آج سے ٹھیک ایک ماہ قبل یعنی 30 دن پہلے
ہنڈن برگ کی رپورٹ شائع ہوئی۔ اس وقت اڈانی دنیا کے امیر ترین لوگوں کی
فہرست میں 3 نمبر پر تھے ۔ آج وہ فوربس کی فہرست کے مطابق 33 ویں مقام پر
پہنچ چکے ہیں۔ مودی جی ان کی ڈوبتی ناو کو بچانے کے لیے ہاتھ پاوں مار رہے
ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ پچھلے قومی انتخاب میں 300 سیٹیں جیتنے والے وزیر
اعظم اڈانی کے چکر میں 100 پر پہنچ جائیں گے۔ اڈانی اور مودی کے دشمنوں میں
ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ ہنڈن برگ سے شروع ہوکر جارج سورس سے ہوتا
ہوا سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کو گوتم اڈانی نے
ہندوستان کی معیشت پر حملہ قرار دیا تھا اور جارج سوروس کے تبصرے کوا سمرتی
ایرانی ہندوستانی جمہوریت پر حملہ قرار دے رہی ہیں لیکن عدالتِ عظمیٰ کا
کیا جائے؟ اب تو وہ بھی دشمنوں کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔ ایرانی اور اڈانی
سے مودی قربت جگ ظاہر ہے۔ جس طرح دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اسی طرح دوست
کا دشمن دشمن بھی ہوتا ہے۔ یہی منطق ایرانی کو اڈانی اور مودی کا دفاع کرنے
پر مجبور کررہی ہے۔
ا سمرتی ایرانی اگر ایک بار یہ پڑھ لیتیں کہ جارج سوروس نے کیا کہا تو شاید
ان کی مخالفت کا لب و لہجہ مختلف ہوتا لیکن فی الحال بی جے پی والوں نے
پڑھنے لکھنے کا کام چھوڑ رکھا ہے۔ اب تو وہ صرف پڑھ کر سنانے کو کافی
سمجھتے ہیں ۔ ویسے چونکہ ان کی سننے والے بھی پڑھنے لکھنے کی زحمت نہیں
کرتے اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا بات بگڑنے کے بجائے بنی رہتی ہے۔ وطن عزیز
میں یہ خیال عام ہے کہ مودی سے لے کرا سمرتی تک ہر کوئی بی جے پی کی آئی
ٹی سیل کے ذریعہ عطا کردہ بیانات کو نشر کرنے کا کام کرتے ہیں اس لیے سیل
کے لوگ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہونگے لیکن اب تو وہ غلط فہمی بھی دور
ہوگئی۔ میڈیا کی ایک خفیہ تحقیق نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایک اسرائیلی فرم
نے ہیکنگ، تخریب کاری اور غلط معلومات پھیلا کر اپنے گاہکوں کے لیے دنیا
بھر میں 30 سے زائد انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ویسے اگر کسی
کے پاس اڈانی جیسے بچولیے کے ذریعہ سرکاری خزانے کی بے شمار دولت آجائے تو
وہ خود محنت کرنے کے بجائے اس کا ٹھیکہ کسی اور دے کر عیش کیوں نہ کرے؟
خبروں کی دنیا کے ایک عالمی ٹھیکیدار کوتحقیقاتی صحافیوں نے ’ٹیم جارج‘ کا
نام دے رکھا ہے ۔ اس ادارے کا سربراہ اسرائیل کی خصوصی فوج میں کام کرنے
والاطل حنان ہے۔ وہ مبینہ طور پر ٹیلی گرام اکاؤنٹس اور ہزاروں جعلی سوشل
میڈیا پروفائلز کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں
ماہر ہے۔ اس ٹھیکیدار کی مدد سے بی جے پی آئی ٹی سیل مودی سرکار کو مضبوط
کرنے کی عظیم قومی خدمت انجام دیتا ہے۔ دنیا بھرکے معروف ترین 30 میڈیا
اداروں صحافیوں پر مشتمل ایک تنظیم نے انکشاف کیا کہ ٹیم جارج کا طریقہ
کاراور تکنیک انتخابات سے متعلق غلط معلومات کے فروغ میں ملوث عالمی نجی
مارکیٹ میں دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔50 سالہ طل
حنان نے 3 خفیہ رپورٹرز کو بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں، سیاسی مہم اور
نجی کمپنیوں کے لیے اس کی خدمات دستیاب ہیں۔طل حنان کے مطابق اس نے صدارتی
سطح کی 33 مہمات پر کام کیا ہے، جن میں سے 27 کامیاب رہیں۔ان مہمات میں سے
لگ بھگ 2 تہائی کا تعلق افریقہ سے ہے ۔ اس انکشاف میں کسی ملک کا نام تو
نہیں لیا گیا لیکن بقیہ ایک تہائی میں ہندوستان کی موجودگی یقینی ہےکیونکہ
چوبیس گھنٹے انتخاب میں غرق رہنے والی بی جے پی کیسے پیچھے رہ سکتی ہے؟
اسرائیل کی بدنام زمانہ پیگاسس سے مودی سرکار کے تعلقات پہلے ہیمنظرِ عام
پرآچکے ہیں۔ یہ ادارہ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے آن لائن مہم کے
ذریعہ مبینہ طور پر فیس بک، ٹوئٹر یا لنکڈ اِن پر تقریباً 40 ہزار سوشل
میڈیا پروفائلز کو کنٹرول کرتا ہے۔ انتخابات اور رائے عامہ پر اثر انداز
ہونے کی کوشش کرنے والوں پر مغربی دنیا میں پابندی ہے مگر ہندوستان میں تو
ان کا خیر مقدم لازم ہے۔ ٹرمپ اگربدنام زمانہ برطانوی مشاورتی ادارے
’کیمبرج اینالیٹیکا‘ کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹرز کی رائے کو
اپنی جانب موڑنے کے لیے استعما ل کرسکتے ہیں تو ان کو نمستے کرنے والے مودی
کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟پیگاسس اور ٹیم جارج کے طل حنان جیسے دوستوں کے
درمیان جارج سوروس نامی امریکی ارب پتی سرمایہ کار نے ہنود اور یہود کے
مقدس رشتے کو داغدار کر دیا اس لیے اسمرتی ایرانی کو میدانِ کارزار میں
اترنا پڑا۔
جارج سوروس نے میونخ سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گوتم اڈانی کے
تجارتی سامراج میں اتھل پتھل سے ہندوستانی شیئر بازاروں میں حصص فروخت کرنے
کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے
والوں کا اعتماد متزلزل ہونے کا اعتراف تو کیا مگر اس ہلچل سے ملک میں
جمہوریت کی بحالی کے روشن امکانات کا مژدہ سنا دیا۔ ایسے میں جارج سوروس پر
جمہوریت پر حملے کا الزام لگا دینے سے بڑی حماقت کا تصور محال ہے۔ سوروس کا
بیان اگر اڈانی تک محدود ہوتا تب بھی اس کا ردعمل تو ہوتا مگر اتنا شدید
نہیں ہوتا لیکن انہوں اس معاملے میں مودی کولپیٹتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’مودی
اس پورے معاملے پر خاموش ہیں لیکن انہیں جواب دینا ہوگا، خاص طور پر غیر
ملکی سرمایہ کاروں کے سوالات پر اور انہیں پارلیمنٹ میں بولنا پڑے گا۔‘‘
سوروس نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ معاملہ یقینی طور پر حکومت ہند پر مودی کی
گرفت کو بڑے پیمانے پر کمزور کر دے گا اور ادارہ جاتی اصلاحات کا راستہ
کھولے گا، جو طویل عرصے سے محسوس کیے جا رہے تھے۔ میں اس معاملے میں ایک نو
سکھیا ہو سکتا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ہندوستان میں جمہوریت کے دوبارہ
قیام کا باعث بنے گا۔‘‘ اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کے بانی اور دنیا بھر میں
جمہوریت، شفافیت اور آزادی اظہار رائے کو فروغ دینے کی خاطر مالی امداد
فراہم کرنے والے مخیر سرمایہ دار کی ملک کے حوالے سے یہ پیشنگوئی قابلِ
تحسین ہے۔ مودی سرکار کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے سوروس نے دعویٰ کیا
کہ ، ’ہندوستان کا دلچسپ معاملہ ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے، لیکن اس کےوزیراعظم
نریندر مودی جمہوری نہیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی کھلے اوربند
سماج دونوں کے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ ہندوستان ایک طرف ( امریکہ ،فرانس
اور آسٹریلیا کی تنظیم) کواڈ کا رکن ہے اس کے باوجود یہ بھاری چھوٹ پر بہت
سارا روسی تیل خریدکرپیسہ بچاتا ہے۔ سوروس کے بیان کردہ ان حقائق کا انکار
ناممکن ہے۔ جارج سوروس نے پہلی بار ہندوستان کے معاملے میں لب کشائی نہیں
کی بلکہ ڈیووس میں 2020 کی عالمی اقتصادی کانفرنس کے اندر بھی انہوں نے کہا
تھا کہ ہندوستان میں جس شدو مد سے قوم پرستی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے وہ
کھلے معاشرے کا 'سب سے بڑا دشمن' ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کے
لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔
ماضی کی یہ تنقید نہایت سخت تھی لیکن چونکہ اس وقت مودی سرکار بہت مضبوط
تھی اس لیے اسے نظر انداز کردیا گیا۔ اب چونکہ مودی جی کی حالت پتلی ہے اس
لیے دفاع کی ضرورت پیش آگئی اورفوت شدہ فرد کے نام پر لائسنس لے کر بیٹی
کے ذریعہ غیر قانونی شراب خانہ چلانے والی ا سمرتی ایرانی کو کہنا پڑا کہ
یہ ایک غیر ملکی سازش ہے۔اس میں وزیر اعظم مودی کو بدنام کرنے کی کوشش کی
جا رہی ہےاور امریکی ارب پتی جارج سوروس سیاسی جماعتوں کومدد کرکے ہندوستان
میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اسمرتی
ایرانی کا یہ مطالبہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ’ سبھی کو ایک آواز میں سوروس کے
تبصرہ کی مذمت کرنی چاہئے‘۔ یہ عجب منطق ہے کہ اڈانی کے چندے میں تو بی جے
پی کے علاوہ کوئی حصہ دار نہ ہو لیکن اس کا دفاع کرنے کے لیے سبھی متحد
ہوجائیں ۔ ایسا تو کہیں نہیں ہوتا ۔ دنیا کہ اصول ہے جو کرتا ہے وہی بھرتا
ہے۔ اسمرتی ایرانی نےجاراج سوروس کو جس جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرہ بتایا اس
کو تو مودی سرکار پہلے ہی مسمار کرچکی ہے۔ ملک کے اندرتقریباً سارے قومی
چینلس کو خریدا جاچکا ہے اور اب بی بی سی جیسے ادارے کو ڈرانے کی سعی کی
جارہی ہے یعنی کل تک 'اسٹارٹ اپ انڈیا' کی بات ہوتی تھی مگر اب اسے 'شٹ اپ
انڈیا' میں بدل دیا گیا ہے۔
ایرانی اور اڈانی کے بیان میں کمال مشابہت ہے۔ اڈانی گروپ نے بھی ہنڈن برگ
ریسرچ کی رپورٹ کو ہندستان پر حملہ قرار دیاتھا ۔ اس احمقانہ دفاع کے جواب
میں ہنڈن برگ نے کہا تھا کہ قومیت کا سہارا لے کر اڈانی گروپ نہ اُس کے
الزامات کو کُند کرسکتااور نہ حقائق کو چھپاسکتا ہے ۔ یہ نہایت شرم کی بات
ہے کہ ہنڈن برگ کو یہ یاد دلانا پڑا کہ اڈانی گروپ کے چیئرمین کا اپنی دولت
کو ہندستان کی ترقی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ اڈانی گروپ نے توقوم کو لوٹ کر
ہندستان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ یہی بات سیبی کے سابق سربراہ
اوپندرا کمار سنہا نے بھی کہی کہ اڈانی پر ہنڈن برگ کی رپورٹ ہندوستان پر
حملہ نہیں ہے۔ ہنڈن برگ نے کسی خاص ملک کی مخصوص کمپنی کے خلاف یہ پہلی
رپورٹ نہیں لکھی۔ انہوں نے سیبی کے ذریعہ دونوں کی تفتیش کا مطالبہ کیا تو
کیا اب سنہا کو بھی سازش کاحصہ مان کران کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج
ہوگا؟ ایسا لگتا ہے اڈانی کی دوستی مودی جی کو ساری دنیا کا دشمن بنادے گی
لیکن سپریم کورٹ کے رویہ پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے؟
|