میں خوشبوؤں میں ملوں گا۔ امجد اسلام امجد
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
(یہ مضمون حلقہ احباط ذوق (گلشن معمار) کی ادبی نشست بہ عنوا ن ’دیدہ تر برائے دیدہ ور‘ منعقدہ ۶۲ فروری ۳۲۰۲ء کو پڑھا گیا) |
|
میں خوشبوؤں میں ملوں گا۔ امجد اسلام امجد (یہ مضمون حلقہ احباط ذوق (گلشن معمار) کی ادبی نشست بہ عنوا ن ’دیدہ تر برائے دیدہ ور‘ منعقدہ ۶۲ فروری ۳۲۰۲ء کو پڑھا گیا) ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی فروری 2023ء کے ابتدائی دن اردو ادب کے لیے دکھ اور افسوس لیے ہوئے تھے۔ اردو زبان و ادب کی دو معروف و معتبر، علمی و ادبی شخصیات د نیا چھوڑ ہوگئیں۔ منفرد لب و لہجے کے شاعر، ڈرامہ نگار، گیت نگاار،استاد اورمحبت کرنے والے انسان امجد اسلام امجد 10 فروری کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ ہوگئے، دو دن بعد 13 فروری کو اردو زبان و ادب کے صوتی آہنگ کے ماہر،صداکار،اداکار، ہدایت کار،اینکر اور ایک مصنف ضیا ء محی الدین دار فنا سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے تھے۔اردو زبان و ادب کا قیمتی نقصان ہے جو مدتوں پورا نہ ہوسکے گا۔ اس وقت مجھے امجد اسلام امجد کے بارے میں مختصر اظہار خیال کرنا ہے۔سچ ہے کہ امجد اسلام امجد کے انتقال کی خبر نے دکھی کردیا۔ شاعر اور ادیب تو وہ تھے ہی سب سے بڑھ کر وہ ایک نفیس انسان تھے۔فورہ طور پر جو قطعہ موزوں ہوا وہ کچھ اس طرح سے ہے ؎ محبت کا اک پیغام تھے امجد اسلام امجد شاعروں کی جان تھے امجد اسلام امجد رہیں گے یاد برسو ادب کی دنیا میں وہ ادیبوں کی شان تھے امجد اسلام امجد ایک شاعر اتفاف ابرکَ کا ایک شعر ؎ ینے کے ان کے ساتھ بہانے چلے گئے اٹھ کر گئے وہ یوں کہ زمانے چلے گئے آئیے ہم اردو زبان وادب کی اس ہستی کو خراج تحسین پیش کریں جس نے اپنے عمل سے، اپنے کردار سے،اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو ادب کو وسیع سے وسیع تر کیا۔ ان کی شاعری اور نثر اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہے۔ نام’امجد اسلام‘ اور’امجد‘تخلص کیا کرتے تھے۔انہوں نے پنجاب کے شہر لاہور میں 4اگست1944ء کو جنم لیا۔79 سال بعد لاہور ہی کی سرزمین ان کی ابدی آرام گاہ بنی۔بنیادی طور پر ان کے خاندان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ سیالکوٹ نے زندگی کے ہر شعبہ کی معروف شخصیات کو جنم دیا۔ ان میں فلسفی، شاعر، مصنف، سیاست داں، ناول نگار، قلم کار، اداکار، موسیقار، صحافی شامل ہیں۔ چند قابل ذکر شخصیات میں شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، فیض احمد فیضؔ، ن۔م۔ راشد، اثر صہبائی، عبید اللہ سندھی، سر ظفر علی خان، گلزاری لال نندا (سابق بھارتی وزیر اعظم)، ظفر چوہدری (سابق ائر مارشل)، وحید مراد(اداکار)، عمیرہ احمد،، دیو آنند، خواجہ آصف، مختار مسعود، غلام علی(گلو کار)، جاوید اقبال(جسٹس)، راجندر سنگھ بیدی، فردوس عاشق اعوان،کرکٹر شعیب ملک اور دیگر بے شمار لوگ شامل ہیں۔ امجد اسلام امجدنے جامعہ پنجاب سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایم اے او کالج لاہور میں بطور استاد کے کیا۔ بعد میں وہ مختلف اداروں سے وابستہ رہے جن میں پنجاب کونسل آف آرٹس، ڈائیر یکٹر جنرل سائنس بورڈ، پروجیکٹ ڈائیریکٹر چلڈرن لائبریری کمپلیکس شامل ہیں۔وہ مختلف جامعات کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی اداروں سے بھی وابستہ رہے ساتھ ہی شاعری کاسلسلہ بھی جاری رہا اورڈارامہ نگاری بھی۔امجد اسلام امجد کرکٹ کے بھی شوقین تھے۔ لیکن کرکٹ میں وہ نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ کرکٹ ان کا محبوب مشغلہ تھا، بالکل اسی طرح جیسے فیض احمد فیض ؔ بھی ز ندگی میں کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن نہ بن سکے۔ لگتا ہے کہ سیالکوٹ کی سرزمین میں علم و ادب کے علاوہ کھیل اور فنون لطیفہ کی جانب رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ فٹ بال تیار کرنے میں سیالکوٹ دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ میں سالانہ چالیس ملین فٹبال تیار کیے جاتے ہیں ورلڈ کپ کے دوران ان کی تعداد ساٹھ ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ امجد اسلام امجد نے اپنی شاعری کے حوالہ سے لکھا کہ ”میں تاریخ کے اوراق میں بطور شاعر زندہ رہنا چاہتا ہوں، میری شہرت ڈرامہ نگار سے زیادہوئی، مگر میں ایک شاعر کے طور پر یاد رہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاعری اصل اور خالص ہے، جو میرے اندر سے نمودار ہوتی ہے، مجھے بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ میں شعر کیسے لکھ لیتا ہوں، یہ خود وارد ہوتی ہے، اس میں کوشش کا عمل دخل نہیں ہوتا اور یہی شاعری پھر احساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے کتھارسز کا باعث بھی بنتی ہے“۔امجد اسلام امجد شاعری کے ساتھ ساتھ ڈرامے بھی لکھ رہے تھے لیکن انہیں اتنی شہرت نہیں ملی تھی۔ 1979ء میں ان کے قلم سے ڈرامہ ”وارث“ پاکستان ٹیلی وژن سے پیش ہوا۔ اس ڈرامے نے ایک دھوم مچا دی۔ اس ڈرامے نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ شعر و ادب کے ساتھ ایک معروف ڈرامہ نگار کے طور پرمشہور ہوگئے۔ انہیں شاعری سے عشق تھا وہ ایک شاعر کی حیثیت سے جینا چاہتے تھے۔ انہوں نے چھوٹی عمر سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔انہیں آقا بیدار بخت خان کی تصانیف جن میں اَبر کرم (خلاصہ شعر العجم)، گلزار نسیم، گنجینہ مطالب (دیوان غالب معہ شرح)، نگارستان بیدار (مجموعہ ضامین) اور دیگر علمی و ادبی تصانیف کو پڑھنے اور ان سے فیض حاصل کرنے کا موقعہ میسر آچکا تھا۔ شاعری کے علاوہ، ڈرامے، سفر نامے، کالموں کا مجموعہ اور دیگر تصانیف ان کی علمی وادبی کاوشوں کا عملی ثبوت ہے۔ان کے گیت اور غزلیں معروف گلوکاروں نے گائیں۔ امجد اسلام امجد نے بہت لکھا اور مختلف موضوعات پر لکھا۔ ان کی تصانیف کی تعداد درجنوں میں ہے۔ چند تصانیف میں ’برزخ، عکس، ساتواں در، فشار، ذرا پھر سے کہنا (شعری مجموعہ)، وارث (ڈرامہ)، دہلیز (ڈرامے)، آنکھوں میں تیرے سپنے (گیت)، شہر درشہر(سفر نامہ)، پھر یوں ہوا، یہیں کہیں، بحوالہ پیمانہئ (غزلیں)، گیت ہمارے، میرے بھی ہیں خواب، نئے پرانے، ہم اس کے ہیں، منشا یاد کے بہترین افسانے اور دیگر شامل ہیں۔ان کی تصانیف کی صحیح تعداد تاحال معلوم نہیں ہوسکی، اس حوالے سے مختلف لوگوں نے مختلف تعداد بیان کی ہے۔ یقینا آئندہ کا محقق جب اس ادب کے مینارہ نور پر تحقیق کر ے گو تو ان کی تصانیف، مضامین اور کالموں کی صحیح تعداد اور ان کے نام سامنے آسکیں گے۔ امجد اسلام امجد پر ایک کتاب ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب کردہ ”امجد فہمی“ سامنے آئی۔ امجد صرف شاعر ہی نہ تھے بلکہ بہترین ڈراموں کے خالق اور مختلف سماجی موضوعات پر عمدہ کالموں کے خالق بھی ہیں۔امجد اسلام امجد کی شاعری، گیت نگاری، کالم نگاری، ڈرامہ نگاری اور ان کی شخصیت پر جامعات کی سطح پر تحقیق وقت کی ضرورت اور ادب کے اس مینارہ نور کی خدمات کو قرطاس پر عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی گفتگو کا اختتام امجد اسلام امجد کی اس دعا پر کرتا ہوں جو انہوں اپنے انتقا ل سے 7 دن قبل مدینہ منورہ میں کی تھی یہ دعا ان کے آخری کالم ”مکہ سے مدینہ“ میں موجود ہے۔ یہ کالم 5 فروری کو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا۔ اس دعا سے وہ امجد سامنے آیا جو وسیع اور کشادہ سوچ کا مالک تھا، درگزر کرنے والا اور معاف کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ امجد اسلام امجدنے دعا سے قبل روزہ رسول ﷺ پر اپنی وہ نعت پیش کی جو انہوں نے سب سے پہلے کہی تھی۔ اس کے چند اشعار پیش ہیں ؎ ابر، خورشید، قمر روشنی، پھول، صدا سب تھے موجودمگر ان کا مفہوم نہ تھا مجھ کو بھی دیجئے کبھی میرے ہونے کا پتا یانبی صلے علیٰ یانبی صلے علیٰ امجد اسلام امجد نے اللہ کے حضور دعا کچھ اس طرح مانگی۔لکھا ”دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے لیے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں لیے بھی دعا اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کرسکوں جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل مں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمہارا حق ہے لیکن اگر تم معاف کردو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے“۔ یہ آیت نمبر149 سورہ النساء کی ہے۔امجد اسلام امجد کی یہ دعا کہ جس کسی نے بھی زندگی کے کسی حصہ میں ان کے ساتھ زیادتی کی انہیں معاف کر نے کی خواہش بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اپنے ایسے عزیزوں، دوستوں کو دل سے معاف کردیں جن کے عمل سے ہمیں زندگی میں دکھ پہنچتا رہا ہے۔ آخرمیں اپنی گفتگو کا اختتام امجد اسلام امجد کی ایک نظم کے چند اشعار پر کروں گا ؎ اگر کبھی میری یاد آئے تو چاند راتوں کی نر م دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا اگر وہ نخلِ فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے د ل کا اگرنہ آئے مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے اگر کبھی میری یاد آئے گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا میں اوس کے قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا اگر ستاروں میں، اوس کے قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی ہوئی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جا ن لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ بھی بکھر چکاہوں تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تم کو صدائیں دوں گا سمندروں کے سفر پر نکلو تو اس جزیرے پر بھی اترنا (۶۲ فروری ۳۲۰۲ء)
|