جی 20سربراہی اجلاس اور بھارتی عزائم
(Ghulam Ullah Kiyani, Islamabad)
جی 20یا گریٹ20دراصل 1999 میں قائم ہونے
والا ایک بین الحکومتی فورم ہے جس میں دنیا کے19 ممالک اور یورپین یونین
شامل ہیں۔اس کے قیام کا مقصد عالمی معیشت سے متعلق اہم مسائل جیسے کہ بین
الاقوامی مالیاتی استحکام، موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور پائیدار ترقی
کو حل کرنا تھا۔ یہ عالمی اقتصادیات اور مالیاتی ایجنڈے کے اہم ترین مسائل
پر بین الاقوامی تعاون کا سب سے بڑا فورم سمجھاجاتاہے۔ G20 کے مقاصد اس کے
اراکین کے درمیان چندپالیسی روابط کو ظاہر کرتے ہیں۔جس میں قابل ذکراول،
عالمی اقتصادی استحکام اور پائیدار ترقی کے حصول ؛ دوم، مالیاتی ضوابط کو
فروغ دینا جو خطرات کو کم کرتے ہیں اور مستقبل کے مالیاتی بحرانوں کو روکتے
ہیں اور سوم، مالیاتی ڈھانچے کو جدید بنانا، ہیں۔ طاقتور G20 ممالک مجموعی
عالمی پیداوار کا 80-90 فیصد، بین الاقوامی تجارت کا 75 فیصد، عالمی آبادی
کا 66 فیصد اور دنیا کے زمینی رقبے کا 60 فیصد ہے۔اگر چہ یہ کوئی مستقل
ادارہ نہیں ہے جس میں ہیڈکوارٹر، دفاتر یا عملہ موجود ہو۔تاہم اس کی قیادت
اپنے اراکین کے درمیان سالانہ بنیادوں پر گھومتی ہے۔ اس کے فیصلے اتفاق
رائے سے ہوتے ہیں اور اس پر عمل درآمد انفرادی ریاستوں کی سیاسی مرضی پر
منحصر ہے۔ اس کی صدارت گزشتہ(انڈونیشیا)، موجودہ(بھارت) اور مستقبل(برازیل)
کی کرسیوں کے تین رکنی انتظامی گروپ کی قیادت کرتی ہے، جسے ٹرائیکا کہا
جاتا ہے۔ مقصد ایک صدارت سے دوسری صدارت تک شفافیت، انصاف پسندی اور تسلسل
کو یقینی بنانا ہے۔G-20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا ایک اہم فورم ہے جو
تمام بڑے بین الاقوامی اقتصادی مسائل پر عالمی طرز تعمیر اور گورننس کی
تشکیل اور مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا تصور ایشیائی مالیاتی
بحران کے بعد کیا گیا ۔ ابتدائی طور پر یہ عالمی اقتصادی اور مالیاتی امور
پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ان ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے
گورنرز کا ایک فورم تھا۔ سال 2008 میں متعلقہ ریاستوں کے سربراہان کی
شمولیت کے ساتھ اس کا درجہ بلند کیا گیا ۔اس کی ابتدائی توجہ میکرو اکنامک
ایشوز پر مرکوز رہی لیکن بعد میں ایجنڈوں میں تجارت، زراعت، موسمیاتی
تبدیلی، صحت، توانائی، ماحولیات، انسداد بدعنوانی وغیرہ جیسے بہت سے
معاملات شامل ہو گئے۔ 2023 کے لئے ہندوستان اس کے گردشی صدر کے طور پر گروپ
کے امورکا سربراہ بن کر اپنی صدارت سے ناجائز سفارتی فوائد حاصل کر رہا ہے۔
جی 20کانئی دہلی میں 9 ستمبر سے 10 ستمبر 2023 تک سالانہ سربراہی اجلاس ہو
گا۔ اس سے پہلے بھارت کے بہت سے شہروں کو میٹنگوں کی میزبانی کے لیے منتخب
کیا گیا جو کہ سال بھر میں منعقد ہوں گی۔بھارت کے مختلف شہروں میں سرینگر
کو بھی شامل کیا گیا جہاں یہ اجلاس ہوں گے۔ مگر سرینگر میں جی20کے کسی
اجلاس کا مقاصد سیاسی ہیں۔ سرینگر کوئی بھارتی شہر نہیں بلکہ ایک عالمی طور
پر متنازعہ قرار دیئے گئے خطے کا شہر ہے۔ جس پر بھارت نے جبری فوجی قبضہ کر
رکھا ہے اور اس ناجائز قبضے کو مضبوط کر رہا ہے۔بھارت کشمیر میں جی20اجلاس
سے مختصر مدت کے ساتھ ساتھ طویل مدتی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے
یکم دسمبر 2022 سے 30 نومبر 2023 تک G-20 کی صدارت سنبھالی ہے۔ جس کا موضوع
''عالمی یوتھ لیڈرشپ اور شراکت داری پر توجہ''تھا۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرنے والا بھارت غرور اور گھمنڈ میں آکر
جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک کو پہلے ہی اپنے خطرنا ک عزائم
اوربالادستی و چودھراہٹ کا شکار بنا چکا ہے۔مئی 2023 کو کشمیر میں اب وہ
جی20کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتاہے۔وہ کشمیر میں G-20 سربراہی
اجلاس سے مقامی معیشت کو فروغ دینے کی آڑ میں دنیا بھر کے مندوبین اور
سرمایہ کاروں کو گمراہ کر کے ان کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔وہ مزید میگا
اور بین الاقوامی ایونٹس کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور مقامی معیشت کو بحال
کرنے کے نام پر کشمیری عوام پر اپنے فوجی مظالم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔
مودی حکومت کا خطے میں معمول کی غلط تصویر دکھانے کے حکومت کے ارادوں کا
واضح اشارہ ہے۔کشمیر میں حالات معمول سے بہت دور ہیں۔ کشمیر ایک غیر معمولی
لاک ڈاؤن اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کی زد میں ہے۔ ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو
بھارتی حکام نے غیر قانونی طور پر حراست میں لے رکھا ہے اور تشدد کا نشانہ
بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر کو ایک پرامن اور خوشحال خطہ کے طور پر ظاہر کرنے
کی کوششیں وادی میں بھارتی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی
خلاف ورزیوں اور مظالم سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی ایک چال کے سوا
کچھ نہیں۔ جی 20 سربراہی اجلاس کشمیری عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ کر دے
گا اور متنازع علاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو بھی جائز قرار دے گا۔
عالمی برادری بھارت کو اس کے جنگی جرائم بند کرنے اور کشمیریوں کے خلاف
ریاستی دہشتگردی ا قدامات کا جوابدہ ٹھہرائے اور دیرینہ تنازعہ کشمیر کے
پرامن حل کا مطالبہ کرے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر انسانی حقوق کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں کا گڑھ
بنا ہوا ہے۔ بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو ماورائے عدالت
قتل، تشدد اور من مانی حراستوں کا سامنا ہے۔ ان کے گھر تباہ کئے جا رہے
ہیں۔ ان کی جائیدادوں کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ عوامی اجتماع پر پابندی، بڑے
پیمانے پر قید و بند، پریس اور آزادی اظہار پر قدغنیں، بھارتی فوج کے ذریعے
غیر قانونی زمینوں پر قبضے اور آبادیاتی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ معصوم
شہریوں اور آزادی پسندوں کا قتل سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔ 2022 میں ریاستی
تشدد کے مختلف واقعات میں کم از کم 312 ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سے 181 آزادی
پسند، 45 عام شہریوں کے ماورائے عدالت قتل اور 86 ہندوستانی مسلح افواج کے
اہلکار تھے۔ ہندوستانی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے کم از کم 199 محاصروں
اور تباہی کے کوڈن اینڈ سرچ آپریشنز (CASOs) اور کورڈن اینڈ ڈسٹرائے
آپریشنز (CADOs) کئے۔ 212 شہری املاک کو تباہ کیا گیا۔ 15 جنوری 2022 کو
سرینگر میں کشمیر پریس کلب کو قابض فوجی حمایت سے زبردستی قبضے میں لے لیا
گیا۔ بہت سے صحافیوں اور مقامی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ایڈیٹرز کی من مانی اور
غیر قانونی گرفتاریوں سے آزادی صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ مزقابض حکام نے
جنوری سے دسمبر 2022 تک انٹرنیٹ کو 164 مرتبہ بلاک کرتے ہوئے معلومات تک
رسائی کے حق کو سختی سے چھین لیا گیا۔
بھارت جی20اجلاس کے دوران حفاظتی انتظامات کے بہانے سے ریاستی دہشتگردی میں
اضافے کے لئے مزید فوج متنازع ریاست میں داخل کر رہا ہے۔کالے قوانین کے تحت
فوجی اختیارات لا محدود کئے گئے ہیں۔کوئیی بھی اہلکارکسی شہری کو قتل
کرسکتا ہے یا اسے بغیر وجہ گرفتار اور قید کر سکتا ہے۔بھارت نے اپنی
پرائیویٹ ملیشیا کو بھی متحرک کرتے ہوئے اسے مسلح کرنے کا سلسلہ تیز کیا
ہے۔دیہات میں ویلج ڈیفنس کمیٹیا ں بحال کر دی گئی ہیں۔ جوبھارتی قابض فوج
کو مقامی آبادی کو خانہ جنگی کا شکار بنانے کے لئے کام کر رہی ہیں۔
مزیدسپیشل پولیس افسران بھرتی کئے جا رہے ہیں جو ریاستی دہشتگردی میں قابض
فورسز کے معاون ہیں۔یہ اہلکار عصمت دری اور قتل میں ملوث ہیں۔ان کے خلاف
سیکڑوں فوجداری مقدمات درج کیے گئے ہیں۔جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے
باوجودقابض فورسز اور ان کے ایجنٹوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں۔انہیں قتل
کرنے کا لائسنس استثنیٰ دیا جاتا ہے۔
غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ
PSAجیسے سخت کالے قوانین کے تحت سیکڑوں کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر قید
کیا گیا ہے۔ نظربندوں کو کشمیر سے باہرہندوستان کی جیلوں میں منتقل کیا گیا
ہے جہاں وہ انتہائی غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان
نظربندوں کو بنیادی طور پر کشمیری مسلمان ہونے اور بھارتی قبضے سے آزادی کے
نظریہ پر چلنے کی وجہ سے طبی امداد اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم رکھا
گیا ۔ نظربندوں کو نہ صرف جیل حکام کی طرف سے بلکہ غیر کشمیری ہندو قیدیوں
کی طرف سے بھی بلاجواز ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کئی کشمیری رہنما بھارتی
جیلوں کے اندر قتل کر دیئے گئے۔ بھارتی حکام نے من مانی طور پر پابندیاں
لگا رکھی ہیں جس سے خطے میں زندگی اور کاروبار متاثر ہو رہے ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان نورپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام (ﷺ) کے بارے میں
توہین آمیز ریمارکس کے خلاف جون 2022 میں سری نگر، کشتواڑ اور بھدرواہ سمیت
کئی اضلاع میں کشمیری مسلمانوں کے احتجاج کے بعدا نٹرنیٹ خدمات بند کر دی
۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقامی آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کر
دیا گیا۔ بھارتی حکومت کا کشمیر میں ترقی کی آڑ میں 28000 کروڑ کی سرمایہ
کاری کا منصوبہ ان کی نو سامراجی اور نو سرمایہ دارانہ منطق کی واضح مثال
ہے۔ بھارتی حکومت خطے کی ترقی کی آڑ میں کشمیری زمین اور وسائل بشمول
انسانی وسائل پر قبضہ کررہی ہے۔60لاکھ سے زیادہ غیر کشمیری ہندو آبادی کو
کشمیر لا کر بسادیا گیا۔انہیں شہریت دی گئی اور کشمیری مسلمانوں کے وسائل
ان کو دیئے جا رہے ہیں۔ نام نہاد ترقیاتی منصوبے کشمیری عوام کا مزید
استحصال کرنے کی پردہ پوشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
ہندوستان G20 سربراہی اجلاس/سیشن اپنے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و
کشمیر علاقہ میں منعقد کرنا چاہتا ہے جسے مقبوضہ علاقے کے طور پر تسلیم کیا
جاتا ہے۔ اس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے پر اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل کی قراردادیں قابل اطلاق ہیں جن پر بھارت نے عمل کرنے سے
انکار کر دیا ہے۔کشمیر بھارتی گمراہ کن کوششوں کے باوجودایک بار پھر عالمی
توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ہندوستان بڑی چالاکی سے ایک تیر سے کئی شکار کرنے
کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی فاشسٹ، ہندوتوا کی پیروکار بی
جے پی حکومت اپنے دور صدارت کے دوران مخصوص جغرافیائی اورملکی سیاسی مقاصد
کے حصول کے لیے G20 کا استحصال کرنے پراتر آئی ہے۔وہ جی 20کو بدنام کرنا
چاہتی ہے۔
بھارت یک طرفہ طور پر اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعدپنی
ریاستی دہشتگردی اور کشمیری عوام کے حقوق پامال کرتے ہوئے سرینگر میں جی
20اجلاس کے انعقاد سے اپنے غیر قانونی اور ظالمانہ اقدامات پر بین الاقوامی
مہر لگاکر انہیں جائز قرار دینا چاہتا ہے۔ وہ کشمیر کو ہندوستانی یونین کے
اٹوٹ انگ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔یہ یو این سلامتی کونسل کی متعلقہ
قراردادوں، بین الاقوامی کنونشنز اور دو طرفہ معاہدوں کی براہ راست خلاف
ورزی ہوگی۔ اس کے بین الاقوامی، علاقائی اور دو طرفہ طور پر منفی اثرات ہوں
گے جو دنیا کی تین اہم ترین فوجی، جوہری اور میزائل قوتوں کے درمیاں تنازعہ
کو ہوا دے سکتا ہے۔کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ کے طور پر تسلیم کیا جاتا
ہے۔بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور پنجاب میں آزادی کی تحریکیں اور بھارت
مخالف،قابض قوتوں کے خلاف جذبات ہیں۔ سکھ ازم کے پیروکار بھی پنجاب پر
بھارت کے قبضے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ بھارت سے آزاد حاصل کرنا
چاہتے ہیں مگر بھارت نے آپریشن بلیو سٹار کے دوران سکھ تحریک کو طاقت سے
کچل دیا۔ گولڈن ٹمپل کو تباہ کیا گیا۔ جی 20 سفارتی غلطی سے محتاط نہ ہوئی
تو بھارت اس کی آڑ میں ملک میں اقلیتوں کا قتل عام تیز کر سکتا ہے۔ کشمیری
عوام سمجھتے ہیں کہ جی20ظالم کے بجائے مظلوم عوام کا ساتھ دے۔بھارت کی
شیطانی، جابرانہ، نسل کشی کی پالیسیوں کوساتھ نہ دے۔ انسانی حقوق ،شہری اور
سماجی آزادیوں کی حمایت کرے۔ G20 صدارت کے دوران غیر منصفانہ جغرافیائی
سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی چالوں سے خبردار کیا جائے۔وہ
بھارتی جال میں پھنسنے کے سنگین اثرات کا ادراک کرے۔ اس کی ساکھ، غیر
جانبداری، انصاف پسندی اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی پاسداری کو
بھارتی عزائم سے نئے چیلنج درپیش ہیں۔ جی20 کے رکن ممالک بھارت کی دانستہ
جیو پولیٹیکل اور جیوسٹریٹیجک دلدل میں قدم نہ رکھیں۔ہندوستان کثیر
الائنمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین کے ساتھ 125 ارب ڈالر کی دوطرفہ
تجارت اور روس کے ساتھ اس کے کئی دہائیوں پرانے خصوصی، کثیر جہتی تعلقات کے
باوجود وہ امریکہ کا اعلان کردہ سٹریٹجک پارٹنر ہے۔بھارت خرگوش کے ساتھ
بھاگنے اور شکاری کے ساتھ شکار کرنے کی چانکیائی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے
ہے۔ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستانی ریاستہ دہشتگردی کو نظر
انداز کر رہا ہے۔دنیا کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو قانونی حیثیت
دینے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کی بھارتی سازش کا نوٹس
لے۔پاکستان ایک فعال و متحرک سفارتی آگاہی مہم شروع کرے جو اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں، بین الاقوامی کنونشنز، دو طرفہ معاہدوں،
انسانی حقوق، شہری وسماجی آزادیوں اور کشمیری مسلمانوں کی آزادیوں وغیرہ کی
روشنی میں دنیا کو حقائق سے آگاہ کرے۔ اسلام آباد اپنے برادر اور دوست
ممالک کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرے۔ دنیا کواس معاملے پر اپنی حساسیت سے
آگاہ کیا جائے۔
|
|