انٹرویو نگار۔ شہزاد چودھری
محمد اسلم لودھی 25دسمبر 1954ء کو قصور شہر میں پیدا ہوئے ۔ جہاں ان کے
والد( محمد دلشاد خاں لودھی )بھارت کے شہر فرید کوٹ سے ہجرت کرکے آباد ہوئے
تھے ۔بعد ازاں انہیں پاکستان ریلوے میں کانٹے والا کی حیثیت سے ملازمت مل
گئی ۔مختلف اسٹیشنوں پر تعیناتی کے بعد 1960ء میں پتوکی کے نواحی قصباتی
شہر "واں رادھا رام"جن کا نیا نام( حبیب آباد ہے) پوسٹنگ ہو گئی ۔یہی وہ
مقام ہے جہاں سے لودھی صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور ٹاٹوں
والے سکول میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔1964ء
کے آخری مہینوں میں لودھی صاحب کے والد صاحب نے اپنا تبادلہ شنٹگ پورٹر کی
حیثیت سے لاہور چھاؤنی کروا لیا۔ اس تبادلے کامحرک بچوں کے لیے حصول تعلیم
میں آسانیاں پیدا کرنا تھا۔واں رادھا رام میں صرف گورنمنٹ پرائمری سکول تو
تھا لیکن مڈل اور میٹرک کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھائیوں کو پتوکی یا
رینالہ خورد جاناپڑتاتھا۔یہ وہ وقت تھا جب شام ڈھلتے ہی بسیں بند
ہوجایاکرتی تھیں ۔مجبورا ٹرین کا سہارا لینا پڑتااور ٹرین کے آنے اور واپس
جانے کا کوئی شیڈول نہیں تھا۔اسلم لودھی نے چھٹی سے میٹرک تک تعلیم گلبرگ
ہائی سکول لاہور کینٹ میں حاصل کی۔ایف اے اور بی اے کا امتحان پرائیویٹ
امیدوارکی حیثیت سے پاس کرکے1975ء کوپنجاب لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے
"تعلیم بالغاں "میں اردو سٹینو ٹائپسٹ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ کچھ
عرصہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں ملازمت کی ۔بعد ا زاں
مئی1979 میں پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ کے دفتر میں بطور اردو سٹینو گرافر
بھرتی ہوگئے ۔یہا ں پندرہ سال ملازمت کرنے کے بعد آپ 8نومبر1994ء میں بنک
آف پنجاب کے ہیڈآفس میں ساتویں سکیل میں ملازم ہوگئے ۔یہاں بطور میڈیا
کوارڈنیٹر اورکنٹنٹ رائٹرکی حیثیت سے بیس سال ملازمت کرکے 3دسمبر 2014ء کو
ریٹائر ہوگئے۔
ادبی و تخلیقی خدمات
آپ نے 35کے لگ بھگ کتابیں لکھی اور تالیف کیں ۔ ان میں کارگل کے ہیرو ،
ماں، لمحوں کا سفر، نورکائنات، تخلیق کائنات،افواج پاکستان ، تاریخ کے
آئینے میں ،پاک فضائیہ تاریخ کے آئینے میں ،شہدائے وطن ، وطن کے پاسبان ،
رشتے محبتوں کے ،محبت، عدلیہ کی آزادی حقیقت یا خواب ،فلسطین کب آزاد
ہوگا؟،اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟،پاکستان کے گلوکار /گلوکارائیں،گلدستہ
اولیاء،پاکستان میں قیامت کی پہلی دستک ، نورالہی کے پروانے ،درد کے
آنسو،قومی ہیرے ،پاکستان کے سربراہان مملکت ، سامراجی سازشیں اور مشرقی
تیمور، اب کس کی باری ہے؟،معصوم افغانوں کا خون کس کے سر؟،مسلمانوں پر
امریکی یلغار،کوسوو کا المیہ ،کارگل سے واپسی کیوں؟،نشان حیدر،شہادتوں کا
سفر،قومی ہیروحصہ اول ، قومی ہیروحصہ دوم ، سامراجی سازشیں اور غیرت ایمانی
کی آزمائش ،صدام ہیرو یا زیرو، دنیا کی اٹھویں طاقت ایران شامل ہیں۔
غیرمطبوعہ کتب
انمول ہیرے ، ہیرے اور نگینے ،صدارتی ریفرنس کا عدالتی سفر،وفاؤں کا حصار،
کوزے میں سمندر، سچے موتی ، عظیم لوگ، بیشک انسان خسارے میں ہے ، پہلے
صدارت پھر پاکستان ،لمحہ لمحہ زندگی ،زندگی اک سفر ہے ،قلم کی نوک پر،مٹی
کی خوشبو،نایاب چہرے، سنہرے لوگ ، روشن چہرے،عکس جہاں،دھنک ، دستک
،ذوالفقار علی بھٹوکا عہد ستم، اسلام کا عظیم سپہ سالار جنرل محمد ضیاء
الحق، مشرقی پاکستان کے رستے زخم ،پاک فوج کے عظیم جنگی کارنامے ، سفرنامہ
حجاز مقدس،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو،بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے،کالموں
کی دنیا۔عمران خان کے دور حکومت پر 39 کتابیں مرتب کرنے اور میاں شہباز
شریف کے دور حکومت پر 13کتابیں مرتب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔
سرکاری محکمانہ سطح پر پذیرائی
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی جانب سے محمد اسلم لودھی کی گیارہ
کتابوں کو کالجز اور پبلک لائبریریوں کے لئے منظور کیا گیا ۔ ان کتابوں میں
کارگل کے ہیرو، شہادتوں کا سفر، وطن کے پاسبان ، افغانستان اور عراق کے بعد
اب کس کی باری ہے ؟، لمحوں کا سفر، شہدائے وطن، کسووو کا المیہ ،درد کے
آنسو، قومی ہیرو ، مسلمانوں پر امریکی یلغار، پاک فضائیہ تاریخ کے آئینے
میں ۔شامل ہیں ۔
اسی طرح گیارہ کتابیں محکمہہائرایجوکیشن اینڈ لائبریری ڈیپارٹمنٹ صوبہ سرحد
( کے پی کے) بذریعہ لیٹر نمبر So(TRG)HE/22/2001 بتاریخ 28-9-2005 اپنے
ماتحت کالجز کے لیے منظور کیں ۔ان میں سامراجی سازشیں اور مشرقی تیمور،
لمحوں کا سفر، معصوم افغانوں کا سفر کس کے سر ،پاک فضائیہ تاریخ کے آئینے
میں ، شہدائے وطن ، نشان حیدر، قومی ہیرو، کارگل سے واپسی کیوں؟ کارگل کے
ہیرو ، پاکستان کے سربراہان مملکت ، وطن کے پاسبان شامل ہیں۔
آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر مظفرآبا د نے بھی اپنے لیٹر نمبر 37بتاریخ
28-07-04 کے ذریعے محمد اسلم لودھی کی گیارہ کتابیں ڈگری کالجز لائبریریز
کے لیے منظور کیں ۔ شہادتوں کا سفر، ، لمحوں کا سفر، شہدائے وطن، کسووو کا
المیہ ،قومی ہیرو ،پاک فضائیہ تاریخ کے آئینے میں، مشرقی تیمور،مسلمانوں پر
امریکی یلغار،نورالہی کے پروانے،ماں اور تخلیق کائنات ۔شامل ہیں ۔
صحافتی خدمات
آپ نے جمیل اطہر صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ جرات
لاہور سے کالم لکھنے کا آغاز 1995ء میں کیا ۔اسی عرصے کے دوران آپ کے کالم
پشاور سے شائع ہونے والے اخبار "آج" میں بھی شائع ہوتے رہے ۔یہاں کالموں کی
روزانہ اشاعت کا سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ 2000ء سے 2007ء روزنامہ دن ،
روزنامہ خبریں لاہور اور روزنامہ پاکستان میں باقاعدگی سے کالم شائع ہوتے
رہے ۔ان کالموں کی تعداد دو ہزارہوگی ۔2008ء سے آپ نے نوائے وقت کے باضابطہ
کالم نگار کی حیثیت سے ہفتہ وار کالم لکھنے کا آغاز کردیا جو 3 جنوری 2023ء
کو اختتام پذیر ہوا ۔10 جنوری 2023ء سے آپ روزنامہ پاکستان میں باضابطہ
ہفتہ وار کالم لکھ رہے ہیں ۔
ایوارڈ یافتہ کالم
آپ کا ایک کالم جس کا عنوان تھا "وہ پیپل کا درخت نہیں تھا" ۔ وہ جناب مجیب
الرحمان شامی کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ پاکستان لاہور میں
شائع ہوا تھا۔ اس کالم کو ٹیٹراپیک گرین میڈیا ایوارڈ2007 (بچاس ہزار
روپے)کے اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا ۔ شیرٹن ہوٹل کراچی میں منعقدہ
تقریب میں کالم نگار محمد اسلم لودھی کو ایورڈ اور پچاس ہزار کے چیک سے
نوازا گیا۔
نشان حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے حوالے سے
ڈرامائی تشکیل دینے والی کہانیاں لکھنے کا فریضہ آئی ایس پی آر کی جانب سے
کرنل محمد عارف کے دستخط شدہ لیٹر نمبر 5150/106/Prod بتاریخ 18دسمبر 2009ء
محمداسلم لودھی کو سونپا گیا ۔ جو انہوں نے مقررہ تاریخ سے پہلے انجام دے
دیا۔
ایک مرتبہ حکومت پاکستان کے نشریاتی ادارے پاکستان انفارمیشن ڈیپارنمنٹ اور
دوسری بار حکومت پنجاب کے ادارے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کی جانب سے
تمغہ حسن کارکردگی سے نوازنے کے لیے سفارش بھجوائی گئی لیکن کیبنٹ ڈویژن سے
بات آگے نہ بڑھ سکی۔
**************
اب اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے ممتاز کالم نگار اور ادیب محمد اسلم لودھی
سے ان کی ذاتی ، نجی، خاندانی، ادبی اور علمی خدمات کے حوالے سے گفتگوکا
آغاز کرتے ہیں -:
سوال آپ نے عملی زندگی کا آغاز کب اور کیسے کیا ؟
اسلم لودھی ۔عمر کا بڑا حصہ تو میں کرکٹ کھیلنے میں ہی ضائع کیا لیکن جب
کھیل کے میدان میں توانائیاں کم ہونے لگیں تو ذہن نے لکھنے اور پڑھنے کی
جانب رغبت اختیار کرلی ۔ اس سے پہلے میں اخبار بھی بہت کم پڑھتا تھا ۔ اس
کی وجہ یہ تھی کہ میٹرک کے بعد والدین نے ملازمت کے لیے مجبور کردیا ۔ یہ
1970ء کا زمانہ تھا ۔اس وقت غریب خاندانوں کی اولاد میٹرک کے بعد ہی ملازمت
کرنا اپنی ذمہ داری تصور کرتی تھی ۔ایک دن والد صاحب سے ایک حجام کی ملاقات
ہوئی، جو اپنی بغل میں صدوقچی اٹھائے لاہور چھاؤنی کے ریلوے کوارٹروں میں
آیا کرتا تھا ، والد صاحب نے اس سے کہا خیر سے میرے بیٹے نے میٹرک کا
امتحان پاس کرلیا ۔ ذرا دیکھنا اگراسے کہیں نوکری مل جائے ۔ اس حجام نے
وعدہ کرلیا بلکہ چند دن بعد ہی وہ یہ پیغام لے کر گھر پہنچ گیا کہ اسلم کو
میرے ساتھ بھیج دیں ۔ میاں میر کالونی میں ایک گھر میں آلوؤں کی چپش بنائی
جاتی ہے اس کا مالک بھی مجھ سے شیو اور حجامت کرواتا ہے۔اس سے میں نے آپ کے
بیٹے کی نوکری کی بات تھی تو اس نے مجھے کہا کل تم اسے اپنے ساتھ لے آنا
۔والد صاحب نے مجھے خوشخبری سناتے ہوئے کہا بیٹا کل انکل حجام کے ساتھ چلے
جانا وہ تمہیں چپس بنانے والی فیکٹری میں نوکر کروا دے گا ۔دوسرے دن جب میں
وہاں پہنچا تو مجھے یہ سن کر دکھ ہو ا کہ میری نوکری سے پہلے ہی چپس بنانے
والی فیکٹری بندہوگئی ہے ۔ جب میں یہ خبرلے کر اپنے گھر واپس آیا تو دونوں
بڑے بھائیوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کردیابلکہ بھائی اکرم نے تو یہ بھی
کہہ دیا کہ تم منحوس ہو ۔ تمہارے جاتے ہی فیکٹری بند ہو گئی ۔اس لمحے مجھے
سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا ۔
کچھ دن تلخ اورترش گفتگو کے بعد ایک دن بڑے بھائی رمضان نے والدہ کو بتایا
کہ گڑھی شاہو چوک میں اون لپیٹنے والی ایک فیکٹر ی ہے وہاں اڑھائی روپے
دہاڑی پر ایک لڑکے کی ضرورت ہے ۔جب یہ بات والد صاحب تک پہنچی تو انہوں نے
فورا رضامند ی کا اظہار کردیا ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ نوکری بھی رات آٹھ
نو بجے شروع ہو کر اگلی صبح آٹھ بجے تک ختم ہو تی تھی ۔اس وقت قدم قدم پر
ویگنیں اور بسیں نہیں چلا کرتی تھیں، جیسے آجکل چل رہی ہیں ۔ وہاں جانے کا
ایک ہی ذریعہ تھا کہ لاہور چھاؤنی سے شام سات بجے والی ٹرین پر سوار ہو ا
جائے ۔ چونکہ اس زمانے میں ہر آنے والی ہر ٹرین ریلوے سٹیڈیم کے قریب آؤٹر
سنگنل پر کچھ دیر رک کر پھر لاہور اسٹیشن کی جانب روانہ ہوتی تھی ۔ پہلے دن
تو مجھے بھائی رمضان اپنے ساتھ لے کر گڑھی شاہو چھوڑ آئے لیکن مجھے اندھیرے
سے بہت ڈر لگتا تھا ۔مجھے یاد نہیں کہ دوسری رات میں ڈیوٹی پر کیسے پہنچا
لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ جب تیسری شام ہوئی اورلاہور جانے والی
ٹرین لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن پرآ پہنچی تو بھائی رمضان نے مجھے کہا تم
ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیا ر نہیں ہوئے ۔ ٹرین کسی بھی وقت ہارن بچا کر چل
سکتی ہے ۔ میں تو پہلے ہی بہت پریشان تھا ، بھائی کی بات نے مجھے اور بھی
خوفزدہ کردیا ۔میں انکار کرتے ہوئے اپنی والدہ کی بگل میں جا کے چھپ گیا
۔والدہ نے وجہ پوچھی تو میں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھے رات کے
اندھیرے میں بہت ڈرلگتا ہے ۔دوسرا اون کی فیکٹری میں باضابطہ باتھ روم نہیں
تھا ۔عمارت کے آخری حصے میں ( جو ویران پڑا تھا) وہاں جا کر رفع حاجت کرنی
پڑتی تھی ۔ فیکٹری میں کام کرنے والے لڑکوں نے بتایا کہ اس غیرآباد جگہ پر
چڑیلوں کا قبضہ ہے اور وہ کسی بھی وقت وہاں رفع حاجت کرنے والوں کو نقصان
پہنچا سکتی ہیں ۔ میں پہلے ہی ڈرا ہوا تھا۔ اس بات نے میرے خوف میں اور
اضافہ کردیا ۔ میں نے یہ ساری بات والدہ کے گوش گزار کردی ۔تو والدہ بھی
میرے بارے میں فکرمند ہو گئی اور انہوں نے مجھے کہہ دیا کہ تم گھر میں رہو۔
ہمیں اڑھائی روپے کے عوض رات والی نوکری نہیں کرنی ۔ ہم پیٹ پر پتھر باندھ
لیں گے لیکن اپنے بیٹے کو خوفزدہ نہیں ہونے دینگے ۔ والدہ کی یہ بات سننے
کے بعد بھائی رمضان نے والد صاحب سے شکایت کے لہجے میں کہا ۔ بہت مشکل سے
نوکری ملی تھی ، وہ بھی اب ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ والد صاحب نے مجھ سے
پوچھا تو میں نے کہہ دیا ۔ابا جان میں اپنی ماں اور باپ کا سایہ ہوں میں نے
جتنی بھی زندگی گزاری ہے آپ دونوں کے ساتھ ہی گزاری ہے ۔ اب رات کے وقت
جبکہ ہر طرف اندھیرے کا راج ہو ،میں گھر سے باہر نہیں جا سکتا مجھے ڈر لگتا
ہے ۔ کچھ والدہ نے سفارش کی تو میری جان اون والی فیکٹری میں جانے سے جان
چھوٹ گئی ۔ پھر کتنے ہی چکر مجھے دو دن کی مزدوری لینے کے لیے گڑھی شاہو کے
لگانے پڑے ۔ تب جا کر مجھے پانچ روپے ملے جو میں نے اپنی والدہ کو لاکر دے
دیئے ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے خاندان میں غربت کا یہ عالم تھا کہ
خالی جیب ہی سائیکل پر کہیں آنا جانا ہوتا۔ اگر سائیکل پنکچر ہو جاتا تو
جیب خالی کی وجہ سے باقی سفر پیدل ہی طے کرکے گھر پہنچنا پڑتا ۔
(جاری ہے) |