چین کے "دو اجلاسوں" کے حوالے سے عالمی برادری نے ایک بار
پھر کچھ اہم موضوعات کی جانب اپنی نظریں مرکوز کر لی ہیں جن پر حالیہ دنوں
تبادلہ خیال متوقع ہے۔پہلی بات ،رواں سال کا ورژن خصوصی اہمیت کا حامل ہے ،
کیونکہ 2023 چین کے لئے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20 ویں قومی
کانگریس کے رہنما اصولوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا پہلا سال ہے۔اس سے
بھی اہم بات یہ ہے کہ چین کیسے ایک اچھی شروعات کرے گا اور اپنی ترقی کے
ذریعے دنیا کے لیے نئے مواقع فراہم کرے گا،یہ وہ اہم نکات ہیں جنہیں اس وقت
عالمی توجہ حاصل ہے۔
دوسری جانب، ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت بدستور بڑھتی ہوئی غیر یقینی
صورتحال اور خطرات سے دوچار ہے، چین کی معاشی بحالی عالمی کساد سے نمٹنے کا
مرکز بن گئی ہے۔جشن بہار کی تعطیلات کے دوران ، چین نے ایک تیزی سے بڑھتی
ہوئی گھریلو مارکیٹ اور مختلف شعبوں میں فروغ پاتی ہوئی کھپت کا مشاہدہ
کیا۔عالمی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں نے چین کی ترقی سے وابستہ
توقعات میں اضافہ کیا ہے، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں سرمایہ کاری
میں اضافہ کیا ہے.چینی معیشت کی تیزی سے بحالی نے بھی دنیا کو ایک مثبت
اشارہ دیا ہے ، اور مبصرین کو مضبوط معاشی نقطہ نظر پر اعتماد کرنے کی مزید
وجوہات فراہم کی ہیں۔ملک کی جانب سے کووڈ 19 کے خلاف ردعمل کو بہتر بنانے
کے بعد، اہلکاروں اور مصنوعات کی سرحد پار نقل و حرکت معمول پر آ رہی ہے،
جس سے چین کی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام کے لیے عالمی توقعات میں
مزید نمایاں بہتری آئے گی۔اس دوران ڈیجیٹل معیشت، نئی توانائی اور دیگر
ابھرتی ہوئی صنعتوں کی تیز رفتار ترقی چین کی اقتصادی ترقی کے لئے یکساں
طور پر مزید متحرک کردار ادا کرے گی۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ چین
دنیا کی دوسری سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ اور سامان کا سب سے بڑا تاجر ہے،
بین الاقوامی برادری توقع کرتی ہے کہ چین جہاں اپنی معاشی بحالی کو مزید
مستحکم کرے گا وہاں عالمی اقتصادی بحالی میں اعتماد، استحکام اور توانائی
کا موجب بھی ہو گا۔
یہاں "دو اجلاسوں"کے تناظر میں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ رواں سال
چین کی اصلاحات اور کھلے پن کی 45 ویں سالگرہ ہے۔ چین کیسے دنیا کے لیے
اپنے دروازے مزید کھولتا ہے ، یہ چین کے لیے اور وسیع تر دنیا دونوں کے لیے
بہت معنیٰ رکھتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب معاشی گلوبلائزیشن شدید
دباؤ کا شکار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اصلاحات اور کھلے پن نے چینی معیشت
کو دہائیوں سے بلند شرح ترقی کی راہ پر گامزن رکھا ہے ، جس میں فی کس آمدنی
اور معیار زندگی میں نمایاں بہتری بڑی کامیابیاں ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ
اس سال کے "دو اجلاسوں" کے دوران اس بارے میں بہت غور و خوض کیا جائے گا کہ
کس طرح کھلے پن کو بڑھایا جائے، مارکیٹ اعتماد کو فروغ دیا جائے اور بڑے
مالیاتی خطرات کو کم کیا جائے۔اس تناظر میں چین کی وزارت تجارت نے آف لائن
تجارتی میلوں کو مکمل طور پر بحال کرنے اور چینی کاروباری اداروں کی عالمی
سطح پر مزید رسائی میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی مقامی حکومتوں کے
بہت سے کاروباری وفود نےتجارت اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع کی تلاش میں
دنیا کا سفر کیا ہے اور غیر ملکی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے لئے چین کے
عزم کی توثیق کی ہے۔اس حوالے سے چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو اور کینٹن
فیئر جیسے بین الاقوامی میلوں کے انعقاد سے لے کر ہینان فری ٹریڈ پورٹ جیسے
آزاد تجارتی منصوبوں کو آگے بڑھانے تک اور پھر علاقائی جامع اقتصادی شراکت
داری جیسے کثیر الجہتی میکانزم میں شامل ہونے تک ، چین اپنے دروازے وسیع کر
رہا ہے، بین الاقوامی تعاون کو مزید وسعت دے رہا ہے اور اپنے ترقیاتی فوائد
کو باقی دنیا کے ساتھ بانٹ رہا ہے۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ نئے دور میں چین کے مزید کھلے پن کو بین
الاقوامی برادری نے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا ہے اور اس کی بہترین مثال
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) ہے۔رواں سال بی آر آئی کی 10 ویں
سالگرہ ہے، لہذا دونوں اجلاسوں کے دوران اس دلچسپ موضوع کو بھی اہمیت حاصل
رہے گی کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت شراکت دار ممالک کی مشترکہ
ترقی کو کس طرح فروغ دے گا ۔گزشتہ دہائی کے دوران چین نے 151 ممالک اور 32
بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد
کے اصولوں پر بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔یہ انیشی
ایٹو شراکت دار ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور رابطہ سازی کے فروغ سے
عالمی اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے، امید کی جا
سکتی ہے کہ "دونوں اجلاسوں" میں اعلان کیے جانے والے نئے اقدامات سے متعلقہ
ممالک کے درمیان تعاون کو وسعت دینے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ان تمام
حقائق کی روشنی میں امید کی جا سکتی ہے کہ چین کی یہ اہم ترین سیاسی سرگرمی
نہ صرف چین کو اپنے مقاصد کی جانب آگے بڑھانے میں مدد دے گے بلکہ ایک
منصفانہ اور شفاف عالمی نظام کو برقرار رکھنے میں بھی کردار ادا کرے گی
تاکہ دنیا میں امن اور ترقی لائی جا سکے۔
|