اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں بارش کے قطروں کی طرح
مسلسل برس رہی ہیں اور زمین پر پھیلی ہوئی تمام مخلوقات ان سے برابر کی
مستفید ہورہی ہیں . اسکے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں “وقت“ کے بعد جس نعمت
کا سب سے زیادہ ضیاء دیکھنے میں روزمرہ جو نظر آتا ہے وہ اللہ کی طرفسے دی
ہوئی ایک نعمت “رزق“ہے۔ وقت پر غذا کا مل جانا ایسی بےبہا نعمت ہے جس سے
دنیا کی تقریباً %40 سے زائد آبادی محروم ہے۔اس پر سوائے افسوس کہ رزق کی
اس طرح سے ناقدری اور کھانے کی بےتحاشہ بےحرمتی کے اس جرم میں کوئی غیر
مسلم نہیں اس میں اکثریت ہمارے پاکستانی مسلمان بھائیوں کی بہت بڑی تعداد
بھی برابر کی شریک ہے۔ان میں اس طرح کے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو
معاشرے میں اپنا قد اونچا دیکھانے اوراپنے آپ کو معیار زندگی میں اُمراء
کھلوانے کا خمار سن کے دماغ میں سرائیت کرچکا ہے. اس طرح کی مخلوقات زندگی
کے ہر قدم پر اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں، یہ اسراف و تبذیر کو اپنی
شان و شوکت سمجھتے ہیں، شادی بیاہ اور دیگر فضول تقریبات میں شاہ خرچیوں
کواپنا حق بتاتے ہیں اورمحض جذبہٴ نمود و نمائش کی تسکین اور مقابلہ آرائی
کے لیے مختلف اقسام کے ان گنت کھانے تیار کرواتے ہیں پھر انفرادی و اجتماعی
سطح پر کھانے کا بےتحاشہ ضیاع کا مواقع مہیا کرتے ہیں اور ان کے بے ضمیر
دلوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کتنے فاقہ کش ایسے ہیں جو دو وقت کی روٹی
کے محتاج اور غزائیت کا شکار ہیں، ان لوگوں کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے
لیے کوئی معمولی چیز بھی میسر نہیں، پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق
شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں تقریباً چالیس فیصد سے زائد کھانا ضائع کر
دیا جاتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق
''برتن میں کھانا نہ چھوڑو، تمہیں نہیں پتا کہ برکت کس حصے میں ہے''
ہماری سماجی تنظیمیں و انٹرنیشنل تنظیمیں , مساجدوں و مجلسوں و مدرسوں ،
اسکولوں و کالجز و یونیورسٹی غرض ہر پرائیوٹ اور سول اداروں ، الیکڑونک و
پرنٹ میڈیا و سوشل میڈیا میں اس ملک کے ہر بچہ ، جوان ، بوڑھا یعنی ہر
پاکستانی کو اس حدیث کا حوالہ دیکر ان کی تربیت اور ان کو آگہی کا پیغام
دینا چاہیے “کہ ہم اعتدال پسندی کرتے ہوئے اتنی ہی خوراک استعمال کریں جس
کی ہمیں طلب ہو”
انٹرنیشنل قوانین کے مطابق دنیا کی ہر ریاست اپنے ہر شہری کی غذائی ضروریات
پوری کرنے کی پابند ہے، مگر ہمارے ملک پاکستان کا شمار اب ان ملکوں میں
شمار ہوتا ہے، جدھر کی %40 آبادی غذائیت کے مسئلے سے کچھ دہائیوں سے دوچار
ہے اور جہاں کروڑوں افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور و
لاچار ہیں جنہیں دو وقت کا کھانا بھی بہ مشکل دستیاب نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ
افراد دنیا کے ان ایک ارب انسانوں میں شامل ہیں، جو روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔
دس سال پہلے کیے گئے ایک پرائیوٹ سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ
بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہمیشہ کی طرح غذائی صورتحال بہتر
نہیں ہے.
“ جبکہ 2012ء میں ورلڈ بینک نے پاکستان میں بچوں میں خوراک کی کمی کے خطرے
سے خبردار کرتے ہوئے اسے صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا”
خوراک کی بربادی اور ضائع میں اسلامی ملک سعودی عرب سرفہرست ہے. خصوصاً
سعودی عرب میں روزانہ ساڑھے چار ہزار ٹن قابل استعمال خوراک ضائع کر دی
جاتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے انسانی محنت، زمین، پانی اور توانائی کا بھی زیاں
ہے، کیونکہ کوئی بھی پیداوار انسانی محنت، زمین کے استعمال، پانی کے بغیر
حاصل نہیں ہوتی اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے توانائی سے
چلنے والے مشینی ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے. خوراک کے زیاں کا تعلق ذہنیت،
عادات اور رویوں سے ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اکثر دیکھا جاتا ہے
کہ کچھ نہیں بلکہ زیادہ تر لوگ اپنی اپنی پلیٹوں میں مختلف اقسام کے کھانوں
کا پہاڑ کھڑا کر لیتے ہیں۔ اور چھوٹے بچوں کی پلیٹوں میں بے تحاشا کھانا
بھر دیا جاتا ہے لیکن یہ کھانا مکمل طور پر کھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
تقریب کے اختتام پر بچا کچھا کھانا کچرے کے ڈرمز میں ڈال دیا جاتا ہے.
کراچی کا اگر سروے کیا جائے تو یہاں تقریباً ایک ہزار سے زائد شادی ہالز
ہیں۔ چھوٹے بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ اس کے علاوہ ہیں، جہاں ہر دن مختلف
تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شادی ہال میں اوسطاً ہر تیسرے
روز شادی کی تقریب کا ہونا فرض کر لیا جائے تو تیس دن میں کل دس شادیاں
ہوئیں، اس طرح ہر مہینے ایک ہزار شادی ہالز میں کل دس ہزار شادیوں کی
رسومات و تقریبات انجام پائیں . کراچی جس کی آبادی تقریبا ڈھائی کروڑ سے
بھی زائد ہے. اس آبادی والے شہر میں یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے.اگر ہر
شادی میں اوسطاً دو سو افراد نے اس میں شرکت کی تھی تو یہ ٹوٹل تعداد
تقریبا دو لاکھ بنتی ہے۔ میڈیکل اندازے کے مطابق ایک بالغ فرد کی ایک وقت
کی خوراک پانچ سو گرام پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسطرح تمام شادیوں میں ایک لاکھ
کلو گرام کھانا کھایا گیا، اگر پلیٹوں میں چھوڑے گئے کھانے کی مقدار صرف دس
فیصد تک ہو، تو یہ تقریبا دس ہزار کلوگرام بنتی ہے۔ یعنی یہ کھانا مزید بیس
ہزار افراد کھا سکتے تھے۔ کراچی میں اس وقت شادیوں میں کھانے کا کم از کم
ریٹ چھ سو روپے فی کس ہے۔ ضائع ہونے والے کھانے کا اگر رقم میں ٹوٹل لگایا
جائے، تو یہ ایک کڑوڑ بیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کراچی کی ایک
ماہ میں ہونے والی شادیوں کے اندازاً اعدادوشمار ہیں۔ پورے ملک میں ایک سال
کی شادیوں میں کھانا بربادی کی رقم کئی ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ خوراک یا غذا
کی ناقدری، انسانی رویوں اور عادات میں سے ایک ہے۔ فطرتاً انسان ناشکرا ہے،
پہلے تو رزق کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، رزق مل جائے، تو اس کی قدر
نہیں کرتا۔ عجب بات یہ ہے کہ مہنگائی میں کئی گنا اضافے کے بعد بھی معاشرے
میں خوراک کو صحیح طور پراستعمال کرنے اور ضائع ہونے سے بچانے پر کوئی توجہ
نہیں دے رہا ہے۔ اکثروبیشتر کوڑے کے ڈھیر پر گلے سڑے پھل، ڈبل روٹی، چاول
اور سالن وغیرہ پڑے نظر آتے ہیں۔ ہوٹلز وغیرہ کے باہر رکھے ڈرمز بھی کبھی
خالی نظر نہیں آتے اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ بچی ہوئی
خوراک کو دوبارہ استعمال نہ کرنا، صرف امیروں ہی کا شیوہ نہیں ہے۔ غریب اور
کم آمدنی والے افراد بھی اپنے ذہنی رویوں کے تحت باسی کھانا پسند نہیں
کرتے۔ بچا ہوا کھانا عام طور پر پھینک دیا جاتا ہے یا گھر میں کام کرنے
والی ماسیوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ ماسیاں کھانا لینے میں کوئی پس و پیش
نہیں کرتیں، لیکن گھر پہنچ کر اچھا اور لذیذ کھانا رکھ لیا جاتا ہے اور کم
تر یا ناپسندیدہ کھانا وہ بھی ضائع کر دیتی ہیں۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ
پر، لیکن ہمیں خود بھی خوراک کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت کا احساس ہونا
چاہئے۔ اس کا پہلا سبق پلیٹ میں کھانا نکالنے سے شروع ہوتا ہے۔ پلیٹ میں
اتنا ہی مقدار میں کھانا نکالیں، جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔کم مقدار میں کھانا
نکالیں اور دوسروں کو بھی کھانا نکالنے کا موقع دیجئے، اس خوف سے کہ کھانا
ختم ہو جائے گا، تقریبات میں اپنی پلیٹ بھر لینا مناسب نہیں، جس لقمے پر
رازق نے آپ کا نام لکھ دیا ہے، وہ آپ تک ضرور پہنچے گا۔ بالفرض آپ مناسب
طور پر کھانا نہیں کھا سکے، کھانا ختم ہو گیا اور آپ بھوکے رہ گئے، تو بھی
یہ اطمینان رکھئے کہ آپ سے کھانا ضائع نہیں ہوا اور کسی دوسرے نے کھا لیا،
آپ تو گھر جا کر بھی کھا سکتے ہیں۔ ۔ پاکستان خاص کر کراچی میں جس طرح
شادیوں میں کھانے کی بربادی کی جاتی ہے یہ نہایت شرمناک و افسوسناک صورتحال
ہے۔ ہماری قوم ترقی کی جانب جانے کے بجائے دن بہ دن پستی اور بد حالی کا
شکار ہو رہی ہے۔اس حکومتِ پاکستان کو سخت نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر شادی
میں کھانے پر پابندی عائد کرنی چاہئے اور صرف ون ڈش یا پھر کولڈ ڈرنک کی
اجازت دینی چاہئے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کھانے کی بے حرمتی سے واقف
ہوتے ہوئے اس کی قدر کرنی چاہئے اور جتنا کھانا ہو اتنا ہی لینا چاہئے پھر
شاید ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائیں۔ ناقدری ٴ رزق کے اس
زمانے میں بہ حیثیت مسلمان ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں
کا استحضار رکھیں اور ایک ایک نعمت کی بھرپور قدر کریں۔ یہی کوشش ہونی
چاہیے کہ ہم خود بھی رزق کی ناقدری نہ کریں اور اپنے زیردستوں کو بھی اس سے
بچانے کی فکر کریں،اگر یہ ارادہ کر لیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے توکتنے
غریبوں کی بھوک کا علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ اس وقت اگر
مال ودولت کی فراوانی کے زمانے میں رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش
کریں گے تو خدانخواستہ وقت کے گزرنے کے ساتھ کہیں ہم کنگال، غریب اور مفلس
نہ ہوجائیں!
|