امتیاز عالم شہیدؒ کی یاد میں
(Ghulam Ullah Kiyani, Islamabad)
مقبوضہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی عسکری
تنظیم اور کشمیری مزاحمت کی علامت حزب المجاہدین کے ایک معروف کمانڈربشیر
احمد پیر المعروف امتیاز عالم کو راولپنڈی میں شہید ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا
ہے لیکن ابھی تک قتل میں ملوث کسی بھی مشکوک شخص کو گرفتار نہیں کیا جا سکا
۔یہ ایسا ہی ہے کہ اسرائیلی موساد کسی فلسطینی جہادی کمانڈر کو کسی عرب ملک
میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے اور کسی کو خبر ہی نہ ہو۔امتیاز عالم کا
تعلق تحریک آزادی کے گیٹ وے مقبوضہ کپواڑہ کے کرالپورہ علاقے سے تھا۔ ان کے
والد اور ایک بھائی کو بھی قابض بھارتی فوجیوں نے شہید کر دیا۔ ان کا مضبوط
جہادی پس منظر تھا۔وہ کسی قسم کے کمپرومائز کا سوچ بھی نہیں سکتے
تھے۔امتیاز عالم راولپنڈی کے ایک معروف علاقے کھنہ پل کے نزدیک برما ٹاؤن
کی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم موٹر سائیکل
سواروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔اگر چہ شہید ایک سوچ و فکر اور نظریہ کا
نام تھے، جنہوں نے زندگی تحریک کیلئے صرف کردی۔ شاہدین کہتے ہیں جب آپ کو
گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے کلمہ پڑھا اور زمین پر گر پڑے۔ قریب ہی
موجود ایک خاتون نے اپنے گھر سے آب زم زم لا کر اُن کو پلانے کی کوشش کی۔
1990ء میں حزبُ المجاہدین کی صفوں میں شمولیت شامل ہونے والے کمانڈراسی سال
ظفر کھنی کپواڑہ میں بھارتی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں شدید زخمی ہوکر
گرفتار ہوئے۔ دو سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوتے ہی میدانِ عمل میں کود
پڑے۔ ڈسٹرکٹ کمانڈر، شمالی کشمیر کے اضلاع کپواڑہ، بانڈی پورہ اور بارہمولہ
میں حزبُ المجاہدین کو منظّم کیا ، ان کے والد سکندر پیر شہیدؒ اور بھائی
نذیر پیر شہیدؒ کو بھارتی فوج نے ان کا انتقام لینے کے لئے شہید کیا۔1999ء
میں بیس کیمپ کی طرف ہجرت کی۔ اُن کی والدہ چار سال قبل ہجرت کے دوران ہی
اِس دُنیا فانی سے رخصت ہو گئیں۔ امتیاز عالم شہیدؒ نے بھارتی قابض سامراج
کیخلاف علمِ جہاد بلند کیا، جدوجہد آزادی کیلئے زندگی کا ہر لمحہ قربان
کیا۔ریاست کے برف پوش پہاڑوں، جنگلوں اور وادیوں میں33 سال سے بھارتی فورسز
کیخلاف جدوجہد کی۔ اُن کے والد اور بھائی کی مظلومانہ شہادت کے بعد قابض
فورسز نے ان کا آبائی مکان بھی خاکستر کیا۔ان کی انتھک جدوجہد کو تاریخ
کشمیر میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔وہ ایک تعلیم یافتہ اوردین دار شخصیت
تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور پانچ بچے شامل ہیں۔
چند برس قبل حریت کانفرنس کے ایک رہنما اور سابق جہادی کمانڈر، ایک مخلص
اور دردمند شخصیت شوکت احمد وانی المعروف راشد وانی ساکنہ کپواڑہ کو بھی
راولپنڈی کے علاقے میں مری روڈ کے نزدیک شام کے وقت موٹر سائیکل سواروں نے
گولی مار دی۔ وہ چند ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد صحت یاب ہوئے اور بعد ازاں
مقبوضہ کشمیر واپس اپنے گھر چلے گئے جہاں وہ وفات پا گئے ہیں۔انہوں نے راقم
کو بتایا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے سر راہ پیدل چلتے ہوئے انہیں ہینڈز
اپ کرایا ، وہ ان کے قریب جانے کے لئے مسلسل چلتے رہے مگر قریب پہنچتے ہی
انہیں گولی مار کر فرار ہو گئے۔گولی ان کے سینے کے بجائے پنڈلی میں لگی۔گو
کہ راولپنڈی میں چند سال سے کراچی کی طرز پر موٹر سائیکل سوار وں کی جرائم
واردات بڑھ رہی ہیں۔ اسے بھی ایسا ہی واقعہ سمجھا گیا۔تا ہم کہتے ہیں کہ
امتیاز عالم کو شناخت معلوم کرنے کے بعد قتل کیا گیا۔ اس لئے اسے ایسے
جرائم کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر سیکورٹی اداروں نے انہیں پیشگی
خبردار کیاتھا کہ تحریک طالبان پاکستان سے ان کی جان کو خطرہ ہے توبات واضح
ہے کہ ٹی ٹی پی، داعش خراساں چیپٹر کو بھارت کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔
ورنہ کوئی کسی کشمیری کی جان کیوں لے گی۔زرائع کہتے ہیں کہ امتیاز عالم کی
کسی سے کوئی زاتی لڑائی بھی نہ تھی نہ ہی کسی کے ساتھ لین دین کا معاملہ
تھا۔
اکتوبر 2022کوبھارتی وزارت داخلہ نے امتیاز عالم کو کالے قانون غیر قانونی
سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت دہشت گرد نامزد کیا تھا۔2020کو اسلام آباد
میں جہاد کونسل کے چیئر مین اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو
بھی بم دھماکے میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ حزب المجاہدین کے لانچنگ
کمانڈر، کمانڈ کونسل کے سرگرم رکن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر ایک واضح
پیغام دیا گیا ہے۔اس سے پہلے لاہور میں جماعت الدعوہ کے سربراہ پروفیسر
حافظ سعیدکو گھر میں گھس کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کے گھر کے قریب
دھماکے میں پانچ افراد شہید ہوئے۔اس کے تمام کردار گرفتارہوئے۔بعض کو سزا
بھی ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کی دہشتگرد ایجنسی راء سے جڑا۔اقوام متحدہ کو
ڈوزیئر بھی دیا گیا۔
امتیاز عالم کے قتل کے مقاصد صاف ہیں۔دشمن اول تو تنظیم کو نقصان پہنچانا
چاہتا ہے۔ دوم وہ مایوسی پھیلا کر پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ سوم ، وہ تحریک کی
صفوں میں کوف و ہراس پیدا کرنا چاہتا ہے۔چہارم، وہ باہمی اختلافات، بددلی،
نفرت اور انتقام کی فضا کی راہ ہموار کرنے کے درپے ہے۔پنجم، مجاہدین اور
پاکستانی اداروں کے درمیان چپقلش، دوری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یعنی بعض لوگ شکوک و شبہات میں تنظیمی قیادت اور بعض ادارے کو اس قتل میں
ملوث قرار دیں گے اور حقائق سے دور ہو جائیں گے۔ اب یہ قانون نافذ کرنے
والے ادروں کو ہی معلوم ہو گا کہ کشمیری مجاہدین کی ٹارگٹ گلنگ میں کون
ملوث ہے۔ راولپنڈی کو سیف سٹی سمجھا جاتا ہے۔قاتلوں نے کوئی نہ کوئی ثبوت
چھوڑا ہو گا جو اس قتل کے اصل محرکات سامنے لانے میں معاون ثابت ہو گا۔اگر
اس قتل میں بھارت براہ راست ملوث ہے تو یہ بھی ایک چیلنج ہو گا کہ بھارت
کیسے ملک کے دارالحکومت کے جڑواں شہر میں آسانی سے کسی کو نشانہ بنانے کا
کامیاب تجربہ کر سکتا ہے اور اس کے مقاصد کو کیسے ناکام کیا جا ئے گا۔
|
|