ہجومی تشدد: ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

ہندوستان میں گائے کے نام پر ہجومی تشدد ایک خطرناک سیاسی ہتھیار ہے۔ 2016؍میں اترپردیش کے اندر ریاستی انتخاب جیتنا بی جے پی کے لیے ایک مشکل امر تھا کیونکہ اکھلیش یادو کی سرکار خاصی مقبول تھی۔ اس کے ایک سال قبل محمد اخلاق کو گائے نام پر شہید کردیا گیا اور اگلے سال بی جے پی کے لیے جیت کی راہ ہموار ہوگئی۔ 2018؍ میں راجستھان انتخاب سے ایک سال قبل پہلو خان کو گائے کا اسمگلر بتا کر شہید کرکے انتخاب جیتنے کی کوشش کی گئی اور پھر افرازلاسلام کے قتل کو لوجہاد کا نام دیا گیا مگر بی جے پی ناکام ہوگئی۔ این ڈی اے کو 90 نشستیں گنواکر 73 پر آنا پڑا اور یو پی اے 21 سے 100 پر پہنچ گئی لیکن بی جے پی نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔ اس سال کے اواخر میں راجستھان کا الیکشن ہے اور بدقسمتی سے گائے کے نام پر پھر سے جنید اور ناصر کو شہید کرکے سیاسی ماحول سازگار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ راجستھان کی پولیس نے اس بہیمانہ قتل کیس کے پہلے ملزم رنکو سینی کو گرفتار توکر لیا ہے مگر وہ ایک چھوٹی مچھلی ہے۔ اس معاملے میں جب تک مونو مانیسر جیسے وحشی درندے کو پھانسی کے تختے پر لٹکایا نہیں جاتا اس وقت تک یہ ظلم و جور کا بازار گرم رہے گا اور بے قصور لوگ اپنی جان گنواتے رہیں گے۔

ہریانہ کے بھیوانی میں گئو اسمگلنگ کے شبہ میں بھرت پور(راجستھان) کےدو مسلم نوجوانوں کو کار میں زندہ جلا دیا گیا۔ لوہارو کے ڈی ایس پی جگت سنگھ مورے کے مطابق برواس گاؤں میں ایک جلی ہوئی گاڑی کے پاس جب پولیس پہنچی تو اس کے اندر دو لوگوں کے ڈھانچے پائے گئے۔اس طرح دو مسلم نوجوانوں کو کار میں زندہ جلانے کا معاملہ سامنے آیا ہے اوراب پولیس جانچ کر رہی ہے۔ مہلوک کے چچا زاد بھائی اسماعیل کے مطابق جنید اور ناصر کو بری طرح پیٹنے کے بعد فیروز پور جھڑکا تھانے لایا گیا تھا لیکن انہیں ملزمان کے ساتھ تھانے سے بھگا دیا گیا۔ اسماعیل اور دیگر اہل خانہ مہلوکین کی تلاش کررہے تھے تو سابق سرپنچ دینو نے اطلاع دی کہ فیروز پور جھڑکا تھانے میں دو آدمیوں کو کچھ غنڈے اپنے ساتھ لے کرآئے تھے اس لیے وہ پولیس اسٹیشن جاکر معلومات کریں۔اگلی صبح بھیوانی کے لوہارو میں ایک جلی ہوئی گاڑی کے اندر دو لاشیں برآمد ہوگئیں ۔ اس کے بعد اسماعیل نے اپنی شکایت میں بجرنگ دل سے وابستہ انیل، سریکانت، رنکو سینی، لوکیش سنگلا کے رہائشی مونو مانیسر پر الزامات عائد کئے ۔ قومی راجدھانی دہلی سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر گائے کے نام پر تشدد کےاس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

بھرت پور کے آئی جی گورو سریواستو کے مطابق اہل خانہ نے جن مشتبہ افراد کے نام لیے ہیں ان کا تعلق ہریانہ سے ہےاور انہیں پکڑنے کے لیے خصوصی دستے تشکیل کیے گئے ہیں تاکہ ملزمین کو گرفتار کرکےقتل کا منشا معلوم کیا جاسکے ۔ پولیس نے بتایا کہ ناصر کا توکوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہےمگر جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے پانچ معاملے درج ہیں۔ یہ بات اگر درست ہو تب بھی بجرنگ دل کو ان پر دست درازی کا حق کیسے حاصل ہوگیا ؟ اور ایسے میں پولیس یا عدالت کی کیا ضرورت ؟ ایک چشم دید گواہ کے مطابق صبح 6 بجے کے قریب گوپال گڑھ جنگل کی طرف جارہے دو لوگوں کو 8-10 لوگوں نے بری طرح پیٹا اور اغوا کر لیا ۔ موقع واردات پر موجود لوگوں نے بتایا کہ وہ بجرنگ دل کے لوگ تھے۔ ان مشاہدین ملزمین کی نام بنام شناخت بھی کردی ۔ بھرت پور کے آئی جی گورو سریواستو نے اعتراف کیا کہ پہلی نظرمیں یہ گائے کی اسمگلنگ کے شبہ کی وجہ سے مخصوص تنظیم یعنی بجرنگ دل کا حملہ معلوم ہوتا ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے قتل کی مذمت کی اور ایک ملزم کو حراست میں لینے اور باقی ملزمین کی تلاش کا یقین دلایا۔ انہوں نےراجستھان پولیس کو سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی ۔

اس دوران ایک ویڈیو کلپ میں ایف آئی آرکے اندر گئو رکشکوں کے سربراہ اور نامزد موہت یادو عرف مونو مانیسر نے اس پر لگنے والے الزامات کو بے بنیاد بتایا اور بجرنگ دل کے ملوث ہونے کا بھی انکار کردیا۔ اس نے اس سانحہ کو افسوس ناک قرار دے کرمجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ یہ بیان دراصل اپنی جان بچانے کی کوشش ہے۔ پولیس اگر اس کو گرفتار کرے تھرڈ ڈگری تفتیش کرے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن اسے پتہ ہے ہریانہ کی پولیس اس کے ساتھ ہے اس لیے وہ اسے گرفتار نہیں کرے گی اور اس کا بال بیکا نہیں ہوگا۔ مونو مانیسر پر یہ پہلا الزام نہیں ہے۔ ایک ویڈیو میں وہ معین پرگولی چلاتا ہوا نظر آتا ہے اوروہ اس کا نام بھی لیتا مگر ہریانہ پولیس اسے گرفتار نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ 28 جنوری کو موہت اور دیگر لوگوں کو ہریانہ کے نوح ضلع میں ایک اور پولیس شکایت میں نامزدکیا جا چکا ہے ۔ اس بد بخت نے 22 سالہ وارث کو مویشی اسمگلنگ کے شبہ میں پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ بعد میں اسپتال کے اندر اس کی موت ہوگئی تھی۔پولیس نے اس قتل کو حادثہ بتا کر دبا دیا ۔ ہریانہ کو پولیس اگر اس طرح موہت کو بچانے کے بجائے گرفتار کرکے سزا دلواتی تو اسے مزید دوقتل کرنے کی ترغیب نہیں ملتی۔

مونو اپنے آپ کو گئو رکشک اور سماجی کارکن بتاتا ہے اور 2011 سے بجرنگ دل میں بطور ضلع کوآرڈینیٹر کام کررہا ہے۔وہ گائے کی حفاظت کو اپنا فرض بتاکر گایوں کو بچانے کے لیے انسانوں کو قتل کرتا پھرتا ہے۔ مونو مانیسر اور اس کے ساتھیوں نے کئی پرتشدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کررکھی ہیں لیکن چونکہ انتظامیہ اس پر کارروائی کرنے کے بجائے تحفظ فراہم کرتا ہے اس لیے اس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ ہریانہ حکومت، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد مل کر مونو مانیسر کی حفاظت کر رہے ہیں۔راجستھان کی پولیس تو اسے تلاش کررہی ہے لیکن ہریانہ کی پولیس کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس معاملے میں اسدالدین اویسی نے بی جے پی حکومت پر سخت حملہ کیا اور الزام لگایا کہ کڈنیپرمونو ہریانہ کی بی جے پی حکومت کا چہیتا ہے۔وہ مافیا کی طرح گینگ چلاتا ہےاور اس نے فیس بک پروارث کی موت کولائیو کیا تھا ۔ اویسی نے سوال کیا کہ ملزم کو ہریانہ حکومت گرفتار کیوں نہیں کراتی ؟
میوات کے اس علاقہ میں پچھلے سال سے ماحول بگاڑا جارہا ہے۔گزشتہ جولائی میں مانیسر کے اندر’سمست ہندو سماج‘ کے بینر تلے پنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس پنچایت کے پوسٹر میں ’جہادی طاقتوں‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس تقریب میں تقریباً 200 لوگوں نے حصہ لیااور مقررین نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کااعلان کیا تھا۔موجودہ سانحہ کے بعد وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کا نام سامنے آیا تو اس کے رہنما اپنا پلہ جھاڑ رہے ہیں مگر پچھلے سال نفرت انگیزی کے لیے ان تنظیموں کارکن اور لیڈر دونوں موجود تھے۔ اس وقت بجرنگ دل کے مونو مانیسر سمیت گئو رکشا دل کا دھرمیندر مانیسرو وی ایچ پی کا مقامی جنرل سکریٹری دیویندر سنگھ بھی موجود تھا۔اس پنچایت سے قبل چونکہ سپریم کورٹ نے نوپور شرما کو لوگوں کے جذبات بھڑکانے پر پھٹکار لگائی تھی اور ملک میں پیدا ہونے والے فرقہ وارانہ ماحول کے لیے اسےذمہ دار ٹھہرایا تھا اس لیے جسٹس سوریہ کانت پر تنقید کرکے ان کے مواخذے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ۔

اس پنچایت کی جانے والی نفرت انگیزی کا اندازہ اس اعلان سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں وہاں موجود تمام لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے فون کے بجائے ہتھیار رکھیں کیونکہ فون حفاظت نہیں کرے گامگر ہتھیار انہیں ’جہادیوں‘ سے محفوظ رکھے گا۔پنچایت میں شامل تمام لوگوں کے دستخط سے ڈیوٹی مجسٹریٹ سجن سنگھ کو ایک میمورنڈم دیا گیا تاکہ انتظامیہ باہری لوگوں کو نکالنے کی کارروائی کریں بصورتِ دیگر ایک ہفتے بعد پنچایت دوبارہ بلانے کی دھمکی دی گئی۔پنچایت میں گاؤں کی سطح پر ایک کمیٹی بناکر اس بات کی نگرانی کرنےکی تلقین کی گئی کہ اگرکوئی مسلمان نام بدل کر کاروبار کر ے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ مسلم طبقہ کے دوکانداروں سے سامان یا کوئی سہولت نہیں لینے پر زور دیا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں اگر اس طرح نفرت انگیزی کی اجازت دی جائے اور مقررین کی تقاریر پر کارروائی کرنے بجائے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے تو انہیں ناصر اور جنید جیسے بے قصور لوگوں کا اغواء اور قتل کرنے کی چھوٹ مل جاتی ہے اور خون ناحق بہنے لگتا ہے۔ بی جے پی فی الحال ایک آگ سے کھیل رہی ہے۔ ا سے یاد رکھنا چاہیے کہ ایک حد کے بعد ظلم و جور کے خلاف ردعمل کا ہونے لگتا ہے اور پھر اس پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ حکومت کی بھلائی اسی میں ہے کہ معمولی سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اس نفرت کی آگ بجھائے ورنہ اس کی آگ میں پورا ملک جل کر خاک ہوجائے گا۔ بقول ساحر لدھیانوی ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452564 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.