کمپیوٹر کے جملہ برے اثرات میں نوجوانوں کا جنسی بے
راہ روی کا شکار ہو جانا اور دوسری جنسی خرابیاں بھی شامل ہیں۔ جنسی
مواد تصاویر اور ویڈیو کی شکل میں بہ آسانی دستیاب ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر
مختلف اہداف کو حاصل کرنے کے لیے آزاد جنسی لٹریچر کا استعمال کیا جاتا
ہے جس کی وجہ سے اخلاقی حدود عبور ہو جاتی ہیں جو مہذب تہذیبوں کے حامل
ممالک خاص طور پر اسلامی ثقافت کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ انٹرنیٹ
کی وجہ سے جنسی جرائم کو تقویت مل رہی ہے جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔
اس سلسلہ میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اندرون ملک
و بیرون ملک اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کیلئے تمام آرپی اوز، سی پی اوز
اور ڈی پی اوز کو مقدمات کے مدعیوں کے ساتھ کوارڈی نیشن سے بھرپور
اقدامات کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے پولیس افسران
اور شہریوں کے نام جاری اپنے خصوصی پیغام میں کہاکہ جو ملزمان سنگین
جرائم کا ارتکاب کرکے بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں ان مفرور اشتہاری
ملزمان کی گرفتاری کیلئے پنجاب پولیس، انٹر پول اور ایف آئی اے پر
مشتمل لائزون ونگ قائم کردیا گیا ہے، اگر کسی بھی شہری کے مقدمے کا
کوئی بھی اشتہاری ملزم بیرون ملک مقیم ہے تو وہ فوری پولیس سے رابطہ
کرکے مطلع کرے تاکہ اسکی گرفتاری کیلئے عملی اقدامات شروع کئے جا سکیں۔
آئی جی پنجاب نے آر پی اوز، ڈی پی اوز کو ہدایت کی کہ تمام اضلاع میں
اشتہار ی ملزمان کی گرفتاری کیلئے موثر حکمت عملی کے تحت سخت کریک ڈاؤن
شروع کیا جائے اور اس حوالے سے ہفتہ وار رپورٹس باقاعدگی سے سنٹرل
پولیس آفس بھجوائیں۔ انہوں نے کہاکہ سنگین جرائم میں ملوث مفرور
اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کیلئے ڈی پی اوز کریک ڈاؤن کی خود نگرانی
کریں تاکہ انہیں جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی
سزائیں دلوائی جاسکیں۔ آئی جی پنجاب نے ہدایت کی کہ ہر نوعیت کے
اشتہاری ملزمان کی جلد گرفتاری کیلئے بلا تفریق کاروائیاں کی جائیں تا
کہ ظلم و زیادتی کے شکار مدعیوں کو انصاف کی فوری فراہمی اور عوام میں
احساس تحفظ کی فضاء کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی سہولیات نے انسان کی روز مرہ زندگی میں
پیش آنے والے مسائل سے نپٹنے کے لیے بہت حد تک ساتھ دیا ہے اور دے رہی
ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوگاہے کہ یہ متنوع جدید اختراعات
ہماری زندگی میں اس قدر سرشت ہوئیں ہیں کہ ان کے سہارے کے بنا انسانی
زندگی نامکمل دکھائی دینے لگتی ہے۔ موجودہ دور کا شائد ہی کوئی کام
ایسا ہو جس میں جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی کار فرمائی نہ ہو۔ کچھ
ہی وقت کے لیے اگر انٹرنیٹ کسی کارن ٹھپ ہو جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ
انسانی زندگی کی کوئی معنویت ہی نہیں ہے۔ سرکاری دفاتروں اور کمپنیوں
کو چھوڑ کر ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا معاشرہ خصوصاً نوجوان طبقہ انٹرنیٹ
پر زیادہ اور کھانے پینے پر کم انحصار کرتا ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں
انٹرنیٹ کے مثبت سہولیات سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچا ہے وہیں دوسری
طرف نقصان بھی بھگتنا پڑتاہے۔انٹرنیٹ کے نقصانات کی انتہایہ ہے کہ اس
نے مجرموں تک کو پیدا کیا ہے،جنہیں ہم سائبر مجرم کہتے ہیں۔ایسے مجرم
انٹرنیٹ کے ذریعے سے جرائم کو انجام دیتے ہیں جسے سائبر جرائم کہتے ہیں۔
سائبر جرم ایک ایسا جرم ہے جس میں کسی مقصد کے تحت کسی فرد یا افراد کو
جدید ٹیلی کمیو نیکیشن نیٹ ورکس مثلاً: انٹرنیٹ، چیٹ رومز، ای میلز اور
موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے ایم۔ایم۔ایس یا ایس۔ایم۔ایس کے
ذریعے سے اْن کی ساکھ یا عزت کو خطرہ پہنچانے کے لیے یا جسمانی یا ذہنی
اذیت دینے کے لیے یا کسی بھی نوع کا نقصان پہنچانے کی غرض سے بالواسطہ
یا بلا واسطہ طور پر انجام دیا جائے۔سائبر جرائم میں جو جرائم شامل ہیں
اْن میں کریڈیٹ کارڈ کی دھوکہ دہی، بنک ڈکیتی، غیر قانونی ڈاؤن لوڈنگ،
صنعتی جاسوسی، بچوں کی فحش نگاری،وائرس سپیم تخلیق یا تقسیم کرنا، چیٹ
رومز کے ذریعے بچوں کا اغوا ہونا جیسے جرائم شامل ہیں جو کہ انٹرنیٹ کی
مدد سے انجام دیئے جاتے ہیں۔
جہاں ایک طرف انٹرنیٹ کا ارتقاہوا ہے وہیں دوسری طرف سائبر جرائم کا
بھی انقلاب برپا ہوا ہے،جس کے ذریعے سے سائبر مجرم جرائم کو بڑی آسانی
سے انجام دیتے ہیں۔آج کل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور
فرد فرد تک انٹرنیٹ کی رسائی ہو رہی ہے اور نئے نئے صارفین نے انٹرنیٹ
کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبر جرائم
میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ جرائم دن بہ دن
بڑھتے ہی جارہے ہیں۔جن میں کچھ تو بے نقاب ہوتے ہیں اور کچھ مصروف عمل
ہیں۔
مغربی ممالک میں انٹرنیٹ جرائم نہایت ہی پیچیدہ مسئلہ بن چکے ہیں جس کی
وجہ سے مغربی دانشمندوں نے عوام کو ان مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے
لاتعداد مقالات، تحاریر، کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔اگرچہ انٹرنیٹ کے
فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
کے مفید اثرات سے تو مستفید ہوا جائے مگر اس کے برے اثرات سے جس قدر
بھی ممکن ہو اپنی نوجوان نسل کو محفوظ رکھا جائے۔اس لیے میڈیا کے ذریعے
لوگوں میں آگاہی، طالب علموں کی تربیت کرنی ضروری ہے۔ انٹرنیٹ جرائم کی
روک تھام کے لیے مناسب قوانین اور سائبر پولیس کا قیام بھی بیحد ضروری
ہو گیا ہے۔ ایسے اقدامات سے ہم اپنے معاشرے کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے
برے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
|