|
|
پاکستانی ڈرامہ اور وہ بھی ایسا، دیکھ کر نہ تو آنکھوں
کو یقین آتا ہے اور نہ دماغ اس کو مانتا ہے ایک ایسا ڈرامہ جس کا ہر کردار
آپ کو کوئی نہ کوئی مثبت پیغام دیتا نظر آتا ہے- ایک ڈرامہ جس کی ہر قسط کے
اختتام پر کسی قسم کی فرسٹریشن اور مایوسی کے بجائے چہرے پر مسکراہٹ اور
اگلی قسط کا انتطار ہوتا ہے- |
|
جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں حالیہ دنوں میں
پیش کیے جانے والے ڈرامے کچھ ان کہی کی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس ڈرامے میں
روائتی کردار موجود نہیں ہیں اس ڈرامے میں بھی ایک ایسی روائتی ماں موجود
ہے جو کہ اپنی تین جوان بیٹیوں کی شادی کے لیے دن رات پریشان رہتی ہے۔ |
|
ایک ایسی بھی روائتی ماں موجود ہے جو اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے اور
اس کی شادی سے قبل بیٹے کے سسرال والوں کو ہر طرح سے نیچا دکھانےکی کوشش کر رہی ہے- |
|
مگر اس سب کے باوجود اس ڈرامے میں کچھ ایسا بھی ہے جو اس کو سب سے مختلف اور تازہ
ہوا کے جھونکے کی طرح بنا رہا ہے- ایسے ہی کچھ واقعات آج ہم آپ کے ساتھ شئير کریں
گے جن کو جان کر آپ بھی ہماری طرح اس ڈرامے کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائيں گے- |
|
|
|
اللہ نے سب کے جوڑے
بنائے ہیں |
ڈرامے کے ہیرو سلمان کی والدہ ایک بہت سلجھی ہوئی خاتون
دکھائی گئی ہیں جو کہ عالیہ کی بہن سامعیہ کی مہندی کی تقریب میں شرکت کرتی
نظر آئيں اور اس موقع پر جب تقریب میں موجود ایک خاتون نے عالیہ یعنی سجل
علی کی چھوٹی بہن کے موٹاپے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شکل تو پیاری ہے
لیکن اگر وزن کم کر لے تو اچھے رشتے مل جائيں- مگر اس موقع پر سلمان کی
والدہ کا یہ کہنا کہ اللہ نے اس دنیا میں سب کے جوڑے بناۓ ہیں جس کو پسند
کرنا ہوگا ایسے ہی کرے گا- |
|
ان کا یہ ڈائیلاگ صرف ایک ڈائیلاگ نہیں بلکہ ان
افراد کے منہ پر ایک طمانچہ بھی تھا جو کسی بھی موٹی لڑکی کی باقی تمام
اچھائياں فراموش کر کے صرف اس وجہ سے رشتہ نہیں کرتے کہ لڑکی کا وزن زيادہ
ہے- |
|
ماں کیا آپ کو
مجھ میں کبھی کوئی اچھائی نظر آئی بھی ہے؟ |
یہ وہ سوال تھا جو اس قسط میں عالیہ کی چھوٹی بہن تانیہ نے اپنی ماں سے پوچھا جو کہ
اپنی بیٹی کے موٹاپے اور ٹیکسلا کے سخت موسم کے سبب سانولے رنگ پر تنقید کر رہی تھی-
ایک روائتی ماں کی طرح اس کا یہی خیال تھا کہ ایک بہن کی شادی کے موقع پر باقی
کنواری بہنوں کے رشتے طے ہو جائيں- مگر وہ تانیہ کے موٹاپے اور سانولی ہوتی رنگت کو
لے کر پریشان تھیں کہ لڑکے والے تو ایسی لڑکیوں کو کبھی پسند نہیں کرتے- مگر اس
موقع پر تانیہ کا یہ کہنا ایک حقیقت کی طرح تھا کہ لڑکی کے موٹاپے اور رنگت کے
علاوہ بھی اس میں خوبیاں ہو سکتی ہیں اور ان خوبیوں کی بنیاد پر ان کے رشتے بھی ہو
سکتے ہیں- |
|
|
|
اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرو |
اس ڈرامے کا ایک اور خوبصورت ترین کردار آغا جان کا ہے جو کہ سامعیہ، عالیہ اور
تانیہ کے والد بزرگوار ہیں اور ان کی بیٹیوں میں ان کی تربیت کا رنگ نظر آتا ہے۔ ان
کی پرانے خیالات کی بیوی ان کی بڑی بیٹی سامعیہ کا رشتہ ایسی جگہ کر رہی ہیں جو کہ
کسی طرح بھی اس کے لائق نہیں ہے مگر وہ سب کچھ جاننے کے باوجود بیٹیوں کے سامنے ان
کی ماں کو برا نہیں کہہ رہے- مگر ان کے لیے یہ برداشت کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی
بیٹی کا رشتہ کسی غلط جگہ ہو جائے یہاں تک کہ اس کی مہندی کے دن بھی وہ اس کو یہی
کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کا فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے خود کرو- آغا جان کا کردار اس
ڈرامے میں ہی نہیں بلکہ حقیقی زندگی کے بھی تمام مردوں کے لیے ایک مثال ہے جو اپنی
محبت اور تربیت کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو خود سے بہت اونچا تعمیر کر رہا ہے- |
|
|
|
ڈرامے معاشرے کی ذہن سازی کا ایک بہت اہم ذریعہ
ہوسکتے ہیں اور ایسے مثبت سوچ اور پیغامات والے ڈرامے معاشرے کی تربیت میں
اہم کردار ادا کر سکتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈيا پر صارفین اس ڈرامے
سے ملنے والے مثبت پیغامات پر بے ساختہ اس ڈرامے پر تعریف کے ڈونگرے برسا
رہے ہیں- |