کمپیوٹر اور سمارٹ فون کی مدد سے جو بھی
جرائم ہوتے ہیں سائبر کرائم کہلاتے ہیں۔ان جرائم کا سدبابٖFIA کی ذمہ داری
ہے۔FIA میں باقاعدہ ایک سائبر کرائم ونگ ہے جو ایسی شکایات سننے، موصول
کرنے اور ان پر فوری کاروائی کرنے کا پابند ہے ۔ اس ونگ کے پاس سائبر کرائم
سے متعلقہ کیسوں کی تعداد اس وقت لاکھوں میں ہے۔ان کیسوں میں کوئی پیش رفت
نظر نہیں آتی۔روز کوئی نہ کوئی سادہ آدمی کچھ کریمینرز کے ہتھے چڑھ جاتا
ہے۔وہ اس کی بھاری رقم ہتھیا لیتے ہیں۔بمشکل دس میں سے ایک واقعہ FIA کو
رپورٹ ہوتا ہے اس کے باوجود رپورٹس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔FIA کو کوئی
پوچھنے والا نہیں کہ کسی کی داد رسی کی یا نہیں۔FIA والے بھی کیا کریں ،ایک
توان کا عملہ عوام کی شکایات کی نسبت بہت کم ہے ۔دوسرانہیں سیاسی معاملات
سے فرصت ملے تو عام آدمی کا سوچیں۔عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عام
آدمی لٹ سکتا ہے۔ اپنے لٹنے پر رو سکتا ہے ،کڑھ سکتا ہے ۔ مگر لٹی ہوئی
دولت کو واپس حاصل نہیں کر سکتا۔FIA کے اہلکار سیاسی لوگوں سے اپنے تعلقات
بڑھانے اور نبھانے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ بیچاروں کو عوام کے بارے
سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
پچھلے سال میری بہن کو فون آیا کہ تمہارے فلاں عزیز کو ہم نے فلاں جرم میں
پکڑ لیا ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ آپ سے بات کر لیں، آپ اس کی مدد کریں تو وہ
جیل جانے سے بچ سکتا ہے۔پھر انہوں نے ایک روتے ہوئے لڑکے سے بات کرائی کہ
مجھے انہوں نے زبردستی پکڑ لیا ہے، میرا قصور بھی نہیں اور اب مجھے حوالات
بھیج رہے ہیں۔ یہ جو کہتے ہیں ان کی بات مان لیں اور مجھے بچا لیں۔وہ گھبرا
گئی روتے ہوئے شخص کی آواز سمجھ کم آئی مگر پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا سچ
کر پریشان زیادہ ہوئی او ر جھٹ ان کے بتائے ہوئے فون نمبر پر ان کی بتائی
ہوئی رقم بھیج دی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو فراڈ ہو گیا ہے۔ میںFIA کے
دفتر رپورٹ کرانے خود گیا، گلبرگ میں سائبر کرائم والوں کو کیس درج کرایا۔
جن فون نمبروں سے فراڈ کیا گیا تھا ان سے متعلقہ تمام افراد کاپتہ لگا کر
ان بندوں کی ساری تفصیلات خود FIA والوں کو مہیا کیں کہ ان کا کام آسان ہو
جائے۔ مگر اس کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا ۔لگتا ہے کہ یا تو FIA والے کام
چور اور نا اہل ہیں یا پھر مجرموں سے مک مکا کر لیتے ہیں۔ ورنہ کیسے ممکن
ہے کہ یہ کاروبار اس قدر پھلے پھولے اور اسے کوئی پوچھے بھی نہ۔ویسے میں نے
جس دوست سے بھی بات کی، نا اہلی والی بات کوئی نہیں مانتا، مک مکا پر سبھی
متفق ہیں کہ اب یہ رسم دنیا بھی ہے اورآجکل اس ملک کا دستور بھی ہے۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے میں گھر میں بیٹھا تھا کہ فون آیا کہ آپ کے علی نام
کے کوئی عزیز ہیں۔ میں نے ہاں کہا کہ ایک نہیں دو علی میرے عزیز ہیں۔ کہنے
لگے کہ ہم نے علی کو گرفتار کیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ کیس درج کرنے سے
پہلے آپ سے رابطہ کر لیں ۔اگر آپ کچھ مدد کر دیں تو وہ بدنامی سے بچ جائیں
گے۔علی میرے ایک بھانجے کا نام ہے۔ بہت با اثر اور مشہور سیاسی کارکن ہے
اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر کا صاحبزادہ بھی
ہے۔دوسرا علی میری ہمشیرہ کا داماد ہے۔ انتہائی نفیس اور بھلا آدمی۔ سیاسی
نظر بندی ہو تو ہو، ویسے پولیس میں ان کے اچھے تعلقات ہیں، ویسے بھی معقول
اور اچھے شہری ہیں اور کسی کرائم کا ان کی زندگی سے گزر بھی نہیں۔ مجھے
فوراً پتہ چل گیا کہ یہ وہی فرڈیا گینگ ہے میں جن کے نشانے پر ہوں۔ میں نے
اس دن دل کھول کر ان کی کلاس لی۔ گالیاں بھی دیں، برا بھلا بھی بہت کہا۔ بے
غیرت فون بند کرکے بھاگ گئے۔
دو دن پہلے میں گھر پر بیٹھا تھا۔ میرا بڑا بیٹا میرے پاس سے اٹھ کر اپنے
دفتر چل د یا کہ وہ ایکسپورٹ کا کا م کرتا ہے۔میرا چھوٹا بیٹا مرکز میں
ڈپٹی سیکرٹری ہے اور وہ بھی صبح صبح اسلام آباد واپس گیا تھا۔ میں نے چند
لمحے پہلے اس سے خیریت معلوم کی تھی کہ پہنچ گئے ہو۔اس وقت ایک فون آیا۔
میرا نام پوچھا کہ بول رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ بول رہا ہوں۔ جواب ملا کہ ہم
تھانہ صدر کے اہلکار ہیں اور ہم نے چار آدمی پکڑے ہیں انہوں نے بیس لاکھ کی
ڈکیتی کی ہے۔ ان چاروں میں آپ کا بیٹا بھی شامل ہے۔ آپ کے بیٹے نے کہا ہے
کہ مجھے حوالات میں بند کرنے سے پہلے میرے ابو سے بات کرلیں۔وہ مجھے بچا
لیں گے۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ فراڈیے ہیں اور مجھ سے فراڈ کے ساتھ لمبی
رقم لینا چاہتے تھے۔ میرے دو چار باتیں بلکہ گالیاں سننے کے بعد فون پر بات
کرنے والے کو احساس ہو گیا کہ غلط جگہ پر پھنس گیا ہے جہاں اس کا کام بن
نہیں سکتا۔ مزید محنت فضول ہے ۔چنانچہ اس نے اپنا فون نمبر 0335 6722406
بند کر دیا۔ میں نے اسے دوبارہ کئی بار فون کیافون بجتا رہا مگر اس نے
اٹھایا نہیں یا کاٹ دیتا رہا ۔
آج ایسے فراڈ روز مرہ کا معمول ہیں اور ایسے تمام فراڈز میں کسی نہ کسی طرح
موبائل کمپنیاں بھی ملوث ہوتی ہیں جو جعلی شناختی کارڈوں پر موبائل سمیں
جاری کر دیتی ہیں۔نوے فیصد فراڈوں میں یہی سمیں کام آتی ہیں جن کے اصل
مالکوں کا سراغ کبھی بھی نہیں ملتا۔ بنکوں کی طرح کام کرتے ہوئے یہ فون
کمپنیاں جہاں عوامی خدمت بھی انجام دیتی ہیں وہاں ان کا بے ترتیب نظام بہت
سی خرابیوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ فراڈ کی ساری ادائیگیاں انہی کے حوالے سے
انہی کے اکاؤنٹس سے ہوتی ہیں۔جعلی سمیں ہونے کے سبب ملزم بھی بہت کم ٹریس
ہوتے ہیں مگران فون کمپنیوں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ان کمپنیوں کی بادشاہی کا
یہ عالم ہے کہ میں نے چار پانچ ماہ پہلے ایک ضرورت مند کو جاز کیش کے ذریعے
چار ہزار روپے بھیجے۔ موبائل کا گیارہ ہندسہ نمبر بڑا نمایاں لکھا ہوا تھا۔
جانے کیوں انہوں نے یہ پیسے حبیب بنک کو بھیج دئیے۔ حبیب بنک میں ایسا کوئی
اکاؤنٹ نمبر نہیں مگر پیسے ان کے پاس ہیں۔ کوشش کے باوجود نہ وہ مجھے واپس
ملے ہیں،نہ ہی اس ضرورت مند کو۔ جاز کی طرف سے پہلے تو بہت سی خو د کار ای
میل موصول ہوئیں کہ آپ کا مسئلہ حل ہو رہا ہے مگر اب مکمل خاموشی ہے۔ اصل
میں جہاں مکمل کمپیوٹر نظام ہوتا ہے وہاں حوصلہ بھی کمپیوٹر ہی دیتا ہے اور
کمپیوٹر کے حوصلے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔شاید جاز کا کمپیوٹر حوصلہ ہار
چکا ہے۔سٹیٹ بنک اصل میں ایسی چیزوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ملک کی موجودہ
معیشت بتا رہی ہے کہ سٹیٹ بنک کتنا فعال ہے اصل میں اسکا خود پر کوئی
کنٹرول نہیں ، وہ اپنے سے متعلقہ دیگر چیزوں پر کیسے کنٹرول پا سکتا ہے۔
|