جان لیوا مہنگائی اور بے بس عوام

آج میراپاکستان کیا سے کیا ہوگیا؟ خوبصورت موسموں دلکش رتوں‘ آبشاروں مرغزاروں کے اس حسین و خوبصورت ملک کو کس کی نظر کھا گئی ۔ پورا ملک سوگ میں مبتلا ہے اک اداسی ہے جو چار سو چھائی ہے۔ ایک بے رونقی ہے جو چاروں اور پھیلتی جا رہی ہے۔ کسی چہرے پر آسودگی کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہر طرف سازشوں کی آہنی طنابیں گاڑ دی گئی ہیں مایوسی جھلکتی نظر آتی ہے۔ پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں سرعام گالیاں د ی جا رہی ہیں۔ صحافت و امامت اپنا تقدس کھو چکی ہے۔ عدالت و انصاف ا پنی تلاش میں گم ہے۔ چاروں طر بے بسی بے کسی کے سائے لرزاں ہیں۔ خزاں کی زردی پھیلتی جا رہی ہے کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔ خشک سالی کا خوف پانی کی بوند بوند کو ترسنے کا غم کل کلا تھوڑی بہت آنے والی تازہ ہوا کو بھی ترس جائیں گے۔ رُل جائیں گے‘ پھر کہاں جائیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ عوامی بے چینی کا لاوہ پھٹنے سے پہلے پہلے حکمرانوں کو بے روزگاری ،صحت، غربت ،بھوک ،افلاس سمیت عوامی مشکلات اور مسائل کے ازالے کو یقینی بنانا ہوگا اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ وطن عزیز اس وقت معاشی اور اقتصادی و مالیاتی بحران سے دوچار ہے اس دور میں عوام کا جینا تو درکنار مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے،قومی ترقی اور عوامی خوشحالی رول بیک ہوچکی ہے غربت ،بھوک ،افلاس اور بے روزگاری کی دلدل میں عوام دھنستے جارہے ہیں ان حالات میں قوم نجات دہندہ کی منتظر ہیں۔ موجودہ معاشی صورتحال نہایت دگرگوں ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے معاشی جادو گر اپنا جادو دکھانے میں ناکام رہے ۔ حالیہ حکومتی عرصے میں ’’مرے کو مار شاہ مدار ‘‘کے مصداق پہلے سے ہی ملک کی 80 فیصد طبقہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اس کو جان لیوا مہنگائی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں ۔ منی بجٹ سے براہ راست عام آدمی پر بوجھ نہیں بڑھے گا ، لیکن یہ محض ایک سیاسی بیان ہے ۔منی بجٹ یا ڈیتھ وارنٹ جس کے تحت 170 ارب کے ٹیکس لگائے گئے۔ جن کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا۔ مزید برآں بجلی صارفین پر ایک روپے فی یونٹ سرچارج لگا کر 76 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، یہ نیا فنانس سرچارج رواں سال مارچ سے جون تک لاگو رہے گا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272روپے ہوگئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 124فیصد تک اضافہ اور سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھانے سے 50ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث عوام ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں لوٹے جارہے ہیں۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر گیس ،بجلی ،آٹے اور پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتو ں میں ہوشربا اضافے نے بنیادی اشیاء کو بھی عوام کی دسترس سے باہر کر دیا گیاہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے بعد کے منظر نامے کے بارے میں معاشی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ غریبوں کی روٹی آدھی کرنے سے نہ تو مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ملک مشکل سے نکلے گا غریب صبح سے شام تک آٹے کے لیے لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں پھر بھی انھیں بیس کلو آٹا نہیں ملتا لیکن اسی ملک میں ایک وزیر، مشیر اور افسر کو پروٹوکول دینے کے لیے آگے پیچھے نوکروں ، چاکروں اور گاڑیوں کی لائنوں پر لائنیں لگی رہتی ہیں۔ اپنے پیٹ پر اگر پتھر عوام نے ہی باندھنے ہیں تو پھر وزیراعظم اور ان کے شمار سے باہر وزیروں اور مشیروں کا کیا فائدہ؟ کیا ان کو سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات نہیں دی جارہی ہیں۔یہ جتنی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں وہی پیسے اگر ملک و قوم پر لگائے جائیں تو اس سے نہ صرف مہنگائی کا یہ طوفان تھم جائے گا بلکہ غربت اور بیروزگاری کا بھی ملک سے کافی حد تک خاتمہ ہوگا۔افسوس!غریب کو پینا ڈول اور ڈسپرین کی ایک گولی بھی مفت نہیں ملتی ۔وقت آگیا ہے کہ اب کی باراشرافیہ اور حکمران طبقے سے نہ صرف قربانی لی جائے بلکہ ان کی سرکاری خزانے سے ناجائز اور بے جا مراعات اور سہولیات روکنے کے لیے کوئی خاص انتظام بھی کیا جائے۔ سابق صدرایوب خان کی حکومت چینی کی قیمت میں چار آنے کے اضافے سے ا پنی حاکمیت کھو بیٹھی تھی جبکہ اس کے زمانے میں سائیکل کی قیمت 156 روپے اور جاوا موٹر سائیکل 1500 روپے میں دستیاب تھی۔پاکستان نے پہلی بار1958ء میں اس وقت آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلایا جب ڈالر صرف 3روپے کا تھاتب سے لے کر اب تک حکمرانوں نے ’’کشکول‘‘لے کر عالمی مالیاتی ادارے کے دروازے پر دستک دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حکومت نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں سے قرض لینے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں مختلف بانڈزبھی جاری کئے ۔ایوب خان کے دور میں ہر پاکستانی پر صرف 60پر قرض تھا لیکن آج ہر شہری یا دوسرے لفظوں میں نوزائیدہ بچہ 2لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔2013 ء سے 2018 ء کے دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرضوں کے حجم کو 74.60 فیصد تک بڑھایا۔پاکستان نے گزشتہ برس کے11 ماہ میں 13 ارب 53 کروڑ ڈالر سے زائد کا غیرملکی قرضہ لیا جس میں سعودی عرب سے ملنے والے 3 ارب ڈالر بھی شامل تھے۔توانائی کے شعبے میں زیر گردش قرضوں کا مسئلہ جوں کا توں رہا کیونکہ نئی کمپنی بنا کر تمام سرکلر ڈیٹ کی رقم کو بجٹ سے نکال کر علیحدہ کر دیاگیا جس قرض ختم نہ ہو سکا،غیر جانبدار اداروں جیسے سٹیٹ بینک، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن میں پسند افراد کی تعیناتیوں سے بھی معاملات روز بروز بگڑتے گئے۔مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت میں بھی ملک میں ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے بھرپور کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی لہٰذااخراجات پورے کرنے کے لئے ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پہلے سے عائد ٹیکسوں میں ہی اضافہ کرکے آمدن کو بڑھایاگیا۔کسٹم ڈیوٹی کی شرح بڑھانے، ایڈوانس کے علاوہ کئی دوسری چیزوں پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات سے ادائیگیوں میں عدم توازن کا سامنا کرنا پڑا۔ایک ایسے وقت میں جب بیرون ملک سے حاصل ہونے والی آمدن جیسے برآمدت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں کمی آ رہی ہے اور خسارہ بڑھ رہا ہے تو نا صرف بین الاقوامی مالیاتی ادارے بلکہ اقتصادی ماہرین بھی موجودہ صورتحال پر تشویش کا شکار ہیں۔ڈالر کی روز بروز بڑھتی قیمت کااگر بغور جائزہ لیا جائے تو 76 برس میں اس کی اونچی اڑان نے روپے کو بدترین گراوٹ کا شکارکیا ہے۔ 1947ء میں گو کہ پاکستان کئی مسائل میں گھرا ہواتھا مگر ڈالر کی قیمت میں پہلی بار اضافہ 1955 میں ہوا۔ چودھری محمد علی، محمد حسین شہید سہروردی، محمد اسماعیل چندریگر، ملک فیروز خان نون اور نورالامین مختلف اوقات میں برسر اقتدار آئے مگر ڈالر کنٹرول میں نہ رہا۔ 1985 ء سے 1988 ء کے دوران محمد خان جونیجو تقریبا 3 برس تک وزیراعظم رہے مگر وہ بھی ڈالر کی رفتارکو کم نہ کر پائے۔ 1988ء سے 1990 ء کے دوران بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت تھا جب ڈالر کی قدر میں 3 روپے 71 پیسے اضافہ ہو۔نوازشریف کے پہلے دور میں ڈالر کی قیمت تقریباً 6 روپے بڑھی ، 1991 ء سے 1993 ء تک ڈالر 28 روپے 11 پیسے کا ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار اقتدار میں آئیں تو ڈالر کی قیمت میں ساڑھے5 روپے اضافہ ہو گیا۔ 1994 ء سے 1996 ء تک امریکی کرنسی کی قیمت 36 روپے8پیسے ہو گئی، نواز شریف کے دوسرے دور میں تقریباً 15 روپے اضافہ ہوا۔ 1997ء سے 1999 ء تک ڈالر نصف سنچری عبور کرکے51 روپے 72 پیسے تک جا پہنچا۔15 نومبر 2009 ء کو پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے وقت ڈالر 61 روپے18پیسے پر تھا۔ 24 مارچ 2009 ء کو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ڈالر62 روپے 22 پیسے پر تھالیکن 2013 ء کوجب اقتدار ختم ہوا تو ڈالر 98 روپے 22 پیسے پرپہنچ گیا۔ 2013 ء سے یکم جون 2018ء کو مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار سے رخصت ہوئی توڈالر کی قدر 124 روپے4 پیسے تک پہنچ گئی تھی۔10 اپریل 2022 ء کو عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت ڈالر 184 روپے 68 پیسے پر تھا۔ شہباز شریف جب وزیراعظم بنے تو ان کے دور میں ڈالر کی قدر 182 روپے 92 پیسے تھی لیکن مقام افسوس ہے کہ صرف 10ماہ کے دوران اسکی قیمت تجاوز کر چکی ہے ۔ اس وقت سب کو مل بیٹھ کر معیشت کے بارے میں فیصلے کرنے ہونگے پارلیمنٹ کے اندر بھی باہربھی۔ یاد رہے حکومتیں معیشت کی مضبوطی سے چلتی ہیں اور اسی کی ناتوانی سے گرتی ہیں ہمارے سامنے سوویت یونین کی مثال موجود ہے۔ اسلحے کے انبار ہزاروں بحری جہازوں کا بیڑا ، میزائل سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ ہم سے معیشت کے اعتبار سے آگے نکل چکے ہیں اور ہم ابھی تک راستے تلاش کرتے خوار ہو رہے ہیں۔ کب تک آخر کب تک یہ ہمارا ا لمیہ ہے۔ لمحہ فکریہ بھی۔ ہمارے پاس وقت کم ہے اس سے پہلے کہ وقت د شمن بن کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہو۔
 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 139281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.