خیالات کا انتخاب کرنا اور اُن کے وسیلے سے اذہان کی تطہیر و تنویر
کااہتمام کرنا شاعرہ کے اسلوب کا نمایاں ترین وصف ہے ۔ ان الفاظ کے استعمال
سے شعریت کی ندرت قاری دیکھ کر قاری محو حیرت رہ جاتاہے ۔ مثلاً صبوئے حُسن
سے انگبیں پینا،تصور کو آتشیں بنانا،جنون ِ بندگی عشق کا کفر تک
پہنچنا،نقوشِ پا پہ جبیں کا جُھکنا،زیست کا سرمایہ ٔ حسیں، آئینہ ٔ حُسن ِ
یار و جلوہ ٔ دوست دِکھانا، رُخ ِ حیات کی زُلفیں سنوارنا، گنبدِ افلاک پر
زمیں بنانا۔
پروفیسر محمداویس جعفری کے خاندان کے افرادنے مذہبی اور علمی و ادبی شعبوں
میں جوگراں قدرخدمات انجام دی ہیں ان کی بنا پر انھیں ایک دائرۃ المعارف کی
حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ان کی ادبی تخلیقات کی مقدار ،معیار
اوروقار کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اِن کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ ایک زیرک
تخلیق کار کی حیثیت سے شاعر نے اپنے ذاتی تجربات،مشاہدات ،تاثرات ،جذبات و
احساسات کواس مہارت اور سلیقے سے اشعار کے قالب میں ڈھالاہے کہ قاری ان
اشعار کی تاثیرپر اَش اَش کر اُٹھتا ہے۔
غزل
صبوئے حُسن سے پی ہے جو انگبیں میں نے
بنا لیا ہے تصور کو آتشیں میں نے
جنونِ بندگی ٔ عشق کفر تک پہنچا
نقوشِ پا پہ جھکائی جہاں جبیں میں نے
ہے کائنات میں کیاکہہ سکوں جسے اپنا
بس ایک دِل تھا جسے کھودیا کہیں میں نے
مرے غموں کے لیے چارہ گر نہ سوچ علاج
چُنا یہ زیست کا سرمایہ ٔ حسیں میں نے
دِکھاکے آئینہ ٔ حُسن ِ یار و جلوہ ٔ دوست
رُخ ِ حیات کی زُلفیں سنوار لیں میں نے
سحر وہ کون سی ہے جس کے انتظار میں ہوں
اِسی خیال میں راتیں گُزار دیں میں نے
تجلیّات کی رو میں حقیقتوں سے پرے
بنائی گنبدِ افلاک پر زمیں میں نے
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد18،شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر 2015ء ،صفحہ216
محمداویس جعفری ۔سیاٹل امریکہ : ایک بھائی کابہن کو خراجِ عقیدت
اشعارکے مفاہیم میں وسعت،گہرائی ،مرقع نگاری اور مجموعی تاثر کے سوتے
روانی، عام فہم انداز،ذخیرۂ الفاظ ،ندرت ِ تخئیل،دردمندی ہی سے پھوٹتے ہیں۔
پس نو آبادیاتی دور میں پروفیسر محمداویس جعفری نے اردو زبان میں الفاظ کے
بر محل استعمال کے جو تجربے کیے ہیں وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہیں ۔اپنی
جدت پسندی ،فکری تنوع ،زورِ بیاں اور جذبات و احسات کی ترسیل سے اپنی شاعر
ی کو ساحری میں بدل دیتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار کامفاہیم ومطالب کے ایک ایسے
خاص نوعیت تہہ دارکے نظام سے انسلاک کرتے ہیں کہ قاری اُس کے سحر میں کھو
جاتاہے۔ان اشعار کے ہر پرت سے مفاہیم کا کوئی جوہر ضرور بر آمدہوتاہے ۔
مثال کے طور عام فہم انداز میں استعمال کیے گئے درج ِ ذیل الفاظ کاسحر
دیکھیں جن کے وسیلے سے سادگی اور پُر کاری کویقینی بنادیا گیاہے ۔ :
تخئیل ،تصور ،فِکر ِ تشبیہہ و تلمیح ،معبودو مطلوب ومقصود،ازل
،ابد،منتہا،بالوں پہ چھلکی ہوئی چاندنی،اوجِ کہسار، کرنوں کارقص،صبرکی آ
یتیں ،فکرِ رسا کی جھلک ،چاہتوں کی دمک ،دم بہ دم ،نعت کے ارمغاں ،لب نغمہ
خواں ،خانہ داری کی تاریخ ،خوانِ انواع و اقسام کے شاہکار،کام و دہن کا
خمار،حُسنِ تہذیب و توقیر، رنگِ حیاکانِکھار، طنز وتشنیع،کِذب اور مکر و
ریا،ماورائے تصور،ستیزآزما،گردشِ روز وشب ، بے خطر،مطمئن خندہ زن شادماں
سراپا
گر تخئیل ،تصور تعاون کریں
اورقلم ترجمانی پہ آمادہ ہو
تو پھر میں کروں
فِکر تشبیہ و تلمیح
اور استعارے چنوں
دِل یہ کہتا ہے پھر اِک سراپا لکھوں
جس کاطاری ہے مجھ پر ابھی سے فسوں
میرے معبودو مطلوب و مقصود
میر ے خدا !
تُوازل ، تُو اَبد، تُو مرا منتہا
دے اجازت تو اُس کو صحیفہ کہوں
اور لکھوں :
اُس کے بالوں پہ چھلکی ہوئی چاندنی
رقص کرنوں کا یا اوج ِ کہسار پر
اور سیپارہ جیسی منور جبیں
جس پر تحریر ہیں صبر کی آیتیں
بندگی کے نشاں
اُس کی آ نکھوں میں فکرِرساکی جَھلک
شفقت اور پیارکی چاہتوں کی دَمک
اُس کے دامن سے آئے گُلوں کی مَہک
صبح صادق فِدااُس کے رُخسار پر
ابر پارہ کوئی جیسے سایہ فگن
روئے گلزار پر
اُس کے لب رحل ہیں
جن سے آیاتِ قران کے زمزمے
دم بہ دم گُل فشاں
اور سجائے ہوئے حمدکے نعت کے ارمغاں
اُس کے لب نغمہ خواں
وہ ہے جادوبیاں
اُس کی مخروط سی اُنگلیوں کی روش
اُس کی آ غوش میں رکھناتسبیح کو
جِس کے دانوں پہ بس ذکر و اذکار ہیں
روز و شب ،صبح و شام
اُنگلیاں جوکہ ہیں
خانہ داری کی تاریخ کے مرحلوں کی امیں
پوردے جن کے ہیں
گھر گرہستی کے ہر کام کے راز دار
خوانِ انواع و اقسام کے شاہکار
منحصر جِن پہ کام ودہن کاخُمار
ہیں یہی اُنگلیاں اُن کی تخلیق کار
کیاہو اُن کاشمار
جن کی باتیں ہزار
سر مئی شال شانوں کی ہے پردہ دار
حُسنِ تہذیب و توقیر کی پاس دار
اور پھر اُس پہ رنگِ حیاکانِکھار
جِس پہ سوجاں سے پاکیزگی خودنثار
طنز وتشنیع،کِذب اور مکر و ریا
جیسے اِن کانہیں دُور کا بھی کہیں اُس سے کچھ واسطہ
وہ فرشتہ نہیں پر فرشتہ صفت
کوئی اپناہو یا غیر ہو یا عدو
اس کو محبوب ہے سب کی ہی منفعت
حُسن نیّت پہ اس کے عمل کا مدار
اس کی رفتارمیں تمکنت
اس کی گفتارمیں شہدہے
اس کی آواز میں ساحری
اس کے انداز میں دلبری
فون پر گفتگو ہو کہ ہو رُو برو
نرم رُو،نرم خُو
اُس کا لہجہ کہ جیسے خنک آب جُو
وہ تو چاہت ہی چاہت ہے بس
جیسے ماں کی دعا ہر نفس
اُس کی باتوں میں شفقت کارس
زندگی کے حقائق پہ اُس کی نظر
اُس کو سب علم ہے اور وہ ہے باخبر
حادثوں سے ہے پُر زندگی کی ڈگر
چُھوٹ جاتابھی ہے راہ میں ہم سفر
امتحاں ،آزمائش سے کِس کو مفر
درد و غم کا وہی ہے بس اِک چارہ گر
وہ جو اوّل بھی ہے اور جو آخر بھی ہے
وہ جو باطن بھی وہ جوظاہر بھی ہے
وہ لطیف و خبیر و سمیع و بصیر
وہ رحیم و کریم و حلیم و نصیر
اُس کی توفیق سے
وہ سراپائے تسلیم ورضا
گردشِ روز وشب سے ستیزآزما
بے خطرمطمئن خندہ زن شادماں
میرے رب ! میرے آقا و پروردگار
تیر ے احسان ہیں اَن گِنت ،بے شمار
ماورائے تصّورترا اختیار
دیکھ! اُٹھائے ہوئے ہوں میں دستِ دعا
اے مرے کِردگار!
رحمتِ بے کراں ،بے کراں بخش دے
اے خدا اپنی حفظ و اماں بخش دے
صحت و عافیت کا جہاں بخش دے
گر تصّور ،تخئیل تعاون کریں
اورقلم ترجمانی پہ آمادہ ہو
دِل یہ کہتاہے میں اِک سراپا لکھوں
سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد18،شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر 2015ء ،صفحہ 226
میر ی دعا ہے کہ پروفیسر محمداویس جعفری کواﷲ کریم سدا ا پنی حفظ و اماں
میں رکھے ۔مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ وہ ہستیاں جنھیں ہم دیکھ دیکھ
کر جیتے ہیں جب وہ دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو اُن کے بعدانسان کئی مشکلات
کا شکار ہو جاتاہے ۔ یورپ اورامریکہ میں آ پ تنہا نہیں آ پ کی اہلیہ محترمہ
،بچے اور سب عزیز اور رشتہ دار آپ کے پاس ہیں۔ہم سب اپنے خالق کے حضور سر
بہ سجودہوکردعا کرتے ہیں کہ بہنوں کی دائمی مفارقت کے بعدآپ مشیت ایزدی کے
سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ کریم آپ کو حوصلہ اور اعتماد
عطا فرمائے اور وطن سے دُور قیام کر کے رزق حلال کمانے کا سلسلہ جاری رہے
۔آپ جس خلوص سے اپنے وطن اوراہلِ وطن کی خدمت کر رہے اﷲ کریم آپ کو اس
کااجر عظیم عطا فرمائے ۔آپ کے آرام و سکون ،مسرت و شادمانی ،راحت و کامرانی
اور صحت یابی کے لیے ہم سب دعا گو ہیں ۔اﷲ کریم اپنے نیک بندوں کا امتحان
لیتاہے ۔ یقین اورادراک کی دنیا میں ہر حالت میں اپنے اُس عظیم خالق کی
رحمت پر آس لگائے رکھیں جس کے اختیار میں سب خدائی ہے ۔ ذرات کو ضیا،گلوں
کو رنگ اور تازگی ،شجر ،حجر ،کوہ و بیاباں ،صحرا و ریگستاں،سمندر،دریااور
زیرِ زمیں مخلوق کو بھی نوازنے والے خدائے بزرگ و برتر کے حضور میری دست
بستہ التجاہے کہ وہ آپ کے رفتگاں کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ اس عالمِ آب و
گِل میں جب بھی خلقت سمے کے سم کے ثمر سے عاجز آ جاتی ہے تو ہمارا خالق
خزاں کے کٹھن موسم کی صورت اس طرح بدل دیتاہے کہ بہار کی آمدسے صحرا بھی
گلزار کامنظرپیش کرتاہے ۔ اقرار ِبندگی کرنے والے انسان جب اپنے خالق کی
حمدوثناگری کے دوران اپنی کِشتِ اُمیدکواشکوں کی نمی سے سیراب کرتے ہیں
توہر طرف اُمیدوں کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔اﷲ کریم کی رحمت پر یقین خلیلؑ کو
آتشِ نمرودسے بچاتاہے اور وہ غبارچھٹ جاتاہے جوگردشِ ایام کے نتیجے میں
انسان کے قلب وذہن پرمسلط ہو جاتاہے۔اس کے بعد قادر ِمطلق کی رحمت سے قلب
ِحزیں اور خانۂ لاشعور تاب و تب کاہکشاں سے منور ہو جاتاہے ۔ خالق ِ کائنات
کی چشم اپنی مخلوق کی نگراں رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ رحمت کے فرشتے بہت
جلددستک دے کر آپ کی اُن کتب کی اشاعت کی اطلاع دیں گے جن میں رفتگاں کی
یادیں اور اُن کاکلام شامل ہے ۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مآ خذ
۱۔ علامہ محمداقبال ڈاکٹر: ضرب کلیم ، کلید کلیات اقبال ، اردو، مرتب احمد
رضا، 2005 ، صفحہ 106
2. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Educatiom Singapore
2004, Page 308
ّ3. Terry Eagleton: Literary Theory , Minnesota, London 1998, Page. 194
4. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literay terms
Bedford books.Bostan, 1998, Page 123
5. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literay terms
Bedford books.Bostan, 1998, Page 123
6. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Educatiom Singapore
2004, Page 491
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
انور جہاں برنی ( مرحومہ ) ورجینا امریکہ
( سہ ماہی الاقربا ،اسلام آباد،جلد18،شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر 2015ء ،صفحہ216
) ( سر ورق قائداعظم )
غزل
دِل کے احوال جب سنائے ہیں
آپ سُن سُن کے مسکرائے ہیں
موت نے جب گلے لگاہی لیا
کیوں بھلاآج آپ آئے ہیں
ضبط نے بڑھ کے اُن کو تھام لیا
جب بھی آنسوپلک تک آئے ہیں
زندگی ہم نے تیری راہوں پر
کیسے کیسے فریب کھائے ہیں
آپ آئے نہیں تو پلکوں پر
ہم نے شب بھر دئیے جلائے ہیں
شاہ راہِ حیات پر اے دِل
محمداویس جعفری : سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد ،جلد16،شمارہ3،جولائی
۔ستمبر2013 ، ص278
( سر ورق : ملالہ )
نور ونکہت کا سفر نظم ص278
فضا میں پھیل گئی اُس کی بات کی خوشبو
ابھی تو اُس نے ہواؤں سے کچھ کہابھی نہیں
یہ اُس کی بات کی خوشبو
غزالِ شعر کی زُلفِ شِکن اندر شکن بھی ہے
یہ غازہ اُس کے رُخ کا،اُس کے چہرے کی پھبن بھی ہے
یہ اُس کی جھیل سی آ نکھوں کا کاجل بھی حیا بھی ہے
یہی اُن صندلیں ہاتھوں پہ تحریر ِ حِنا بھی ہے
مآ خذ
۱۔ علامہ محمداقبال ڈاکٹر: ضرب کلیم ، کلید کلیات اقبال ، اردو، مرتب احمد
رضا، 2005 ، صفحہ 106
2. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Educatiom Singapore
2004, Page 308
ّ3. Terry Eagleton: Literary Theory , Minnesota, London 1998, Page. 194
4. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literay terms
Bedford books.Bostan, 1998, Page 123
5. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and literay terms
Bedford books.Bostan, 1998, Page 123
6. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Educatiom Singapore
2004, Page 491 |